Tag: زیڈ اے بخاری

  • زیڈ اے بخاری: علم و فنون اور ادب کی دنیا کا ایک گوہرِ نایاب

    زیڈ اے بخاری: علم و فنون اور ادب کی دنیا کا ایک گوہرِ نایاب

    مشاہیرِ فن و ادب میں تقسیمِ ہند کے بعد جو نام اپنے اپنے شعبہ میں پاکستان کی پہچان بنے، ان میں ذوالفقار علی بخاری شامل ہیں۔ قدرت نے ان کے ساتھ بڑی سخاوت اور فیاضی کی کہ وہ متعدد زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے۔ اردو زبان و بیان کی باریکیوں، تلفظ و ادائی پر ان کا کہا مستند سمجھا جاتا تھا۔ وہ ماہرِ‌ مدرس، اور ماہرِ نشریات ہی نہیں تھے بلکہ بحیثیت شاعر اور ادیب بھی ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔

    12 جولائی 1975ء کو ذوالفقار علی بخاری جنھیں‌ عام طور پر زیڈ اے بخاری کہا جاتا ہے، وفات پاگئے تھے۔ ان کے بھائی احمد شاہ بخاری المعروف پطرس بخاری بھی اردو مزاح میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اسے بخوبی نبھایا۔ 1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

    ذوالفقار علی بخاری بی بی سی اردو سروس کے اوّلین بانی ہیں۔ جب وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے تو انہیں لندن بلایا گیا اور بی بی سی کی اردو سروس شروع کی گئی جس کے وہ بانی ممبران میں سے ایک تھے۔ ان کا کام اور ان کی آواز اپنی مثال آپ تھی۔ زیڈ اے بخاری کے بھائی پطرس بخاری برطانوی دور کے دہلی ریڈیو سے وابستہ رہے تھے۔ پطرس جب اسٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے تو اس وقت زیڈ اے بخاری ڈائریکٹر پروگرامز کے عہدے سے ترقی پاکر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن چکے تھے۔ اس زمانے میں ان بھائیوں کی ریڈیو پر گویا اجارہ داری تھی۔ دونوں بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اس وقت دیوان سنگھ مفتون کا اخبار ‘ریاست بہت مقبول تھا اور اس میں خاص طور پر حکومت، اشرافیہ اور نواب اور راجاؤں کے خلاف مضامین شایع ہوتے تھے۔ اس بڑے ادیب اور مدیر دیوان سنگھ مفتون کے ذہنِ رسا کو ایک انوکھا خیال سوجھا۔ انھوں نے BBC (ریڈیو) کو ”بخاری برادرز کارپوریشن‘‘ کا مخفف لکھ دیا۔ یہ بڑی دل چسپ اور معنی خیز اصطلاح تھی جو اس زمانے میں ایک مذاق کے طور پر بہت مقبول ہوئی۔

    نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تو زیڈ اے بخاری اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر کیے گئے۔ انھوں نے اردو زبان و بیان اور تلفظ کی درست ادائی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت ان کے زیرِ سایہ ہوئی۔

    بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری کا تذکرہ ہم کرچکے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

    وہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ زیڈ اے بخاری نے ریڈیو کے کئی ڈراموں کے لیے صدا کاری کی اور ان کے کردار سننے والوں کے دل پر نقش ہوگئے۔ شاعری اور مضمون نگاری بھی کی جب کہ فنِ موسیقی سے گہرا شغف ہی نہیں تھا اس فن کے اسرار و رموز بھی جانتے تھے اور اس فن پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ زیڈ اے بخاری ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے تھے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔

    ’’سرگزشت‘‘ ذوالفقار علی بخاری کی وہ خود نوشت ہے جس میں قاری کو خاص طور پر ریڈیو کے ابتدائی زمانہ کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی ریڈیو کے فن کار بعد میں ٹیلی ویژن کی طرف آئے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے’’ ناامیدی کے کفر نے بارہا میرے ایمان پر حملہ کیا، کئی بار کفر کے لشکر نے میرے ایمان کو پسپا کردیا۔ کئی بار میں نے خدائے حقیقی کے آستانے کو چھوڑ کر خداوندانِ مجازی کی چوکھٹ کو سجدہ کیا لیکن اس منعم حقیقی و برحق کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے ان مجازی خداوندوں کے گھر سے کچھ نہ ملا۔ اس سے میری یہ مراد نہیں کہ مجھے دوستوں اور بزرگوں سے کوئی فیض نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ میرے معاون و مددگار رہے۔ دنیا میں روپے پیسے کی ضرورت کس کو نہیں ہوتی۔ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے اس دنیاوی حاجت روا روپے پیسے کی تلاش کرنا ہی پڑتی ہے۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے، نان شبینہ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔ بسا اوقات میں نے قرض لے کر روٹی کھائی، نہ صرف روٹی کھائی بلکہ قرض لے کر فاقہ مستی بھی کی اور اب بھی کم و بیش یہی حال ہے، مگر میں خوش ہوں، ایسا خوش ہوں کہ اگر آواگون کا قائل ہوتا تو خدا سے دعا مانگتا کہ اے خدا! اس زندگی کے بعد بھی مجھے یہی زندگی عطا فرما۔ میری خوشی اور اطمینان کا باعث میرے قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو روحانیت کہتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ ایک تو مجھ جیسا گناہ گار، گرگِ معاصی کا شکار، روحانیت کا دعویٰ کس منہ سے کرے اور دوسرے یہ کہ یہ زمانہ روحانیت کا نام لینے کا نہیں۔‘‘

    زیڈ اے بخاری کی یہ سرگزشت اپنے وقت کے نامور لوگوں کے تذکروں سے مزین ہے جن میں چرچل، ٹی ایس ایلیٹ، ای ایم فاسٹر، جارج اورویل، بلراج ساہنی کے دل چسپ قصّے بہت لطف دیتے ہیں اور یہ سب زیڈ اے بخاری کے دوست تھے۔

    بخاری صاحب نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

  • بخاری صاحب کا دل…

    بخاری صاحب کا دل…

    بڑے لوگوں کا طرزِ فکر، کسی معاملہ میں ان کی سوچ اور ردعمل بھی عام آدمی یا اوسط درجے کے آدمی سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان کے کام بھی۔ اس تحریر میں غلام رسول مہر نے یہی بات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

    غلام رسول مہر اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز، ادیب اور شاعر تھے اور یہاں بطور مصنّف ان کے ممدوح‌ ہیں جہانِ علم و ادب کی مایہ ناز شخصیت ذوالفقار علی بخاری جن سے مصنّف نے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے، ان کے بارے میں اپنے خیالات کو نہایت خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ یہ مختصر تحریر علم و ادب کے شیدائیوں کو نہایت پُراثر اور دل پذیر معلوم ہوگی۔ مہر صاحب لکھتے ہیں:

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۲۱ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لاتعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِاقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہوچکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبدالقادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضمونوں کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سیدامتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہوسکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چارپانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔

    سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔ بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    ۱۹۲۲ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تادیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔
    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لاتعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساس ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظام زندگی کی پابند ہو۔ اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

  • ارم لکھنوی نے شعر سنا کر بخاری صاحب کی ناراضی دور کر دی!

    ارم لکھنوی نے شعر سنا کر بخاری صاحب کی ناراضی دور کر دی!

    شہنشاہ حسین ارم لکھنوی نے اردو شاعری میں اپنے خوب صورت اشعار کی بدولت بڑا نام پایا، لیکن آج اس روایتی غزل گو شاعر کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے۔ نئی نسل شاید ہی ان کے نام سے واقف ہو۔ لیکن ایک دور تھا جب وہ کراچی شہر کے مشاعروں میں شریک ہوتے اور اپنے کلام پر خوب داد پاتے تھے۔

    ارم لکھنوی نے 1910ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے اور تقسیم کے بعد ان کا گھرانہ ہجرت کرکے کراچی پہنچ گیا۔ یہاں ارم لکھنوی نے ریڈیو پاکستان کے کراچی سینٹر میں اصلاحِ تلفظ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اردو غزل کے اس روایتی شاعر نے 5 فروری 1967ء کو وفات پائی اور شہر کے لیاقت آباد قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

    اس تعارف کے بعد ہم آغا ناصر جیسے نام ور براڈ کاسٹر اور مصنّف کی خاکوں پر مبنی کتاب ”گم شدہ لوگ” سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ اس زمانے میں ادیب و شاعر اور ماہرِ نشریات ذوالفقار علی بخاری المعروف زیڈ اے بخاری ریڈیو کے کرتا دھرتا تھے۔ آغا ناصر لکھتے ہیں کہ ذوالفقار بخاری جن لوگوں کو عزیز رکھتے تھے ان میں سے اگر کسی کے ساتھ ناراض ہوتے تو اپنی خفگی کے اظہار کے لیے ان سے بول چال بند کر دیتے۔ اسی تناظر میں، جب بزرگ شاعر ارمؔ لکھنوی اور بخاری صاحب میں بول چال بند تھی، تو کراچی کے ایک مشاعرے میں جس کی صدارت بخاری صاحب کر رہے تھے، ارمؔ لکھنوی بھی بطور شاعر مدعو تھے۔

    اپنی باری آنے پر جب انہوں نے غزل سنائی تو ساری محفل داد و تحسین کے شور سے گونج اٹھی، مگر بخاری صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے، خشمگیں نگاہوں اور تنی ہوئی بھنوؤں کے ساتھ ساری غزل سماعت کی۔ غزل کے اختتام پر ارم ؔصاحب نے بخاری صاحب کو مخاطب کر کے کہا، حضور! ایک شعر صرف آپ کی خدمت میں عرض ہے، اور پھر بڑی رقت کے ساتھ درج ذیل شعر پڑھا:

    ؎ یوں وہ گزرے نظر چرائے ہوئے
    ہم لیے رہ گئے سلام اپنا

    بخاری صاحب شعر سن کر پھڑک اٹھے اور جذباتی انداز میں اپنی نشست سے اٹھ کر ارمؔ لکھنوی کو گلے لگا لیا۔

  • زیڈ اے بخاری کا تذکرہ جو نئی منزلوں کی تلاش میں‌ رہتے تھے!

    زیڈ اے بخاری کا تذکرہ جو نئی منزلوں کی تلاش میں‌ رہتے تھے!

    ذوالفقار علی بخاری کو قدرت نے بڑی سخاوت اور فیاضی سے فنون و ادب میں امتیاز و اعتبار بخشا وہ متعدد زبانیں‌ جانتے تھے اور اردو زبان و بیان کی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے اور تلفظ و ادائی سے متعلق ان کا کہا سند سمجھا جاتا تھا۔ انھیں عام طور پر زیڈ اے بخاری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شاعر و ادیب، بہترین صدا کار اور ماہرِ نشریات زیڈ اے بخاری 12 جولائی 1975ء کو وفات پاگئے تھے۔

    پشاور کے زیڈ اے بخاری کے ایک بھائی احمد شاہ بخاری المعروف پطرس بخاری تھے جنھیں خاص طور پر طنز و مزاح کے حوالے سے شہرت ملی اور وہ تقسیم سے قبل برطانوی ہند میں‌ ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بھی تھے۔ بعد میں وہ پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے اور اقوامِ متحدہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ زیڈ اے بخاری، پطرس کے چھوٹے بھائی جو براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں ایک اساطیری کردار کے طور ابھرے۔

    زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اس بہروپ میں خوب داد و تحسین حاصل کی۔ 1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

    ذوالفقار علی بخاری بی بی سی اردو سروس کے اوّلین بانی ہیں۔ جب وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے تو انہیں لندن بلایا گیا اور بی بی سی کی اردو سروس شروع کی گئی جس کے وہ بانی ممبران میں سے ایک تھے۔ ان کا کام اور ان کی آواز اپنی مثال آپ تھی۔ زیڈ اے بخاری کے بھائی پطرس بخاری برطانوی دور کے دہلی ریڈیو سے وابستہ رہے تھے۔ پطرس جب اسٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے تو اس وقت زیڈ اے بخاری ڈائریکٹر پروگرامز کے عہدے سے ترقی پاکر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن چکے تھے۔ اس زمانے میں ان بھائیوں کی ریڈیو پر گویا اجارہ داری تھی۔ دونوں بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اس وقت دیوان سنگھ مفتون کا اخبار ‘ریاست بہت مقبول تھا اور اس میں خاص طور پر حکومت، اشرافیہ اور نواب اور راجاؤں کے خلاف مضامین شایع ہوتے تھے۔ اس بڑے ادیب اور مدیر دیوان سنگھ مفتون کے ذہنِ رسا کو ایک انوکھا خیال سوجھا۔ انھوں نے BBC (ریڈیو) کو ”بخاری برادرز کارپوریشن‘‘ کا مخفف لکھ دیا۔ یہ بڑی دل چسپ اور معنی خیز اصطلاح تھی جو اس زمانے میں ایک مذاق کے طور پر بہت مقبول ہوئی۔

    نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تو زیڈ اے بخاری اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر کیے گئے۔ انھوں نے اردو زبان و بیان اور تلفظ کی درست ادائی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت ان کے زیرِ سایہ ہوئی۔

    بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری کا تذکرہ ہم کرچکے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

    وہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ زیڈ اے بخاری نے ریڈیو کے کئی ڈراموں کے لیے صدا کاری کی اور ان کے کردار سننے والوں کے دل پر نقش ہوگئے۔ شاعری اور مضمون نگاری بھی کی جب کہ فنِ موسیقی سے گہرا شغف ہی نہیں تھا اس فن کے اسرار و رموز بھی جانتے تھے اور اس فن پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ زیڈ اے بخاری ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے تھے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔

    ’’سرگزشت‘‘ ذوالفقار علی بخاری کی وہ خود نوشت ہے جس میں قاری کو خاص طور پر ریڈیو کے ابتدائی زمانہ کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی ریڈیو کے فن کار بعد میں ٹیلی ویژن کی طرف آئے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے’’ ناامیدی کے کفر نے بارہا میرے ایمان پر حملہ کیا، کئی بار کفر کے لشکر نے میرے ایمان کو پسپا کردیا۔ کئی بار میں نے خدائے حقیقی کے آستانے کو چھوڑ کر خداوندانِ مجازی کی چوکھٹ کو سجدہ کیا لیکن اس منعم حقیقی و برحق کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے ان مجازی خداوندوں کے گھر سے کچھ نہ ملا۔ اس سے میری یہ مراد نہیں کہ مجھے دوستوں اور بزرگوں سے کوئی فیض نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ میرے معاون و مددگار رہے۔ دنیا میں روپے پیسے کی ضرورت کس کو نہیں ہوتی۔ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے اس دنیاوی حاجت روا روپے پیسے کی تلاش کرنا ہی پڑتی ہے۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے، نان شبینہ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔ بسا اوقات میں نے قرض لے کر روٹی کھائی، نہ صرف روٹی کھائی بلکہ قرض لے کر فاقہ مستی بھی کی اور اب بھی کم و بیش یہی حال ہے، مگر میں خوش ہوں، ایسا خوش ہوں کہ اگر آواگون کا قائل ہوتا تو خدا سے دعا مانگتا کہ اے خدا! اس زندگی کے بعد بھی مجھے یہی زندگی عطا فرما۔ میری خوشی اور اطمینان کا باعث میرے قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو روحانیت کہتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ ایک تو مجھ جیسا گناہ گار، گرگِ معاصی کا شکار، روحانیت کا دعویٰ کس منہ سے کرے اور دوسرے یہ کہ یہ زمانہ روحانیت کا نام لینے کا نہیں۔‘‘

    زیڈ اے بخاری کی یہ سرگزشت اپنے وقت کے نامور لوگوں کے تذکروں سے مزین ہے جن میں چرچل، ٹی ایس ایلیٹ، ای ایم فاسٹر، جارج اورویل، بلراج ساہنی کے دل چسپ قصّے بہت لطف دیتے ہیں اور یہ سب زیڈ اے بخاری کے دوست تھے۔

    بخاری صاحب نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

  • نادرِ روزگار اور ہمہ صفت زیڈ اے بخاری کی برسی

    نادرِ روزگار اور ہمہ صفت زیڈ اے بخاری کی برسی

    ذوالفقار علی بخاری کو فن و ادب میں زیڈ اے بخاری کے نام سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر، صدا کار، ماہرِ نشریات اور متعدد زبانوں سے واقف تھے۔ آج زیڈ اے بخاری کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 12 جولائی 1975ء کو وفات پاگئے تھے۔

    زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اس بہروپ میں خوب داد و تحسین حاصل کی۔

    1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

    نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تووہ اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔ زیڈ اے بخاری کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے اردو زبان اور تلفظ کی درست ادائیگی کو یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت کی۔

    انھیں شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

    وہ ایک ماہرِ نشریات ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے کئی کردار اپنائے جو سننے والوں کے دلوں پر نقش ہوگئے۔ ریڈیو کے ڈراموں میں انھوں نے صدا کار کی حیثیت سے خوب کام کیا۔

    زیڈ اے بخاری شاعر بھی تھے اور فنِ موسیقی سے بھی گہرا شغف اور اس کا بھی علم رکھتے تھے۔ وہ ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ انھوں نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کا مدفن کراچی میں ہے۔

  • مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    ذوالفقار علی بخاری کو دنیائے ادب اور فنون میں زیڈ اے بخاری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی وجہِ شہرت شاعری اور صدا کاری ہے، لیکن تخلیقی جوہر سے مالا مال زیڈ اے بخاری نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک ماہرِ نشریات اور منتظم، پروڈیوسر اور اسٹیج اداکار کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ 12 جولائی 1975 کو زیڈ اے بخاری اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    وہ 1904 میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں سب بخاری صاحب پکارتے جو اردو زبان کی صحت، املا اور ریڈیو پر درست تلفظ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

    زیڈ اے بخاری کو کم عمری ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی تھے۔

    یہ 1936 کی بات ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب بھی اس میڈیم سے منسلک ہوگئے اور زندگی بھر ریڈیو سے وابستہ رہے۔ انھوں نے لندن سے ریڈیو نشریات کے لیے تربیت حاصل کی اور واپسی پر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

    جب کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کا قیام عمل میں‌ لایا گیا تو بخاری صاحب ہی پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔

    ان کے والد صاحبِ دیوان نعت گو شاعر جب کہ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ایسے علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پروان چڑھنے والے بخاری صاحب کو حسرت موہانی، یاس یگانہ چنگیزی، نواب سائل دہلوی جیسے عظیم شعرا کی صحبت بھی میسر آئی جس نے انھیں‌ شاعری پر مائل کیا۔

    زیڈ اے بخاری کو اردو کے علاوہ فارسی، پنجابی، پشتو، بنگالی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے زمانے میں صحتِ زبان کا بہت خیال رکھا گیا۔

    زیڈ اے بخاری نے اپنے حالاتِ زندگی کو ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیا جو نثر میں ان کے کمال کی یادگار ہے۔ موسیقی کے رسیا ہی نہیں‌ راگ راگنیوں‌ سے بھی واقف تھے اور فنِ موسیقی پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی ان کی یادگار ہے۔