Tag: سائنسدان

  • سائنسدان امریکا کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ بڑی وجہ سامنے آگئی

    سائنسدان امریکا کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ بڑی وجہ سامنے آگئی

    نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر سائنسی تحقیق کے بجٹ میں کٹوتیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، جس کے بعد سائنسدان امریکا چھوڑ کر یورپ یا کینیڈا منتقل ہونے پر غور کررہے ہیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جواب دینے والے سائنسدانوں میں سے 75.3 فیصد امریکا چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔

    سائنس دان، خاص طور پر وہ لوگ جو ابھی کم عمر ہیں اور اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہیں، بڑی عمر کے سائنسدانوں کے مقابلے میں امریکا چھوڑنے پر غور کررہے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے تقریباً 1,650 سائنسدان سروے میں شامل ہوئے، سروے رپورٹ کے مطابق 548 ڈاکٹریٹ کے طلبا میں 340 امریکا چھوڑنے پر سوچ بچار کررہے ہیں۔

    سروے کے مطابق ان طلبا میں سے 255 کا کہنا تھا کہ وہ مزید سائنس دوست ممالک کے لیے ملک چھوڑنے پر بھی سوچ بچار کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ سائنس دانوں سمیت دسیوں ہزار وفاقی ملازمین کو عدالتی حکم کے ذریعے نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، جس سے افراتفری پیدا ہوئی اور تحقیقی کام میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

    ایک محقق کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے ایک اہم مرحلے پر تحقیقی فنڈنگ میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے سائنسدانوں کی طرح اس طوفان کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکیں اور امریکا سے کسی اور ملک منتقل ہوجائیں۔

    امراض قلب کا پتا لگانے والی اے آئی ایپ تیار

    تحقیقی کٹوتیوں کی ایک مثال نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ہے، جہاں زچگی کی صحت اور ایچ آئی وی سے متعلق تحقیق کی جاتی ہے، اس ادارے کا تحقیقی بجٹ بھی روک دیا گیا ہے۔

  • نوبل انعام جیتنے کی سیلی بریشن: سوئیڈش سائنسدان کو ساتھیوں نے تالاب میں پھینک دیا

    نوبل انعام جیتنے کی سیلی بریشن: سوئیڈش سائنسدان کو ساتھیوں نے تالاب میں پھینک دیا

    طب میں نوبل انعام پانے والے سوئیڈش سائنسدان کے ساتھیوں نے انہیں انعام ملنے کی خوشی انوکھے انداز میں منائی، ساتھیوں نے سائنسدان کو اٹھا کر تالاب میں پھینک دیا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نوبل انعام پانے والے سوئیڈش سائنسدان سوانتے پابو کو ان کے ساتھ تالاب میں پھینک دیتے ہیں، اس موقع پر وہاں موجود تمام افراد خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں اور شور مچاتے ہیں۔

    یہ سیلی بریشن جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی جہاں پابو کے ساتھی انہیں نوبل انعام کی مبارک باد دینے جمع ہوئے تھے۔

    ادارے میں کسی کو تالاب میں پھینکنے کی ’روایت‘ دراصل اس وقت منعقد کی جاتی ہے کہ جب وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کرتا ہے، لیکن پابو کی اس شاندار کامیابی کے بعد ان کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوبل انعام کی سیلی بریشن بھی اس روایت کے بغیر ادھوری ہے۔

    چنانچہ تمام ساتھیوں نے پابو کو اٹھایا اور تالاب میں پھینک دیا۔ ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہورہی ہے۔

    سوئیڈش سائنسدان سوانتے پابو نے طب کے میدان میں اس سال کا نوبل انعام اپنے نام کیا ہے۔

    نوبل کمیٹی کے مطابق سوئیڈش سائنس دان کو یہ انعام معدوم ہوجانے والے انسانوں کے جینوم اور انسانی ارتقا کے حوالے سے کی جانے والی دریافتوں پر دیا گیا ہے۔

  • ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    جہاں بہت سے لوگ میز پر رکھے ہوئے کسی پھلی کے بیج کو محض بیچ اور ایک دانہ سمجھتے تھے، وہاں پرسی جولین (Percy Lavon Julian) کو وہ میز اپنے لیے ایک تجربہ گاہ نظر آتی تھی۔ پھلی کا وہ دانہ بھی اس کے لیے بہت اہم ہوتا تھا۔

    جولین آگے چل کر ایک کیمیا دان بنے۔ وہ نباتات کے ماہر تھے۔ پودوں کے قدرتی اجزا اور ان کی خصوصیات پر تحقیق اور تجربات کرتے ہوئے انھوں نے انسانوں کے بعض امراض کا علاج دریافت کیا۔

    انھوں نے کالا بار پھلی سے معمر افراد میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ بننے والی بیماری، موتیے کا علاج دریافت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق اور تجربات سے جوڑوں کے درد کی بیماری، گٹھیا کے لیے ٹیکوں سے لے کر دوسری عالمی جنگ میں طیارہ بردار جہازوں پر لگنے والی آگ کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والی بہت سی چیزیں انہی کی دریافت ہیں۔

    کالا بار ایک زہریلی پھلی ہے جس کے بارے میں اس کیمیا دان نے کہا تھا، “جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو جامنی رنگ کی یہ پھلی خوب صورت دکھائی دی، مگر یہ نہ صرف دیکھنے میں خوبصورت ہے بلکہ اس کے اندر جو کچھ ہے، وہ بھی کارآمد ہے۔”

    جولین کا شمار بیسویں صدی کے عظیم امریکی سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ افریقی نژاد امریکی تھے جنھیں‌ اس زمانے میں‌ نسل پرستی اور سیاہ فاموں سے ناروا سلوک اور ہر میدان میں تفریق و امتیاز کا سامنا بھی رہا، لیکن انھوں‌ نے اپنی تمام توانائی انسانوں کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کی بھلائی پر صرف کی اور اپنے کام میں‌ مگن رہے۔

    1975ء میں جولین اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ جولین 1899ء میں منٹگمری، الاباما میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ امریکا میں‌ غلام بنا کر لائے گئے افریقیوں کی اولاد تھے۔ اس دور میں‌ سیاہ فاموں‌ کو سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں‌ تعلیم کے یکساں‌ اور معیاری مواقع میسر نہیں‌ تھے، جولین نے بھی نسلی بنیادوں پر قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جہاں سیاہ فام طلبا آٹھویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکتے تھے۔

    جولین کے والدین استاد تھے اور انھوں نے اپنے چھے بچّوں کے لیے گھر میں‌ ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس نے جولین کو لکھنے پڑھنے اور آگے بڑھنے میں مدد دی۔ بعد میں‌ جولین نے انڈیانا کی ڈی پاؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

    کالج کے زمانے میں‌ جولین نے ویٹر کے طور پر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ طلبا کی ایک رہائشی عمارت کے آتش دانوں میں لکڑیاں جھونکنے کا کام بھی کیا جس کے بدلے انھیں کیمپس میں رہائش کے لیے ایک کمرہ ملا ہوا تھا۔ 1920ء میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب انھوں نے ملازمت حاصل کرنا چاہی تو بعض نجی کمپنیوں نے انکار کردیا۔ جولین مایوس نہیں ہوئے اور کوشش جاری رکھی، بالآخر گلڈن کمپنی نے انھیں موقع دیا اور جولین نے بھی خود کو اہل ثابت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق نے لیٹکس رنگوں کی تیاری میں اس کمپنی کو بہت مدد دی۔

    1935ء میں جولین نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور کالا بار پر تحقیق اور تجربات سے فائیسو سٹیگمین کی وہ مقدار حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے جس سے موتیے کے مریضوں کے علاج میں‌ مدد ملی۔ ان کی کوششوں کے بعد ہی موتیے کے علاج کے لیے کافی مقدار میں فائیسو سٹیگمین بننا شروع ہوئی۔

    امریکا اور دنیا بھر میں‌ اس سیاہ فام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا اور انھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • کرونا وائرس کہاں سے آیا، سائنسدانوں کا بڑا انکشاف

    کرونا وائرس کہاں سے آیا، سائنسدانوں کا بڑا انکشاف

    لندن: کرونا وائرس کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کی وبا کا باعث بننے والا وائرس چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جریدے نیچر مائیکرو بائیولوجی میں شائع تحقیق میں امریکا، چین اور یورپ کے سائنسدانوں کی ٹیم نے کو وڈ 19 کا باعث بننے والے سارس کو وڈ 2 میں تبدیلیوں کا موازنہ دیگر وائرسز سے کیا اور پھر متعلقہ وائرسز کی ارتقائی تاریخ کو تشکیل دیا۔

    تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کی وبا کا باعث بننے والا وائرس چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ ہمارے تجزیے میں اجتماعی طور پر چمگادڑوں کی جانب اشارہ کیا گیا جو اس وائرس کا بنیادی ماخذ ہے، ایسا ممکن ہے کہ پینگولین یا کسی اور جانور نے عارضی میزبان کی شکل میں اسے انسانوں میں منتقل کیا ہو۔

    سائنسدانوں نے کہا کہ موجودہ شواہد سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اس وائرس کا ارتقا چمگادڑوں میں ہوا، جو انسانوں اور پنگولینز کی اوپری نظام تنفس میں اپنی نقول بنا سکتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کا ارتقا اس پرندے میں پائے جانے والے دیگر وائرسز کے ساتھ 40 سے 70 سال قبل ہوا انہوں نے کہا چمگادڑوں میں یہ وائرس دہائیوں پہلے سے موجود تھا مگر اس کا علم پہلے نہیں ہوسکا۔

    درحقیقت تحقیقی ٹیم کا تو کہنا تھا کہ نوول کورونا وائرس کا ارتقا اس پرندے میں پائے جانے والے دیگر وائرسز کے ساتھ 40 سے 70 سال قبل ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ چمگادڑوں میں یہ وائرس دہائیوں پہلے سے موجود تھا مگر اس کا علم پہلے نہیں ہوسکا۔

    سائنسدانوں نے اس بات پر زور دیا کہ چمگادڑوں کے بہتر نمونے وبائی جراثیموں کی شناخت اور مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام کے لیے بہت ضروری ہیں۔

  • دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایک صدی قدیم ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو دھات کھاتا ہے، تاحال ماہرین اس کے ٹھوس ثبوت نہیں تلاش کر سکے۔

    یہ بیکٹیریا کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیل ٹیک) کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے اور ان کے خیال میں دھات کھانے والا یہ بیکٹیریا ایک صدی سے زائد عرصے سے موجود ہے۔

    یہ جرثومے ایک معدنی دھات کے ساتھ مختلف تجربات کے دوران حادثاتی طور پر دریافت ہوئے۔

    ہوا یوں کہ کیل ٹیک میں انوائرمینٹل مائیکروبیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جیرڈ لیڈبیٹر نے اپنے دفتر کے سنک پر مینگنیز لگا ہوا ایک گلاس چھوڑا۔

    کیمپس کے باہر کام کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے دفتر نہ آسکے لیکن جب وہ اپنے دفتر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس گلاس پر سیاہ مواد لگا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ آکسڈیسائزڈ مینگنیز تھا اور اس مرکب کو بیکٹیریا نے بنایا تھا۔

    پروفیسر جیرڈ کا کہنا تھا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا بیکٹیریا ہے جو اپنے ایندھن کے طور پر مینگنیز کو استعمال کرتا ہے، یہ ان جرثوموں کا ایک شاندار پہلو ہے کہ وہ ایسے عناصر جیسے دھات جیسی چیزوں کو بھی ہضم کر سکتے ہیں اور اس کی توانائی کو کام میں لا سکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ اس نوع سے تعلق رکھنے والے بیکٹیریا زمین میں موجود پانی میں رہتے ہیں، بیکٹیریا پانی میں موجود آلودگی کو صاف کرتا ہے۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دریافت ان کو زمین کے عناصر اور زمین کے ارتقا میں دھاتوں کے کردار کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    اس سے قبل 1873 میں میرین ریسرچرز اس بیکٹیریا کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن وہ اس کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکے تھے۔

  • سائنس دانوں نے کرونا ویکسین کی تحقیق پر سوال اٹھا دیے

    سائنس دانوں نے کرونا ویکسین کی تحقیق پر سوال اٹھا دیے

    آکسفورڈ: برطانیہ میں کرونا ویکسین کی تیاری کے سلسے میں سائنس دانوں نے جاری تحقیق پر سوال اٹھا دیے ہیں۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ماہرین نے کرونا ویکسین کے تناظر میں اس خدشے کا اظہار کر دیا ہے کہ کو وِڈ نائنٹین اس قسم کا وائرس ہے کہ اس کا پھیلاؤ روکنا دشوار لگتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ بندروں پر ویکسین کی آزمائش جزوی طور پر کامیاب ہوئی ہے، اور ویکسین آزمائش کے بعد بھی کچھ بندر دوبارہ کرونا کا شکار ہو گئے، اس تحقیق کے مطابق ویکسین سے وائرس کا پھیلاؤ روکنا دشوار ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ویکسین پر خدشات ظاہر کرنے والوں میں اہم اور نامور برطانوی سائنس دان شامل ہیں، دوسری طرف برطانوی حکومت نے ویکسین کی تیاری کے لیے لاکھوں پاؤنڈز مختص کیے ہیں، تاہم آکسفورڈ یونی ورسٹی کا کہنا ہے کہ ویکسین کی انسانی آزمائش کا مرحلہ کامیابی سے جاری ہے۔

    کرونا وائرس: وہ دوا جو ویکسین کا کام بھی کر سکتی ہے

    واضح رہے کہ چین، یورپ اور امریکا میں کرونا ویکسین سے جان چھڑانے کے لیے مؤثر ویکسین کی تیاریوں پر تیزی سے کام جاری ہے، اس سلسلے میں اربوں ڈالرز کے فنڈ مختص کیے گئے ہیں، لیکن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایسی مؤثر ویکسین جو کرونا وائرس کو یقینی طور پر روک سکے، جلد تیار نہیں ہو سکتی، کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

    دوسری طرف چین میں کرونا وائرس کے خلاف ایسی دوا کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو نہ صرف مریضوں کو صحت یاب کرے گی بلکہ ویکسین کی طرح کام کر کے انھیں وائرس کے آیندہ حملے سے بھی تحفظ دے گی۔

  • ملک میں ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ کا فروغ نہایت ضروری ہے،وزیراعظم

    ملک میں ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ کا فروغ نہایت ضروری ہے،وزیراعظم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ کا فروغ نہایت ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے برطانیہ میں مقیم سائنسدانوں کے وفد نے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری بھی ملاقات میں موجود تھے۔

    وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستانی اور بین الاقوامی اداروں کے درمیان روابط اور پارٹنر شپ بڑھےگی۔ وزیراعظم کی جانب سے سائنس دانوں پر مشتمل وفد کا خیرمقدم کیا گیا۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ سائنس،ٹیکنالوجی کا فروغ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، ملک میں ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ کا فروغ نہایت ضروری ہے۔

    انہوں نے برطانیہ میں قابلیت کا لوہا منوانے والی پاکستانی نژاد کمیونٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جدیدعلوم کے فروغ میں ایسے افراد کی قابلیت سے استفادہ ملکی مفاد میں ہے۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کےتعلیمی، تحقیقاتی اداروں کے 70سائنسدانوں کا وفدپاکستان میں موجود ہے، وفد ایگریکلچر نیوٹریشن، ہیلتھ کیئر، بائیو ٹیکنالوجی فروغ پر مبنی ورکشاپ میں شرکت کر رہا ہے۔ ورکشاپ کا مقصد ان شعبہ جات میں جدیدعلوم، تجربات اور معلومات کا تبادلہ ہے۔

  • زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا: سینیٹ قائمہ کمیٹی

    زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا: سینیٹ قائمہ کمیٹی

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں کہا گیا کہ کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو فوری اس پر کام کرنا چاہیئے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین مشتاق احمد کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس پھیلنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

    چیئرمین کمیٹی مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو مسئلے پر فوری طور پر کام کرنا چاہیئے تھا۔

    اجلاس میں وزارت سائنس کی جانب سے کمیٹی کو سائنس ٹیلنٹ فارمنگ اسکیم پر بریفنگ دی گئی۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ ٹیلنٹ فارمنگ منصوبے میں دور دراز علاقوں کے طلبا کو تربیت دی جائے، یقینی بنایا جائے کہ منصوبے میں نجی اسکولوں کو شامل نہ کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ نجی اسکولوں کو دیگر بہت سے مواقع اور مراعات حاصل ہیں، اس کے برعکس سرکاری اسکولوں کے طلبا کو بہت کم مواقع حاصل ہوتے ہیں۔

    اپنی بریفنگ میں حکام نے پاکستان یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی کے منصوبے کے حوالے سے بتایا۔ حکام کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس کے عقب میں سائنس اینڈ انجینیئرنگ یونیورسٹی بنائی جائے گی۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ پہلے سے موجود یونیورسٹیز کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے، یونیورسٹیاں مالی خسارے کا شکار ہیں۔ پہلے سے موجود سیٹ اپ کو مزید پائیدار کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

  • خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    سائنسدانوں کو موصول ہونے والے پراسرار سگنلز کے بارے میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ ہر 16 روز بعد باقاعدگی سے موصول ہو رہے ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق یہ پراسرار سگنلز کینیڈا میں نصب ٹیلی اسکوپ کو موصول ہو رہے ہیں اور ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں البتہ اب انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ سگنلز ہر 16 دن بعد موصول ہورہے ہیں۔

    ٹیلی اسکوپ پر موصول ہونے والی یہ لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے میں ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اب تک اس نوعیت کے 60 ایف آر بی کا سراغ لگایا ہے جو ایک بار سگنل دیتے ہیں جبکہ دو سگنل ایسے تھے جو بار بار آئے تھے۔

    یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ سگنل تواتر سے موصول ہوتے رہیں اور اس قسم کے پیغامات کو جانچنے کے ذرائع ہوں تو بہت جلد اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا کہ یہ سگنلز کیا ہیں۔

  • ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    قدیم آثار و کھنڈرات سے دریافت اشیا میں سے کھانے پینے کی چیزیں بھی نکل آتی ہیں اور انہیں احتیاط سے محفوظ کرلیا جاتا ہے، تاہم ان اشیا کو پکانے اور پھر سے استعمال کرنے کا خیال کم ہی آتا ہے۔

    تاہم معروف ویڈیو گیم ڈیزائنر سیمز بلیکلے نے ایسے ہی ایک قدیم خمیر کو بیک کرنے کا تجربہ کیا اور ان کا یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا۔

    بلیکلے نے اپنے ایک ماہر آثار قدیمہ اور ایک مائیکرو بائیولوجسٹ دوست کی مدد سے 4 ہزار 5 سو سال قدیم خمیر حاصل کیا۔ یہ خمیر قدیم مصر کے کھنڈرات سے دریافت ہوا تھا۔

    یہ خمیر کھنڈرات سے دریافت کردہ برتنوں میں موجود تھا اور ماہرین کا خیال تھا کہ اس خمیر سے قدیم مصر میں بریڈ اور شراب بنائی جاتی تھی۔

    بلیکلے نے اس خمیر کو بیک کرنے سے قبل اس میں ایک قسم کا آٹا شامل کیا تاکہ خمیر کے بیکٹریا کو جگا سکے۔ ایک ہفتے بعد یہ خمیر بیک کرنے کے لیے تیار تھا۔

    بلیکلے نے زیتون کے تیل کی آمیزش سے نہایت احتیاط سے اسے بیک کیا، بیک ہونے کے بعد اس کے نہایت غیر متوقع نتائج ملے اور اوون سے ایک نہایت خوشبو دار مہکتی ہوئی بریڈ برآمد ہوئی۔

    ’اس کی خوشبو ویسی تو نہیں تھی جیسی آج کی بریڈ میں ہوتی ہے، یہ اس سے خاصی مختلف لیکن بہترین تھی‘، بلیکلے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹس میں کہا۔

    بلیکلے کا کہنا ہے کہ وہ بے حد خوش ہے کہ اس کا یہ تجربہ کامیاب ہوا، اب اس کی اگلی کوشش ہوگی کہ وہ اس خمیر سے شراب بھی تیار کرسکے۔