Tag: زمین

  • دنیا اپنا وقت تبدیل کررہی ہے

    دنیا اپنا وقت تبدیل کررہی ہے

    اردو کا ایک مشہور شعر ہے:

    صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
    عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

    دن بھر ایک جیسی روٹین کے کام کرتے ہوئے، صبح شام کے چکر میں شاید کچھ لوگوں کو لگتا ہو کہ دن بہت چھوٹے ہوگئے ہیں اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے، یا یوں کہیں کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چل رہا۔

    اور یہ خیال صرف آپ کا ہی نہیں، مشہور بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان نے بھی کچھ روز قبل دن اور رات کے گھٹنے بڑھنے کا شکوہ کر ڈالا۔

    لیکن آپ کو یہ جان کر جھٹکا لگے گا کہ دن چھوٹے نہیں ہو رہے، بلکہ درحقیقت بڑے ہو رہے ہیں، یعنی ان کے دورانیے میں اضافہ ہورہا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کے دن کے دورانیے یا وقت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ اضافہ اس قدر معمولی ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 33 لاکھ سال میں صرف ایک منٹ کا اضافہ ہوتا ہے۔

    برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ پچھلے 27 سال میں ہمارے دن میں 1.8 ملی سیکنڈز کا اضافہ ہوا۔ رائل گرین وچ آبزرویٹری سے منسلک ایک ہیئت دان کے مطابق یہ ایک نہایت سست رفتار عمل ہے جو لاکھوں سال بعد واضح ہوتا ہے۔

    earth-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فرق اس لیے رونما ہوتا ہے کیونکہ زمین کی گردش کا سبب بننے والے جغرافیائی عوامل اس قدر طویل عرصے تک اتنی درستگی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ کسی نہ کسی وجہ سے ان میں فرق آجاتا ہے جو نہایت معمولی ہوتا ہے۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی گردش میں جن وجوہات کے باعث تبدیلی آتی ہے ان میں چاند کے زمین پر اثرات، برفانی دور کے بعد آنے والی تبدیلیاں، زمین کی تہہ میں موجود دھاتوں کی حرکت اور ان کا زمین کی سطح سے ٹکراؤ، اور سطح سمندر میں اضافہ یا کمی شامل ہیں۔

    اس سے قبل بھی اسی بارے میں ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں دن کے دورانیے میں چند ملی سیکنڈز کا فرق دیکھا گیا تھا۔ ماہرین نے اس کی وجہ چاند کی زمین کے گرد گردش کو قرار دیا تھا جو سمندر میں جوار بھاٹے کا سبب بنتی ہے۔

    earth-3

    حالیہ تحقیق میں ماہرین نے زمین کی کشش ثقل، زمین کی سورج کے گرد گردش، چاند کی زمین کے گرد گردش، اور اس دوران پیش آنے والے چاند اور سورج گرہنوں کا مطالعہ کیا۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے قدیم چینی، یونانی، عربی اور قرون وسطیٰ کے یورپی ادوار کے علم فلکیات اور تاریخ دانوں کے سفر ناموں کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے اس بات کو بھی مد نظر رکھا کہ قدیم ادوار سے اب تک گرہنوں کا نظارہ کس مقام سے اور کس زاویے سے کیا جاتا رہا اور ان میں کیا کیا تبدیلی آئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ زمین اور فلکیات کا باقاعدہ مطالعہ 720 قبل مسیح سے شروع کیا گیا۔ ماہرین نے اس وقت سے زمین کی گردش اور اس میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی اس تبدیلی کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے ہم چند سالوں بعد اپنی گھڑیوں کا وقت بھی زمین کے حساب سے تبدیل کریں تاکہ ہم وقت کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔

  • موت سے بھاگنے کی کوشش کرتا ڈائنو سار؟

    موت سے بھاگنے کی کوشش کرتا ڈائنو سار؟

    بیجنگ: چین کے شہر گانزو میں اتفاقیہ طور پر ایسے ڈائنو سار کا ڈھانچہ دریافت ہوا ہے جسے دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے وہ کسی شے سے بچنے کے لیے بھاگ رہا ہو۔

    چین کے شہر گانزو میں ایک اسکول کی تعمیر کے لیے کی جانے والی کھدائی کے دوران مزدوروں نے ایک صدیوں پرانے ڈائنو سار کی باقیات دریافت کر ڈالیں۔ اس ڈائنو سار کے پروں کی جگہ بازو، ایک چونچ جبکہ سر پر ایک کلغی بھی ہے۔

    دو میٹر لمبے اس ڈائنو سار کو پروں کی وجہ سے ڈریگن کا نام دیا گیا ہے۔ اسے دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے وہ کسی شے سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہو، لیکن اس کا پاؤں کیچڑ میں پھسل گیا اور بھاگنے کی ناکام جدوجہد کے بعد وہ وہیں ہلاک ہوگیا۔ اس کی باقیات اسی حالت میں دریافت ہوئی ہیں۔

    مزید پڑھیں: چین میں ڈائنو سار کے انڈے برآمد

    ماہرین رکازیات کے مطابق یہ ڈریگن ’کریٹیشس‘ دور سے تعلق رکھتا ہے۔ کریٹیشس دور زمین پر عظیم الجثہ (ڈائنوسار) جانداروں کا سب سے طویل دور کہلاتا ہے جو تقریباً 16 کروڑ سال کے طویل عرصے پر مشتمل تھا۔ اس دور کا خاتمہ اب سے 6 سے 7 کروڑ سال قبل ہوگیا۔

    اسکاٹ لینڈ یونیورسٹی آف ایڈنبرگ کے ماہر رکازیات اسٹیو بروسٹ کا کہنا ہے کہ اس ڈریگن کی دریافت ڈائنو سار، ان کے دور اور ان کے خاتمے کے بارے میں سمجھنے کے لیے مزید معلومات فراہم کرے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی مقام سے 5 مزید ڈریگن کی باقیات ملی ہیں اور ان کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے خاتمے کا وقت قریب ہونے کے باوجود ان کی نسل میں ارتقا کا سلسلہ جاری تھا۔

    ماہرین کے مطابق اس ڈریگن کا جسم کیچڑ کے ساتھ مل کر پتھر کی شکل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جس حالت میں ملا ہے وہ حالت نہایت حیرت انگیز ہے۔

    اس سے قبل منگولیا میں بھی ایسے ہی دو ڈائنو سار کی باقیات ملی ہیں جو لڑائی میں مصروف تھے اور اسی دوران ان پر ریٹ کا ٹیلہ آ گرا۔ ماہرین کو ان کے ڈھانچے آپس میں متصادم ہی ملے۔

  • امریکا میں عمارت زمین میں دھنسنے لگی

    امریکا میں عمارت زمین میں دھنسنے لگی

    واشنگٹن: آپ نے اٹلی کے پیسا مینار کے بارے میں ضرور پڑھا ہوگا جو بنانے والوں کی غلطی سے ذرا سا ترچھا بن گیا اور سیاحوں کی توجہ کا باعث بن گیا۔ یہ ٹاور دن بدن مزید جھک رہا ہے اور انتظامیہ نے سیاحوں کے اس کی چھت پر چڑھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔

    ایسی ہی ایک اور عمارت اب امریکی ریاست سان فرانسسکو میں بھی سامنے آئی ہے جہاں موجود 58 منزلہ میلینیئم ٹاور زمین میں دھنس اور جھک رہا ہے۔

    sf-2

    یہ صورتحال عمارت کے اندر رہنے والوں کے لیے خاصی خوفناک اور پریشان کن ہے۔ سان فرانسسکو کے سب سے مہنگے علاقے میں واقع اس بلڈنگ میں لوگوں نے لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جو اب داؤ پر لگ گئی ہے۔

    کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو اپنی جمع پونجی سے یہاں پرتعیش فلیٹس خرید کر رہ رہے ہیں اور اگر حکومت نے الرٹ جاری کرتے ہوئے عمارت کو خالی کرنے کا نوٹس دے دیا تو یہ افراد شاید بے گھر ہوجائیں۔

    آسٹریلیا اپنی ’جگہ‘ بدل چکا ہے *

    سنہ 2009 میں کھولی جانے والی یہ عمارت اپنی تعمیر کے اگلے ہی سال سے ریت میں دھنسنا شروع ہوچکی تھی۔ عمارت ان 7 سالوں میں 16 انچ زمین میں دھنس چکی ہے جبکہ توازن میں فرق آنے کے باعث 2 انچ زمین کی جانب جھک بھی چکی ہے۔

    یہ عمارت دراصل سان فرانسسکو کے ساحلی علاقہ میں بنائی گئی ہے اور اس جگہ کی زیر زمین مٹی نم اور ریت جیسی ہے۔ پانی کی لہریں آنے کے باعث یہ ریت گیلی ہو کر پھیل جاتی ہے جس کے بعد عمارت اندر دھنس جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق عمارتوں کی تعمیر میں ان کی بنیاد ’بیڈ راک‘ میں ڈالی جاتی ہے یعنی زمین کے نیچے پتھروں اور سخت مٹی کی وہ سطح جو عمارت کی بنیاد کو پکڑ کر رکھتی ہے۔ لیکن ساحلی علاقہ ہونے کے باعث اس مقام پر یہ مٹی دستیاب نہیں تھی اور یہاں موجود ریت اب اس عظیم الشان عمارت کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگلے کچھ عرصہ میں یہ عمارت مزید 30 انچ زمین میں دھنس جائے گی جس سے عمارت کے پورے ڈھانچے کے متاثر ہونے اور اس کی تباہی کا اندیشہ ہے۔

  • سیارہ مشتری پر زندگی کا امکان؟

    سیارہ مشتری پر زندگی کا امکان؟

    میامی: امریکی خلائی ادارے ناسا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے برفیلے چاند کے نیچے ایک سمندر ہوسکتا ہے جس کے بعد اس سیارے پر زندگی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    ناسا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے موصول شدہ تصاویر کو دیکھ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ مشتری کے برفیلے چاند یوروپا کی سطح کے نیچے کسی قسم کا سمندر ہوسکتا ہے۔

    jupitar-2

    ناسا کے مطابق انہیں اس بارے میں حیران کن تفصیلات موصول ہوئی ہیں اور وہ جلد ان کا اعلان کرنے والے ہیں۔

    ہبل ٹیلی اسکوپ نے سنہ 2012 میں یوروپا کے جنوبی قطبی حصہ پر پانی کے چند قطروں کا مشاہدہ کیا تھا جس کے بعد خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ پانی چاند کے اندر سے باہر آرہا ہے یعنی چاند کی بیرونی سطح کے نیچے پانی کا کوئی ذخیرہ موجود ہے۔

    گزشتہ برس اسی قسم کا انکشاف مشتری کے سب سے بڑے چاند گینی میڈ کے بارے میں بھی ہوا تھا جب سائنسدانوں نے اس کی سطح کے نیچے ایک سمندر دریافت کیا تھا۔ اس سمندر کے پانی کی مقدار زمین پر موجود تمام پانی سے بھی زیادہ تھی۔

    سائنسدانوں کو اس کا سراغ ہبل ٹیلی اسکوپ کی موصول شدہ تصاویر میں ارورا روشنیوں کے ذریعہ ملا تھا۔ ارورا روشنیاں وہ رنگ برنگی روشنیاں ہیں جن کا نظارہ قطب شمالی میں رات کے وقتکیا جاسکتا ہے۔ یہ روشنیاں چاند یا سیارے کی بیرونی سطح سے نکلتی ہیں اور اس بات کے شواہد فراہم کرتی ہیں کہ جس سطح سے وہ خارج ہو رہی ہیں، اس سطح کے نیچے کیا ہے۔

    jupitar-4

    واضح رہے کہ سیارہ مشتری کو نظام شمسی کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے 50 سے زائد چاند ہیں۔

    رواں برس ناسا کی 1.1 بلین ڈالر مالیت کی خلائی گاڑی جونو کامیابی سے مشتری کے مدار میں اتر چکی ہے جہاں یہ مشتری کے بارے میں مختلف معلومات جمع کر رہی ہے۔

    ناسا سنہ 2020 میں ایک روبوٹک خلائی جہاز مشتری کے چاند یوروپا کے مدار میں بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے تاکہ اس چاند کے بارے میں قریب سے درست معلومات جمع کی جاسکیں۔

  • فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جسے اگر ہزاروں سال بھی زمین میں دفن رکھا جائے تب بھی یہ کبھی زمین کا حصہ نہیں بنتی۔ یہ ہمیشہ جوں کی توں حالت میں رہتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔