Tag: زندگی

  • بھلکڑ افراد کے لیے چیزوں کو یاد رکھنے کا آسان طریقہ

    بھلکڑ افراد کے لیے چیزوں کو یاد رکھنے کا آسان طریقہ

    آج کل کی مصروف زندگی میں ہم بیک وقت بہت ساری چیزوں میں الجھ گئے ہیں نتیجتاً ہم ان میں سے آدھی چیزیں بھول جاتے ہیں۔ اگر ہم گھر سے 4 کام کرنے کے لیے نکلیں گے تو 2 راستے میں ہی بھول جائیں گے۔

    ماہرین یوں تو چیزوں کو یاد رکھنے کے لیے بہت سے طریقے بتاتے ہیں تاہم ان میں سے ایک مؤثر ترین طریقہ مصوری کرنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق چیزوں کو یاد رکھنے کے لیے ان کی تصاویر دیکھنے، ذہن میں دہرانے یا گا کر یاد رکھنے سے زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ آپ خود اس چیز کی تصویر بنائیں۔

    مزید پڑھیں: سیکھی ہوئی چیزوں کو یاد رکھنے کے طریقے

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی ایسا قول یاد رکھنا چاہتے ہیں جو زندگی اور خوشی سے متعلق ہے اور جس میں سفر کا حوالہ دیا گیا ہے، تو اسے یاد رکھنے کے لیے آپ ایک مسکراتا ہوا چہرہ اور ایک ٹرین یا بس بنا سکتے ہیں۔

    اس کے لیے آپ کو کوئی اعلیٰ پائے کا مصور ہونے کی بھی ضرورت نہیں، بس سمجھ میں آجانے والی چند لکیریں بھی کافی ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح تصویر بنانا کسی بھی دوسرے ذریعے کی نسبت یاد رکھنے کا بہترین اور آسان طریقہ ہے۔

  • کچھ کرنے سے قبل ’پلان بی‘ بنانے کا نقصان جانتے ہیں؟

    کچھ کرنے سے قبل ’پلان بی‘ بنانے کا نقصان جانتے ہیں؟

    ہم اب تک پڑھتے آئے تھے کہ جب بھی کوئی نیا کام کرنا شروع کرنا ہو، تو ایک بیک اپ پلان یا پلان بی ضرور ذہن میں رکھنا چاہیئے۔ وہ اس لیے کہ اگر حالات یا نتائج توقع کے مطابق نہ نکلیں تو دوسرے پلان پر عمل کیا جاسکے۔

    لیکن کیا آپ یہ پلان بی بنانے کا نقصان جانتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ کسی مقصد کے لیے پلان بی بناتے ہیں تو آپ کی ناکامی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی اس تحقیق کے لیے مختلف افراد کو دو گرہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک افراد کو ایک ٹاسک سونپا گیا جبکہ دوسرے افراد سے کہا گیا کہ وہ اس ٹاسک کو شروع کرنے سے پہلے سوچیں کہ کیا اسے مکمل کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نکل سکتا ہے؟

    نتائج میں دیکھا گیا کہ متبادل راستہ تلاشنے والے زیادہ تر افراد ٹاسک مکمل کرنے میں ناکام رہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ پلان بی بناتے ہیں تو غیر ارادی طور پر آپ کی توجہ تقسیم ہوجاتی ہے، وہ توجہ جو آپ کو صرف اپنے مرکزی مقصد پر دینی چاہیئے، وہ بٹ کر پلان اے اور پلان بی میں تقسیم ہوجاتی ہے۔

    ان کے مطابق پلان بی آپ کے خیالات اور ان آئیڈیاز کو بھی منتشر کرسکتا ہے جو آپ کو کسی مشکل کے سامنے آنے کے بعد ان سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے جبکہ پلان بی موجود ہونے کی صورت میں آپ کے دماغ میں یہ خیال جگہ نہیں بنا پاتا کہ چاہے جیسے بھی ہو بس کامیابی حاصل کرنی ہو۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے مقصد میں واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو تمام کشتیاں جلا دینے والی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے ایسے کام شروع کردینا چاہیئے جیسے یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہو۔ پلان بی، سی یا ڈی کو بالکل بھی ذہن میں نہیں رکھنا چاہیئے۔

    تو کیا آپ بھی اب کوئی کام شروع کرتے ہوئے پلان بی بنانا چاہیں گے؟

  • حوثیوں نے 40 لاکھ بچوں کی زندگی تباہ کر دی، یمنی حکومت

    حوثیوں نے 40 لاکھ بچوں کی زندگی تباہ کر دی، یمنی حکومت

    صنعاء: یمنی حکومت نے کہاہے کہ باغی حوثی ملیشیا نے ملک میں 40 لاکھ سے زیادہ بچوں کی زندگی تباہ کر ڈالی ہے، ملیشیا نے جنگ مسلط کر کے بچوں کی اکثریت کو کام کی تلاش پر مجبور کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حوثیوں نے یمنی خاندانوں کی معاشی حالت کا استحصال کرتے ہوئے بچوں کو لڑائی کے محاذوں پر جھونک دیا،باغیوں نے ان بچوں کو مال کا لالچ دے کر اپنی صفوں میں شامل کر لیا۔

    یمنی حکومت نے ایک بار پھر اس موقف کو دہرایا کہ یمن میں تنازع کا حل اس کی جڑوں کو ختم کر کے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے، اس واسطے بغاوت کو کچلنا، حوثیوں کی جانب سے ہتھیا لیے جانے والے ریاستی اداروں کو واپس لینا اور یمنی عوام کے مصائب کا خاتمہ لازم ہے۔

    اقوام متحدہ میں یمن کے مستقل مندوب عبداللہ السعدی کے مطابق مسلح حوثی ملیشیا نے 30 ہزار سے زیادہ یمنی بچوں کو بھرتی کر کے انہیں تنازع میں استعمال کیا ، ان میں 3279 بچے اور بچیاں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔

    السعدی نے یہ بات جمعے کے روز سلامتی کونسل میں بچوں اور مسلح تنازع کے حوالے سے ہونے والے ایک کھلے مباحثے میں بتائی۔

    یمنی مندوب کے مطابق بھرتی کی کارروائیوں میں اسکول کے طلبہ و طالبات اور یتیم خانوں اور دار الامان کے بچے شامل ہیں۔

    باغی حوثی ملیشیا نے محض گذشتہ دو برسوں کے دوران 16 لاکھ بچوں کو اسکول جانے سے محروم کر دیا، اس دوران باغیوں نے 2372 اسکولوں کو بم باری سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر ڈالا،حوثیوں نے 1600 اسکولوں کو جیلوں اور عسکری بیرکوں میں تبدیل کر دیا۔

    السعدی نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ یمن کے بچوں کو بدترین صورت میں قتل اور بھرتی کیے جانے کے علاوہ تعلیم، صحت اور سماجی امور سے متعلق بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ حوثی ملیشیا کی صفوں سے حراست میں لیے جانے یا گرفتار کیے جانے والے بچوں کی نفسیاتی بحالی کا کام انجام دیا جا رہا ہے،اس سلسلے میں ان کو مارب کے خصوصی مرکز میں رکھا جاتا ہے، اس مرکز کو شاہ سلمان امدادی مرکز کی سپورٹ حاصل ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ یہ مرکز انٹرنیشنل ریڈ کراس تنظیم کے ساتھ بھی رابطے میں ہے، ان بچوں کو ان کے گھرانوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔یمنی بچوں کا یہ استحصال تمام تر بین الاقوامی قوانین اور بچوں کے حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

  • چاقو زنی کا شکار خاتون کا شیر خوار بچہ زندگی کی بازی ہار گیا

    چاقو زنی کا شکار خاتون کا شیر خوار بچہ زندگی کی بازی ہار گیا

    لندن: برطانیہ میں چاقو زنی کی وارداتیں بدستور جاری ہیں گزشتہ دنوں خنجر کے وار سے ہلاک ہونے والی حاملہ خاتون کا چند روز کا بچہ اسپتال میں دم توڑ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن کے جنوبی علاقے کروئیڈن میں چاقو حملے کے افسوفس ناک واقعے میں آٹھ ماہ کی کائل میری نامی 26 سالہ حاملہ خاتون زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گئی۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا تھا کہ چاقو زنی کا نشانہ بننے والی خاتون نے جائے وقوعہ پر ہی بچے کو جنم دیا تھا جسے ریسکیو اہلکاروں نے تشویش ناک حالت میں استپال میں منتقل کردیا تھا، جہاں وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔

    میٹروپولیٹن پولیس نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں ایک شخص کو مقتول خاتون کے گھر کی جانب بھاگتےہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    انوسٹی گیشن ٹیم کا کہنا ہے کہ ’اس کیس کی تحقیقات میں بہت مشکلات آرہی ہیں‘۔

    پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ ’عوام فوری طورپر ویڈیو میں دیکھے جانے والے شخص سے متعلق سیکیورٹی اہلکاروں کو مطلع کرے تاکہ ملزم کو گرفتار کرکے اس سے تفتیش کی جاسکے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پولیس نے قتل کے شبے میں دو افراد کو گرفتار کیا تھا، 29 سالہ ملزم تاحال پولیس کی تحویل میں ہے جبکہ 37 سالہ ملزم کو رہا کردیا تاہم وہ اب بھی زیر تفتیش ہے۔

    پولیس چیف کاکہنا تھا کہ یہ ایک خوفناک حادثہ ہے ’پولیس کی ہمدردیاں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہیں‘ پولیس واقعے کی تحقیقات میں جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کررہی ہے ملزمان کو انصاف کے کہٹرے میں ضرور لائیں گے۔

    لندن کے میئر صادق خان نے ٹویئٹر پر تحریر کیا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد اور غیرت کے نام پر گھر میں قتل ہونا عام سی بات ہے، میری دعائیں معصوم بچے کے ساتھ ہیں جس نے بدقسمتی سے اپنی ماں کو کھو دیا‘۔

    برطانیہ میں بڑھتی ہوئی چاقو زنی کی وارداتوں نے حکام کے لیے بڑی چیلنج کھڑا کردیا، وارداتوں کے اعدادوشمار گزشتہ دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔

  • منفی جذبات آپ کو کینسر میں مبتلا کرسکتے ہیں

    منفی جذبات آپ کو کینسر میں مبتلا کرسکتے ہیں

    ہم میں سے بہت سے افراد اپنے ساتھ برا کرنے والوں کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان سے انتقام لینا چاہتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ جذبات ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ غصہ اور نفرت جیسے منفی جذبات ہمیں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا کرسکتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق منفی جذبات صرف دماغ کو ہی نہیں بلکہ جسم کو بھی یکساں نقصان پہنچاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جذبات کرونک اینگزائٹی پیدا کرتے ہیں، یہ اینگزائٹی اینڈرلائن اور کارٹیسول نامی ہارمون پید اکرتی ہے۔

    جسم میں ان ہارمونز کی بہت زیادہ افزائش ان مدافعتی خلیات کونقصان پہنچاتی ہے جو کینسر کے خلاف مدافعت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ان جذبات کی زیادتی انسان کو کینسر میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: منفی خیالات سے کیسے نمٹا جائے؟

    ماہرین کے مطابق اس صورتحال سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ چیزوں کو درگزر کیا جائے اور معاف کرنے کی عادت اپنائی جائے۔ یہ دماغی و جسمانی دونوں طرح کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ افراد جو معاف کرنے کے عادی ہوتے ہیں ان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔ ذہنی دباؤ میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کی نیند بھی بہتر ہوتی ہے، معدے کے مسائل کا کم سامنا ہوتا ہے جبکہ مختلف تکالیف کے لیے دوائیں بھی کم کھانی پڑتی ہیں۔

    کیا آپ بھی اس عادت کو اپنانے جارہے ہیں؟

  • بہت زیادہ سوچنے سے جان چھڑانے کے طریقے

    بہت زیادہ سوچنے سے جان چھڑانے کے طریقے

    سوچنے اور دماغ سے کام لینے میں کوئی حرج تو نہیں، تاہم بہت زیادہ سوچنا بھی ایک مسئلہ ہے اور بہت سی پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

    یہ صورتحال اس وقت مزید پریشان کر سکتی ہے جب آپ سوچتے سوچتے منفی خیالات کے نرغے میں آجائیں اور ایک اچھے کام یا اچھے موقع کو منفی سوچوں کی نذر کردیں۔

    اسی طرح چھوٹی چھوٹی اور بے معنی چیزوں کے بارے میں سوچتے رہنا آپ کا سکون برباد کردیتا ہے اور آپ ہر وقت ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔

    اگر آپ بھی اس عادت کا شکار ہیں تو آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بہت زیادہ سوچنے کی عادت سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ چھوٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کر کے زندگی کے لمحات سے لطف اندوز ہوا جائے اور خوش رہا جائے۔

    مزید پڑھیں: منفی خیالات سے کیسے نمٹا جائے؟

    یہ آپ کی زندگی کا آخری سال ہے

    تصور کریں کہ سنہ 2019 آپ کی زندگی کا آخری سال ہے۔ اب آپ کیا کریں گے؟ یقیناً آپ اپنی وہ خواہشات پوری کرنا چاہیں گے جو آپ کب سے دل میں دبائے بیٹھے ہیں اور آپ کے پاس لوگوں سے لڑنے جھگڑنے کا وقت نہیں ہوگا۔

    اس خیال کو سوچتے ہوئے اپنے پسندیدہ کام کریں، نئے دوست بنائیں، تفریحی مقامات پر جائیں، کتابیں پڑھیں، پرانے دوستوں سے رابطہ کریں، غرض ہر وہ کام کریں جو آپ اپنی زندگی میں کرنا چاہتے ہیں۔

    ان سرگرمیوں میں مصروف ہو کر آپ کے پاس سوچنے، منصوبہ بندی کرنے اور اس کے منفی پہلوؤں پر نظر رکھنے کا وقت کم ہوگا۔

    رسک لیں

    ہم اپنی زندگی میں بہت سے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے خوف یا ’لوگ کیا کہیں گے‘ کی وجہ سے انہیں نہیں کر پاتے۔ اس خوف کو نکال پھینکیں اور رسک لیں۔ وہ کام کریں جو پہلے کبھی نہیں کیے۔

    بالوں اور ڈریسنگ کا نیا انداز اپنائیں، نئے کھانے چکھیں، اسکوبا ڈائیونگ کریں۔ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھائیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی کام ہی کیا جائے۔

    بائیک رائیڈنگ، سائیکلنگ، جمنگ، یوگا یا تیراکی وغیرہ بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کھانا پکانا سیکھنا چاہتے ہیں تو فارغ وقت میں یہ کام کریں۔ دراصل یہ تمام کام آپ کو مصروف رکھیں گے اور آپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ آپ باتوں کو بار بار سوچیں اور ان کے منفی مطالب نکالیں۔

    توقعات کو کم کریں

    لوگوں سے اپنی توقعات لگانا کم کردیں۔ آج کل کی مصروف زندگی میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ آپ کو خصوصی طور پر وقت دے۔

    خود بھی لوگوں کی ہر وقت مدد کرنا اور ان کے کام آنا چھوڑ دیں کیونکہ بدلے میں آپ بھی ان سے اسی کی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو آپ ذہنی دباؤ اور اداسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنا اور سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیں۔ ہنسیں مسکرائیں، زندگی کے معمولی لمحات سے لطف اٹھائیں اور خوش باش رہیں۔

  • وہ شے جو دولت سے بھی زیادہ خوشی دے سکتی ہے

    وہ شے جو دولت سے بھی زیادہ خوشی دے سکتی ہے

    ایک عام خیال ہے کہ دولت انسان کو بہت سی خوشیاں دے سکتی ہے، لیکن کیا واقعی یہ بات درست ہے؟

    نیویارک کی کورنل یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دولت سے انسان کی زندگی میں آنے والی خوشی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، تاہم ایک شے ایسی ہے جو دولت سے بھی زیادہ کسی انسان کو خوش باش بنا سکتی ہے۔

    وہ شے ہے، سیر و سیاحت کرنا۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ دولت، اور دولت سے خریدی جانے والی اشیا خوشی تو دے سکتی ہیں، تاہم یہ خوشی عارضی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سیاحت آپ کی خوشگوار یادوں میں ایک اضافہ ثابت ہوتی ہے اور ہمیشہ آپ کو خوش کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر بار نئی چیزیں خریدنے کی خوشی یکساں ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ماند پڑتی جاتی ہے۔

    اس کی 3 وجوہات ہیں۔ ہم جلد ہی ان چیزوں سے بور ہو کر نئی چیزوں کے شوق میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ہم اپنا معیار بلند کرتے جاتے ہیں یا اس کی خواہش رکھتے ہیں (جس کے بعد وہ شے ہمارے لیے بے معنی ہوجاتی ہے) اور ہم دوسروں کی اشیا دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    یہ چیزیں کچھ عرصہ تو ہمیں خوش رکھتی ہیں اس کے بعد ہم اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہماری خوشی کا گراف نیچے چلا جاتا ہے۔

    اس کے برعکس سفر اور سیاحت ہمیں مستقل طور پر خوش رکھتا ہے۔ جب ہم اپنے پرانے ماحول سے کچھ عرصے کے لیے کٹ کر نئے ماحول میں جاتے ہیں، نئے لوگوں سے ملتے ہیں اور نئی چیزیں سیکھتے ہیں تو ہمارا دماغ ان تمام معلومات کو جذب کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔

    ایسے میں دماغ میں موجود منفی خیالات، ناخوشی اور ڈپریشن کی سطح بہت نیچے چلی جاتی ہے اور دماغ نئے سرے سے تازہ دم ہوجاتا ہے۔ اس سفر کی یادیں ہر بار یاد کرنے پر خوشی کا احساس ہوتا ہے جبکہ یہ یادیں ناقابل فراموش ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نہ صرف سفر کرنا بلکہ کچھ نیا سیکھنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا بھی آپ کو مادی اشیا کے حصول سے زیادہ خوش کرسکتا ہے۔

    آپ اس تحقیق سے کتنے متفق ہیں؟

  • کافی عمر میں اضافے کی وجہ

    کافی عمر میں اضافے کی وجہ

    کافی پینے کے یوں تو بے شمار فوائد ہیں تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کافی پینا آپ کی عمر میں بھی اضافہ کرسکتا ہے۔

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق دن میں 1 سے 8 کپ کافی پینے والے افراد کی عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی شخص کا جسم کیفین جذب کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم وہ افراد جن کا جسم کم یا آہستہ کیفین جذب کرتا ہے انہیں بھی کافی کے تمام فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کافی پینے کے ساتھ قیلولہ کیا جائے تو آپ کی مستعدی میں اضافہ ہوگا اور آپ خود کو زیادہ چاک و چوبند محسوس کریں گے۔

    ماہرین اسے ’نیپ۔چینو‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف قیلولہ کرنا یعنی کچھ دیر سونا یا صرف کافی پینا سستی و غنودگی بھگانے کے لیے کافی نہیں۔

    اگر آپ دونوں کو ایک ساتھ استعمال کریں گے تو دگنا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کافی پینے کے بعد 20 منٹ کا قیلولہ آپ کو پہلے سے زیادہ چاک و چوبند بنادے گا۔

  • ریٹائرمنٹ کا حیران کن فائدہ

    ریٹائرمنٹ کا حیران کن فائدہ

    کیا بہت سے لوگوں کی طرح آپ بھی ریٹائرمنٹ کو اپنی متحرک زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے؟ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    آسٹریلیا سے شائع ہونے والے جریدے ’ایج اینڈ ایجنگ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جب لوگ مکمل طور پر کام کرنا بند کردیتے ہیں تو اس کے ایک سال بعد وہ زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    اس سے قبل ریٹائرمنٹ کے بعد خوشی کے بارے میں متضاد آرا تھیں۔ بعض ماہرین کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا ختم ہوجاتا ہے اور زندگی میں کچھ کرنے کا مقصد نہیں رہتا جو انسان میں بیزاری پیدا کرتا ہے۔

    دوسرے گروپ کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ وہ کام کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں جو وہ ساری عمر کرنا چاہتے ہیں پر کر نہیں پاتے۔

    اس بارے میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، ’ممکن ہے ریٹائرمنٹ کے بعد خوش رہنے کی وجہ یہ ہو کہ ہم اپنے روزمرہ کے کاموں کو زیادہ اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں اور ہمیں کسی چیز کی جلدی نہیں ہوتی‘۔

    تحقیق میں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ ریٹائرڈ افراد ریٹائرمنٹ سے پہلے جو کام کرتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ کام کرنے میں نہایت خوشی محسوس کرتے ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ ریٹائرڈ افراد نے جب جسمانی یا سماجی سرگرمی میں حصہ لیا تو وہ زیادہ خوش اور مطمئن پائے گئے جبکہ گھر کے یا دیگر کام کرنے والے افراد نسبتاً کم مطمئن تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خوش رہنے کا تعلق نیند پوری ہونے سے بھی دیکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق کل وقتی نوکری سے ریٹائر ہونے والے افراد نے اگر کوئی جز وقتی ملازمت بھی کی تو اس سے ان کی خوشی میں اضافہ ہوا اور وہ اس نوکری سے لطف اندوز ہوتے دیکھے گئے۔

    اس بارے میں کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر کینتھ شلٹز کا کہنا ہے، ’جب لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد کام کرتے ہیں تو ان کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ آپ کیریئر کے معاملے میں دباؤ کا شکار نہیں ہوتے نہ ہی آپ کو دوڑ میں آگے نکلنے کی فکر ہوتی ہے‘۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے قریب ہوتے ہیں انہیں اضافی کام کرنا بوجھ معلوم ہوتا ہے اور اس سے ان کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے زندگی کی 93 ویں بہاریں‌ دیکھ لیں

    ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے زندگی کی 93 ویں بہاریں‌ دیکھ لیں

    لندن : برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم کی 93 ویں سالگرہ کے موقع پر لندن میں دن کا آغاز اکتالیس توپوں کی سلامی سے ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کی 93 ویں سالگرہ کے موقع پر برطانیہ میں دن کا آغاز 41 توپوں کی سلامی سے کیا گیا تھا، ملکہ برطانیہ نے دن کے آغاز پر گرے سے رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔

    ملکہ الزبتھ کی 93 ویں سالگرہ پر رائل ایئر فورس کے ہوائی جہازوں نے لندن کی فضا میں قوس قزاح کے رنگ بکھیرے، فلائی پاسٹ میں بیس سے زائد طیاروں نے شرکت کی جن میں جدید جنگی اور تاریخی طیارے بھی طیارے بھی شامل تھے۔

    ملکہ ایلزبتھ شاہی بگھی میں سوار ہوکر میدان میں آئیں تو بینڈ باجوں سے آؤ بگھت کی گئی، شاہی دستے نے ملکہ کو سلامی دی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ملکپ برطانیہ کو سلامی دینے کےلیے کی جانے والی پریڈ میں چودہ سو فوجیوں نے حصّہ لیا جبکہ کنگ بٹالین رائل ہارس آٹلری نے گرین پارک میں 41 توپوں کی سلامی دی۔

    ملکہ برطانیہ کی 93 ویں سالگرہ کے موقع پر ریاست ویلز کے شہزادے چارلس، کارنوال کی شہزادی کامیلا، کیمبرج کے شہزادے پرنس اور شہزادی کیٹ مڈلٹن اور سُسکس کے شہزادی میگھن مرکل و شہزادے ہیری نے شرکت کی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شہزادہ ہیری اور میگھن مرکل چار ہفتے قبل دنیا میں آنکھ کھولنے والے بیٹے آرچی کی پیدائش کے بعد پہلی مرتبہ عوام کے سامنے آئے ہیں۔