Tag: سائنسدان

  • ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، صرف تراشنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عبد القدیر خان

    ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، صرف تراشنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عبد القدیر خان

    کراچی: فخر پاکستان معروف سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا ہے کہ ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، انھیں صرف تراشنے کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قدیر خان جامعہ کراچی کے ڈاکٹر اے کیو خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے زیر اہتمام منعقدہ ”تھرڈ اورل پریزنٹیشن کمپٹیشن فار ایم فل اینڈ پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس“ کی اختتامی اور تقریب تقسیم انعامات سے خطاب کر رہے تھے۔

    انھوں نے کہا کہ جو طلبہ بیرون ممالک جاتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ سیاست اور مذہب پربات کرنے کی بہ جائے اپنی تعلیم و تحقیق پر توجہ مرکوز رکھیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ طلبہ اپنی زندگی کے اہم ترین برسوں میں خوب محنت کریں کیوں کہ یہ محنت پھر زندگی بھر کام آئے گی اور اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آ کر ملک کی خدمت کریں۔

    انھوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ میں عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تحقیق و تدریس کا عمل جاری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  وزیر اعلیٰ سندھ کی جامعہ کراچی میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی ہدایت

    ڈاکٹر عبد القدیر خان نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

    رئیس کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر تبسم محبوب نے کہا کہ ہمارے لیے یہ بات باعث افتخار ہے کہ آج کی تقریب میں جتنے ریسرچرز نے سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں وہ بین الاقوامی ریسرچرز کے ہم پلہ ہیں۔

  • کمسن تخلیق کاروں کی دنیا بدل دینے والی ایجادات

    کمسن تخلیق کاروں کی دنیا بدل دینے والی ایجادات

    دنیا سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ خلا کی تسخیر سے لے کر انسانی زندگی بچانے تک مختلف ایجادات کی جارہی ہیں جن میں ایسی ایجادات بھی شامل ہیں جو روز مرہ کے معمولات کو کم سے کم وقت میں انجام دینے میں مدد دے سکیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں سائنس کی تعلیم کو اولین ترجیح دینے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہر عمر کا شخص اپنی ذہانت کے مطابق سائنس کو اپنے اور اپنے ارد گرد کے افراد کے لیے فائدہ مند بنانے کے متعلق سوچتا ہے۔

    مزید پڑھیں: زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    آج ہم آپ کو 5 ایسے نوجوان سائنسدانوں کی ایجادات کے بارے میں بتارہے ہیں جو انہوں نے اپنے روز مرہ کے معمول اور ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کی اور اس میں خاصے کامیاب رہے۔


    جراثیم سے پاک ہینڈل

    بعض صفائی پسند افراد دروازوں کے ہینڈل کو کسی کپڑے کی مدد سے پکڑتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس طرح وہ ہینڈل پر لگے جراثیموں سے محفوظ رہتے ہیں۔

    یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی ثابت ہوچکی ہے کہ دروازوں کے ہینڈل بھانت بھانت کے لوگوں کے استعمال کے باعث نہایت جراثیم آلود ہوتے ہیں اور بے شمار بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اسی مسئلے کے حل کے لیے ہانگ کانگ کے 18 سالہ کنگ پو نے ایسا ہینڈل بنایا ہے جو خود اپنے اوپر سے جراثیم کو ختم کرسکتا ہے۔

    ایل ای ڈی لائٹ اور ٹائٹینیم آکسائیڈ کے ذریعے کام کرنے والا یہ ہینڈل 99 فیصد جراثیم کو مار ڈالتا ہے۔


    سائیکل جیسی واشنگ مشین

    بھارت کے کئی پسماندہ علاقوں میں آج بھی خواتین کپڑوں کا ڈھیر کمر پر لاد کر قریبی دریا پر لے جا کر دھوتی ہیں۔ اس کام کو آسان بنانے کے لیے بھارت کی ایک 14 سالہ طالبہ نے حیرت انگیز ایجاد کرڈالی۔

    بھارت کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والی رمیا اپنی والدہ کے ساتھ قریبی دریا پر کپڑے دھونے جاتی تھی۔ ایک بار والدہ کے بیمار ہونے پر اسے اکیلے بھی یہ کام کرنا پڑا۔

    تب ہی اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ کوئی ایسی شے بنائے جس سے اسے اور اس کی ماں کو اس مشقت سے نجات مل جائے، اور تب ہی اسے سائیکل جیسی واشنگ مشین بنانے کا خیال آیا۔

    پرانی بائیسکل کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائی جانے والی یہ مشین بجلی کے استعمال سے بھی آزاد ہے اور ان مقامات پر بھی استعمال کی جاسکتی ہے جہاں بجلی نہیں ہے۔


    زراعت بڑھانے کا طریقہ

    شمالی اوقیانوس میں واقع جزیرہ آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ 3 بہنوں نے ایسا طریقہ کار وضع کر ڈالا جس سے بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے والی فصلوں جیسے گندم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے مختلف پھلیوں کی فصل میں پائے جانے والے ایک بیکٹریا کی گندم کی فصلوں میں آمیزش کی جس کے بعد اس فصل کی مقدار میں دوگنا اضافہ ہوگیا۔

    یاد رہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجودہ زرعی رقبہ ناکافی ہے اور جیسے جیسے دنیاکی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے زراعت میں اضافہ کی بھی ضرورت ہے۔


    نابیناؤں کا ساتھی

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک 12 سالہ بھارتی نژاد طالب علم شبھم بنرجی نے لیگو کے کھلونوں کے ٹکڑوں کی مدد سے ایسا آلہ تیار کیا ہے جو جزوی طور پر نابینا افراد کو بہتر طور پر دیکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

    یہ طالبعلم ابھی صرف ہائی اسکول میں ہے لیکن وہ اپنی ایجاد سے متعلق اپنی ذاتی کمپنی بھی قائم کرچکا ہے۔


    پانی کو صاف کرنے اور توانائی پیدا کرنے والا آلہ

    آسٹریلیا کی 17 سالہ سنتھیا سن نے ایچ 2 پرو نامی ایک ایسا آلہ بنایا ہے جو بیک وقت پانی کو صاف کرسکتا ہے اور ماحول دوست بجلی بھی پیدا کرسکتا ہے۔

  • امریکی وسط مدتی انتخابات میں 8 سائنس داں بھی کامیاب

    امریکی وسط مدتی انتخابات میں 8 سائنس داں بھی کامیاب

    واشنگٹن: گزشتہ روز امریکا میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں جہاں کئی ریکارڈ قائم ہوئے وہیں کئی سائنس داں بھی انتخاب جیت کر کانگریس کا حصہ بننے جارہے ہیں۔

    اگلے برس جنوری سے اپنی مدت کا آغاز کرنے والی 116 ویں امریکی کانگریس کو تاریخ کی متنوع ترین کانگریس قرار دیا جارہا ہے۔

    اس میں امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ 123 خواتین نمائندگان شامل ہوں گی جن میں پہلی مسلمان خاتون، پہلی صومالی نژاد امریکی خاتون اور پہلی مقامی امریکی خاتون بھی شامل ہیں۔

    اس کے ساتھ ہی اس بار کانگریس میں 8 سائنسدان بھی شامل ہوں گے جن میں سے ایک سینیٹ اور 7 ایوان نمائندگان میں موجود ہوں گے۔

    اس سے قبل گزشتہ کانگریس میں ایک طبیعات داں، ایک مائیکرو بائیولوجسٹ، ایک کیمیا داں، 8 انجینیئرز، اور ایک ریاضی داں شامل تھے۔

    گزشتہ کانگریس میں زیادہ تعداد طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تھی جن میں 3 نرسز اور 15 ڈاکٹرز اس کا حصہ تھے۔

    رواں انتخابات میں گزشتہ کانگریس سے زیادہ سائنسدان کانگریس کا حصہ بننے جارہے ہیں جن کی تعداد 8 ہے۔ ان سائنسدانوں نے اپنی انتخابی مہم ایک غیر سیاسی تنظیم 314 ایکشن کے تعاون سے لڑی ہے۔

    سنہ 2016 میں شروع کی جانے والی یہ تنظیم سائنس کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور سائنس کے طالب علموں کی تعلیم، تربیت اور ان کے منصوبوں کے لیے فنڈنگ مہیا کرتی ہے۔

    314 ایکشن کمیٹی کی صدر شانزی ناٹن کا کہنا ہے کہ سائنسدان دراصل مسائل کو حل کرنے والے ہوتے ہیں لہٰذا زیادہ سے زیادہ سائنسدانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنا چاہیئے۔ ‘ان سے بہتر بھلا مشکل مسائل کا حل کون جان سکتا ہے‘؟

    رواں برس فاتح امیدواروں میں کمپیوٹر پروگرامر جیکی روزن، انڈسٹریل انجینیئر کرسی ہولن، اوشین سائنٹسٹ جو کنگھم، بائیو کیمیکل انجینیئر سین کیسٹن، نیوکلیئر انجینیئر ایلینا لوریا، ماہر امراض اطفال کم شائرر اور نرس لورین انڈر ووڈ شامل ہیں۔ مذکورہ بالا تمام امیدواروں کا تعلق ڈیمو کریٹ پارٹی سے ہے۔

    اس کمیٹی کے تعاون سے الیکشن لڑنے والے ری پبلکنز کے واحد سائنسدان کیون ہرن ہیں جو ایرو اسپیس انجینئر ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز کے وسط مدتی انتخابات میں سینیٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن کو برتری حاصل ہوئی جبکہ ایوان نمائندگان ان کی مخالف پارٹی ڈیمو کریٹس کے نام رہا۔

  • چھپکلیوں کے خون کا رنگ ہرا کیوں ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے پتہ لگالیا

    چھپکلیوں کے خون کا رنگ ہرا کیوں ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے پتہ لگالیا

    چھپکلی رینگنے والے کیڑوں کے گروہ کا ایک بڑی تعداد میں پایا جانے والی رکن ہے، جس کی دنیا بھر میں تقریباً پانچ ہزار اقسام ہیں اور یہ براعظم انٹارکٹیکا کے علاوہ سارے براعظموں میں پائی جاتی ہیں۔

    چھپکلیاں ایسی مخلوق ہیں کہ دنیا کا کوئی کونہ ان کی دسترس سے باہر نہیں اوریہ حیرت انگیز طور پر ہر جگہ اور ہر عمارت میں پہنچ جاتی ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے معلوم کیا ہے کہ نیوگنی کے جزیرے پر پائی جانے والی چھپکلیوں کے خون کا رنگ سبز کیوں ہوتا ہے؟ یہ سوال سائنس دانوں کو پریشان کر رہا تھا کہ ان کے سبز خون کی وجوہات کیا ہیں؟ یعنی دنیا میں زیادہ تر جانوروں کا خون سرخ ہے، تو پھر ان چھپکلیوں کو لہو سبز کیوں ہے؟

    چھپکلیوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے بعد ان مختلف چھپکلیوں کے سبز خون کی وجوہات جاننے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، سائنس دانوں نے اس تحقیق کے لیے سبز خون کی حامل چھ مختلف چھپکلیوں اور ان کی 45 قریبی انواع کے ڈی این اے کی جانچ کی۔

    ایسی چھپکلیوں کے ڈی این اے کی جانچ کے بعد سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خون کے سبز ہونے کی وجہ ان چھپکلیوں کے جسم میں ایک خاص زہریلے مادے بیلی وَیردِن کی زیادہ مقدار ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق اس عام سے سبز زہریلے مادے کی وجہ سے ممکنہ طور پر چھپکلیوں کا خون سبز ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ان کا تعلق ممکنہ طور پر شِنکس نامی چھپکلی کی قسم سے ہے اور ان تمام نے نیو گنی کے اس جزیرے پر چار مختلف ادوار میں ارتقائی نمو پائی۔

    محققین کے مطابق اس چھپکلی کے جد امجد یقینی طور پر سرخ خون والے تھے، مگر ان سبز رنگ والی مختلف نوع کی چھپکلیوں کا آپس میں کوئی گہرا تعلق نہیں ہے۔

    امریکا کی لوئزیانا یونیورسٹی کے میوزیم آف نیچرل سائنس سے وابستہ ارتقائی حیاتیات کے ماہر ذخاری روڈریگیز کے مطابق ان چھپکلیوں کا تعلق سرخ خون والے جانوروں ہی کے اجداد سے ہے اور سبز خون ان مختلف چھپکلیوں میں آزادانہ اور علیحدہ ارتقائی عمل کے ذریعے پیدا ہوا،۔

    اس کا مطلب ہے کہ خون کی سبز رنگت ان چھپکلیوں کے لیے فائدہ مند خصوصیت کی حامل ہو گی، سائنسدانوں کے مطابق تحقیق کے نتائج کے بعد میں اسے انسانوں میں یرقان کے علاج کے لیے استعمال کیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • انسان کے چہرے کی ساخت مینڈک کے جیسی

    انسان کے چہرے کی ساخت مینڈک کے جیسی

    کیا آپ جانتے ہیں؟ ہمارے منہ کی ساخت کس جانور کی طرح ہے؟

    شاید آپ کا جواب ہو کہ بن مانس یا بندر، لیکن حال ہی میں ماہرین نے ایک دنگ کردینے والی تحقیق کی ہے جس کے مطابق ہمارے منہ کی ساخت بالکل ایسی ہے جیسی مینڈک کے منہ کی ہے۔

    نیشنل جیوگرافک کے مطابق سائنسدانوں نے ایک تحقیق کی جس میں انہیں پتہ چلا کہ مینڈک اور انسان کے منہ کے بافت یا ٹشو تقریباً یکساں ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ماں کے رحم میں بچے کی تخلیق ہوتی ہے تب سر کے پچھلے حصے سے خلیات حرکت کرتے ہوئے آگے آتے ہیں جو بچے کا چہرہ اور آنکھوں سمیت چہرے کے دیگر حصے تشکیل دیتے ہیں۔

    مینڈک کا چہرہ بھی بالکل اسی طرح سے تشکیل پاتا ہے۔

    گو کہ یہ تحقیق دلچسپ تو ہے، مگر بہت عجیب بھی ہے، تو پھر غور سے دیکھنا شروع کریں، ہوسکتا ہے کہیں آپ کو اپنا ہم شکل مینڈک بھی دکھائی دے جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک کی بوتلوں سے بنائے گئے جوتے

    پلاسٹک کی بوتلوں سے بنائے گئے جوتے

    ہماری زندگیوں میں پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال نہایت عام ہے۔ پینے کے پانی سے لے کر مختلف کاموں میں پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پینے کے لیے استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں عام پلاسٹک سے کہیں زیادہ مضر ہیں۔

    ان کے مطابق جیسے جیسے پلاسٹک کی بوتل پرانی ہوتی جاتی ہے اس کی تہہ کمزور ہوتی جاتی ہے اور اس میں سے پلاسٹک کے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ذرات پانی کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہو کر کینسر، ذیابیطس اور امراض قلب سمیت دیگر کئی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    ان بوتلوں کو استعمال کے بعد ٹھکانے لگانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ چونک پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال لیتا ہے اس لیے اس کی تلفی سائنسدانوں کے لیے ایک درد سر ہے۔

    اسی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ سائنسدانوں نے ان استعمال شدہ بوتلوں سے جوتے بنانے کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔

    اس مقصد کے لیے ہزاروں بوتلیں جمع کی گئیں جنہیں پیس کر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں دھاگوں سے ملا کر جوتوں کی شکل میں ڈھالا گیا۔

    پلاسٹک کی بوتل کے برعکس یہ جوتے نہایت نرم اور پہننے میں آرام دہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم سے لڑنے کے لیے پلاسٹک کا لباس تیار

    اسے بنانے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ ایک ماحول دوست فیشن کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ایسی اشیا جو ماحول دوست تھیں دیکھنے میں اچھی نہیں لگتی تھیں اور فیشن انڈسٹری انہیں قبول کرنے میں متعامل تھی، لیکن یہ جوتے فیشن اور اسٹائل کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔

    تو اب آپ جب بھی پلاسٹک کی بوتل کا استعمال کریں، اسے پھینکنے کے بجائے ری سائیکل بن میں ڈالیں، ہوسکتا ہے وہ ری سائیکل ہو کر آپ ہی کے پاؤں کی زینت بن جائیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

    سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

     

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا۔

    خلائی مخلوق سے متعلق مختلف قسم کی داستانیں گردش کرتی رہتی ہیں اور ایسی مخلوق کو تلاش کرنے کیلئے سائنس دانوں کی جستجو آج بھی جاری ہے۔

    مستقبل کی اس تلاش کے حوالے سے بہت ساری تخیلاتی فلمیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں، تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندگی کی ایک اور شکل وہ بھی ہے جو زمین پر تو موجود نہیں ہے لیکن زمین سے باہر خلا میں اس کے وجود کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا، یہ بیکٹیریا خلائی اسٹیشن کی سطح پر پایا گیا تھا۔

    ایک روسی سائنسدان جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اپنے تیسرے سفر کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے اسٹیشن کی سطح پرایک حیاتی بیکٹیریا پایا ۔

    روسی خلائی سائنسدان کے مطابق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی سطح پر زندگی کی حفاظت ممکن ہے، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ خلائی اسٹیشن کے باہر پایا جانے والا یہ بیکٹیریاپہلے سے موجود ہے یا کسی اور طریقے سے لایا گیا۔

    خلائی مخلوق کی موجود گی پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق جس مقام پر زمین کا کرہ ہوائی ختم ہوتا ہے، وہاں مختلف نوعیت کی جراثیمی مخلوق کی موجودگی خارج ازامکان نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خلا میں موجود اکثر سیارچے ایسے بھی ہیں کہ جن میں جراثیمی زندگی موجود ہو سکتی ہے۔

    خلا میں گھومنے والا جب کوئی آوارہ سیارچہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوجاتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے اس میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور زمین پر پہنچنے سے پہلے وہ راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے، ایسے واقعات روزانہ ہزاروں کی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔

    خلائی سائنس دان زمین کے کرہ ہوائی سے باہر جراثیمی مخلوق کی زندگی پر تحقیق کے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کررہے ہیں۔

    ان کا خیال ہے کہ زمینی حدود کے باہر کوئی ایسی مخلوق بھی موجود ہے جو ہوا، پانی، سورج کی روشنی کے بغیر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    اگر سائنس دان کرہ ارض کے باہر سے اس طرح کی کوئی مخلوق پکڑ کرلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ غالباً کرہ ارض پرآنے والی پہلی حقیقی خلائی مخلوق ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمونپسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    ہم میں سے اکثر افراد کو چاند یا بادلوں میں مختلف اشکال دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اب مریخ پر بھی مختلف چہرے دکھائی دینے لگے ہیں جو صرف عام افراد کو ہی نہیں بلکہ سائنسدانوں کو بھی نظر آرہے ہیں۔

    سنہ 2001 میں ناسا کی جانب سے کھینچی جانے والی مریخ کی تصاویر کی مزید نئی اور بہتر تکنیک سے جانچ کی گئی اور سائنس دان مریخ کی سطح پر ایک عجیب و غریب سا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

    ناسا نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ وہ کیا جغرافیائی عوامل تھے جن کے باعث مریخ کی زمین پر یہ چہرہ بن گیا ہے۔

    اس موقع پر ناسا نے مریخ کی مزید تصاویر بھی جاری کیں۔

    یاد رہے کہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور اس کی وسعت زمین کی وسعت سے نصف کم ہے۔ مریخ کو سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بکرے کے روپ میں ڈھل جانے والا آدمی

    بکرے کے روپ میں ڈھل جانے والا آدمی

    اگر آپ سے کہا جائے کہ چند دن کے لیے آپ اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کسی اور کی شخصیت اختیار کریں اور سب کچھ ویسے ہی کریں جیسے وہ کرتا ہے تو یقیناً آپ پریشانی کا شکار ہوجائیں گے۔

    یہ کام یقیناً آپ کے لیے مشکل ہوگا کیونکہ اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کسی اور کی شخصیت کو اپنانا چاہے وہ کتنا ہی دولت مند اور مشہور شخص کیوں نہ ہو ایک مشکل کام ہے کیونکہ آپ اپنی فطرت سے ہٹ جائیں گے۔

    ہر انسان کی فطرت، عادات، مزاج دوسرے شخص سے مختلف ہوتا ہے اور وہ کام کرنا جو ہمارے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا ہو ایک نہایت دقیق مسئلہ ہے۔

    تو پھر اس برطانوی شخص کی داد دیں جو اپنی شخصیت کو مکمل طور پر چھوڑ کر کسی اور کے روپ میں ڈھل گیا، اور وہ نیا روپ بھی کسی انسان کا نہیں بلکہ جانور کا، یعنی بکری کا تھا۔

    gm-4

    یقیناً یہ شخص نوبل انعام کا ہی مستحق تھا جو اسے دیا بھی گیا۔

    لندن سے تعلق رکھنے والا تھامس تھویٹس دراصل ایک سائنسدان ہے۔ اس نے یہ کام نہ صرف تحقیقی مقصد کے لیے انجام دیا بلکہ اس کا کہنا ہے کہ اس سے اسے ایک روحانی مسرت حاصل ہوئی۔

    goatman-3

    وہ بتاتا ہے، ’میں اپنے انسان ہونے کی پہچان سے باہر نکلا اور ایک نئے زاویے سے دنیا کو دیکھنا شروع کیا‘۔

    تھامس نے مکمل طور پر بکرا بننے کے لیے بکرے جیسا ایک مصنوعی ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جس میں سینگوں کی جگہ ایک ہیلمٹ، ہاتھ اور پاؤں کے لیے بکروں جیسی ساخت کے اعضا اور نرم کھال سے بنا ایک کوٹ شامل تھا اور اسے پہن کر یورپ کی الپس پہاڑیوں میں نکل گیا۔

    gm-6

    یہ کام تھامس نے تین دن تک انجام دیا اور صرف یہی نہیں 3 دن تک اس نے پتے بھی کھائے۔

    gm-5

    تھامس کی اس کاوش پر اسے آئی جی نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ 1991 سے آغاز کیے جانے والے یہ نوبل انعام ان کارناموں کے لیے دیے جاتے ہیں جو بظاہر تو عجیب و غریب یا کسی حد تک مزاحیہ ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے اندر ایک پیغام چھپا ہوتا ہے۔

    تھامس نے یہ انعام ہارڈورڈ یونیورسٹی میں نوبل انعام یافتہ ماہرین و سائنسدانوں سے وصول کیا۔

    gm-7

    تھامس نے اس تجربے پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے، ’کس طرح میں نے انسان بننے کے کام سے چھٹی لی‘۔

  • پاکستان سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک

    پاکستان سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک

    پاکستان دنیا کے سب کم تخلیقی صلاحیت والے ممالک میں سے ایک ہے۔ دنیا کے 128 سب سے زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 119واں ہے۔

    گلوبل انوویشن انڈیکس 2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں۔ اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن ہی شامل ہیں۔

    sci-2

    فہرست میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے بھی پیچھے ہے جس کے مطابق بھارت 66 ویں، بھوٹان 96 ویں، سری لنکا 91 ویں اور بنگلہ دیش 117 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    فہرست کے مطابق سوئٹزرلینڈ دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر سوئیڈن، تیسرے پر برطانیہ جبکہ چوتھے پر امریکا موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں پاکستانی نژاد خاتون سائنسدان کا اہم کارنامہ

    واضح رہے کہ پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں اس وقت پرائمری اسکول جانے کی عمر کے تقریباً 56 لاکھ طلبہ اسکول جانے سے قاصر ہیں (یعنی دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والوں بچوں کا 62 فیصد) جبکہ لوئر سیکنڈری اسکول جانے کی عمر کے تقریباً 55 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

    دوسری جانب بلوغت کی عمر کو پہنچتے ایک کروڑ سے زائد نوجوان اپر سیکنڈری اسکول جانے سے محروم ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تعداد 2 کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔