Tag: سائفر

  • سائفر نہیں تھا تو امریکی سفیر کو بلا کر ڈی مارش کیوں کرایا گیا ؟ علی محمد خان

    سائفر نہیں تھا تو امریکی سفیر کو بلا کر ڈی مارش کیوں کرایا گیا ؟ علی محمد خان

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان کا کہنا ہے کہ سائفر نہیں تھا تو امریکی سفیر کو بلا کر ڈی مارش کیوں کرایا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ لو نے اس حکومت کی منجھی ٹھونک دی۔

    پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ 18 ماہ جھوٹ بولتے رہے کوئی سائفر نہیں ہے، اگر سائفر نہیں تو بانی پی ٹی آئی پرکس چیز کا کیس ہے؟ شہباز شریف اور اس حکومت پر آرٹیکل 63 ،62 لگنا چاہیے۔

    انہوں نے کہا کہ اسد مجید مایہ ناز ڈپلومیٹ تھے، ڈونلڈلو کے بیان پر ردعمل دینا چاہیے، اسد مجید پر شہباز حکومت میں بہت دباؤ آیا ہوگا، سائفر نہیں تھا تو امریکی سفیر کو بلا کر ڈی مارش کیوں کرایا گیا؟۔

    علی محمد خان نے کہا کہ عدلیہ سے انصاف کی توقع ہے، بہت جلد سائفر کیس پر انصاف کریگی جس کے بعد بانی پی ٹی آئی 25 رمضان سے پہلے جیل سے باہر ہوں گے۔

     یاد رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹی میں پاکستان میں انتخابی عمل میں دھاندلی کے الزامات پر سماعت کےدوران جنوبی اور وسط ایشیا کے امور کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے کہا کہ سائفر سے متعلق لگائے گئے الزامات سازشی تھیوری اور جھوٹ ہے۔

  • سائفر ایک حقیقت ہے، جنھوں نے سازش کرائی ان کا ٹرائل ہونا چاہیے: بیرسٹر گوہر

    سائفر ایک حقیقت ہے، جنھوں نے سازش کرائی ان کا ٹرائل ہونا چاہیے: بیرسٹر گوہر

    اسلام آباد: پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ سائفر ایک حقیقت ہے، جنھوں نے سازش کرائی ان کا ٹرائل ہونا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سائفر ایک حقیقت ہے، وہ لوگ جنھوں نے سازش کرائی ان کا ٹرائل ہونا چاہیے، لیکن ان کا ٹرائل ہونے کی بجائے بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل شروع کر دیا گیا۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا جو کل ہوا ہم میں سے کسی ایک نے بھی تصور نہیں کیا تھا، سوچا نہیں تھا جس کے پاس مینڈیٹ نہیں اس کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن دے دیا جائے گا، آج دو بڑے جمہوریت کا درس دے رہے ہیں جو خود نانا کی سیاست دفن کر چکے۔

    انھوں نے کہا بانی پی ٹی آئی عوامی سیاست پر یقین کرتا ہے پاور شیئرنگ پر نہیں، بانی پی ٹی آئی کا کوئی بھائی، بہن، بھانجا، بھتیجا ایوان میں نہیں بیٹھا، کیا شہباز شریف نے ملک قیوم کو فون کر کے کنونشن نہیں کرائے تھے، یہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر پاور شیئر کرتے ہیں، جب کہ بانی پی ٹی آئی نے موروثی سیاست کو ختم کیا۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا ’’میرے جیسا ورکر چیئرمین کی حیثیت سے کھڑا ہے، ہمارے ملتان کے کارکن کو اسپیکر اور مالاکنڈ کے کارکن کو ڈپٹی اسپیکر مقرر کیا گیا، لیکن باقیوں سے پوچھیں کیا یہ کسی اور کو یہ عہدے دیں گے، کیا صدر کا عہدہ آصف زرداری کے سوا کسی اور کو دیں گے، کیا آصف زرداری کے سوا اور کوئی پارٹی میں اہم نہیں؟‘‘

    انھوں نے کہا ہماری طرف بیٹھے لوگ کوئی ہمارا رشتے دار نہیں مگر پھر بھی ہمیں عزیز ہے، ہمارے 100 ان کے 200 پر بھاری ہیں، یہ عہدے آپس میں بانٹتے ہیں ان کا جمہوریت سے دور دور تک تعلق نہیں، عوام نے انھیں مسترد کر دیا ہے۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا ’’مجھے پہلے دو پارٹیاں پسند تھیں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم، اس بار ایم کیو ایم والے بھی ٹکٹ لینے والوں کی لائن میں لگ گئے اور سودے بازی کی، ایم کیو ایم نے کراچی میں ہماری 15 حیدرآباد میں 2 سیٹیں لی ہیں۔‘‘

    انھوں ںے کہا ہم مانتے بھی نہیں کہ یہ وزیر اعظم ہے، اس وزیر اعظم نے ہماری خواتین کے ریلیز کا کوئی اعلان نہیں کیا، اس سے تو بہتر یوسف گیلانی ہے جس نے کہا تھا کہ ججز کو آزاد کراؤں گا، سرکاری ٹی وی مواقع نہیں دے رہا، ہم بار بار نوٹ کراتے تھک جاتے ہیں، یہ پارلیمان ہم سب کا ہے ہمیں یکساں مواقع دیں، ہم دنیا کے سب سے مقبول لیڈر کی مرہون منت آج ہم اس ایوان میں بیٹھے ہیں۔

  • سائفر کے معاملے میں بانی پی ٹی آئی نے عوام کو بیوقوف بنایا، چیئرمین پی پی

    سائفر کے معاملے میں بانی پی ٹی آئی نے عوام کو بیوقوف بنایا، چیئرمین پی پی

    چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سائفر کے معاملے میں بانی پی ٹی آئی نے عوام کو بیوقوف بنایا۔

    اے آر وائی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی معاملات پر سمجھوتہ کیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی نے تو سائفر لہرا کر قوم کو بےوقوف بنانے کی کوشش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی راولپنڈی کی تقریر بالکل مختلف معاملہ تھا۔

    بلاول زرداری نے کہا کہ بھٹو نے تو کہا تھا قومی راز میرے ساتھ قبر میں جائیں گے۔ ذوالفقار بھٹو نے راولپنڈی کی تقریرمیں کوئی سائفر نہیں لہرایا تھا۔

    چیئرمین پی پی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ جو کرتے رہےغلط تھا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کا تجربہ اچھا نہیں تھا۔ پی ٹی آئی سے انتخابی تاریخ طے کرلی تھی، بانی پی ٹی آئی نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلی۔

    انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے جو ان کیساتھ ہورہا ہے پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ ہم جس نظام سے گزرے ہیں وہ آج بھی تاریخ کاحصہ ہے۔ جو آج ہورہا ہے ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے جس پر پی پی کی واضح پوزیشن ہے۔

    چیئرمین پی پی نے کہا کہ امید ہے پی ٹی آئی بھی اب ماضی سے سبق سیکھ لےگی۔ ہم بھی پرامید ہوجائیں گے کہ شاید آئندہ کسی لاڈلے سےمقابلہ نہ ہو۔ اپنے مستقبل کی قیادت کیلئے عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی تو ان کا ایجنڈا کیا ہوگا، ن لیگ کی حکومت ہوگی تو کیا ان کا وہی ایجنڈا ہوگا کہ ماضی کا حساب لینا ہے۔ پیپلزپارٹی سیاسی انتشارختم کرنےکی کوشش کرے گی۔

    بلاول نے کہا کہ یہ بھی درست ہے ن لیگ کیساتھ تجربہ اچھا نہیں تھا لیکن پھر ساتھ میں حکومت بنائی۔ آصف زرداری کے مجھ سے متعلق بیان کو غلط انداز میں لیا گیا تھا۔ آصف زرداری کیساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

  • سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی  کی گرفتاری ڈال دی گئی

    سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈال دی گئی

    اسلام آباد: عدالت کی جانب سے رہائی کے احکامات کے فوراً بعد سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈال دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے، تاہم سائفر کیس میں ان کی گرفتاری ڈال دی گئی ہے۔

    عدالت کی جانب سے ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ بھی لے لیا گیا ہے، عدالت کی جانب سے تحریری آرڈر سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو بھجوا دیے گئے، واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ کل ختم ہو رہا ہے۔

    کل ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں جسمانی ریمانڈ کی استدعا بھی کی جائے گی، ایف آئی اے ٹیم چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں حراست میں لے گی اور کل ہی خصوصی عدالت میں پیش کرے گی۔

    توشہ خانہ کیس میں‌ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل ، رہا کرنے کا حکم

    واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم کی سزا معطلی کی درخواست کی سماعت میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

  • امریکی محکمہ خارجہ نے ایک مرتبہ پھر سائفر سے متعلق الزامات بے بنیاد قرار دے دیے

    امریکی محکمہ خارجہ نے ایک مرتبہ پھر سائفر سے متعلق الزامات بے بنیاد قرار دے دیے

    واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک مرتبہ پھر سائفر سے متعلق الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سائفر سے متعلق سوال کا میں ایک ہی جواب دے سکتا ہوں کہ یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔

    انھوں نے کہا ہم پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعتوں کا ساتھ نہیں دیتے اور نہ ہی ہم پاکستان میں کسی سیاسی جماعت یا رہنما کے ساتھ ہیں، میتھیو ملر نے واضح کیا کہ امریکا خود کو کسی ملک کی سیاست میں شامل نہیں کرتا۔

    سائفر ڈرامہ : چیئرمین پی ٹی آئی کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے تہلکہ خیز انکشافات

  • آڈیو لیکس کی برسات میں لانگ مارچ کا شور

    آڈیو لیکس کی برسات میں لانگ مارچ کا شور

    پی ٹی آئی کے متوقع لانگ مارچ کی تاریخ کے حتمی اعلان سے قبل ہی آڈیو لیکس کے سلسلہ وار اجرا نے ملک میں‌ سیاسی ہیجان میں‌ مزید اضافہ کر دیا ہے، ساتھ ہی سائفر کا مردہ ہو جانے والا گھوڑا بھی دوبارہ نہ جانے کیوں زندہ کر دیا گیا ہے۔

    رواں سال مارچ میں اس وقت کے وزیرِاعظم نے اپنے اقتدار کے آخری ایّام میں ایک عوامی جلسے میں کاغذ لہراتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے بیرونی سازش کا ذکر کیا تھا اور ان کا یہ بیانیہ عوام میں ہٹ ہوگیا۔ اس کے بعد کافی وقت تک سازش پر مبنی خط ہمارے سیاسی افق پر چھایا رہا جو درحقیقت ایک سائفر تھا۔

    گزشتہ چھے ماہ سے سائفر ہے، سائفر نہیں ہے، سازش ہے، سازش نہیں مداخلت ہے، سازش کا بیانیہ من گھڑت ہے، موجودہ حکومت رجیم چینج کی سازش سے اقتدار میں آئی جیسے دعوے، الزامات اور انکشافات کی گونج سنائی دے رہی تھی جس میں‌ دو سیاسی جماعتوں‌ کی جانب سے بیانات سنتے سنتے قوم کے کان پک گئے۔ پھر فریقین کی جانب فوری نئے الیکشن کے مطالبے، مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کے دبنگ اعلانات اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی پریکٹس شروع ہوگئی۔ اسی اثنا میں ان آڈیو لیکس نے مردہ ہوتے سائفر کے گھوڑے میں جان ڈال دی اور یوں بالآخر سائفر نکل ہی آیا۔

    ستمبر جاتے جاتے ستم گر ثابت ہوا، لیکن کس کے لیے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ بہرحال ستمبر کا آخری ہفتہ تھا، پی ٹی آئی کے حلقوں میں قہقہے لگ رہے تھے اور اس کے راہ نما بغلیں بجا رہے تھے کیونکہ ان کے سخت بلکہ بدترین سیاسی حریف وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز کی ایک دو نہیں بلکہ کئی مبینہ آڈیو ملکی میڈیا کے ذریعے افشا ہوئیں۔ جس کے بعد ن لیگ کے کیمپ کو جیسے سانپ سونگھ گیا تو پی ٹی آئی کے کیمپ میں شادیانے بج اٹھے، لیکن ابھی ان آڈیو لیکس کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ اچانک پی ٹی آئی چیئرمین کی وزارت عظمیٰ کے آخری دور کی آڈیو بھی عوام کے سامنے آگئیں۔

    وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی بھتیجی، ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کے مابین 24 ستمبر سے پے در پے کئی ٹیلیفون کالز آڈیو لیکس کے نام پر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچیں جو سب کو ازبر ہیں۔ تاہم اس میں اپنی نوعیت کی سب سے سنگین اور عوامی مفاد کے خلاف جو گفتگو تھی وہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے اور انصاف صحت کارڈ بند کردینے سے متعلق تھی۔ ان میں مریم نواز کی طرف سے وزیراعظم سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور انصاف صحت کارڈ بند کر دینے کی بات کی گئی تھی۔

    ان آڈیو لیکس نے ایک جانب جہاں ن لیگی قیادت کے عوامی ہمدردی کے دعوؤں اور دہرے معیار کی قلعی کھول کر رکھ دی وہیں ہیکر کی جانب سے جمعے کو ایسے متعدد انکشافات سے بھرپور اور سنسنی خیز آڈیو لیک کرنے کے اعلان نے حکم راں جماعت کے کیمپ میں بھی ہلچل مچائے رکھی، جس کی ایک دل چسپ وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے قبل ن لیگ کے خلاف اکثر سیاسی اور عدالتی فیصلے جمعے کے روز ہی آئے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ جمعے کا دن ن لیگ پر بھاری ہوتا ہے، تاہم ہوا اس کے بالکل الٹ۔

    ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کی تاویلیں اور پی ٹی آئی کی ملامتیں جاری تھیں اور قبل اس کے کہ ن لیگ پر بھاری جمعہ آتا بدھ 28 ستمبر کو ٹی وی چینلوں پر آڈیو لیک کی صورت میں ایک اور دھماکا ہوگیا، لیکن اس دھماکے نے توقع کے برخلاف پی ٹی آئی کے کیمپ میں ہلچل مچا دی۔

    اس بار آڈیو لیک میں وزارت عظمیٰ کے آخری ایّام میں‌ عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے مبینہ گفتگو سامنے آئی۔ اعظم خان اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو سائفر سے متعلق آگاہ کرتے ہیں جب کہ عمران خان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اس پر کھیلیں گے، اس کے بعد دو دن کے وقفے سے اسی سے متعلق ایک اور آڈیو منظر عام پر آتی ہے جس میں عمران خان شاہ محمود قریشی سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اچھا شاہ جی ہم نے کل ایک میٹنگ کرنی ہے۔ اس مبینہ آڈیو میں عمران خان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ایشو پر پلیز کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے۔ ایک ہفتے کے تعطل کے بعد ہیکر نے عمران خان کی ایک ہی دن میں مزید دو مبینہ آڈیوز لیکس کر دیں جس میں ایک میں وہ عدم اعتماد کے دنوں میں ممبران خریدنے اور دوسرے میں میر جعفر اور میر صادق کے بیانیے کو ’’عوام کو گھول کر پلانا ہے‘‘ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

    ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کے کیمپ میں بھی خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے اور تمام وزرا اور راہ نما تازہ دم ہو کر پی ٹی آئی کے خلاف میدان میں آگئے۔ پے در پے پریس کانفرنسیں ہونے لگیں۔ گویا پی ڈی ایم اور حکومت کے تنِ خستہ میں جان پڑ گئی جب کہ سائفر کا مردہ گھوڑا زندہ ہونے پر دیگر سیاسی جماعتیں بھی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے میدان میں آگئیں۔

    وزیراعظم، مریم نواز، بلاول بھٹو، سمیت پی پی پی اور ن لیگ کی سیکنڈ لائن قیادت بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آگئی اور شکوہ جوابِ شکوہ کی طرح بیانات، جوابی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوسری جانب عمران خان نے اس سائفر کو عام کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سائفر پبلک ہوجائے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کتنی بڑی سازش ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ تک کہہ دیا کہ صدر مملکت نے سائفر چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوایا ہوا ہے اگر وہ کہہ دیں کہ یہ غلط ہے، ہم پارلیمنٹ جانے کو تیار ہو جائیں گے۔ اسی ہنگامے میں سائفر کے وزیراعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف ہوا۔ کابینہ نے سائفر کو من گھڑت قرار دے دیا تو پی ٹی آئی نے سائفر کی گم شدگی پر اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ بھی کر دیا۔

    ان آڈیو لیکس کے بعد اب تک ن لیگ کی جانب سے جہاں پی ٹی آئی پر الزامات اور سیاسی وار جاری ہیں وہیں عمران خان اور پی ٹی آئی آڈیو لیکس کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے پیچھے ن لیگ کا ہاتھ ہے۔ جعلی آڈیوز کی حقیقت عوام پر آشکار کرنے کیلیے عمران خان نے اپنے ایک جلسے میں نواز شریف کی فیک آڈیو عوام کو سنا دی جس میں نواز شریف خود کو سب سے کرپٹ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

    قومی سلامتی کمیٹی آڈیو لیکس اور سائفر کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کرچکی ہے، اس کے کئی اجلاس بھی ہوچکے ہیں، تاہم آگے کیا ہوتا ہے، کتنی آڈیو لیک ہوتی ہیں اور کن اہم شخصیات کی ہوتی ہیں؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

    پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا تاحال اعلان تو نہیں کیا تاہم غالب امکان یہ ہے کہ یہ رواں ماہ اکتوبر میں ہی ہوگا، جس کو ناکام بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے اسلام آباد سیل کرنے کیلیے اقدامات شروع کردیے ہیں اور وفاقی دارالحکومت کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے ہیں، دیگر صوبوں سے نفری بھی طلب کر رکھی ہے اور کے پی اور پنجاب سے انکار پر وفاق کی جانب سے انہیں انتباہی پیغام بھی دیا جا چکا ہے، جب کہ اس معاملے پر حکومتی اتحادیوں نے شہباز حکومت کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔

    صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ لانگ مارچ کی صورت میں حکومت جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل فون اور میٹرو بس سروس بند رکھنے کے ساتھ دارالحکومت کے ہوٹلز میں مہمانوں کی چھان بین سمیت پکوان سینٹروں اور ساؤنڈ سسٹم کرائے پر دینے والوں کو بھی پابند کرنے پر غور کررہی ہے اور یہ تمام اقدامات حکومت کی پریشانی کو عیاں کر رہے ہیں۔

    اسی تناظر میں وفاقی وزارت داخلہ نے 16 اکتوبر کو ملک کے قومی اسمبلی کے 11 حلقوں میں ضمنی الیکشن تین ماہ کیلیے ملتوی کرنے کی درخواست وفاقی حکومت کو دے دی ہے تو دوسری جانب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی پریس کانفرنس میں سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر موجودہ حکومت کی مدت بڑھانے کا مطالبہ کرچکے ہیں جب کہ اس سے قبل حکومتی اتحادی ایم کیو ایم بھی بات کرچکی ہے اور سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ ایک پارٹی سربراہ کے ساتھ اہم حکومتی عہدے پر براجمان شخصیت اور ایک حکومتی اتحادی جماعت کی جانب سے ایسے مطالبات کا منظر عام پر آنا مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی عکاسی کر رہے ہیں جس کے لیے اندرون خانہ کوششیں جاری ہیں۔

    ملکی سیاست میں ہر دن ایک نیا تماشا ہو رہا ہے اور امید یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں‌ عوام کو آڈیو لیکس اور لانگ مارچ کی صورت میں‌ بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملے گا۔