2023 میں جریدے نیچر میں شائع ہونے والی سائنسی تحقیق نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے، کہ انسانوں کے ہاتھوں زیرِ زمین پانی کے ذخائر کا حد سے زیادہ استعمال زمین کے محور کو تبدیل کر رہا ہے۔ Nature جریدے کے مطابق 1993 سے 2010 کے درمیان زمین، جو اپنے پولز پر لٹو کی طرح گھومتی ہے، اس کا محور شمالی قطب سے تقریباً 31.5 انچ (80 سینٹی میٹر) جنوب مشرق کی جانب سرک چکا ہے۔
اس بڑی تبدیلی کی اصل وجہ انسانوں کی جانب سے کھیتوں، شہر اور فیکٹریوں کے لیے بے دریغ پانی نکالنا ہے، جس کے باعث زمین کے بڑے پیمانے کے توازن (mass balance) میں فرق پڑا اور پوری دنیا کی گردش کا توازن معمولی سا بدل گیا۔
زمین کی اس حرکت کی وجہ سے ہماری آب و ہوا، موسموں کے پیٹرنز اور گلیشیئر کے پگھلنے جیسے عمل بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ برف باری میں کمی اور موسمی شدت براہ راست گلوبل وارمنگ یعنی گرین ہاؤس گیسز (کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین وغیرہ) کے اضافے سے ہوتی ہے، مگر زمین کے محور میں اس تبدیلی نے اس عمل کو اور تیز کر دیا ہے۔
جریدہ Science Advances (2023) کی تحقیق بتاتی ہے کہ زیرِ زمین پانی کے بے دریغ نکالنے سے نہ صرف محور منتقل ہوا، بلکہ اس نے سمندر کی سطح اور سالانہ موسموں کے انداز پر بھی اثر ڈالا ہے۔ نتیجے میں قطب شمال پر برفباری کم ہوئی اور دنیا بھر میں گرمیاں طویل اور شدید ہوتی جا رہی ہیں۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر عالمی قوتوں نے پانی کے استعمال اور ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہ لیا تو زمین کا یہ بدلتا موڈ مستقبل میں ناقابل تلافی نتائج دے سکتا ہے۔
عالمی طاقتوں کو اب سنجیدگی سے سوچنے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا سیارہ محفوظ اور رہنے کے قابل رہ سکے۔
آپ نے بارش کے رک جانے کے بعد اکثر زمین کے گرد اس مقام پر ایک خوب صورت ہالا دیکھا ہوگا، جو مختلف رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کو ہم قوس قزح (دھنک کے رنگ) کہتے ہیں۔
قوسِ قزح (Rainbow) قدرت کا ایک حسین اور دل کش مظہر ہے، جو دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا ہے، اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ خوب صورت رنگوں والی قوس آخر کیسے اور کیوں بنتی ہے؟
قوسِ قزح فزکس کے 3 بنیادی اصولوں انعطاف (Refraction)، انتشار (Dispersion) اور انعکاس (Reflection) کے مشترکہ عمل سے وجود میں آتی ہے۔ یہ اُس وقت بنتی ہے جب سورج کی روشنی بارش کے چھوٹے قطروں سے گزرتی ہے۔
جب روشنی پانی کے قطرے میں داخل ہوتی ہے، تو عمل انعطاف کے باعث یہ مڑ جاتی ہے، پھر عمل انتشار کے ذریعے 7 رنگوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، اور آخر میں یہ عمل انعکاس کے عمل سے قطرے سے باہر نکلتی ہے۔
بارش کا ہر قطرہ روشنی کو تقریباً 42 ڈگری کے زاویے پر منعکس کرتا ہے اور جب لاکھوں قطرے ایک ساتھ روشنی منعکس کرتے ہیں تو ایک مکمل دائرہ بن جاتا ہے۔
یہ پورا عمل روشنی کو 7 رنگوں سرخ، نارنجی، پیلا، سبز، نیلا، نیل (انڈیگو- نیلے اور بنفشی کے درمیان کا رنگ) اور بنفشی میں تقسیم کر دیتا ہے اور یہی سات رنگ ہمیں آسمان پر نیم دائرہ نما ایک ہالے کی صورت میں نظر آتے ہیں، جسے ہم قوسِ قزح یا رینبو کہتے ہیں۔
ہر رنگ کی شعاع پانی کے قطرے سے مختلف زاویے پر باہر نکلتی ہے، اسی لیے آسمان پر قوس قزح میں رنگوں کی ترتیب ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے، یعنی سرخ رنگ باہر اور وائلٹ (بنفشی) رنگ اندر کی طرف۔
زمین پر کھڑے شخص کو یہ کمان ہمیشہ نیم دائرے کی شکل میں نظر آتی ہے، حالاں کہ حقیقت میں یہ مکمل گول دائرہ ہوتی ہے، جو ہوائی جہاز سے بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ قوسِ قزح آسمان پر موجود نہیں ہوتی، بلکہ یہ روشنی، پانی کے قطروں اور دیکھنے والے کے زاویے کے باہمی تعلق سے زمین پر دکھائی دیتی ہے۔ ہر انسان کا مقام اور دیکھنے کا زاویہ مختلف ہوتا ہے، اس لیے زمین پر ایک ہی جگہ کھڑے دو افراد کو بھی قوس قزح ہمیشہ مختلف جگہ نظر آئے گی۔
(تصاویر اسکردو کے نیشنل پارک دیوسائی میں بنائی گئی ہیں۔)
جب بھی مون سون کا موسم شروع ہوتا ہے تو کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارشیں ہوتی ہیں۔ ان بارشوں کے دوران آپ نے اکثر آسمان میں بجلی چمکتی دیکھی ہوگی، جس کے بعد ایک تیز آواز یعنی کڑک سنائی دیتی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جب موسم بہت خطرناک ہوتا ہے تو بجلیاں لگاتار کڑکراتی ہیں اور بہت زیادہ شور ہوتا ہے۔
ناسا کا ارتھ سائنس ڈویژن، خاص طور پر گلوبل ہائیڈرولوجی اینڈ کلائمیٹ سینٹر (GHCC) اور زمین کا مشاہدہ کرنے والے نظام (EOS) کے مطابق بجلی درحقیقت ایک پیچیدہ مظہر ہے جس میں زمین کی سطح اور ماحول کے درمیان توانائی کا بڑے پیمانے پر تبادلہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں روشنی اور گرج چمک کی آواز آتی ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔
مون سون کے موسم میں بجلی کے چمکنے اور بننے کا عمل نہ صرف ایک قدرتی مظہر ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک سائنس بھی ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔
بادلوں میں منفی اور مثبت چارج کیسے بنتا ہے؟
بادل خاص طور پر Cumulonimbus یعنی طوفانی بادل، بجلی پیدا کرنے کی ایک ایسی قدرتی فیکٹری ہوتی ہے جس میں پانی کے قطرے، برف کے ذرات اور برفیلے کرسٹل بلندی پر تیز ہواؤں کے باعث آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں۔ ان ٹکراؤ سے الیکٹرانز کا تبادلہ ہوتا ہے، جس سے چارج پیدا ہوتا ہے۔
ہلکے ذرات (مثلاً برف کے کرسٹل) مثبت چارج کے ساتھ بادلوں کے اوپر جاتے ہیں اور بھاری ذرات (مثلاً پانی کے بڑے قطرے) منفی چارج کے ساتھ نیچے جمع ہوتے ہیں۔ اس طرح بادلوں میں ایک الیکٹرک فیلڈ پیدا ہوتی ہے یعنی اوپر مثبت اور نیچے منفی چارج۔
برقی میدان کیسے بجلی گراتی ہے؟
جب بادلوں اور زمین کے درمیان برقی چارج کا فرق (Potential Difference) بہت زیادہ ہو جاتا ہے، تو ایک طاقت ور برقی میدان (Electric Field) پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ برقی میدان ہوا کی قدرتی مزاحمت کو توڑ دیتا ہے، تو بادلوں سے زمین کی طرف آنکھ سے نظر نہ آنے والا ایک ایسا راستہ بنتا ہے جسے ’لیڈر اسٹروک‘ (Leader Stroke) کہا جاتا ہے۔ یہ لیڈر اسٹروک آہستہ آہستہ زگ زیگ ابتدائی برقی راستہ بناتا نیچے آتا ہے جو پیچھے آنے والی بجلی کے لیے راستہ فراہم کرتا ہے۔ جیسے ہی یہ لیڈر اسٹروک نیچے پہنچتا ہے، زمین سے ایک واپسی کا چارج (Return Stroke) تیزی سے واپس اسی راستے سے اوپر کی طرف جاتا ہے۔ یہی وہ زگ زیگ روشنی ہوتی ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ پورا عمل مائیکرو سیکنڈز میں ہوتا ہے۔
بادلوں کے اندر موجود مثبت اور منفی چارج فوراً آپس میں نہیں ٹکراتے، کیوں کہ ان کے درمیان ہوا کی مزاحمت اور فاصلہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے چارج فوری طور پر خارج نہیں ہو پاتا۔ لیکن جب چارج اتنا طاقت ور ہو جائے کہ وہ ہوا کی مزاحمت کو توڑ دے اور فاصلہ کم ہو جائے، تو مثبت اور منفی چارج آپس میں ٹکرا جاتے ہیں، اور چارج مکمل طور پر خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بجلی زور دار آواز کے ساتھ چمکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اکثر بادلوں کے اندر بھی بجلی کی چمک دیکھی ہوگی۔
رفتار اور طاقت
بادلوں سے زمین کی طرف راستہ بنانے والا لیڈر اسٹروک تقریباً 100 سے 300 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتا ہے۔ جب کہ ریٹرن اسٹروک کی رفتار روشنی کی رفتار کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہوتی ہے، جو تقریباً 100,000 کلومیٹر فی سیکنڈ تک پہنچ سکتی ہے۔ آسمانی بجلی کی ایک چمک میں تقریباً ایک ارب وولٹ تک بجلی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار تقریباً 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔
بادلوں سے زمین پر آنے والی آسمانی بجلی زیادہ تر بلند عمارتوں یا کھلے میدانوں پر گرتی ہے، کیوں کہ یہاں مثبت چارج نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بادلوں میں موجود منفی چارج فوراً اس سے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی بلند عمارت یا کھلے میدان میں کوئی انسان یا جان دار موجود ہو تو وہ فوراً متاثر ہو سکتا ہے، کیوں کہ زمین پر موجود ہر چیز (درخت، عمارت، میدان، حتیٰ کہ انسان بھی) کسی نہ کسی حد تک برقی چارج رکھتی ہے یا خارج کر سکتی ہے۔
انسانی جسم میں پانی موجود ہوتا ہے، جو ایک اچھا موصل (conductor) ہے۔ اسی وجہ سے اگر انسانی جسم کسی برقی ذریعے سے جُڑا ہو تو اس میں سے بجلی آسانی سے گزر جاتی ہے، جس سے جھٹکا لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان یا دوسرے جان دار برقی جھٹکوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ذیل میں مزید آسانی کے لیے یہ چند نکات درج ہیں:
1. بجلی کی تشکیل: بادل (کیومولونیمبس) پانی کی بوندوں، برف کے ذرات اور برف کے کرسٹل کے درمیان باہمی تصادم کے ذریعے بجلی پیدا کرتے ہیں۔
2. الیکٹرک فیلڈ: چارجز کی علیحدگی بادل اور زمین کے درمیان ایک برقی میدان بناتی ہے۔
3. لیڈر اسٹروک: بادل سے زمین تک ایک راستہ بنتا ہے، جس سے بجلی سفر کرتی ہے۔
4. ریٹرن اسٹروک: زمین سے تیز خارج ہونے والا مادہ اوپر کی طرف سفر کرتا ہے، جس سے روشنی کی چمکیلی چمک پیدا ہوتی ہے۔
5. رفتار: لیڈر اسٹروک (100-300 کلومیٹر فی سیکنڈ)، ریٹرن اسٹروک (100,000 کلومیٹر فی سیکنڈ)، روشنی کی رفتار (300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ)
فطرت (Nature) ایک وسیع اور بنیادی تصور ہے لیکن اس سے عام طور پر انسان کی پیدائشی حالت، اس کے بنیادی رجحانات اور وہ خصوصیات مراد لے لی جاتی ہے جو اسے فطری طور پر عطا کی گئی ہیں۔
مگر فطرت ایک وسیع، خودمختار، اور پیچیدہ نظام ہے جو اربوں سالوں سے اپنے قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ یہ انسان سے الگ اور اس سے کہیں بڑا ہے، اور چاہے انسان موجود ہو یا نہ ہو یہ نظام اپنے بل پر چلتا رہتا ہے۔
فطرت کا انسانی وجود سے آزاد پہلو
قدرتی نظام (Natural Systems): فطرت کائنات کا وہ حصہ ہے جو اپنے اندرونی قوانین سے وجود میں آیا اور چل رہا ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے، سمندر، پہاڑ، اور زمین کے اندرونی عمل (جیسے زلزلے یا آتش فشاں)۔ یہ سب انسان سے آزاد ہیں اور اپنے فطری قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع (Biodiversity): فطرت میں تمام جان دار شامل ہیں، جیسے جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، پودے، اور جرثومے (Microorganisms)۔ یہ سب ارتقائی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئے اور انسان کے بغیر بھی اپنی زندگی کے چکر (Life Cycles) مکمل کرتے ہیں، جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتا بنانا یا درختوں کا بڑھنا۔
موسمی اور ماحولیاتی عمل (Environmental Processes): فطرت میں وہ تمام واقعات شامل ہیں جو انسان کے کنٹرول سے باہر ہیں، جیسے بارش، طوفان، موسموں کا بدلنا، یا سمندری لہروں کی حرکت۔ یہ عمل زمین کے فطری توازن اور سورج، چاند، اور سیاروں کے باہمی تعامل سے چلتے ہیں۔
کیمیائی اور طبیعیاتی قوانین (Chemical and Physical Laws): فطرت کو چلانے والے بنیادی قوانین جیسے کشش ثقل (Gravity)، توانائی کا تبادلہ (Thermodynamics)، یا آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا چکر (Carbon Cycle) انسان سے آزاد ہیں۔ یہ قوانین کائنات کے آغاز سے موجود ہیں اور فطرت کے ہر جزو کو متاثر کرتے ہیں۔
خودکار توازن (Self-Regulation): فطرت کا ایک اہم پہلو اس کا خود کو متوازن رکھنے کا نظام ہے۔ مثال کے طور پر، جنگلوں میں شکار اور شکار کرنے والے جانوروں کے درمیان توازن، یا سمندر میں پانی کے بخارات بننے اور بارش کا عمل، یہ سب انسان کی مداخلت کے بغیر چلتے ہیں۔
فطرت کا انسانی وجود سے جڑا پہلو
سائنسی طور پر فطرت کو عام طور پر انسانوں، جانوروں، پودوں اور مجموعی طور پر کائنات کے فطری نظام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے حیاتیات، جینیات، اور ارتقائی سائنس (Evolutionary Science) کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ فطرت کا وہ پہلو ہے جو انسان کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔
جینیاتی بنیاد (Genetics): سائنس کے مطابق انسان کی فطرت کا بڑا حصہ اس کے جینز سے طے ہوتا ہے۔ جینز وہ بنیادی اکائیاں ہیں جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں اور ان میں انسان کی جسمانی خصوصیات (جیسے رنگت، قد) اور کچھ بنیادی رویوں کے رجحانات شامل ہوتے ہیں۔
جبلت (Instincts): انسان اور دیگر جان داروں میں کچھ فطری رویے ہوتے ہیں، جو بغیر سیکھے موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نومولود بچے کا دودھ پینے کی کوشش کرنا یا خطرے سے بچنے کی جبلت۔ یہ ارتقائی عمل (Evolution) کا نتیجہ مانے جاتے ہیں جو بقا کے لیے ضروری ہیں۔
دماغ اور رویہ (Brain and Behavior): سائنس کہتی ہے کہ انسان کا دماغ (خاص طور پر نیورو کیمیکلز جیسے ڈوپامائن اور سیروٹونن) اس کی فطرت کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، سماجی تعلق قائم کرنے کی خواہش یا خوف کا ردعمل دماغ کے فطری نظام کا حصہ ہیں۔
ماحول سے تعامل (Interaction with Environment): اگرچہ فطرت جینیاتی طور پر طے ہوتی ہے، لیکن سائنس یہ بھی مانتی ہے کہ ماحول (Nurture) اسے شکل دیتا ہے۔ اسے ’’نیچر بمقابلہ نیچر‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یعنی فطرت اور تربیت مل کر انسان کے رویوں اور شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں۔
ارتقائی نقطہ نظر (Evolutionary Perspective): ارتقائی حیاتیات کے مطابق فطرت میں موجود خصوصیات وہ ہیں جو لاکھوں سالوں کے دوران بقا اور تولید (Survival and Reproduction) کے لیے موزوں ثابت ہوئیں۔ مثلاً انسان کا سماجی ہونا اسے گروہوں میں زندہ رہنے میں مدد دیتا ہے۔
سائنسی طور پر انسانی فطرت کو جامد چیز نہیں، بلکہ ایک متحرک عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو جینیات، دماغی ڈھانچے اور ارتقائی دباؤ سے مل کر بنتا ہے۔ نیورو سائنس کے تناظر میں انسانی فطرت (Human Nature) کو دماغ کے ڈھانچے، اس کے کیمیائی عمل، اور عصبی نظام (Nervous System) کے فطری رجحانات کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔ جس کے مطابق انسان کے بنیادی رویے، جذبات، اور فیصلہ سازی کا تعلق دماغ کے فطری نظام سے ہے۔
انسانی فطرت نیورو سائنس کے تناظر میں
دماغ کا ڈھانچا (Brain Structure): انسانی دماغ 3 بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو فطرت کا حصہ ہیں: ریپٹیلین دماغ (Reptilian Brain) جو بنیادی جبلتوں (جیسے بھوک، خوف، بقا) کو کنٹرول کرتا ہے، لمبک سسٹم (Limbic System) جو جذبات (محبت، غصہ، خوشی) سے جڑا ہے، اور نیو کورٹیکس (Neocortex) جو سوچ، منطق، اور زبان کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ تمام حصے ارتقائی طور پر مختلف مراحل میں تیار ہوئے ہیں اور ان سے انسان کی فطرت متشکّل ہوئی ہے۔
نیورو کیمیکلز (Neurochemicals): دماغ میں موجود کیمیائی مادے جیسے ڈوپامائن (خوشی اور انعام کا احساس)، سیروٹونن (مستقل مزاجی اور اطمینان)، آکسیٹوسن (سماجی تعلق اور اعتماد)، اور کورٹیسول (تناؤ) انسان کے فطری رویوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ماں اور بچے کے درمیان محبت کا رشتہ آکسیٹوسن کی وجہ سے فطری طور پر مضبوط ہوتا ہے۔
جبلی ردعمل (Instinctual Responses): نیورو سائنس کے مطابق انسان کے کچھ ردعمل فطری طور پر دماغ میں پروگرامڈ ہوتے ہیں۔ جیسے فائٹ یا فلائٹ (Fight or Flight) ردعمل، جو ایمیگڈالا (Amygdala) نامی دماغ کے حصے سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ خطرے کے وقت خود بخود متحرک ہوتا ہے۔ یہ دماغ کے لمبک سسٹم میں بادام کی شکل کا ایک اسٹرکچر ہے۔ اسی طرح، سماجی تعلق کی خواہش دماغ کے انعامی نظام (Reward System) سے جڑی ہے۔
جینیاتی اثر (Genetic Influence): نیورو سائنس جینیات کے ساتھ مل کر بتاتی ہے کہ دماغ کی ساخت اور اس کے نیٹ ورکس جینز سے وراثت میں ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں میں تناؤ یا پریشانی کا زیادہ رجحان ان کے دماغ کے کیمیائی توازن اور جینیاتی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔
سماجی فطرت (Social Nature): انسان کا سماجی ہونا بھی نیورو سائنسی طور پر اس کے دماغ سے جڑا ہے۔ مرر نیورونز (Mirror Neurons) انسان کو دوسروں کے جذبات سمجھنے اور ان کی نقل کرنے میں مدد دیتے ہیں، جو تعاون اور گروہی زندگی کے لیے فطری ہیں۔ یہ سماجی رجحانات ارتقائی طور پر انسان کی بقا کے لیے اہم رہے ہیں۔
لچک اور سیکھنے کی صلاحیت (Plasticity): دماغ کی نیورو پلاسٹیسٹی (Neuroplasticity) انسانی فطرت کا ایک انوکھا پہلو ہے۔ یعنی، اگرچہ کچھ چیزیں فطری ہیں، لیکن دماغ ماحول سے سیکھ کر خود کو تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ یہ فطرت اور تربیت (Nature vs. Nurture) کے تعامل کو ظاہر کرتا ہے۔
فطرت اور ادب
اگرچہ انسان خود کائنات میں پھیلی عظیم تر فطرت کے بے شمار مظاہر میں سے ایک مظہر ہے، تاہم ادب میں فطرت کو زیادہ تر انسان کے مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ دونوں ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں، جیسے قدیم دیہاتی کہانیوں میں، اور کبھی متضاد، جیسے جدید ادب میں جہاں انسان فطرت کو تباہ کرتا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی ناول The Old Man and the Sea میں فطرت (سمندر) اور انسان کے درمیان کشمکش دکھائی گئی ہے۔
فطرت اور ادب کا رشتہ بہت گہرا اور قدیم ہے۔ ادب میں فطرت کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے—کبھی اسے انسان کے جذبات کا آئینہ دار بنایا جاتا ہے، کبھی اس کی خوب صورتی کو سراہا جاتا ہے، اور کبھی اسے ایک علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رومانوی شاعروں جیسے ولیم ورڈز ورتھ اور جان کیٹس کی نظمون میں فطرت مرکزی موضوع رہا، ورڈز ورتھ کا یہ مشہور مصرعہ کتنا خوب صورت ہے ’’Nature never did betray the heart that loved her‘‘۔ یعنی جس دل میں فطرت کا پیار ہوتا ہے، اسے فطرت کبھی دھوکا نہیں دیتا۔
ایک طرف اگر ادیبوں نے فطرت کو ایک روحانی قوت کے طور پر دیکھا، تو دوسری طرف صنعتی انقلاب اور ماحولیاتی مسائل کے بعد ادب میں فطرت کو تباہی کے تناظر میں بھی دیکھا جانے لگا ہے، جدید ناولوں اور شاعری میں فطرت کی بربادی، آلودگی، اور انسان کے ہاتھوں اس کی بے توقیری کو موضوع بنایا گیا۔
کیا فطرت بے رحم ہے؟
بعض اوقات فطرت کو بے رحم کہہ دیا جاتا ہے، اس سوال کا جواب نقطہ نظر پر منحصر ہے۔ سائنسی طور پر فطرت کوئی شعوری ہستی نہیں ہے جو رحم یا بے رحمی کا فیصلہ کرے۔ یہ صرف اپنے قوانین کے تحت کام کرتی ہے، جیسے کشش ثقل، موسم، یا ارتقائی عمل۔ مثال کے طور پر زلزلے، طوفان، یا شکار کرنے اور شکار ہونے کا نظام، یہ فطرت کے عمل ہیں جو کسی جذبات سے متاثر نہیں ہوتے۔ اگر ایک شیر ہرن کا شکار کرتا ہے، تو یہ بے رحمی نہیں، بلکہ فطرت کا توازن ہے، کیوں کہ یہ شیر کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح بیماری یا قدرتی آفتیں بھی فطرت کے عمل کا حصہ ہیں، نہ کہ کوئی دانستہ ظلم۔
فلسفیانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ کچھ فلسفی فطرت کو بے رحم سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ انسان کے جذبات یا اخلاقیات کی پروا نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر تنہائی یا موت کے خوف سے دوچار انسان فطرت کے سامنے خود کو بے بس پا سکتا ہے۔ لیکن دیگر فلسفی جیسے کہ رومانوی مفکرین فطرت کو ایک خوب صورت اور رحم دل قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو سکون اور تحریک دیتی ہے، جیسے بہار کے پھول یا سمندر کی لہریں۔
انسانی تجربہ یہ ہے کہ جب فطرت کی تباہ کاریاں، جیسے سیلاب، زلزلے، یا وبائیں، انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں تو لوگ اسے بے رحم سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ بے رحمی فطرت کی جانب سے کوئی ارادی عمل نہیں، بلکہ اس کے غیر جانب دار قوانین کا نتیجہ ہے۔
پاکستان میں زرعی انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے اور ملک میں پہلی بار بغیر مٹی فضا میں آلو کی کاشت کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔
آلو کا استعمال روزمرہ زندگی میں کافی زیادہ ہے اور یہ مناسب قیمت پر مارکیٹ میں دستیاب بھی ہوتے ہیں، مگر اس کے بیج کی پاکستان میں درآمد کے لیے سالانہ چھ ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان میں یہ زرعی انقلاب کوریا کی مدد سے لایا گیا ہے اور کوریا کی جانب سے آلو کے بیج کو پاکستان میں تیار کرنے کیلیے جدید ترین ایرو پونکس ٹنل ٹیکنالوجی فراہم کی گئی ہے۔
کورین حکومت کی جانب سے 25 لاکھ ڈالر کی لاگت سے پاکستان میں جدید ترین ایرو پونکس ٹنلز قائم کی گئی ہیں جس کا افتتاح کر دیا گیا ہے اور اب ملک میں بغیر مٹی کے ہوا میں آلو کا بیج تیار کرنے کا آْغاز کر دیا گیا ہے
کورین ماہرین کے مطابق اس ٹیکنالوجی سے پاکستان وائرس سے پاک آلو کے بیج کی تیاری میں خود کفیل ہو جائے گا۔
ٹنلز کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کوریا کے سفیر کا کہنا تھا کہ ایرو پونکس ٹیکنالوجی کی منتقلی پاکستان کیلiے فائدہ مند ثابت ہوگی جبکہ مستقبل میں پاکستان اور کوریا زراعت کے شعبہ میں تعاون کو مزید فروغ دیں گے۔
وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی رانا تنویر نے ایروپونکس ٹیکنالوجی کو موجودہ وقت کی اہم ضرورت قرار دیا اور کہا کہ اس ٹیکنالوجی سے پاکستان کا آلو کے سرٹیفائیڈ بیج کا مسئلہ حل ہو سکے گا۔
پاکستان اور کوریا کے ماہرین پر عزم ہیں کہ ایروپونکس ٹیکنالوجی کے زریعے آئندہ پانچ برس میں پاکستان میں آلو کے بیج کی درآمد ختم ہو جائے گی۔
جوزف دیتوری دنیا کا پہلا آدمی ہے جو سائنس کے ایک ناقابل یقین اور خطرناک تجربے سے گزرنے کے بعد اس حیران کن نتیجے کے ساتھ آیا کہ وہ 10 سال چھوٹا ہو گیا تھا۔
سائنس دانوں نے پانی کے اندر انتہائی دباؤ والے ماحول میں رہنے پر انسانی جسم پر اس کے اثرات جاننے کے لیے ایک ریسرچ کی، اور اس کے لیے امریکی بحریہ کے سابقہ کمانڈر جوزف ڈیٹوری نے 3 ماہ سے زیادہ کا عرصہ پانی کے اندر ایک بالکل بند خول (compact pod) میں گزارا۔
یہ ایک غیر معمولی ریسرچ اسٹڈی تھی، اس کے اختتام پر سائنس دان یہ جان کر حیران رہ گئے کہ بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں تین ماہ تک رہنے کے بعد، جب جوزف اپنے کمپیکٹ پوڈ سے باہر نکلا تو وہ ’10 سال چھوٹا‘ ہو گیا تھا۔
ڈی این اے میں کیا تبدیلی آئی؟
بند خول سے باہر نکلنے کے بعد جب جوزف کا تفصیلی طبی جائزہ لیا گیا تو سائنس دانوں نے حیرت انگیز طور پر پایا کہ کروموسومز کے سروں پر موجود ڈی این اے کیپس (جنھیں ٹیلومیرز telomeres کہتے ہیں) تین ماہ قبل کے مقابلے میں 20 فی صد بڑی ہو گئی تھیں، یہ کیپس عمر کے ساتھ ساتھ سکڑ جاتی ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ سائنس دانوں نے دیکھا کہ جوزف کے اسٹیم سیل کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا، اور ان کی مجموعی صحت میں قابل ذکر تبدیلی دیکھنے میں آئی۔
مزید حیرت انگیز تبدیلیاں
جوزف کی نیند کا معیار بہتر ہوا، اس کے کولیسٹرول کی سطح میں 72 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی، اور ان کے جسم میں سوزش کے امکانات نصف حد تک کم ہو گئے تھے، ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلیاں پانی کے اندر دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ زیر آب دباؤ کے بارے میں پہلے ہی سے یہ بات سائنس دان جانتے ہیں کہ اس کے انسانی جسم پر مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جوزف ڈیٹوری نے بتایا کہ ان کے میٹابولزم میں بھی بہتری آ گئی ہے، حالاں کہ پانی کے اندر گزارے گئے دنوں کے دوران انھوں نے صرف اپنے ایکسرسائز بینڈز کی مدد سے ہفتے میں پانچ دن ایک گھنٹے کے لیے ورزش کی۔
جوزف ڈیٹوری نے اپنی 93 دن کے اس تجربے کے دوران ایک اور بڑا کارنامہ بھی انجام دے دیا ہے، انھوں نے پانی کے اندر رہنے کا پچھلا عالمی ریکارڈ بھی توڑ دیا، جو 73 دن کا تھا۔
پنسلوینیا: دنیا میں کسی انسان کو پہلی بار ایک 3 ڈی پرنٹڈ کان لگا دیا گیا ہے، اور اسے میڈیکل سائنس کی دنیا کا انقلابی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق دنیا میں پہلی بار کسی انسان کو تھری ڈی کان لگایا دیا گیا، نوجوان خاتون اپنے خلیوں سے بَنا تھری ڈی کان لگوانے والی دنیا کی پہلی انسان بن گئی ہیں۔
میسیکو سے تعلق رکھنے والی 20 برس کی الیکسا کان کے ایک نایاب نقص مائیکروٹیا کے ساتھ پیدا ہوئی تھیں، ان کے کان کا بیرونی حصہ مکمل طور پر موجود نہیں تھا، یہ حالت سماعت کو متاثر کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر ارٹورو بونِیلا نے الیکسا کے نامکمل کان کو سرجری کے ذریعے ہٹایا اور اس سے آدھا گرام کارٹلیج نکال کر اسے خاتون کے صحت مند کان کے تھری ڈی اسکین کے ساتھ سان انتونیو سے لانگ آئی لینڈ سٹی، کوئنز میں 3DBio تھیراپیوٹکس کو بھیج دیا۔
According to the news in the New York Times, an ear produced by 3D printing in the USA was transplanted to a patient born with a congenital small ear.
Cartilage cells taken from the patient’s ear were combined with collagen-based bio-ink and printed with a bioprinter. pic.twitter.com/HKwPKLQ65a
لیبارٹری میں مریض کے کونڈروسائٹس (وہ خلیات جو کارٹلیج کی تشکیل کرتے ہیں) کو ٹشو کے نمونے سے الگ کر دیا گیا، اور پھر اسے خاص طریقے سے اربوں خلیوں میں تبدیل کیا گیا، ان زندہ خلیوں کو پھر کولاجین پر مبنی بائیو اِنک کے ساتھ ملایا گیا اور تھری ڈی بائیو پرنٹر میں سرنج کے ذریعے ڈال دیا گیا، جس سے کان کا باہری حصہ بنا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس اِمپلانٹ کے اطراف میں گھُل جانے والا خول موجود ہے جو ابتدائی سہارے کے لیے لگایا گیا ہے اور یہ وقت کے ساتھ مریض کے جسم کے اندر جذب ہو جائے گا۔
اس تھری ڈی کان کے پرنٹ ہونے کے عمل میں 10 منٹ سے بھی کم وقت لگا، ڈاکٹروں کو امید ہے یہ ٹرانسپلانٹ طب کی دنیا میں ’مائیکروٹیا‘ میں مبتلا افراد کے لیے علاج سامنے لاکر انقلاب برپا کر دے گا۔
بیجنگ: پیدائش سے قبل ہی بچے میں جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے متعلق سائنس دانوں نے اہم انکشاف کیا ہے، چینی اور برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے انسانوں میں انٹرنیورانز کی نشوونما کا پتا چلا لیا۔
تفصیلات کے مطابق چین اور برطانیہ کے سائنس دانوں نے اس بات کا پتا چلایا ہے کہ انسانی انٹر نیوران (جو جدید انسانی سرگرمیوں کی اہلیت پیدا کرنے والا ایک اہم قسم کا نیوران ہے، اور جو بچپن میں نشوونما پاتا ہے) کس طرح سے ذہنی اور جسمانی نشوونما کے مسائل کے حل میں رہنمائی کرتا ہے۔
جریدے سائنس میں جمعہ کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں جدید انسان کے انٹرنیوران کی 2 اقسام کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کی خصوصیات چوہوں کے ساتھ مشترکہ نہیں ہیں۔
تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح سے انسانی دماغ نے متنوع انٹرنیورانز تیار کیے جو انسان کو اس کی منفرد جدید علمی قابلیت فراہم کرتے ہیں۔
انسانی دماغ کے سیریبرل کارٹکس میں دماغی خلیوں کے 2 اہم گروہ ہیں؛ ایک انسان کو کسی کام پر اکساتا اور دوسرا اسے کسی کام سے روکتا ہے۔
کسی کام سے ممانعت کے انٹرنیورانز جی اے بی اے نامی نیورو ٹرانسمیٹر پیدا کرتے ہیں جو دماغ کو ضرورت سے زیادہ پرجوش ہونے سے روکتے ہیں، اگر اس نیورو ٹرانسمیٹر (جی اے بی اے) میں کسی قسم کی بے ضابطگی آ جائے تو یہ آٹزم، ڈپریشن، سکیزوفرینیا یا مرگی کا باعث بن جاتا ہے۔
چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے ماتحت ادارے، انسٹیٹیوٹ آف بائیو فزکس، بیجنگ نارمل یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کے محققین نے انسانی جنین کے پہلی سے دوسری سہ ماہی کے ابتدائی دور میں انٹرنیورانز کی تفصیلی میسنجر آر این اے معلومات حاصل کرنے کے لیے سنگل سیل سیکوینسنگ ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی۔
محققین نے معلوم کیا کہ انسانوں کی پیدائش متنوع انٹرنیورانز کے ساتھ ہوئی ہے، جو انسان کے بھرپور جذبات اور خود شناسی کی بنیاد رکھتے ہیں۔
مطالعے کے مطابق، یہ صلاحیتیں انسان کے دماغ میں راسخ ہیں، جس کی وجہ دماغ کے گینگلیونک ایمیننس حصے کا ایک متنوع مالیکیولر ریگولیشن میکانزم ہے جہاں انٹرنیوران تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں۔
ژیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر دوآن شومین، جو اس تحقیق سے وابستہ نہیں ہیں، کا کہنا ہے کہ انسانی جنین کے دور میں انٹرنیوران کی نشوونما کے مرحلہ وار مطالعے نے سکیزوفرینیا اور دیگر دماغی بیماریوں کی تحقیق، تشخیص اور علاج کا ایک نیا راستہ کھول دیا ہے۔
لندن: سائنس دانوں نے ایک نئی تحقیق میں کہا ہے کہ ڈائٹنگ کا بہترین اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ہفتے میں ’دو دن فاقہ‘ کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق ’پلوس وَن‘ نامی آن لائن ریسرچ جرنل کے تازہ شمارے میں ایک تحقیق شایع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کامیاب ڈائٹنگ کے لیے روزانہ کم کھانے سے بہتر ہے کہ ہفتے میں صرف 2 دن فاقہ کیا جائے، جب کہ باقی 5 دن معمول کے مطابق صحت بخش غذائیں استعمال کی جائیں۔
یہ تحقیق کوئین میری یونیورسٹی، برطانیہ کے سائنس دانوں نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ ڈائٹنگ کے اس طریقے کو ’5:2 ڈائٹ‘ (فائیو ٹو ڈائٹ) بھی کہا جاتا ہے، جو کچھ ہی سال قبل سامنے آیا ہے اور اب بہت مقبول ہو رہا ہے۔
ڈائٹنگ کے اس طریقے میں ہفتے کے پانچ دنوں میں معمول کی غذاؤں سے مطلوبہ کیلوریز حاصل کی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق مردوں کے لیے 2 ہزار سے 3 ہزار کیلوریز روزانہ بہتر ہیں، جب کہ خواتین کے لیے 16 سو سے 2400 تک کیلوریز لینا روزانہ مناسب ہے۔
ہفتے کے باقی کے دو دنوں میں غذا بہت کم کر دی جاتی ہے، یعنی صرف 5 سو کیلوریز روزانہ تک، اور اسے میڈیکل سائنس کی زبان میں فاسٹنگ یعنی فاقہ کہا جاتا ہے۔
ریسرچ کے دوران
تحقیقی مطالعے کے لیے 3 سو ایسے رضاکار بھرتی کیے گئے جو موٹاپے میں مبتلا تھے، انھیں تین گروپس میں تقسیم کیا گیا، اور ہر گروپ میں 100 رضاکار رکھے گئے، ان سب سے 6 ہفتوں تک تین الگ الگ ڈائٹنگ پلانز پر عمل کروایا گیا۔
جب نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ دو دن فاقہ کرنے والے اور روزانہ کم کھانے والے افراد کے درمیان کچھ خاص فرق نہ تھا، لیکن رضاکاروں نے دو دن فاقہ کرنے کا پلان زیادہ آسان پایا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دو دن فاقے والا پلان حاملہ خواتین اور 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
جھڑتے بالوں اور گنج پن کا علاج اب ممکن ہو سکے گا، حال ہی میں ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں چوہوں پر کیے گئے تجربات کے نتائج حیران کن نکلے ہیں۔
سائنس دانوں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جھڑتے بالوں اور گنج پن کا علاج اب ممکن ہو سکے گا، سائنس دانوں کی جانب سے ’نینو پارٹیکل سیرم‘ پر مشتمل ایک محلول بنایا گیا ہے جس کے ذریعے چوہوں پر حاصل ہونے والے نتائج نے محققین کو بھی حیران کر دیا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل خواتین اور مردوں کے گنج پن کے لیے بھی یکساں مفید ثابت ہو سکتا ہے، امریکن ہیئر لاس ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ جھڑتے بالوں کے مرض سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد متاثر ہو رہے ہیں، محققین بھی اس کے حل کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔
ایلوپیشیا (Alopecia) ایک ایسی بیماری ہے جس میں خواتین اور مردوں میں بال جھڑنے لگتے ہیں، اس میں بالوں کی جڑوں کے نیچے خون کی باریک شریانوں میں خون کی ترسیل صحیح سے نہیں ہو پاتی۔
محققین کا کہنا ہے کہ بال نوجوانی میں بھی جھڑنا شروع ہو سکتے ہیں، 18 سے 20 سال کی عمر کے دوران 16 فی صد، 40 سے 49 سال کی عمر کے درمیان تقریباً 53 فی صد، اور 35 سال کی عمر تک دو تہائی مرد بالوں کے جھڑنے کے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں۔
محققین کے مطابق جب بالوں کی جڑوں کے نیچے خون کی باریک شریانوں میں خون کی ترسیل صحیح سے نہیں ہو پاتی تو بالوں کو مطلوبہ غذائیت، منرلز اور وٹامنز بھی نہیں مل پاتے، آکسیجن کی فراہمی بھی رُک جاتی ہے، ایسے میں بالوں کے جھڑنے کا آغاز ہو جاتا ہے، کچھ لوگ تو نوجوانی ہی میں گنج پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے اب گنج پن کے لیے ’سیرم نینو پارٹیکلز‘ پر مشتمل نیا علاج متعارف کرایا ہے، اس میں سر کی جلد، بے جان اور کمزور جِلد پر کام کیا جاتا ہے، اسے مضر صحت مادوں اور اجزا سے پاک کر کے صحت مند بنایا جاتا ہے، تا کہ جِلد میں آکسیجن صحیح سے سرایت کر سکے۔
اس علاج میں نینو پارٹیکلز پر مشتمل سیرم میں لیپڈ کمپاؤنڈز کا استعمال کیا گیا ہے، اس تحلیل ہونے والے محلول کو سر کی جِلد میں پہنچانے کے لیے مائیکرو نیڈلز یعنی انجیکشنز کا سہارا لیا جائے گا۔ سائنس دانوں نے یہ تحقیق چوہوں پر کی، جس کے واضح اور مثبت نتائج دیکھنے کو ملے، نینو پارٹیکلز پر مشتمل سیرم اور لیپڈز کمپاؤنڈز نے چوہوں کی جلد میں خون کی باریک شریانوں کو متحرک بنایا اور اُن میں بالوں کی افزائش دیکھنے میں آئی ہے۔