Tag: سائنسدان انتقال

  • ایڈلر کی وہ کارآمد ایجاد جو صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے

    ایڈلر کی وہ کارآمد ایجاد جو صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے

    آج سائنس کے میدان میں تیز رفتار ترقی اور حیرت انگیز ایجادات کی بدولت انسان کو اپنے معمولات اور روزمرّہ کے کام انجام دینے میں جو آسانیاں اور سہولت حاصل ہے، چند دہائیوں قبل بھی اس کا تصوّر مشکل ہی تھا۔ ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول بھی ایک ایسی ہی ایجاد ہے جسے شاید آج ہم ایک نہایت سادہ اور معمولی آلہ سمجھتے ہیں‌۔

    ٹیلی ویژن کے ریموٹ کنٹرول کی اہمیت کا احساس صرف اسی وقت ہوتا ہے جب وہ خراب ہو یا اِدھر اُدھر ہو جائے، مگر اپنی رونمائی کے اوّلین برسوں میں اسے ایک قابلِ‌‌ ذکر ایجاد کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ آج رابرٹ ایڈلر (Robert Adler) کا یومِ‌ وفات ہے جو مخصوص ٹیکنالوجی کی مدد سے کام کرنے والے ریموٹ کنٹرول کا موجد تھا۔ اس کی یہ ایجاد کئی برس تک پہلا الٹرا سونک سگنل استعمال کرنے والا آلہ تھی اور بعد میں‌ اس کی جگہ نئی ٹیکنالوجی نے لی۔

    ریموٹ کنٹرول کے اس امریکی موجد نے ویانا میں 1913ء میں آنکھ کھولی تھی اور 2007ء میں‌ چل بسا۔ ایڈلر فزکس کا ماہر تھا۔ لگ بھگ دو سو مختلف نوعیت کی ایجادات اس سے منسوب ہیں۔ 1997ء میں ایڈلر کو ٹی وی ریموٹ ایجاد کرنے پر ایمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔

    ایڈلر مشہور کمپنی زینتھ میں ملازم تھا اور وہیں الٹرا سونک سگنل استعمال کرنے والا ریموٹ کنٹرول تیار کیا تھا۔ اس امریکی سائنس داں کو سرفس ایکاسٹک ویو ٹیکنالوجی کا موجد بھی مانا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی موجودہ زمانے کی ٹی وی اور کمپیوٹر اسکرینوں میں استعمال ہوتی ہے۔

    اس مختصر تعارف اور بطور سائنس داں ایڈلر کے کارنامے سے واقف ہونے کے بعد اب ہم آپ کو ریموٹ کنٹرول کے وہ نقصانات بھی بتا دیتے ہیں جن کا تعلق ہماری صحت سے ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ گھروں‌ میں‌ ہمارے زیرِ استعمال مختلف اشیا اور آلات میں ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول ممکنہ طور پر سب سے زیادہ جراثیم سے آلودہ ہوسکتا ہے؟ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے بلکہ اس کی ایک سادہ وجہ ہے۔

    ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول ایک دن میں مسلسل کئی ہاتھوں‌ میں‌ رہتا ہے اور مختلف چینل بدلنے یا ٹی وی کو آن یا آف کرنے کے علاوہ یہ زمین پر گرتا ہے، صوفے، کسی میز اور دیگر ایسی جگہوں پر پڑا رہتا ہے جہاں اس پر گرد و غبار بیٹھتا ہے۔ اکثر خواتین اسے کچن سے نکل کر استعمال کرتی ہیں اور ان کی انگلیوں پر چکنائی وغیرہ لگی ہوتی ہے جو ریموٹ کے کور پر رہ جاتی ہے۔ باہر سے آنے والا کوئی فرد اپنے جراثیم زدہ ہاتھوں میں اس آلے کو تھام لیتا ہے اور اس طرح مٹی کے ذرات اور دیگر اجزا اس پر منتقل ہو جاتے ہیں۔

    غور کیجیے کہ اکثر آپ کھانا کھانے کے دوران ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے ریموٹ اٹھا لیتے ہیں اور یوں گندگی آپ کے ہاتھوں‌ پر لگ جاتی ہے جس سے آپ کے بیمار ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    عام مشاہدہ ہے کہ ہم اس ریموٹ کی صفائی بھی نہیں کرتے۔ اکثر گھروں میں اس پر کوئی مخصوص کور یا ایک شفاف پلاسٹک چڑھا دیا جاتا ہے، جسے کئی ماہ بعد بھی تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی اور یہ کام سستی اور کاہلی کی نذر ہوجاتا ہے۔ بغیر کور کے استعمال شدہ ریموٹ کی صفائی تو ہرگز آسان نہیں جس کی وجہ اس کے اوپر تلے وہ بٹن ہیں جنھیں ہم چینل تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ریموٹ کنٹرول پر موجود جراثیم آپ کو نزلہ زکام اور بخار کا شکار بنا سکتے ہیں۔ اس لیے کوشش کریں ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول کو کور میں‌ رکھیں اور چند ماہ بعد اسے تبدیل کر دیں۔

  • ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر برطانوی راج میں ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق کی حیثیت سے معروف تھے۔ انھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور علمی و تحقیقی مقالے ان کی وجہِ شہرت بنے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ انھوں نے اس سے متعلق اپنے ایک مضمون میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں اپنی تحقیق اور قیاس کی بنیاد پر اس کی وضاحت بھی کی جو ایک رسالے میں شایع ہوئی۔ ہم یہاں ان کا وہ مضمون قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں، لیکن اس سے پہلے رام چندر کے حالاتِ زندگی اور ان کی علمی کاوشوں کا مختصر احوال جان لیجیے۔

    وہ ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں‌ 1821ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ 11 اگست 1880ء کو رام چندر نے وفات پائی۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ 1945ء میں رام چندر نے اخبار فوائد النّاظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہ نامہ محبِّ ہند بھی جاری کیا۔ وہ ایک خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل صحافی بھی تھے۔ رام چندر کا شمار متحدہ ہندوستان کی ان شخصیات میں‌ ہوتا ہے جو تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی تھے جب کہ گونگوں اور بہروں کو بھی تعلیم دینے کی حمایت کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء کی بات ہے جب انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسروں لوگوں نے ان سے سماجی تعلق قطع کر دیا تھا۔

    کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    غربت اور مفلسی کو اپنے ارادے کی پختگی، محنت اور لگن سے شکست دے کر غیرمعمولی اور مثالی کام یابیاں سمیٹنے والے بنجمن فرینکلن نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سے یہ اقتباس پڑھیے جو اس کی زندگی کی وضاحت کرتا ہے۔

    "میں اپنی کام یابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا، کام یابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں۔ مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا۔ ایک بار میں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا۔ میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزّت کریں، میری تعریف کریں، خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نہ کہ دینے پر۔

    اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کر کے دکھاؤں گا اپنے آپ کو۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔ صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہو گیا۔ اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا۔”

    بنجمن فرینکلن 17 جنوری 1706ء کو امریکا کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا تھا۔ اسے ایک سیاست دان، تاجر، ناشر، سائنس دان اور سفارت کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنجمن فرینکلن کو چار زبانیں آتی تھیں۔

    بوسٹن میں اس کا خاندان مفلسی کی زندگی بسر کررہا تھا بنجمن نے جب سنِ شعور میں قدم رکھا تو بوسٹن سے نکل کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلاڈیلفیا چلا آیا۔ تہی دامن بنجمن فرینکلن نے یہاں پہنچ کر چھوٹے موٹے کام کرکے گزر بسر شروع کی۔ جلد ہی کسی طرح‌ اسے اشاعت و طباعت کا کام مل گیا اور وہ ناشر بن کر اس کام سے خوش حال ہو گیا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ سائنس میں‌ اس کی دل چسپی پڑھنے کی حد تک ہی نہیں تھی بلکہ وہ تجربات بھی کرتا رہتا تھا۔ فارغ وقت میں سائنسی کتب پڑھ کر ان کی مدد سے مختلف بنیادی سائنسی فارمولوں، اشیا اور مشینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور سادہ تجربات بھی کرتا جس نے ایک دن اسے موجد بنا دیا۔

    اس نے برقیات اور روشنی کے حوالے سے تحقیقی کام بھی کیا اور بطور سائنس دان بائی فوکل عدسہ، چولھا (اسٹوو) ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ ایجادات اس کی وجہِ شہرت بنیں۔ لیکن اس کی کام یابیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت صحافی اور قلم کار بھی اس نے امریکا میں بڑی شہرت پائی۔

    اشاعت و طباعت تو اس کا کام تھا ہی، اس نے بعد میں poor richard’s almanack کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کردیا جس کا طرزِ تحریر بہت پسند کیا گیا۔ اس کے کئی برس بعد بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سوانح منظرِ عام پر آئی اور یہ بہت مقبول ہوئی۔ آج بھی امریکی اسے رغبت سے پڑھتے ہیں۔ اس کتاب میں‌ بنجمن فرینکلن نے اپنی زندگی کے کئی اہم اور دل چسپ واقعات رقم کیے ہیں جو غربت سے اس کی امارت اور کام یابیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    اسی عرصے میں اس نے سیاست اور سفارت کاری کے میدان میں بھی امریکا میں‌ پہچان بنائی۔ اسے ایک قابل منتظم قرار دیا جاتا ہے جس نے نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کیا۔ بعد میں وہ قانون ساز کے طور پر پنسلوانیا کی مجلس میں منتخب ہوا اور فرانس میں امریکا کا سفیر رہا۔ بنجمن امریکی آئین ساز مجلس کا بھی رکن تھا اور ان شخصیات میں‌ شامل ہے جنھوں‌ نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔

    17 اپریل 1790ء کو بنجمن فرینکلن نے پھیپھڑوں کے ایک مرض کے سبب زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

  • پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی ایک سائنس دان اور ماہرِ تعلیم ہی نہیں‌ ادبی شخصیت اور ایسے اسکالر تھے جنھوں‌ نے ہر مضمون میں اپنی ذہانت، قابلیت اور استعدادا سے اساتذہ کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے لیے اپنے اس لائق فائق شاگرد کو کسی ایک مضمون کا ماہر قرار دینا آسان نہ تھا۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

    ان کا پورا نام محمد رضی الدّین صدیقی تھا اور وطن حیدرآباد دکن جہاں انھوں‌ نے 7 اپریل 1905ء میں آنکھ کھولی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کرکے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا جہاں‌ اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی۔

    وہ طبیعیات اور ریاضی کے ماہر تھے، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کا مضمون رہا جس میں انھوں نے عربی اور فارسی میں اپنی قابلیت اور اقبالیات کے موضوع میں‌ تحقیقی اور تخلیقی کام کیا۔

    ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور انھوں‌ نے اپنے مضمون میں اس ہونہار اور نہایت قابل طالبِ علم کی راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

    پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں وہ پاکستان آگئے۔

    ایک عظیم سائنس دان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ رہا جب کہ اردو اور فارسی ادب میں غالب، اقبال، حافظ اور شیرازی کو نہ صرف پڑھا بلکہ اقبال شناسی میں ماہر سمجھے گئے۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات شایع ہوئیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں انھیں ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی انھیں اعزازات دیے۔ دنیائے سائنس کا یہ معتبر نام 2 جنوری 1998ء کو ہمیشہ کے ہم سے جدا ہوگیا۔

  • جان لوگی بیئرڈ کا حیران کُن تجربہ جو ایک نہایت اثر انگیز ایجاد کی بنیاد بنا

    جان لوگی بیئرڈ کا حیران کُن تجربہ جو ایک نہایت اثر انگیز ایجاد کی بنیاد بنا

    انیسویں صدی میں اپنی حیرت انگیز ایجاد کے ایک خوش گوار تجربے کے بعد جان لوگی بیئرڈ دنیا بھر میں‌ مشہور ہوگیا۔ اس کی یہ ایجاد آواز کے ساتھ تصویر کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکتی تھی۔

    یہ سائنسی تجربہ ٹیلی وژن کی ایجاد کا موجب بنا اور یوں اسکاٹ لینڈ کے سائنس دان جان لوگی بیئرڈ (Jhon Logie Baired) اس کے موجد مشہور ہیں۔ وہ 1888ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1946ء تک زندہ رہے۔

    اس زمانے میں ریڈیو تو ایجاد ہوچکا تھا، لیکن آواز کے ساتھ تصویر کو بھی ہوا کے دوش پر دور تک پہنچانے کے لیے سائنس دان تجربات کررہے تھے۔ بیئرڈ کو فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ مختلف تجربات کے علاوہ تصویروں اور بجلی کے تاروں پر بھی تجربات کرچکا تھا۔ ایک روز ریڈیو سنتے ہوئے اس نے ارادہ کیا کہ اسی طرز وہ ہوا کی لہروں کی مدد سے تصویریں بھیج کر رہے گا۔

    بیئرڈ نے اگلے ہی دن کچھ بیٹریاں، بجلی کے تار، پرانی موٹر، اور موم کے علاوہ ضرورت کی تمام اشیا اکھٹی کرلیں اور ایک عرصہ تک تجربات کے بعد وہ ایک پردے پر تصویر دیکھنے میں‌ کام یاب ہوا جو کچھ زیادہ صاف نہ تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ پھر اس نے مزید بیٹریوں کے ساتھ کئی دنوں تک تجربات جاری رکھے جس کے بعد پردے پر ظاہر ہونے والی تصویریں‌ بہت زیادہ صاف تھیں۔ تب، اس نے اپنے اس کارنامے کا اعلان کیا اور اگلے ہی دن 1926ء میں برطانیہ کے تمام اخبارات میں اس کا یہ کارنامہ بیئرڈ کی زندگی کے حالات کے ساتھ شایع ہوا۔

    تین برس بعد بیئرڈ کی اسی ایجاد کی بدولت بی بی سی لندن نے ٹیلی وژن کا پہلا پروگرام پیش کیا۔ تاہم جلد ہی اس ایجاد میں‌ متعدد ایسی تبدیلیاں کی گئیں جس نے اسے مزید بہتر اور شان دار بنا دیا۔

    بیئرڈ کے مکینیکل ٹیلی ویژن کے بعد الیکٹرونک ٹیلیویژن ایجاد ہوا، جس میں چرخی، موٹر اور دوسرے پرزوں کی جگہ کیتھوڈ ٹیوب استعمال کی گئی۔ یہ بلیک اینڈ وائٹ نشریات کا دور تھا۔

    1953ء میں رنگین ٹی وی متعارف کروایا گیا۔ ٹیلیوژن دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس میں‌ یونانی زبان کا لفظ ٹیلی جس سے مراد ’’دور یا بعید‘‘ ہے اور وژن انگریزی زبان کا ہے، جس کا مطلب ’’نظر‘‘ ہے۔ آج اگرچہ یہ بڑا سا ڈبّہ اور موٹی اسکرین کے ساتھ چینل بدلنے یا ٹیونگ کرنے والے لیور، اور آواز بڑھانے اور گھٹانے کے بٹنوں کی جگہ دیوار کی اسمارٹ اسکرین اور جدید ٹیکنالوجی والا ریموٹ لے چکا ہے، لیکن بیئرڈ کا نام ہمیشہ اس کے موجد کے طور پر زندہ رہے گا۔