Tag: زندگی

  • ممکنہ طور پر زندگی رکھنے والا سیارہ دریافت

    ممکنہ طور پر زندگی رکھنے والا سیارہ دریافت

    امریکی ماہرین نے ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جو نہ صرف ممکنہ طور قابل رہائش ہوسکتا ہے بلکہ وہاں پہلے سے زندگی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    امریکی ماہرین فلکیات کا یہ تحقیقی مقالہ نیچر آسٹرونومی جنرل میں شائع ہوا ہے جس میں ماہرین فلکیات نے اپنی دریافت کے بارے میں تحریر کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر موجود یہ سیارہ زمین سے 12 نوری سال کے فاصلے پر ہے اور یہ مربوط ریڈیو سگنلز بھی بھیج سکتا ہے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ یہاں ممکنہ طور پر مقناطیسی میدان موجود ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہاں زندگی ہوسکتی ہے یا آگے چل کر پنپ سکتی ہے، کیونکہ مقناطیسی میدان تابکاری کو روک کر زندگی کو ممکن بناتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی سیارے پر مقناطیسی میدان اس بات کی پہلی علامت ہے کہ یہ قابل رہائش ہوسکتا ہے۔ زمین اور ہمارے نظام شمسی میں موجود دیگر سیاروں پر بھی یہ میدان موجود ہے۔

    اس سیارے کو YZ Ceti کا نام دیا گیا ہے اور یہاں سے مسلسل ریڈیو سگنلز بھی خارج ہو رہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ سگنلز کا اخراج وہاں پر کسی کی موجودگی کا نہایت واضح اشارہ ہے۔

    امریکی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس سیارے پر مزید تحقیق سے انہیں یہ بھی علم ہوگا کہ دوسرے سیاروں پر مقناطیسی میدان کیسے کام کرتا ہے، جبکہ کائنات میں قابل رہائش سیارے ڈھونڈنے کے کام میں بھی مزید مدد ملے گی۔

  • اپنے حالات کی وجہ سے بچپن میں ہی ٹوٹ گئی تھی: فضہ علی

    اپنے حالات کی وجہ سے بچپن میں ہی ٹوٹ گئی تھی: فضہ علی

    معروف اداکارہ فضہ علی کا کہنا تھا کہ وہ بچپن سے ہی اپنے گھر کے حالات دیکھ کر ٹوٹ چکی تھیں اور اس کے بعد پھر ان کی شادی بھی ناکام رہی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف اداکارہ فضہ علی نے اے آر وائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان میں شرکت کی اور اپنی زندگی کی تلخیوں کے بارے میں بتایا۔

    اداکارہ نے بتایا کہ ان کے والد نے کبھی بھی ان کی اور والدہ کی ذمہ داری نہیں اٹھائی، ہماری والدہ نے ہی ہمیں پالا اور ہمارے تمام اخراجات پورے کیے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کبھی انہیں دادا دادی کے گھر چھوڑ جاتی تھیں تو وہاں وہ سب کے درمیان بہت عجیب سا محسوس کرتے تھے کیونکہ سب بچے اپنے والدین کے ساتھ ہوتے تھے جبکہ وہ اکیلا پن محسوس کرتے تھے۔

    اسکول میں بھی سب ان کے والد کے بارے میں دریافت کرتے تھے اور وہ مختلف جوابات دیا کرتی تھیں۔

    فضہ نے بتایا کہ اس کے بعد ان کی شادی ہوئی تو شوہر کو لوگوں میں گھلنا ملنا اور تقریبات میں جانا پسند تھا، انہیں فیملی لائف نہیں چاہیئے تھی۔

    اداکارہ کے مطابق وہ خود ہی اپنے اخراجات پورے کرتی تھیں اور پھر جلد ہی انہوں نے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

  • وہ جاندار جو کبھی اپنی زندگی میں سورج ڈھلتا نہیں دیکھ سکتا

    وہ جاندار جو کبھی اپنی زندگی میں سورج ڈھلتا نہیں دیکھ سکتا

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری زمین پر ایک جاندار ایسا بھی ہے جس کی زندگی ایک دن سے بھی کم ہوتی ہے؟

    مختصر ترین زندگی رکھنے والا یہ جاندار ٹڈا ہے جسے مے فلائی بھی کہا جاتا ہے۔ ٹڈے کی اوسط زندگی 1 دن سے بھی کم ہوتی ہے، یعنی سورج ڈھلنے سے قبل ہی اس کی زندگی کا اختتام ہوجاتا ہے۔

    ان کی زندگی کا یہ دورانیہ بلوغت کے بعد شروع ہوتا ہے اور اسی ایک دن کی زندگی میں مادہ ٹڈیاں انڈے بھی دیتی ہیں۔

    ٹڈے دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں اور ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ان کی 3 ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں، ان میں سے 600 صرف امریکا میں موجود ہیں۔

    ٹڈے کا لاروا آبی ذخائر کے قریب پایا جاتا ہے اور ان کی غذا مختلف پودوں کے اجزا پر مشتمل ہوتی ہے۔

  • وہ عادات جو آپ کی کھوئی ہوئی خوشیاں لوٹا دیں

    وہ عادات جو آپ کی کھوئی ہوئی خوشیاں لوٹا دیں

    ہماری زندگی میں موجود بہت سی پریشانیاں ہماری خوشیاں چھین لیتی ہیں اور ہم ہنسنا مسکرانا بھول جاتے ہیں، ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں جو ہمیں خوشی فراہم کرسکتی ہیں۔

    تاہم کچھ ایسی عادات ہیں جنہیں اپنا کر زندگی میں خوشیاں واپس لائی جاسکتی ہیں۔

    دوسروں کی مدد کریں

    زندگی میں برے لمحات کسی کامیابی کے لیے معاون نہیں ہو سکتے، ایک سنہرا اصول ہے کہ کچھ لینے کے بجائے کسی کو کچھ دینے والے بنیں، آپ اس وقت تک حقیقی مزا نہیں پا سکتے جب تک کسی ضرورت مند کی مدد نہ کریں۔ مشکل کا شکار فرد کی مدد کرتے ہوئے آپ اپنے مسائل بھی بھول جاتے ہیں۔

    شکر گزاری

    کیا آپ شکر گزاری کا جذبہ رکھتے ہیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو آپ بہت خوش قسمت ہیں، یہ وقت ہے کہ کروڑوں اور اربوں روپے کے مکان میں نہ رہنے اور قیمتی گاڑی نہ رکھ کر بھی خود کو میسر نعمتوں پر شکر گزاری کا اظہار کریں۔

    خود سے محبت کریں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ خود سے محبت کرنا آپ کی مجموعی خوشی کے لیے لازم ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق خوشگوار تعلق قائم رکھنے، دن بھر کی تھکن سے دور رہ کر کچھ وقت گزارنے اور خود کو ترجیح دینے سے مجموعی صحت کو بہتر رکھا جا سکتا ہے۔

    مدد کے لیے کہنا سیکھیں

    کیا آپ خود کو اس لیے مشکل میں ڈال رہے ہیں کہ آپ نہیں جانتے کہ کب کسی سے مدد مانگی جائے؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ گھر یا دفتر میں خود کو تھکا لیں گے۔

    پروفیشنل یا گھریلو زندگی میں سبھی کچھ خود کرنے اور ضرورت کے باوجود مدد نہ لینے کے چکر میں نہ صرف آپ خود مشکل کا شکار ہوں گے بلکہ خدشہ رہتا ہے کہ اس سے کام بھی خراب ہو جائے۔

    اپنے لیے تحائف خریدیں

    کبھی کبھار خود کو ذرا سا بگاڑ لینا بھی چل جاتا ہے۔ خود پر کچھ خرچ کریں، کسی وقت اپنے لیے کوئی چھوٹا سا تحفہ خرید لیں۔ یقینا آپ بھی جانتے ہوں گے کہ اپنے لیے نیا لباس لینا یا چھوٹا موٹا کچھ اور خرید لینا مورال بہتر کرنے کے لیے مفید ہے۔

    سوشل میڈیا کو محدود کریں

    ہو سکتا ہے کہ آپ سوچتے ہوں کہ دنیا سے اپنے رابطے کے ذریعے سوشل میڈیا کا استعمال محدود کرنا نا مناسب ہو، لیکن لازم نہیں کہ ہر بار معاملہ یہی رہے۔ آپ لوگوں کو اچھی اچھی پوسٹس کرتے تو دیکھتے ہوں گے لیکن ان کے پس پردہ موجود پریشان کن مواد نظروں سے اوجھل رہتا ہوگا۔

    اگر آپ اپنی خوشیوں سے مطمئن نہیں تو دوسروں کی یہ پرفیکٹ زندگیاں دیکھنا بھی فائدہ مند نہیں رہے گا۔

    نہ کہنا سیکھیں

    بہت سے لوگ نہ کہنے سے ڈرتے ہیں، ایک بالغ فرد کے طور پر آپ کو لازماً سیکھنا چاہیئے کہ کب کسی کو نہ کہی جائے۔

    کوئی مشغلہ رکھیں

    مشاغل دوسروں سے رابطے میں رہنے اور کچھ مفید لمحے گزارنے کا اچھا ذریعہ ہیں، بہت سے ایسے کھیل ہیں جو آپ کو فٹنس کے ساتھ خوشیوں بھرے لمحات دے سکتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ باہر نکلیں اور کچھ خوشگوار لمحے گزاریں۔

  • رہن سہن کے لیے بہترین مانے جانے والے شہروں پر کرونا وبا نے کیا اثر ڈالا؟

    رہن سہن کے لیے بہترین مانے جانے والے شہروں پر کرونا وبا نے کیا اثر ڈالا؟

    پیرس: کرونا وائرس کی وبا نے زندگی گزارنے کے لیے دنیا کے بہترین شہروں کی فہرست کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جہاں ایک طرف کاروباری اور سماجی نظام کرونا وبا سے درہم برہم ہوا، وہاں دوسری طرف رہن سہن کے لیے بہترین مانے والے شہروں کی رینکنگ بھی اس سے شدید متاثر ہوئی، نیز کرونا کے بعد شہروں کو جانچنے کا طریقہ بھی بدل گیا ہے۔

    ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ آسٹریلیا، جاپان اور نیوزی لینڈ زندگی گزارنے کے لحاظ سے یورپی ممالک سے رینکنگ میں اوپر چلے گئے ہیں۔

    اس سلسلے میں اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ نے رواں برس ایک سروے کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کا شہر آکلینڈ زندگی بسر کرنے کے لیے دنیا کے بہترین شہروں میں سرفہرست آ گیا ہے، اس کے بعد جاپانی شہروں اوساکا اور نمبرپرآسٹریلیا کا شہرایڈلیڈ کا نمبر آتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دس سر فہرست شہرو ں میں آسٹریلیا کا شہر پرتھ اور نیوزی لینڈ کا شہر ویلنگٹن بھی شامل ہو گئے ہیں، ان تمام شہروں نے کرونا کی وبا کے خلاف بہت تیزی سے اقدامات کیے۔

    سروے میں کہا گیا ہے کہ آکلینڈ کرونا کی وبا پر کامیابی سے قابو پانے کی وجہ سے فہرست میں پہلے نمبر پر آیا ہے، جس کے بعد اس شہر کو لاک ڈاؤن کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔

    اس کے برعکس یورپی ممالک اس برس کے اعداد و شمار میں بہت پیچھے رہے، سروے کے مطابق اس سے قبل 2018-20 میں آسٹریا کا شہر ویانا سرفہرست تھا، جو بارہویں نمبر پر آ گیا ہے، اس فہرست میں نیچے آنے والے دیگر 8 شہر بھی یورپ کے ہیں۔

    شمالی جرمنی کا شہر ہیمبرگ 34 درجے کم ہو کر 47 ویں نمبر پر آ گیا ہے، جرمنی اور فرانس کے اسپتالوں پر وبا کی وجہ سے دباؤ بڑھا جس کے باعث وہاں صحت کا نظام خراب ہو گیا، امریکی شہر ہونولولو وبا پر قابو پانے اور ویکسینیشن کی وجہ سے اس فہرست میں 46 ویں سے 14 ویں نمبر آ گیا ہے۔

    گلوبل لائیوایبلٹی انڈیکس 2021 کے مطابق دس سر فہرست شہر مندرجہ ذیل ہیں:

    آکلینڈ، نیوزی لینڈ (96.0)
    اوساکا، جاپان (94.2)
    ایڈلیڈ، آسٹریلیا (94.0)
    ویلنگٹن، نیوزی لینڈ (93.7)
    ٹوکیو، جاپان (93.7)
    پرتھ، آسٹریلیا (93.3)
    زیوریخ، سویٹزرلینڈ (92.8)
    جنیوا، سویٹزرلینڈ (92.5)

  • کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہوئی تو کیا اس وقت زمین پر موجود تمام جاندار ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے؟ شاید ماہرین نے اب اس سوال کا جواب نفی میں دے دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں پائے جانے والے 67 لاکھ جانداروں کے ڈی این اے نمونے کشتی نوح کی طرح چاند پر محفوظ کیے جائیں گے۔

    سائنسدانوں نے اسے ماڈرن گلوبل انشورنس پالیسی قرار دیا ہے جس کے تحت تمام جانداروں کے بیج، اسپرمز اور بیضے چاند کی سطح کے نیچے ایک والٹ میں محفوظ کیے جائیں گے۔

    امریکا کی ایری زونا یونیورسٹی کے 6 سائنسدانوں نے یہ منصوبہ مارچ کے آغاز میں انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجنیئرز ایرو اسپیس کانفرنس کے دوران پیش کیا، جہاں ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے انسانوں کو معدوم ہونے سے بچانے مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کو لونر آرک کا نام دیا گیا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہو تو یہ منصوبہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کو معدوم ہونے سے بچا سکے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زمین کا ماحول قدرتی طور پر کمزور ہے، مگر چاند پر زمینی حیات کے ڈین این اے نمونوں کو محفوظ کرنے سے کسی بہت بڑے سانحے سے جانداروں کی اقسام معدوم ہونے پر بچایا جاسکے گا۔

    ویسے تو یہ خیال کسی سائنس فکشن ناول یا فلم کا لگتا ہے، مگر اسے پیش کرنے والے سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 67 لاکھ جانداروں کے اسپرم، بیضے اور بیجوں کو چاند پر محفوظ کرنا قابل عمل آپریشن ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان نمونوں کو ڈھائی سو خلائی پروازوں کے ذریعے چاند پر پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے 40 پروازوں کی ضرورت ہوگی۔

    ان نمونوں کو چاند کی سطح کے نیچے منجمد ہونے یا ایک دوسرے سے جڑنے سے بچانے کے لیے سائنسدانوں نے اس والٹ کو سولر پینلز سے پاور فراہم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منصوبوں سے انسانیت کو خلائی تہذیب بنانے میں پیشرفت ہوگی اور مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر انسانوں کے بیسز ہوں گے۔

    اس طرح کے منصوبے کے لیے چاند پر مرکز بنانا بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے چاند پر بھیجے جانے والے مشنز سے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کے لیے کھربوں ڈالرز درکار ہوں گے مگر سائنسدانوں کے خیال میں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی شراکت داری سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس منصوبے کو 10 سے 15 سال میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔

  • ہم اپنے بڑے خوابوں کو پورا کیوں نہیں کر پاتے؟

    ہم اپنے بڑے خوابوں کو پورا کیوں نہیں کر پاتے؟

    ہم میں سے بہت سے افراد اپنی زندگی بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں، کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جو ذاتی طور پر ہمارے فائدے کے لیے اور کچھ مجموعی طور پر پوری انسانیت کے فائدے کے لیے ہوتے ہیں۔

    لیکن بہت ہی کم افراد ان خوابوں کو پورا کر پاتے ہیں جبکہ زیادہ تر ایک اوسط زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے خوابوں کے پورا نہ ہونے، اور ان کے بد دل ہوجانے کی کیا وجہ ہے؟

    اس کی وجہ ہے، چھوٹی اور پست ذہنیت کے وہ لوگ جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔

    کہا جاتا ہے، کہ اگر اپنے بڑے خوابوں کا قتل کرنا چاہتے ہو، تو انہیں چھوٹے (دماغ کے) لوگوں سے ڈسکس کرو، پھر دیکھو، کیسے تمہارا بڑا ارادہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔

    امریکی مصنف مارک ٹوائن کہتا ہے، ان لوگوں سے دور رہو جو تمہارے خوابوں اور امنگوں کو بے وقعت کردیں۔ یہ کام پست ذہنیت کے افراد کرتے ہیں، لیکن عظیم لوگ آپ کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ بھی عظیم بن سکتے ہیں۔

    دراصل جب ہم بڑے خواب رکھتے ہیں تو ان کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے ارد گرد کس قسم کے افراد موجود ہیں۔

    اگر ہم اوسط ذہن رکھنے والے افراد میں گھرے ہیں تو ہمارے خوابوں کا حقیقت میں بدلنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جب ہم اپنے خواب، خیال اور ارادے بتاتے ہیں تو وہ یا تو ہماری حوصلہ شکنی کرتے ہیں، یا ہمارے خیال کو رد کردیتے ہیں، یا پھر اس آئیڈیے کو چرا کر ہمارے حریف بن جاتے ہیں۔

    یہ لوگ نہ صرف ہمیں وہ پہلو دکھائیں گے جن کی وجہ سے ہمارا ارادہ ناکام ہوسکتا ہے، بلکہ ان پہلوؤں کو بھی ہم سے چھپا دیں گے جن کی وجہ سے ہمارا ارادہ کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔

    یہی نہیں، ایسے افراد ہمیں صبر شکر کرنے، جیسے بھی حالات ہوں ان سے راضی بہ رضا رہنے اور کم پر خوش رہنے کا سبق دیں گے اور اس طرح دیں گے کہ ہم واقعی یہی سب کر بیٹھیں گے۔

    دراصل ایسے افراد دوسروں کے بڑے ارادوں سے خود کو غیر محفوظ خیال کرنے لگتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ہم وہ کچھ حاصل کرسکتے ہیں جو وہ خود نہیں کرسکتے، تو ہمیں اس سے روکنے کے لیے پرزور مزاحمت کرتے ہیں۔

    یہی نہیں وہ ہمارے تخیل کی اونچی اڑان کے پر کاٹ کر اسے اپنی سطح تک لے آئیں گے اور ہمار بلند ارادہ وہیں مر جائے گا۔

    امریکی مصنفہ مرین ڈوڈ کہتی ہیں، اپنے دماغ کو وہاں تک بلند کرلیں جہاں آپ سطحی لوگوں کی قربت میں الجھن محسوس کرنے لگیں، اگر آپ اس سے کم پر راضی ہوگئے جس کے آپ مستحق ہیں، تو جان لیں کہ آپ کو اس سے بھی کم ملے گا۔

    وہ کہتی ہیں، آپ کا اصل دشمن وہ ہے جو آپ کو اس سے کم قبول کرنے پر راضی کر لے جو خدا نے آپ کے لیے رکھا ہو۔

    برطانوی مصنفہ ورجینیا وولف بھی کہتی ہیں، وہ شخص جو تمہارے خوابوں پر ڈاکہ ڈال لے، وہ دراصل تمہاری زندگی لوٹ لیتا ہے۔

    یقیناً ایسے افراد ہی ان بہت سے کارناموں کی راہ میں رکاوٹ ہیں جنہیں رونما ہو کر انسانیت کی بھلائی میں اپنا کردار ادا کرنا تھا، کہیں آپ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں تو نہیں ہوتا؟

  • ہر وقت دکھڑے رونے والوں کو اپنی زندگی سے نکال باہر کریں

    ہر وقت دکھڑے رونے والوں کو اپنی زندگی سے نکال باہر کریں

    زندگی میں خوش اور مطمئن رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ارد گرد بھی ایسے افراد موجود ہوں جو مثبت خیالات رکھتے ہوں اور زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر رکھیں۔

    اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ارد گرد موجود افراد کو غصہ نہیں آنا چاہیئے، یا انہیں بیزار نہیں ہونا چاہیئے، لیکن جب کوئی جذبہ کسی انسان کی عادت بن جائے تو وہ دوسروں پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

    ایسی ہی ایک عادت ہر وقت دکھڑے رونے اور شکوے شکایات کرنے کی بھی ہے۔ ویسے تو کسی کے خلاف شکایت کرنا یا دیگر لفظوں میں غیبت کرنا دل کی بھڑاس نکالنے کا آسان ذریعہ ہے، لیکن اگر یہ شکوے شکایات عادت بن جائیں تو ایسا شخص سخت طبی خطرات کا شکار ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری زندگی پر ان افراد کے بھی اثرات ہوتے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں یا ہمارا ان سے قریبی تعلق ہوتا ہے، خوش باش اور مثبت خیالات رکھنے والے افراد ہماری زندگی پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں جبکہ شکایتی اور رونے دھونے والے افراد ہماری زندگی میں بھی منفیت بھر دیتے ہیں۔

    چنانچہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر آپ کے ارد گرد ایسے شکایتی افراد موجود ہیں تو انہیں فوری طور پر اپنی زندگی سے نکال باہر کریں ورنہ یہ آپ کو سخت طبی خطرات سے دو چار کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر وقت شکوے شکایات کے عادی افراد ہمیشہ ناخوش رہتے ہیں، یہ ہر اچھی چیز میں سے بھی برائی کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیں گے جبکہ ان کا مجموعی رویہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے بجائے مسئلے کو تادیر الجھائے رکھنے کا ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنے نکمے دوستوں سے جان چھڑائیں

    جب ہم اپنا زیادہ وقت ایسے افراد کے ساتھ گزارتے ہیں تو ان کی بدگوئی سن کر سب سے پہلا ہمارا موڈ خراب ہوتا ہے، ہم خود کو بلاوجہ غصے میں محسوس کرنے لگتے ہیں اور ایسے میں ہماری تعمیری کام کرنے کی صلاحیت و استعداد میں کمی واقع ہوتی ہے، باالفاظ دیگر ہم ڈی موٹیویٹ ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی گفتگو سن کر ہمارا دماغ اسی ڈگر پر سوچنا شروع کرتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے ہم خود بھی اسی شکایتی مائنڈ سیٹ کے حامل بن جاتے ہیں۔

    مستقل شکوے شکایات دل کی بھڑاس نکالنے اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بجائے مزید اسٹریس دینے کا سبب بن جاتے ہیں، اور یہی وہ پوائنٹ ہے جب ہم اپنی صحت کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

    مستقل اسٹریس اور ذہنی تناؤ نہ صرف ہمارے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ یہ ہمیں ہائی بلڈ پریشر اور امراض قلب کا شکار بھی بنا سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کے طبی اثرات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے کہ سگریٹ کے دھوئیں میں وقت گزارنے والے نان اسموکر پر ہوتے ہیں، جو خود سگریٹ نہ پیے لیکن دوسروں کی سگریٹ کے دھوئیں میں وقت گزارنے سے ان سے زیادہ نقصانات کا شکار ہوجائے۔

    ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود اس عادت کا شکار ہے تو اپنی صحت کے لیے اس عادت کو ترک کردے، اور اگر ایسے شکایتی افراد میں گھرا ہوا ہے تو اس کے لیے ان سے قطع تعلق کرنا اور دور رہنا ہی بہتر ہے۔

  • وہ ایکسیڈنٹ جس نے حریم فاروق کی زندگی بدل دی

    وہ ایکسیڈنٹ جس نے حریم فاروق کی زندگی بدل دی

    کراچی: پاکستانی اداکارہ اور ماڈل حریم فاروق نے کہا ہے کہ 2013 میں ہونے والے کار حادثے نے ان کی زندگی بدل دی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ہر لمحہ پرجوش میں میزبان وسیم بادامی نے معروف پاکستانی اداکارہ حریم فاروق سے کار حادثے سے متعلق سوال کیا جس پر انہوں نے کہا کہ 2013 کے آخر میں ان کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس نے ان کی زندگی تبدیل کر دی، اس حادثے کے بعد سے انہوں نے سیٹ بیلٹ پہننا کبھی نہیں چھوڑی۔

    حریم فاروق نے بتایا کہ حادثے میں میرے سیدھے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ میرے پہلے پروجیکٹ کے وقت یہ حادثہ پیش آیا اور اس کے بعد میں ڈپریشن میں تھی۔

    نامور اداکارہ نے بتایا ان کی فیملی اور دوستوں نے انہیں حادثے کے بعد ڈپریشن سے نکلنے میں مدد کی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس حادثے نے انہیں خدا سے بہت قریب کر دیا۔

  • بہت معمولی سی ورزش کرنا بھی آپ کی عمر میں اضافہ کر سکتا ہے

    بہت معمولی سی ورزش کرنا بھی آپ کی عمر میں اضافہ کر سکتا ہے

    ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ورزش کی بہت معمولی مقدار بھی بے شمار فائدے پہنچا سکتی ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ بہت کم ورزش کرنا بھی متعدد بیماریوں اور قبل از وقت موت کے خطرے میں کمی کرسکتا ہے۔ ہفتے میں کبھی کبھار ورزش کرنے سے قبل از وقت موت کے خطرے میں 52 فیصد کمی ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق قبل از وقت موت کا خطرہ مختلف بیماریوں جیسے دل کے امراض، فالج اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے ہوتا ہے، اور یہ خطرہ ان افراد میں بڑھ جاتا ہے جو بالکل ورزش نہیں کرتے۔

    ورزش نہ کرنا اور غیر متحرک زندگی گزارنا مختلف بیماریوں جیسے امراض قلب، فالج، جسم میں درد اور موٹاپے کو جنم دیتا ہے اور یہ بیماریاں انسان میں قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ورزش دماغی صحت پر بھی یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رہتے ہیں ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر رہتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ورزش، جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا ڈپریشن اور تناؤ میں 43 فیصد کمی کرتا ہے۔ ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔