Tag: سائبیریا

  • سائنس دانوں کا بڑا کارنامہ، 46 ہزار سال سے برف میں دبے کیڑوں کو ہوش میں لے آئے

    سائنس دانوں کا بڑا کارنامہ، 46 ہزار سال سے برف میں دبے کیڑوں کو ہوش میں لے آئے

    سائنس دانوں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دے دیا ہے جس کے بارے میں سوچ کر ہی جسم میں سنسنی پھیل جاتی ہے، اپنی حیرت انگیز کوششوں میں سائنس دان اب 46 ہزار سال سے برف میں دبے کیڑوں کو ہوش میں لے آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں نے ایک جدید ترین تحقیق سے ثابت کر دیا ہے کہ زندگی کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ساکت کیا جا سکتا ہے، یعنی زندگی کی سانسیں جب تک چاہیں تھامی جا سکتی ہیں، اور پھر سے انھیں بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔

    اس سلسلے میں سائبیریا کی برف کے نیچے جمے 46 ہزار سال پرانے کیڑوں کو سائنس دان دوبارہ ہوش میں لے آئے ہیں، چھیالیس ہزار سال پہلے جب زمین پر ہاتھی نما دیو ہیکل جانور گھومتے تھے، تب انتہائی چھوٹے کیڑے سائبیریا کی برفیلی زمین میں منجمد ہو گئے تھے۔

    تاہم عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے بعد جب ہزراوں سال کی جمی ہوئی برف پگھلی تو اُن جمے کیڑوں تک سائنس دانوں کی رسائی ہوئی اور انھوں نے ان کیڑوں کو روم ٹمپریچر والے پانی میں ڈالا اور وہ حیرت انگیز طور پر دوبارہ ہوش میں آ گئے۔

    سائنس دانوں کے ہاتھ گول کیڑوں (راؤنڈ ورم) کا ایک جوڑا ہاتھ لگا تھا، جو چھیالیس ہزار سال قبل زمین کی سطح کے نیچے کے حصے (پرما فراسٹ) میں محصور ہو گیا تھا، یہ حصہ ہمیشہ منجمد رہتا ہے، تاہم عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ برف پگھلی اور یہ کیڑے ظاہر ہو گئے۔

    اس دریافت پر مبنی مقالہ پلوس جینیٹکس نامی سائنسی جریدے میں رواں ہفتے چھپا ہے، یہ مقالہ یہ بتاتا ہے کہ کیڑے (جنھیں نیماٹوڈ بھی کہا جاتا ہے) کس طرح انتہائی حالات میں غیر معمولی طور پر طویل عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں، یعنی ہزاروں سال تک بھی۔

    حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ ان کیڑوں نے ہوش میں آنے کے بعد کئی بچے بھی پیدا کیے اور پھر اپنی قدرتی موت مر گئے۔ یہ دو مادہ کیڑے 2018 میں ایک روسی سائنسی ادارے کی سائنس دان اناستاسیا شاتیلووِچ نے آرکٹک میں اس وقت حاصل کیے تھے جب زمین کھودنے والے جانور گوفرز نے وہاں ایک فوسلائز بل کو کھود دیا تھا۔ یہ کیڑے پرما فراسٹ میں تقریباً 130 فٹ تک دبے ہوئے تھے، اور انھیں صرف پانی میں ڈال کر زندہ کیا گیا۔

    یہ کیڑے مزید مطالعہ کے لیے جرمنی بھیجے گئے تھے، جہاں محققین نے بتایا کہ یہ مخلوق، جن کی زندگی کا دورانیہ محض چند دنوں پر مبنی ہوتا ہے، لیبارٹری میں کئی نسلوں کو دوبارہ پیدا کرنے کے بعد مر گیا۔ محققین نے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے یہ طے کیا کہ یہ کیڑے 45,839 اور 47,769 سال پہلے منجمد ہو گئے تھے۔

    محققین کے مطابق یہ کیڑے تقریباً ایک ملی میٹر لمبے تھے، اور یہ انتہائی کم درجہ حرارت کے خلاف بھی مزاحمت کرنے کے قابل تھے، اور یہ مزاحمت کرتے ہوئے خود کو ایک ساکت حالت میں لے گئے جسے cryptobiosis کہا جاتا ہے، اور اس عمل کو محققین ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    محققین نے اس دریافت کا اہم خلاصہ یہ بیان کیا کہ اصولی طور پر زندگی کو ایک غیر معینہ مدت کے لیے ساکت کرنا اور پھر اسے دوبارہ شروع کرنا ممکن ہے۔ محققین نے اس نیماٹوڈ میں کلیدی جینز کی نشان دہی بھی کی جن کی مدد سے یہ کیڑے کرپٹو بائیوٹک حالت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، یہی جین ایک موجودہ نیماٹوڈ میں بھی پائے گئے ہیں۔

  • دنیا کے سرد ترین مقام پر گرمی کے ڈیرے، سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے

    دنیا کے سرد ترین مقام پر گرمی کے ڈیرے، سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے

    ماحولیاتی تبدیلی کے باعث دنیا کے سب سے ٹھنڈے علاقے سائبیریا میں گرمی کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

    سائبیریا جو دنیا میں اپنے شدید ٹھنڈے ماحول کے باعث جانا جاتا ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلی کے باعث یہاں گرمی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔

    کلائمیٹولوجسٹ میکسی ملیانو ہیریرا نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ تین جون سائبریا کی تاریخ کا گرم ترین دن رہا، جہاں زالٹورو ووسک نامی علاقے میں درجہ حرارت 37.9 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ بیوو میں 39.6 سینٹی گریڈ، برنول میں 38.5 ریکارڈ کیا گیا، مقامی حکام نے میڈیا کو بتایا کہ ہمارے پاس گذشتہ پانچ سے سات دہائیوں کے درجہ حرارت کا ریکارڈ موجود ہے، مگریہ غیر معمولی ہے اور اس نے علاقے کی تاریخ بنادی ہے۔

    عالمی موسمیاتی سائنس ادارہ میں ماحولیاتی نگرانی اور پالیسی سروسز کے چیف عمر بڈور نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ زمین پر سب سے تیزی سے گرم ہونے والے علاقوں میں سے ایک سائبیریا بھی ہے۔

    یوروپی یونین کی کلائمیٹ چینج سروس کی ڈپٹی ڈائریکٹر سمانتھا برگیس نے دعویٰ کیا کہ اس علاقے میں کچھ ہیٹ ویو بھی دیکھی گئی ہیں، اس ہیٹ ویو کا لوگوں اور فطرت پر بڑا اثر پڑتا ہے اور جب تک ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیزی سے کٹوتی نہں کرتے ہیں، تب تک یہ بار بار ہوتا رہے گا۔

    یاد رہے کہ سال دو ہزار بیس میں سائبریا کے شہر ویرکھویسک میں درجہ حرارت 38 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا اور اس علاقے میں ہیٹ ویو بھی ہوا تھا۔

  • پیوٹن نے ہیلی کاپٹر خود اڑایا (ویڈیو)

    پیوٹن نے ہیلی کاپٹر خود اڑایا (ویڈیو)

    سائبیریا: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ہیلی کاپٹر اڑا کر ایک اور صلاحیت کا مظاہرہ کر کے دکھایا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن صرف سیاست کے ہی نہیں کئی دیگر شعبوں کے بھی ماہر کھلاڑی ہیں، اور آئے دن اُن کے نت نئے ایڈونچرز میڈیا میں خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

    روسی صدر کا ایک اور نیا روپ اس وقت دیکھنے کو ملا جب وہ مزے سے ہیلی کاپٹر اڑاتے رہے، کو پائلٹ سے ہدایات لیتے ہوئے پیوٹن ہوا بازی کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے نظر آئے۔

    یہ کارنامہ انھوں نے سائبیریا میں موجود ہیلی کاپٹر فیکٹری کے دورے کے موقع پر دکھایا۔

    فیکٹری دورے کے موقع پر روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ مغربی پابندیاں روسی معیشت کو تباہ کرنے میں مکمل ناکام رہی ہیں۔

    پیوٹن نے ہوا بازی کے کارخانے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مخالفین سمجھتے رہے کہ روسی معیشت چند ہفتوں یا مہینوں میں ختم ہو جائے گی، لیکن روس کی معاشی خود مختاری میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔

    دوسری جانب شام کے صدر بشارالاسد اپنے پہلے سرکاری دورے پر روس پہنچ گئے۔

  • سائبیریا میں درجہ حرارت منفی 67، پانی کا بلبلہ برف گولے میں تبدیل (ویڈیو)

    ماسکو: روس کے شہر سائبیریا میں درجہ حرارت منفی 67 تک گر گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے علاقے سائبیریا کو شدید سرد ہواؤں نے لپیٹ میں لے لیا ہے، شہر شدید ترین سردی کی زد پر ہے، اور درجہ حرارت منفی 67 تک گر گیا ہے، جس کی وجہ سے پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔

    سائبیریا کے ایک گاؤں اومایاکون کا پارہ منفی سڑسٹھ ڈگری سیلسیئس تک چلا گیا ہے، جہاں پانی کے بلبلے بھی اسنو بالز میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

    روس میں سائبیریا کے برف زار کا یہ دور دراز گاؤں دنیا کا سرد ترین مقام ہے، یہاں سب سے زیادہ کم درجہ حرارت 1924 میں منفی 71 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

  • سائبیریا میں روس، چین، بھارت مشترکہ فوجی مشقیں عروج پر

    سائبیریا میں روس، چین، بھارت مشترکہ فوجی مشقیں عروج پر

    ماسکو: سائبیریا میں روس، چین، بھارت کی مشترکہ فوجی مشقیں جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سائبیریا میں روس، چین، بھارت اور دیگر ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں عروج پر ہیں، جن میں جدید جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر، طیارہ بردار بحری جہاز اور ٹینک شریک ہیں۔

    مشترکہ مشقوں میں چین کے 2 ہزار فوجیوں سمیت 50 ہزار اہل کار مشقوں کا حصہ ہیں۔

    روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ مشقوں میں روسی فضائیہ کے دستے، طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار اور فوجی کارگو طیارے بھی حصہ لے رہے ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ یہ مشقیں جاپانی سمندر کے ساحلی علاقوں میں بھی کی جائیں گی، مشقوں میں آذربائیجان، الجزائر، آرمینیا، بیلاروس اور بھارت شریک ہیں۔

    یکم ستمبر کو شروع ہونے والی یہ فوجی مشقیں 7 ستمبر تک جاری رہیں گی۔

  • سائبیریا کی ہواؤں نے کراچی کا رخ کرلیا

    سائبیریا کی ہواؤں نے کراچی کا رخ کرلیا

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سائبیریا کی ہوائیں چل پڑیں، آئندہ 48 گھنٹوں میں سردی کی شدت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں سائبیریا کی ہواؤں کے اثرات سے سردی کی شدت بڑھ گئی، رات بھر خنکی چھائی رہی جس کے بعد 17 دسمبر کی صبح درجہ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آج زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 24 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا جانے کا امکان ہے، صبح اور شام میں چلنے والی ہواؤں کے باعث سردی کی شدت زیادہ محسوس ہوگی۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق ہوا میں نمی کا تناسب 56 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے، آج مطلع جزوی طور پر ابر آلود بھی رہے گا جبکہ موسم سرد اور خشک رہے گا۔ آئندہ 48 گھنٹوں میں سردی کی شدت میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔

  • کوئلے کی کان میں آتش زدگی، 11 روسی ہلاک، متعدد لاپتا

    کوئلے کی کان میں آتش زدگی، 11 روسی ہلاک، متعدد لاپتا

    ماسکو: روس میں کوئلے کی ایک کان میں آتش زدگی کے باعث 11 افراد ہلاک جب کہ متعدد لاپتا ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے علاقے سائبیریا میں کوئلے کی ایک کان میں آتش زدگی سے گیارہ افراد ہلاک ہو گئے، متعدد لاپتا افراد کے لیے ریسکیو آپریشن کیا جا رہا ہے۔

    روسی میڈیا کے مطابق حادثے کے وقت متاثرہ کان میں 285 کان کن موجود تھے، جن میں سے ریسکیو آپریشن میں 200 افراد کو بچایا گیا، تاہم باقی افراد تاحال لاپتا ہیں۔

    مقامی حکام نے میڈیا کو بتایا کہ جن مزدوروں کو کان میں سے نکالا گیا ہے ان میں سے 45 افراد زخمی ہیں، متعدد کان کنوں کی حالت کان میں دھواں بھرنے سے خراب ہوئی۔

    حکام کے مطابق کان میں پھنسے باقی افراد کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے، تاہم زیر زمین پھنسے ہوئے کان کنوں سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔

    دوسری طرف کان میں ہونے والے حادثے کی نوعیت کے بارے میں ابھی تک کوئی حکومتی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ یاد رہے کہ 2004 میں بھی اس کان میں میتھین گیس کے دھماکے سے 13 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔

  • روس میں ترکی کے اشتراک سے بڑا منصوبہ شروع

    روس میں ترکی کے اشتراک سے بڑا منصوبہ شروع

    ماسکو: روس میں ترکی کے اشتراک سے توانائی کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ترکی کے اشتراک سے تعمیر کی گئی گیس ریفائنری کا افتتاح کر دیا۔

    آمور گیس ریفائنری روس کی انرجی کمپنی گازپروم اور ترکی کی انرجی کمپنی ریناسنس کے اشتراک سے تعمیر کی گئی ہے، اس کی تعمیر روس کے علاقے مشرقی سائبیریا میں عمل میں آئی ہے، پیوٹن نے آمور ریفائنری کا افتتاح ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کیا۔

    افتتاحی تقریب سے خطاب میں روسی صدر نے کہا کہ منصوبے کی تکمیل میں روس، ترکی اور چین جیسے متعدد ممالک سے افراد اور کمپنیوں نے حصہ لیا ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ وسیع پیمانے کا اشتراک مستقبل میں اسی طرح کے مزید مشترکہ منصوبوں کی راہ ہموار کرے گا۔

    آمور گیس پروسیسنگ پلانٹ، سائبیریا

    آمور گیس ریفائنری روس کی بڑی گیس ریفائنریز میں سے ایک ہے، یہ ریفائنری 2025 سے 42 بلین مکعب میٹر قدرتی گیس پراسیسنگ کی صلاحیت حاصل کر لے گی، واضح رہے کہ اس ریفائنری کی تعمیر کا کام 2015 میں شروع ہوا تھا اور تقریباً 13 بلین ڈالر مالیت کے اس منصوبے کی تعمیر میں 35 ہزار افراد نے کام کیا۔

  • 113 سال قبل کا وہ خوفناک واقعہ کیا تھا جس نے آج بھی ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے؟

    113 سال قبل کا وہ خوفناک واقعہ کیا تھا جس نے آج بھی ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے؟

    ہماری زمین پراسرار رازوں کا مجموعہ ہے جن میں سے کئی راز تاحال ماہرین کو چکرائے ہوئے ہیں، انہی میں سے ایک راز 113 سال قبل پیش آنے والا وہ واقعہ جس کی حقیقت کا سراٖ ماہرین آج تک نہیں لگا سکے۔

    یہ 30 جون 1908 کی بات ہے جب سائبیریا کے علاقے ایونکی کے رہائشیوں نے آسمان پر نیلے رنگ کی روشنی کی حرکت کو رپورٹ کیا تھا جو ان کے بقول سورج جتنی تیز تھی۔ روشنی کی رپورٹ کے 10 منٹ بعد ایسی گرج دار آواز سنائی دی جیسے بھاری توپخانے سے گولہ باری کی جارہی ہو۔

    یہ آواز مشرق سے شمال کی جانب سفر کر رہی تھی جبکہ اس کے بعد ایک شاک ویو نے قصبے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔

    دھماکے کی آواز جس کی لہریں یورو ایشیا بلکہ برطانیہ تک زلزلہ پیما مراکز نے ریکارڈ کیے، مگر ایونکی اور ارگرد کے قصبوں کے رہائشیوں نے درحقیقت کسی قسم کے حقیقی دھماکے کو نہیں دیکھا۔

    اس دھماکے کے بعد کئی دن تک ایشیا اور یورپ کے اوپر آسمان میں جگمگاہٹ کو دیکھا گیا جو برفانی ذرات بلندی پر بننے کا نتیجہ تھا جبکہ مختلف ممالک میں ماحولیاتی دباؤ میں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ اگرچہ دھماکا تو کسی نے دیکھا نہیں مگر اس کے مقام کو ضرور دریافت کرلیا گیا جو مشرقی سائبیریا میں واقع تھا۔

    وہاں موجود 800 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا جنگل یا 8 کروڑ درخت مکمل طور پر غائب ہوگئے اور اس کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آسکی۔

    ابتدا میں سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ وہ دھماکے کے اثر کا نتیجہ ہے مگر اس مقام پر کبھی کوئی گڑھا دریافت نہیں ہوسکا۔ مگر جنگل کا جتنا بڑا حصہ مکمل طور پر سپاٹ ہوگیا، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا تھا کہ دھماکے کی طاقت 10 سے 15 ٹن تھی۔

    سائنسدانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر یہ دھماکا ہوا کیوں کیونکہ اتنی طاقت کا دھماکے سے ایک بڑے شہر تباہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا اور جب سے ہی سائنسدان کے ذہن چکرا رہے ہیں کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور وجہ کیا تھی۔

    خوش قسمتی سے وہ علاقہ آباد نہیں تھا ورنہ بہت زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا مگر دھماکے کی حرارت کو دور دراز کے قصبوں کے رہائشیوں نے بھی محسوس کیا تھا۔

    ایک عینی شاہد نے اس موقع پر بتایا کہ آسمان 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور جنگل کے اوپر آسمان کا شمالی حصہ آگ سے بھرا ہوا لگتا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اس وقت آسمان میں ایک دھماکا ہوا اور بہت بڑا کریش ہوا، ایسا کریش جس کو سن کر لگتا تھا کہ آسمان سے پتھر برس رہے ہوں یا فائرنگ ہورہی ہو۔

    اسے ٹونگوسکا ایونٹ کا نام دیا گیا جو انسانی تاریخ کا اب تک سب سے طاقتور ریکارڈڈ دھماکا بھی ہے جس سے خارج ہونے والی حرارت ہیروشیما میں گرائے جانے والے ایٹم بم سے 185 گنا زیادہ تھی۔

    مگر ایک صدی سے بھی زائد عرصے بعد ماہرین کے ذہنوں میں مختلف سوالات موجود ہیں کہ آخر اس جگہ ہوا کیا تھا۔ کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایک سیارچہ اس دھماکے کی وجہ تھی مگر اتنے بڑے خلائی جسم کے شواہد اب تک دریافت نہیں ہوسکے

    کچھ حلقوں کے خیال میں یہ آتش فشاں پھٹنے یا کان کنی کا کوئی حادثہ تھا مگر اس کے بھی شواہد نہیں مل سکے۔

    درحقیقت سائبیریا کے اس خطے کا موسم ڈرامائی قسم کا ہے، جہاں موسم سرما کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے جبکہ گرمی کا موسم بہت مختصر، جس کے باعث سطح میں ایسی تبدیلیاں آئی جن نے اس جگہ کو ناقابل رہائش بنادیا، بلکہ وہاں پہنچنا ہی بہت مشکل ہے۔

    جب دھماکا ہوا تو کسی کو بھی تحقیقات کے لیے وہاں جانے نہیں دیا گیا کیونکہ روسی حکام کو مختلف خدشات تھے۔

    سنہ 1927 میں روس کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے آخرکار اس جگہ کا دورہ کیا اور دریافت کیا کہ دھماکے کے لگ بھگ 20 سال بعد بھی وہاں ہونے والا نقصان ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس ٹیم نے خیال ظاہر کیا کہ ایک خلائی جسم فضا میں پھٹا جس سے یہ نقصان ہوا مگر کوئی بھی گڑھا یا خلائی ذرات دریافت نہیں ہوسکے۔

    تو ٹیم نے یہ وضاحت کی کہ وہاں کا دلدلی خطہ اتنا زیادہ نرم تھا کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا جبکہ تمام تر ملبہ اس کے اندر دفن ہوگیا۔

    مگر دلدلی حصے کی گہرائی میں کچھ بھی دریافت نہیں ہوسکا اور کچھ دہائیوں بعد روسی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ کوئی شہاب ثاقب نہیں بلکہ دم دار ستارہ تھا، جن کا زیادہ تر حصہ چٹانی نہیں بلکہ برف پر مبنی ہوتا ہے۔

    زمین کے ماحول پر ہونے والی تباہی کے بعد برف بخارات بن کر اڑ گئی مگر یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہوسکا۔ پھر عجیب خیالات سامنے آئے جیسے کسی خلائی مخلوق کا اسپیس کرافٹ اس مقام پر گر کر تباہ ہوا۔

    سنہ 1958 میں محققین نے اس مقام سے سلیکیٹ اور مقناطیسی پتھر کے ننھے ذرات کو دریافت کیا اور مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہاں کی سطح میں نکل کی مقدار زیادہ ہے جو شہاب ثابت کا ایک جانا مانا عنصر ہے۔

    مگر بحث تھم نہیں سکی اور 1973 میں ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ایک بلیک ہول کا زمین سے ٹکراؤ اس دھماکے کا نتیجہ ہوا مگر اس کی تردید پر مبنی تحقیق بھی فوری طور پر سامنے آگئی۔

    سنہ 2014 میں یوکرین کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دھماکے کے مقام سے 1978 میں اکٹھے کیے جانے والے چٹانی نمونوں کا تجزیہ کیا اور انہوں نے 1908 کی ایک تہہ کو دریافت کیا۔

    ماہرین نے کاربن منرل کے آثار دریافت کیے، جو اس وقت تشکیل پاتا ہے جب کوئی شہاب ثابت زمین سے ٹکراتا ہے۔

    مگر یہ بھی واضح نتیجہ نہیں تھا اور 2020 میں ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ایک بڑا آئرن شہاب ثاقب زمین کے اتنے قریب آگیا کہ بہت بڑا شاک ویو پیدا کرسکے، مگر ٹکڑے ہوئے بغیر زمین کے پاس سے گزر گیا، اور شاک ویو کا اثر اس خطے میں دیکھنے پر آیا۔

    یہ واقعہ اب تک انسانی تاریخ کے چند پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے جس پر اب تک تحقیقاتی کام جاری ہے، تاحال اس کی وضاحت نہیں ہوسکی کہ اس روز دراصل اس مقام پر کیا ہوا تھا۔

  • ‘پلاسٹک’ کی برف باری…….دیکھنے والے حیران!

    ‘پلاسٹک’ کی برف باری…….دیکھنے والے حیران!

    ماسکو: روس کے برفانی خطے سائبیریا میں ہونے والی برفباری نے ماہرین کو پہلے حیران اور پھر پریشان کردیا، ماہرین نے برف میں پلاسٹک کے ننھے ذرات دریافت کیے۔

    روسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سائبیریا میں ہونے والی برفباری پلاسٹک کے ذرات سے آلودہ ہے، ذرات برف کے ساتھ زمین پر گرے اور برف پگھلنے کے بعد زمین پر پھیل گئے۔

    ٹمسک اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سائبیریا کے 20 مختلف علاقوں سے برف کے نمونے لیے اور ان نمونوں کے جائزے و تحقیق کے بعد تصدیق ہوئی کہ ہوا میں موجود پلاسٹک کے ذرات برف میں شامل ہو کر زمین پر گرے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پلاسٹک صرف دریاؤں اور سمندروں میں ہی نہیں بلکہ مٹی حتیٰ کہ فضا میں بھی پھیل چکا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک دراصل پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات ہوتے ہیں۔ یہ پلاسٹک کی مختلف اشیا ٹوٹنے کے بعد وجود میں آتے ہیں اور مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک کا تلف ہونا یا زمین میں گھل جانا ناممکن ہے اور ان ذرات کو دیکھ پانا مشکل بھی ہے تو یہ ہر شے میں شامل ہو کر ہماری صحت اور ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    'پلاسٹک' کی برف باری.......دیکھنے والے حیران!

    یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    سائبیریا میں پلاسٹک سے اٹی برفباری پر مزید تحقیق کا کام کیا جارہا ہے اور اس کے عوامل اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔