Tag: زچگی

  • سعودی عرب میں خواتین ملازمین کے لیے بڑی خوشخبری

    سعودی عرب میں خواتین ملازمین کے لیے بڑی خوشخبری

    سعودی عرب میں خواتین ملازمین کے لیے خوشی کی خبر سامنے آگئی، سوشل انشورنس کے جنرل ادارے کی جانب سے حکومتی اور نجی شعبے میں ملازم خواتین کو زچگی کے موقع پر بیمہ پالیسی کے تحت تین ماہ کی تنخواہ ادا کیے جانے کے قانون پر یکم جولائی سے عمل درآمد کردیا گیا۔

    عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق سوشل سکیورٹی انشورنس پالیسی کے حوالے سے شاہی قانون کی منظوری دو جولائی 2024 کو دی گئی تھی۔

    رپورٹس کے مطابق سوشل سکیورٹی ادارے کی جانب سے بیمہ پالیسی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ خواتین جنہوں نے کام کا آغاز 3 جولائی 2024 کے بعد کیا تھا اور وہ اس سے قبل سوشل بیمہ پالیسی میں شامل نہیں، انہیں اس سکیم کے تحت الاؤنس جاری کیا جائے گا۔

    رپورٹس کے مطابق سعودی اورغیرملکی ملازم خواتین کے لیے زچگی الاؤنس برابر ہوگا جنہوں نے سعودی عرب میں اس تاریخ کے بعد ملازمت کا آغاز کیا ہے۔

    زچگی الاونس قانون کی شرائط کے مطابق ولادت کے فوری بعد سے تین ماہ تک ادا کیا جائے گا جو 100 فیصدہ ماہانہ اجرت کے برابر ہوگا، الاؤنس میں ایک ماہ کے لیے مشروط اضافہ ممکن ہے اگر نومولود بیمار یا معذور ہو۔

    بیمہ الاؤنس کا مقصد فریقین یعنی آجر و اجیر کے حقوق کا تحفظ ہے تاکہ کسی کوئی ایک زیر بار نہ ہو اور کارکن خواتین بھی اضافے دباؤ میں نہ آئیں۔

    سماجی بیمہ سکیم کے لیے تین بنیادی شرائط جاری کی گئی ہیں جن میں بنیادی شرط ہے کہ خاتون برسرروزگار ہو۔

    پالیسی میں شمولیت کا دورانیہ کم از کم 12 ماہ پرمشتمل ہو۔ پالیسی میں شمولیت سے لے کر زچگی تک کا دورانیہ 6 ماہ سے کم نہ ہو۔

    دبئی میں مردوں سے زیادہ خواتین کے ڈرائیونگ لائسنس

    رپورٹس کے مطابق بیمہ پریمیم یا الاؤنس کے لیے کسی قسم کی کاغذی یا ڈیجیٹل درخواست جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    سماجی بیمہ پالیسی کے مطابق زچہ کے کیس کی فائل براہ راست وزارت صحت سے بیمہ پالیسی کو ارسال کی جائے جس کی اطلاع کارکن خاتون اور آجر کو دی جائے۔

  • سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    ماں بننا اور ایک نئی زندگی کو جنم دینا جہاں زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آتا ہے، وہیں اس بات کا بھی متقاضی ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے کو نہایت احتیاط اور خیال کے ساتھ گزارا جائے تاکہ ماں اور آنے والا بچہ دونوں صحت مند رہیں۔

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے جس کی وجہ حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی، غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    بعض خواتین اپنی مرضی سے سیزیرین آپریشن بھی کرواتی ہیں تاکہ انہیں اذیت ناک تکلیف اور گھنٹوں تک بے چینی نہ سہنی پڑے اور وہ جلد اس مرحلے سے گزر جائیں تاہم یہ چند گھنٹوں کا ریلیف مستقبل میں انہیں بے شمار طبی مسائل سے دو چار کردیتا ہے، علاوہ ازیں آپریشن سے ہونے والی ڈلیوری کے بعد صحت یابی میں بھی نارمل ڈلیوری کی نسبت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ان کے مطابق خواتین کو نارمل ڈلیوری کے لیے حمل کے دوران مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    ذہنی تناؤ سے دور رہیں

    حمل کے دوران ذہنی تناؤ سے دور رہنا اور خوش رہنا بے حد ضروری ہے۔ ذہنی دباؤ اور ٹینشن نہ صرف بچے کی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ حمل کے عرصے کو بھی مشکل بنا سکتا ہے جس کا نتیجہ ایک تکلیف دہ ڈلیوری کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حمل کے عرصے کے دوران مراقبہ کریں، میوزک سنیں، کتابیں پڑھیں اور وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔

    ایسے لوگوں کی کمپنی میں بیٹھیں جو آپ کے ذہن پر خوشگوار تاثر چھوڑیں۔

    ایسی خواتین سے بالکل دور رہیں جو اپنی زچگیوں کے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے، بھیانک قصے سنا کر آپ کو ٹینشن میں مبتلا کردیں۔ ایسی خواتین آپ کی ڈلیوری کو بھی ایک بھیانک عمل بنا سکتی ہیں۔ جب بھی آپ کا واسطہ کسی ایسی خاتون سے پڑے تو اس سے دور ہوجائیں اور اس سے ملنے جلنے سے گریز کریں۔

    مزید پڑھیں: حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    حمل کے دوران آپ کے ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا آپ کی ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دے گا۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن آپ کی ڈلیوری کو آپ کی زندگی کا بدترین وقت بناسکتا ہے۔

    معلومات حاصل کریں

    حمل اور بچے کی پیدائش کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس کے لیے اپنی ڈاکٹر، والدہ اور نانی یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ حمل کے دوران کون سی غذائیں اور کام آپ کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر کا انتخاب

    پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جہاں ڈاکٹرز زیادہ پیسے لینے کے لیے بچے کی پیدائش سی سیکشن کے ذریعے کروانے پر زور دیتے ہیں۔

    ایسے ڈاکٹرز کو جب اپنا مقصد ناکام ہوتا نظر آئے تو یہ لیبر روم سے باہر آ کر ایک مصنوعی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس سے اہل خانہ کو تاثر جاتا ہے کہ ان کی بیٹی اور ہونے والے بچے کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں بچانے کا واحد حل صرف سیزیرین آپریشن ہی ہے۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی معتبر، جانے پہچانے اور قابل اعتبار ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بدنام اسپتالوں اور ڈاکٹرز کے پاس جانے سے گریز کریں۔

    حمل کے آخری چند ہفتوں کی صورتحال اس بات کا تعین کردیتی ہے کہ بچہ نارمل ہوگا یا آپریشن سے، اس صورتحال سے ان تمام افراد کو آگاہ رکھیں جو عین وقت میں آپ کے ساتھ اسپتال میں ہوں گے۔

    حمل کے آخری مہینے میں اپنی ڈاکٹر کے علاوہ ایک دو اور ڈاکٹرز کے پاس جا کر بھی چیک اپ کروایا جاسکتا ہے تاکہ متنوع آرا معلوم کی جاسکیں۔

    یاد رکھیں، ماں بننا اور اس عمل میں ہونے والی تکلیف ہونا ایک معمول کا عمل ہے۔ قدرتی طریقے سے ہونے والی ولادت ماں کو جلد صحت یاب کردیتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے یعنی آپریشن سے ہونے والی پیدائش طویل المدت نقصانات کا باعث بنتی ہے۔

  • نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    امریکا میں گزشتہ چند دہائیوں میں زچگی کے دوران خواتین کی موت کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجوہات میں طبی عملے کی غفلت اور نسلی امتیاز جیسے حیران کن عوامل شامل ہیں۔

    امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا میں بسنے والی سیاہ فام خواتین میں حمل کے دوران موت کا خطرہ، سفید فام خواتین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سیاہ فام طبقے کے لیے طبی عملے کی لاپرواہی اور ان کی کمزور معاشی حالت ہے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام طبقے کو طبی عملے کا امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    زچگی کے دوران خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات صرف سیاہ فام خواتین تک ہی محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام امریکی ماؤں کے لیے حمل کے دوران خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر امریکی عورت کو حمل کے دوران، اپنی والدہ کے مقابلے میں 50 فیصد زائد سنگین طبی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل زچگی کے دوران اموات کی وجہ زیادہ خون بہنا اور انفیکشن ہوتا تھا، تاہم اب امریکی مائیں موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب، اور سی سیکشن کی شرح میں اضافے کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر سنہ 1990 سے 2015 کے دوران زچگی کے دوران ماؤں کی اموات میں 44 فیصد کمی آچکی ہے تاہم امریکا میں اس شرح میں اضافہ ہوا۔ امریکا میں چند دہائی قبل 1 لاکھ میں سے 12 ماؤں کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق ہوتا تھا تاہم اب یہ تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    رپورٹ میں ماہرین نے زچگی کے بعد ماؤں کے لیے طبی عملے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کی طرف ڈاکٹرز کی توجہ کم ہوجاتی ہے نتیجتاً وہ چھوٹے موٹے طبی مسائل جن پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، سنگین صورت اختیار کر کے جان لیوا بن جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ایک طرف تو حاملہ ماؤں کو صحت مند طرز زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، دوسری طرف طبی عملے کو بھی اس بات کی تربیت دی جائے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آخری وقت تک ماں اور بچے دونوں کو توجہ دی جائے۔

  • ان جانوروں کی خطرناک زچگی کے بارے میں جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

    ان جانوروں کی خطرناک زچگی کے بارے میں جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

    حمل اور ایک نئی زندگی کو جنم دینا ایک نہایت تکلیف دہ عمل ہے جو ماں کو سہنا پڑتا ہے، یہ عمل موت کے منہ سے واپس آنے کے برابر ہے۔

    پیدائش کی یہ اذیت صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں، جانوروں کی مادائیں بھی اس اذیت سے یکساں طور پر گزرتی ہیں اور زمین پر کچھ جانور ایسے بھی ہیں جن کی پیدائش کا عمل اس قدر خطرناک اور ماں کے لیے اس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے جسے جان کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

    کیوی کی ہی مثال لے لیجیئے۔ نیوزی لینڈ کا مقامی پرندہ کیوی کی مادہ جب انڈہ دیتی ہے تو وہ اس کی اپنی جسامت کے 20 فیصد حصے جتنا ہوتا ہے۔

    کیوی

    اسی طرح شنگل بیک لزرڈ (چھپکلی کی ایک قسم) ایک وقت میں ایک سے 2 بچے جنم دیتی ہے۔ یہ دونوں بچے ماں کے جسم کے ایک تہائی فیصد حصے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انسان کا 7 سالہ بچہ جنم لے۔

    شنگل بیک لزرڈ

    ایک اور جانور جسے ہم کانٹوں والا چوہا کہتے ہیں، پیدائش کے وقت نہایت مشکل صورتحال سے دو چار ہوجاتا ہے۔

    کانٹوں والے چوہے کے سخت کانٹے اسے دشمن سے بچاتے ہیں تاہم اس کے بچے بھی دوسرے جانوروں کی طرح صرف گوشت کے ٹکڑے نہیں ہوتے۔ ان بچوں میں پیدائش کے وقت سے ہی کانٹے موجود ہوتے ہیں گو کہ وہ نرم ہوتے ہیں اور پیدائش کے چند گھنٹوں بعد سخت ہونے لگتے ہیں۔

    کانٹوں والا چوہا

    تاہم اس وقت صورتحال بگڑ جاتی ہے جب یہ بچے الٹی سمت میں ماں کے جسم سے باہر آتے ہیں۔ اس وقت یہ کانٹے ماں کے رحم میں پھنس سکتے ہیں جس سے وہ سخت اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

    لکڑ بگھے کی مادہ کے حمل کا عضو اس کے جسم سے باہر منسلک ہوتا ہے جو پیدائش کے دوران اکثر اوقات دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔

    لکڑ بگھا

    زچگی کا عمل مادہ کے لیے نہ صرف تکلیف دہ بلکہ اکثر اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے، 15 فیصد مادہ لکڑ بگھے پہلے حمل کے دوران موت سے ہمکنار ہوجاتی ہیں۔

    تسمانیہ ڈیول نامی جانور ایک وقت میں 50 بچوں کو جنم دیتا ہے مگر ان کی جسامت نہایت مختصر ہوتی ہے۔ یہ ماں کے رحم سے سفر کرتے ہیں اور اس کے کیسے (کینگرو کی طرح جھولی) میں پہنچتے ہیں جہاں یہ اگلے 4 ماہ گزارتے ہیں۔

    تسمانیہ ڈیول

    مگر ان کی ماں ایک وقت میں صرف 4 بچوں کو دودھ پلا سکتی ہے چنانچہ وہی 4 بچے زندہ بچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو دیگر بچوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔

  • سعودی طالبہ کے ہاں پرچہ دینے کے فوراً بعد بچے کی پیدائش

    سعودی طالبہ کے ہاں پرچہ دینے کے فوراً بعد بچے کی پیدائش

    مدینہ منورہ : سعودی عرب کے ہائی اسکول میں ایک طالبہ نے درد زہ کے ساتھ امتحان میں شرکت کی اور پرچہ مکمل کرکے بچے کو جنم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں رواں ہفتے حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جب ایک لڑکی کو ہائی اسکول کا پرچہ مکمل کرتے ہی میٹرنٹی ہوم منتقل کردیا گیا۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ طالبہ کی شناخت ’نورا‘ کے نام سے ہوئی ہے جو تھرڈ ایئر کا پرچہ دے رہی تھی کہ اچانک اسے زچگی کا درد محسوس ہوا اور کچھ دیر بعد اس کے ہاں بچی کی پیدائش ہوئی۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ابھی تک لڑکی کی عمر معلوم نہیں ہوسکی ہے۔

    لڑکی کی دوست نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم صبح ایک ہی گاڑی میں اسکول آئے تھے اور تب وہ بلکل ٹھیک تھی اور نہ ہی ایسی نشانی تھی کہ وہ بچے کو جنم دیتی۔

    ماں بننے والی طالبہ کی دوست کا کہنا تھا کہ پرچہ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد اسے درد محسوس ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درد زہ میں اضافہ ہوتا رہا لیکن ’نورا‘ نے زچگی کی تکلیف کے ساتھ ہی پرچہ مکمل کیا۔

    لڑکی نے بتایا کہ نورا نے پرچہ دینے کے بعد کلاس سے نکلنے کی کوشش کی لیکن درد کی شدت میں مزید اضافہ ہوچکا تھا جس کے باعث کلاس میں موجود استاد نے ہلال احمر کے عملے کو طلب کیا اور طالبہ کے گھر اطلاع دی۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ میڈیکل عملے ’نورا‘ کو ایمبولینس میں اسپتال لے جارہا تھا کہ راستے میں ہی طالبہ کے گھر ننھی کلی (بیٹی) کی پیدائش ہوگئی، میڈیکل عملہ نے دونوں کو اسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹرز نے زچہ و بچہ کی حالت کو ٹھیک قرار دیا۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ رواں برس ایسا ہی واقعہ ہائی اسکول کی ایک اور لڑکی کے ساتھ پیش آیا جب ایک طالبہ نے کمرہ امتحان میں ہی بچے کو جنم دیا۔

    مذکورہ طالبہ کی شناخت ظہور کے نام سے ہوئی تھی جو انگریزی کا پرچہ دے رہی تھی کہ کمرہ امتحان میں بچے کی پیدائش کے باعث اسے فوری میٹرنٹی ہوم پہنچایا گیا تھا۔

  • غیر ضروری آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک رجحان

    غیر ضروری آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک رجحان

    لندن: ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں خواتین بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری طور پر آپریشن کروانا پسند کرتی ہیں، آپریشن سے بچے کی پیدائش ایک ’عالمی وبا‘ بن گئی ہے۔

    برطانوی میگزین دی لانسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان خواتین میں بھی آپریشن کا رجحان بڑھ گیا ہے جن کے ہاں بچے کی نارمل پیدائش ممکن ہوتی ہے۔

    [bs-quote quote=”غیر ضروری آپریشن کروانے والی زیادہ تر وہ خواتین ہیں جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری آپریشن زیادہ تر خطرناک ثابت ہوتے ہیں، ماہرین کے مطابق اس طرزِ عمل سے زچہ بچہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، نیز ماؤں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    دی لانسیٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نئی صدی کی ابتدا سے پندرہ برسوں میں (2000 تا 2015) آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے عالمی کیسز میں تقریباً دُگنا اضافہ ہوا ہے۔

    غیر ضروری آپریشن کروانے والے ممالک کے سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت اور یونی سیف نے اعداد و شمار اکھٹے کیے، اس کے مطابق ایسے ممالک کی تعداد 169 تھی جہاں مذکورہ رجحان تھا یا اس کے برعکس یعنی آپریشن کی ضرورت ہوتے ہوئے بھی آپریشن نہیں کیے گئے۔


    یہ بھی پڑھیں:  چنیوٹ: لیڈی ڈاکٹر کی فرض شناسی، خاتون نے رکشے میں بچی کو جنم دے دیا


    لانسیٹ کی تحقیق کے مطابق بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری آپریشن کروانے والی زیادہ تر وہ خواتین ہیں جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں سرجری فیشن کا حصہ بن چکی ہے۔

  • ژوب کی خواتین زچگی کے آپریشن مرد ڈاکٹرز سے کروانے پر مجبور

    ژوب کی خواتین زچگی کے آپریشن مرد ڈاکٹرز سے کروانے پر مجبور

    کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع ژوب کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں گائنا کالوجسٹ نہ ہونے کے باعث خواتین زچگی کے پیچیدہ آپریشن مرد ڈاکٹرز سے کروانے پر مجبور ہیں جس کے باعث انہیں شدید نفسیاتی و سماجی مسائل کا سامنا ہے۔

    پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل پی ایم ڈی سی کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے بلوچستان میں 2 ہزار 6 سو 77 مرد جبکہ صرف 18 سو خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں یعنی 3 ہزار افراد کو صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

    بلوچستان کے دوسرے بڑے ضلع ژوب کی آبادی ساڑھے 4 لاکھ سے زائد ہے۔ ژوب ہمیشہ سے مختلف شعبہ جات میں زبوں حالی کا شکار ہے جس میں صحت عامہ کا شعبہ بھی شامل ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    ژوب کے واحد زنانہ اسپتال میں ماہر خاتون ڈاکٹر یا گائنا کالوجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین مرد ڈاکٹروں سے زچگی کے پیچیدہ کیسز کے آپریشن کروانے پر مجبور ہیں۔

    یہ صورتحال یہاں کے مرد و خواتین کے لیے سخت الجھن کا باعث ہے۔ قبائلی علاقہ ہونے کے باعث یہاں خواتین کے لیے روایتی پردہ دار ماحول ہے۔ اس صورتحال میں زچگی کے کیسز بگڑ جانے کے بعد ان کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ مرد ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کریں۔

    دوسری جانب بلوچستان کے وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کو درپیش مسائل ورثے میں ملے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے وزارت سنبھالی اس وقت صرف 5 ضلعی اسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ تھے۔ اب 24 اسپتالوں میں تعینات ہیں لیکن ژوب کا ضلعی اسپتال تاحال محروم ہے۔

    انہوں نے یقین دلایا کہ خواتین کی مشکلات کے پیش نظر بہت جلد ڈی ایچ کیو اسپتال میں گائنا کالوجسٹ کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔

    مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم اس شعبہ میں وہ حکومتی اقدامات سے مایوس نظر آتے ہیں۔