Tag: زیر زمین پانی

  • زیر زمین پانی کتنا مضر صحت ہے؟ اہم حقائق بے نقاب

    زیر زمین پانی کتنا مضر صحت ہے؟ اہم حقائق بے نقاب

    قومی اسمبلی میں وزارت آبی وسائل کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے 29 شہروں کا زیر زمین 61 فیصد پانی مضر صحت ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزارت آبی وسائل کے مطابق پاکستان میں پینے کے پانی کے 50 فیصد سے زائد ذرائع مائیکروبیل یا کیمیائی آلودگی کی وجہ سے غیر محفوظ پائے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ انکشاف محکمے کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔ 61 فیصد پانی کے ذرائع بنیادی طور پر مائیکروبیل آلودگی کے باعث پینے کے لیے غیر محفوظ ہیں، جبکہ 50 فیصد پانی کے ذرائع کیمیائی آلودگی کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں۔

    وزارت آبی وسائل کے مطابق بہاولپور میں 76 فیصد، فیصل آباد میں 59 فیصد، ملتان میں 94 فیصد، سرگودھا میں 83 فیصد، شیخوپورہ میں 60 فیصد، ایبٹ آباد اور خضدار میں 55 فیصد، کوئٹہ میں 59 فیصد پانی غیر محفوظ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی کا زیر زمین پانی 93 فیصد اور سکھر میں 67 فیصد پانی پینے کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

    دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق 2040 تک پانی کی کمی کا خدشہ ہے پاکستان کے شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کی شرح 3.65 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

    اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کی شرح دیہی علاقوں کی نسبت دگنی ہے،2050تک پاکستان کی آبادی 40کروڑ تک تجاوز کر جائے گی، جس کے باعث شہروں میں بنیادی سہولت کا فقدان بڑھے گا۔

    ماریہ میمن نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور حکمران اپنی بقا کی جنگ میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کا دھیان اس طرح کے بنیادی مسائل کی جانب نہیں ہوتا گزشتہ انتخابات کے دوران بڑے بڑے دعوے کیے گئے لیکن کسی جماعت کی جانب سے اس بات کا ذکر تک نہیں سنا گیا کہ ملک میں زیر زمین پانی مضرصحت یا کم ہورہا ہے اس پر ان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

  • ملک کے 29 شہروں کے زیر زمین پانی سے متعلق خوفناک انکشاف

    ملک کے 29 شہروں کے زیر زمین پانی سے متعلق خوفناک انکشاف

    اسلام آباد: وزارت آبی وسائل نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران خوفناک انکشاف کیا ہے کہ ملک کے 29 شہروں کا زیر زمین 61 فی صد پانی مضر صحت ہے۔

    وزارت آبی وسائل کے مطابق پاکستان میں پینے کے پانی کے 50 فی صد سے زائد ذرائع مائیکروبیل یا کیمیائی آلودگی کی وجہ سے غیر محفوظ پائے گئے ہیں، یہ انکشاف محکمے کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا۔

    61 فی صد پانی کے ذرائع بنیادی طور پر مائیکروبیل آلودگی کے باعث پینے کے لیے غیر محفوظ ہیں، جب کہ 50 فی صد پانی کے ذرائع کیمیائی آلودگی کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں۔

    وزارت آبی وسائل کے مطابق بہاولپور میں 76 فی صد، فیصل آباد میں 59 فی صد، ملتان میں 94 فی صد، سرگودھا میں 83 فی صد، شیخوپورہ میں 60 فی صد، ایبٹ آباد اور خضدار میں 55 فی صد، کوئٹہ میں 59 فی صد پانی غیر محفوظ ہے۔

    کراچی کا زیر زمین پانی 93 فی صد، اور سکھر میں 67 فی صد پانی پینے کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

  • بورنگ سے زیر زمین پانی نکالنے کا ہولناک انجام کیا ہے؟

    بورنگ سے زیر زمین پانی نکالنے کا ہولناک انجام کیا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ جب ہم بورنگ سے پانی نکالتے ہیں تو زمین کے گردشی محور کو تبدیل کرنے کا سبب بنتے ہیں؟ سوچیں، ہم اپنے ہاتھوں زمین کو ایک بڑی تباہی کی طرف کس طرح دھکیل رہے ہیں۔

    ماہرین کی رائے ہے کہ دنیا بھر میں پانی کے زیر زمین ذخائر کے کثرت استعمال سے زمین کا گردشی محور اسی 80 سینٹی میٹر مشرق کی طرف سرک گیا ہے، جس سے زمین کے محور کے گرد گردش متاثر ہو رہی ہے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کے ماہر کلارک آر ولسن نے زیر زمین پانی کے استعمال پر تحقیق کی ہے ان کے مطابق یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے کہ تحقیق کے 17 سال کے عرصے میں زمین سے تقریباً 2100 گیگا ٹن پانی نکالا گیا، جس کے نتیجے میں عالمی سمندروں میں پانی کی سطح میں 1.3 ملی میٹر سالانہ کی شرح سے اضافہ بھی ہوا۔

    اس تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں پانی نکالے جانے کا اثر زمین کے گردشی محور پر بھی پڑا، جو اب 80 سینٹی میٹر مشرق کی جانب سرک چکا ہے۔

    ولسن کے مطابق اگرچہ ماحولیاتی تبدیلیوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سطح سمندر میں اضافے سے بھی زمین کی اس کے محور کے گرد گردش میں تبدیلیاں آتی ہیں، تاہم یہ امر پہلی مرتبہ باقاعدہ اور درست اعداد و شمار کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ حد سے زیادہ گراؤنڈ واٹر پمپنگ بھی زمین کی اس کے محور کے گرد گردش کو متاثر کر رہی ہے۔

    دنیا بھر میں کئی دہائیوں سے خشک سالی اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین سے پانی نکالے جانے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ جس سے بہت سے علاقوں میں زمین کی گہرائی میں پانی کی سطح اس حد تک گر چکی ہے کہ بورنگ سے بھی پانی نکالنا ممکن نہیں رہا۔

    زمینی پانی کے نکالے جانے اور زمین کی گردش میں تعلق؟

    اس تحقیق کے مصنف کی ویون سیو کے مطابق زمین کی اس کے محور کے گرد گردش کو قطبی گردش بھی کہا جاتا ہے۔ زمین پر مادے کی تقسیم میں ہونے والی تبدیلیاں اس گردش کا سبب بنتی ہیں، جس سے زمین کے قطبین  کی پوزیشن میں بھی وقت کے ساتھ تغیر آتا رہتا ہے اور یہ ایک بالکل قدرتی عمل ہے۔

    مگر پچھلی تین دہائیوں سے زمین کے گردشی محور میں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ انسانی عمل و دخل ہے۔

    پاکستان میں صورت حال کیسی ہے اور پاکستان میں زمین سے کتنا پانی نکالا جا رہا ہے؟

    2020 میں ملٹی ڈسپلنری ڈیجیٹل پبلشنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں زیر زمین پانی کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں استعمال ہونے والے کل پانی کا 60 فی صد گراؤنڈ واٹر پمپنگ یا بورنگ سے حاصل کیا جاتا ہے۔

    زیر زمین پانی پر تحقیق کے ماہر اسد سرور قریشی کے مطابق پاکستان میں زیر زمین پانی کے استعمال کا آغاز 1960 میں ہوا تھا جب ٹیوب ویلوں کی مدد سے زیر زمین پانی نکالا جانے لگا، جس کا مقصد فصلوں کو سیراب کرنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1960 تک ملک بھر میں ان ٹیوب ویلوں کی تعداد محض 30 ہزار تھی، جو 2018 تک درجنوں گنا زیادہ ہو کر 12 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔

    اسد سرور قریشی کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹیوب ویلوں سے پانی بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے نکالا جا رہا ہے، جس سے بہت سے انتہائی سنجیدہ ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا ہے۔

    آب پاشی کے لیے دنیا بھر میں زمین سے پانی نکالا جاتا ہے مگر وہاں زیر زمین پانی کے استعمال کا طریقہ کار موجود ہے مگر پاکستان میں زیر زمین پانی بغیر کسی منصوبہ بندی کے بورنگ کے ذریعے نکالنے سے زمین کھوکھلی ہو رہی ہے۔ آبادی میں اضافہ اور پانی کی طلب کی بنا پر پچھلے چند سالوں سے زیر زمین پانی کو بورنگ کے ذریعے نکالنے میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو ماحولیات اور زمین پر موجود درختوں اور سبزے کی بقا کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔

    پاکستان کے واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 12.5 ہارس پاور کا ایک شمسی ٹیوب ویل روزانہ 35 ہزار گیلن پانی زمین سے نکالتا ہے، یہ شرح 1.5 کیوسک ماہانہ بنتی ہے، جو انتہائی حد تک زمین کے تحفظ کے لیے تشویش ناک ہے۔

  • پنجاب میں زیر زمین پانی کے درست ڈیٹا کے حصول کے لیے فریم ورک کی تشکیل

    پنجاب میں زیر زمین پانی کے درست ڈیٹا کے حصول کے لیے فریم ورک کی تشکیل

    لاہور: صوبہ پنجاب میں زیر زمین پانی سے متعلق ڈیٹا اور معلومات کی عدم دستیابی زرعی پیداوار میں کمی کا سبب بن رہی ہے جس کے حوالے سے ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے، زیر زمین پانی کے درست ڈیٹا کے حصول کے لیے مختلف منصوبوں پر بھی کام کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں پنجاب کے آبی وسائل کے حوالے سے مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا، انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ اس پروگرام میں سرکاری حکام، پالیسی سازوں اور تعلیمی اداروں کے ماہرین نے شرکت کی۔

    پروگرام میں آبی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے ماحول دوست اور پائیدار حل پر گفت و شنید کی گئی۔

    آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر محسن حفیظ کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس سندھ طاس معاہدے کے لیے سطح پر موجود پانی کی معلومات ہیں لیکن زیر زمین پانی کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، معلومات کی عدم دستیابی زیر زمین پانی کو منظم کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نیشنل واٹر اکاؤنٹنگ فریم ورک کی تشکیل سے حکومت کو بھی آبی وسائل کے بارے میں حتمی معلومات موصول ہوں گی جس سے فیصلہ سازی کا عمل آسان ہوگا۔

    یہ فریم ورک انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور WRAP کے تعاون سے تیار کیا جارہا ہے۔

    اس منصوبے کے تحت صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں چکوال، رحیم یار خان اور شیخوپورہ میں ایڈی کوورینس فلکس ٹاورز کی تنصیب بھی کی جائے گی جس سے زراعت میں پانی کے استعمال اور کاربن اخراج سے متعلق ڈیٹا حاصل ہوگا۔

    ڈاکٹر مقصود احمد نے کہا کہ اگر ایک کسان زراعت میں پانی کے استعمال کا حساب کتاب نہیں کر رہا تو وہ زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کرسکے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک نئے منصوبے کے تحت پنجاب بھر کے 72 واٹر کورسز کو واٹر اکاؤنٹنگ اور بجٹنگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے جہاں تمام کسانوں کو تکنیکی مدد فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنے فارمز میں موجود آبی وسائل کو درست طور پر استعمال کرسکیں۔

  • مستقبل میں زیر زمین پانی کی دستیابی: اوکاڑہ میں سائنسی تحقیق کا آغاز

    لاہور: صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں زیر زمین پانی کے استعمال اور مستقبل میں اس کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے سائنسی تحقیق کا آغاز کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ پاکستان نے ضلع اوکاڑہ میں ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا جس کا مقصد پانی کے موجودہ استعمال اور مستقبل میں اس کی یقینی دستیابی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔

    ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ماہر ماحولیات ڈاکٹر محسن حفیظ کا کہنا تھا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کی مالی معاونت سے ہمارا ادارہ آبی قوانین اور پالیسیوں کے بہتر عمل درآمد کو یقینی بنا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فی الحال ضلع اوکاڑہ مں زیر زمین آبی ذخائر اور مستقبل میں اس کی یقینی دستیابی کے لیے مختلف سائنسی تحقیقات اور تجربات کا آغاز کیا گیا ہے، ان تجربات کی روشنی میں پورے پنجاب میں آبی پالیسیوں کے بہتر درآمد میں مدد ملے گی۔

    ماحول اور جینڈر اسپیشلسٹ کنول وقار کا کہنا تھا کہ آبی معامات میں خواتین، نوجوانوں اور معاشرے کے محروم طبقات کی شمولیت بے ضروری ہے۔

    ورکشاپ میں مختلف آبی چیلنجز اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

  • سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گی

    سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گی

    آج دنیا بھر میں عالمی یوم آب منایا جارہا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر آبی ذخائر میں خطرناک کمی آتی جارہی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کو زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) سے منسوب کیا گیا ہے، زمین کے نیچے موجود پانی، سطح پر موجود پانیوں کی روانی کو برقرار رکھتا ہے اور زراعت اور شجر کاری کے پھلنے پھولنے میں مدد دیتا ہے۔

    زیر زمین پانی ۔ مال مفت دل بے رحم

    گزشتہ چند دہائیوں میں سطح پر موجود پانی کی کمی کی وجہ سے، بے تحاشہ زیر زمین پانی نکالا جاچکا ہے جس کے باعث اب اس کی کمی واقع ہونے لگی ہے۔

    اقوام متحدہ انوائرنمنٹ پروگرام کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی انسانوں، جانوروں اور نباتات کے لیے فراہمی آب کا اہم ذریعہ ہے لیکن اس کا بے تحاشہ اور غیر محتاط استعمال باعث تشویش ہے جبکہ انسانی سرگرمیاں اسے آلودہ بھی کر رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کسی شہر میں کئی دہائیوں تک زمینی پانی یعنی گراؤنڈ واٹر نکالا جاتا رہے تو اس شہر کی زیر زمین سطح کسی حد تک کھوکھلی اور غیر متوازن ہوجاتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت جنوبی ایشیا میں زراعت کے لیے استعمال ہونے والا 90 فیصد پانی زمین سے نکالا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر ممالک میں کنویں اور دیگر آبی ذخائر خشک ہوتے جارہے ہیں۔

    پاکستان میں بھی دیہی علاقوں میں پینے کا 90 فیصد پانی زیر زمین ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ دیگر ملک میں یہ شرح 70 فیصد ہے، علاوہ ازیں زراعت میں استعمال ہونے والا 50 فیصد پانی بھی زمین سے نکالا جاتا ہے۔

    پاکستان زراعت کے لیے زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں اس وقت 12 لاکھ سے زائد ٹیوب ویلز زمین سے پانی کھینچ رہے ہیں۔

    زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کا قدرتی ذریعہ باقاعدگی سے بارشیں ہونا ہے تاہم بدلتے ہوئے موسموں یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے بارشوں کے پیٹرنز میں تبدیلی اور کمی اس اضافے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

    واٹر ایڈ پاکستان کے مطابق زیر زمین پانی کی بحالی کے، جسے ری چارج کرنا کہا جاتا ہے اور بھی کئی طریقے ہیں جن میں سائنسی بنیادوں پر سسٹمز انسٹال کیے جاتے ہیں، علاوہ ازیں سینی ٹیشن کا پانی بھی ٹریٹ کرنے کے بعد زمین میں بھیجا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس کا بے قاعدہ اور بے تحاشہ استعمال ہے، پاکستان میں بغیر کسی قواعد و ضوابط کے زیر زمین پانی استعمال کیا جارہا ہے اور صوبائی و وفاقی حکومتیں اس ضمن میں تاحال کوئی جامع پالیسی اور قوانین مرتب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

    بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ملک میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے جس سے قلت آب کے دہانے پر کھڑا ملک مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔

    پاکستان میں پانی کی مجموعی صورتحال

    زیر زمین پانی کے علاوہ بھی ملک میں پانی کی مجموعی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    دوسری جانب یونیسف کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی یعنی 4 ارب افراد قلت آب کا شکار ہیں، 2 ارب افراد پانی کی کمی کا شکار ممالک میں رہتے ہیں، جبکہ سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی شدید کمی کا شکار ہوجائے گی کیونکہ ان کے علاقوں، شہروں یا ممالک میں پانی کی کمی یا خشک سالی واقع ہوسکتی ہے۔

    زیر زمین پانی کی کمی زلزلوں کا سبب بھی بن سکتی ہے

    سائنٹفک جنرل نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق زیر زمین پانی کی کمی زلزلوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں قلت آب کے پیش نظر کی جانے والی اس تحقیق میں علم ہوا کہ ریاست کی زراعتی پٹی کو زیر زمین پانی فراہم کرنے کی وجہ سے سین انڈریس فالٹ لائن متحرک ہوسکتی ہے جس سے زلزلوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ پانی کی کمی زمین کی اندرونی سطح میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے جس سے زمینی ارتعاش یعنی زلزلوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • زیر زمین پانی میں‌ جان لیوا اجزا کی موجودگی، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ جاری

    زیر زمین پانی میں‌ جان لیوا اجزا کی موجودگی، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ جاری

    لاہور: ہائیکورٹ نے ماحولیاتی آلودگی پر قابونہ پانے کے خلاف درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے، حکومت نے آلودگی ختم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جو حکومت کی ناکامی ہے۔

    ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہ پانے کے خلاف درخواستوں پر جسٹس شاہد کریم نے 53 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت نے تحفظ پانی پالیسی کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے، فیصلے میں مزید کہا گیا کہ تحفظ پانی پالیسی پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونے پر احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

    فیصلے کے مطابق زیر زمین پانی آرسینک، آئرن، فلورائیڈ سے آلودہ پایا گیا، زیر زمین پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی پر واٹر پالیسی پر عمل درآمد کروایا جائے۔

    ماحولیاتی آلودگی سالانہ ڈیڑھ لاکھ اموات کا سبب بن رہی ہے، ہائیکورٹ کے فیصلے میں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ تیل، کوئلہ جلانے سے سال 2020 میں 70 لاکھ اموات ہوئیں۔

    عدالت نے کہا کہ زیر زمین پانی کا ذخیرہ صرف 25 برس تک کے لیے رہ گیا ہے، پانی ایمرجنسی پالیسی آنے والے نسلوں سے ایک عہد ہے، اس پر عمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    یاد رہے کہ مئی 2018 میں پاکستان نے ‘واٹر ایمرجنسی’ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس سلسلے میں مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کی قلت کا بحران ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

  • سندھ حکومت کا صوبے میں پانی پر نیا ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ

    سندھ حکومت کا صوبے میں پانی پر نیا ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ

    کراچی: سندھ حکومت نے صوبے میں پانی پر نیا ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، زیر زمین پانی استعمال کرنے پر واٹر ٹیکس لگے گا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے زیر زمین پانی کے استعمال پر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مجوزہ واٹر ٹیکس کے لیے سفارشات پر مبنی مسودہ تیار کر لیا گیا۔

    محکمہ بلدیات کے حکام سندھ واٹر ٹیکس ایکٹ پر کابینہ ارکان کو بریفنگ دیں گے، ذرایع کا کہنا ہے کہ مسودے میں ایک روپیہ فی لیٹر واٹر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، منرل واٹر تیار کرنے والی صنعتوں سے فی لیٹر واٹر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

    نئے پمپنگ اسٹیشن سے کراچی کو 600 ملین گیلن پانی مہیا ہوگا: وزیر اعلیٰ سندھ

    واٹر ٹیکس کا اطلاق سافٹ ڈرنک بنانے والی کمپنیوں پر بھی ہوگا، واٹر ٹیکس کی مد میں جمع شدہ آمدن کراچی واٹر بورڈ اور واسا میں تقسیم کی جائے گی۔

    یاد رہے کہ جنوری کے آخر میں کراچی میں دھابیجی پمپ ہاؤس منصوبے کا افتتاح کیا گیا تھا، اس نئے پمپنگ اسٹیشن سے 600 ایم جی ڈی (ملین گیلن روزانہ) پانی کراچی کو مہیا کیا جا رہا ہے، یہ منصوبہ 1.4 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا، پمپ ہاؤس میں 4 نئے پمپس نصب کیے گئے ہیں، ہر پمپ کی گنجائش 25 ایم جی ڈی ہے۔

    کراچی کے باسیوں کو پانی کی فراہمی کے لیے کے 4 منصوبہ بھی روبہ عمل ہے جس کے لیے جرمنی سے مشینری منگوائی گئی ہے۔