Tag: زندگی کی حقیقت

  • 16 سال کی عمر میں ہی زندگی کی حقیقت سامنے آگئی تھی: ماہ نور حیدر

    16 سال کی عمر میں ہی زندگی کی حقیقت سامنے آگئی تھی: ماہ نور حیدر

    معروف پاکستانی اداکارہ و ماڈل ماہِ نور حیدر نے کہا ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی زندگی کی حقیقت سامنے آگئی تھی۔

    حال ہی میں اداکارہ نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، دوران انٹرویو انہوں نے اپنے کیرئیر اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال پیش کیا۔

    اداکارہ نے دوران انٹرویو بتایا کہ میں نے 16 سال کی عمر سے کمانا شروع کردیا تھا، تب ہی زندگی کی حقیقت سامنے آگئی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ورلڈ فیشن کیفے میں مارکیٹنگ مینجر کی جاب کرتی تھی۔

    اداکارہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ مارکیٹنگ مینیجر ہونے کی وجہ سے میں مختلف کوآپریٹو آفسز میں میٹنگ کے لیے جاتی تھی، اس دوران میں ایک جگہ گئی جہاں ایک سینئر صاحب بیٹھے تھے اور انہیں مارکیٹنگ کی فیلڈ میں خاصہ تجربہ تھا‘۔

    ’’ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم کیا سمجھتی ہو کہ تمھیں یہ جاب اس لیے ملی کہ تم بہت اسمارٹ ہو، نہیں۔۔تم صرف اپنی خوبصورت شکل کی وجہ سے آج یہاں پر ہو‘‘

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Quirkisstan (@quirkisstan)

     اداکارہ ماہ نور حیدر نے مزید کہا کہ ’ 16 سال کی عمر میں جب زندگی کی حقیقیت سامنے آئی تو میں نے اس دن سے آج تک اپنے لُکس کے علاوہ ہر چیز پر محنت کیا ہے، مجھے صرف ایک خوبصورت چہرہ نہیں چاہیے تھا‘۔

  • فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    تاریخ کے اوراق الٹیں تو جہاں ہمیں بادشاہوں، سلاطین و امرا کے طرزِ حکم رانی، جنگوں اور خوں ریز معرکوں کی بابت حقائق، واقعات، حکایات اور طرح طرح کی داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں وہیں بعض بادشاہوں کے زندگی کے حالات اور دل چسپ واقعات ایسے بھی ہیں جو آج بھی ہمارے لیے عبرت آمیز اور سبق آموز ہیں۔

    اسی طرح صدیوں پہلے کی حکایات، کسی دانا و حکیم کی باتیں بھی ہمارے لیے زندگی میں راہ نما ثابت ہوتی ہیں۔ یوں تو ہم نے کئی حکایات پڑھ رکھی ہیں جنھوں نے ہمیں زندگی اور گزر بسر سے متعلق روشن اور اجلے اصولوں سے نہ صرف آشنا کیا بلکہ آج بھی ان کی اہمیت برقرار ہے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ یہ قصّے اور حکایات ہماری اخلاقی تربیت اور کردار سازی کا ذریعہ ہیں۔

    تاریخ کا ایک کردار عمرولیث بھی ہے جسے ہم سب ایک حکم راں کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ عمرولیث اور اس زمانے کے ایک دانا کا یہ واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔
    کسی فلسفی نے عمرولیث کو ایک عرضی کے ذریعے ایک مسئلے سے آگاہ کیا اور داد رسی چاہی۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فلسفی نے عرضی کے آغاز میں شاہِ وقت کے لیے دعائیہ انداز میں لکھا کہ وہ طویل عمر پائیں، ہزاروں برس زندہ رہیں۔ کہتے ہیں عمرولیث ایک بدمزاج اور تندخو شخص تھا۔

    اس نے کاتب سے جواب لکھوایا کہ دانا لوگ ناممکن باتیں نہیں لکھا کرتے۔ تم نے عرضی کی ابتدا میں میرے لیے ہزاروں برس زندہ رہنے کی دعا کی ہے۔ میرا ہزاروں برس زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ عرضی کے باقی مندرجات کا بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔
    فلسفی اپنے فریاد نامے کا یہ حشر دیکھ کے عمرولیث کے پاس پہنچا اور بولا: ‘‘امیر اپنے فرمودات کے جواب کی اجازت دیں تو سائل کچھ عرض کرے۔’’

    اس نے بات کرنے کی اجازت دی تو فلسفی نے کہا: ‘‘انسان کی زندگی صرف جسمی نہیں ہے بلکہ ان نیکیوں سے بھی عبارت ہے جو انسان کے گزر جانے کے بعد بھی سلامت رہتی ہیں۔ نیکی کے بغیر زندگی زندگی نہیں، موت سے بدتر ہے۔

    عمرولیث کو یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے فلسفی کو شاد کام واپس کیا۔