Tag: سائنسداں

  • انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈا ہماری روزمرہ کی غذا میں استعمال ہونے والا عام جز ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ انڈا ہماری کائنات کے کئی رازوں کا امین ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس کے کیلشیئم کاربونیٹ سے بنے چھلکے اور اس کے اندر کی دنیا کو غور سے دیکھیں تو اس کے اندر ہماری کائنات کی چھوٹی سی جھلک نظر آئے گی۔

    لوک کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں انڈے کا ذکر ثابت کرتا ہے کہ انڈا ہم سے بہت پہلے سے اس کائنات پرموجود ہے۔ قدیم مصری، یونانی، رومی اور انکا تہذیبوں سمیت مختلف مذاہب اور روایات میں انڈے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

    امریکا میں جنوبی کیلی فورنیا میں موجود ایک قبیلے کی دیو مالائی کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ جس طرح انڈا ٹوٹتا ہے بالکل ویسے ہی ہماری کائنات تخلیق ہوئی۔

    اسی طرح امریکی ریاست آئیووا کا ایک اور قبیلہ اوماہا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کروڑوں سال قبل ایک انڈا سمندروں میں پھینکا گیا جس کی حفاظت ایک سانپ کے پاس ہے، اس انڈے میں وہ تمام افراد آرام کر رہے ہیں جنہیں ابھی دنیا میں آنا ہے۔

    کیا ہماری کائنات بھی انڈے جیسی ہے؟

    سنہ 2006 میں ناسا کے ولکنسن سیٹلائٹ کی حاصل کردہ معلومات سے یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ کائنات (انڈے کی طرح) بیضوی شکل کی ہے۔ سائنسی طبقے نے آج تک اس مفروضے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

    تاہم اس سے قبل سولہویں صدی عیسوی میں جرمن ماہر فلکیات جوہانس کیپلر اس بات کی تصدیق کر چکا تھا کہ ہمارے سیارے سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گول دائرے میں نہیں بلکہ بیضوی دائرے میں گھومتے ہیں۔

    اسی طرح ماہرین کے مطابق انڈے کے خول اور چاند کی زمینی سطح میں بھی بے حد مماثلت ہے، دونوں کھردرے اور دانے دار ہیں۔

    انڈے کی بیضوی ساخت اپنے اندر یہ خصوصیت بھی رکھتی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک سرے پر بیرونی دباؤ ڈالا جائے تو وہ دباؤ تمام حصوں پر یکساں تقسیم ہوجاتا ہے جس کے بعد اندر موجود زندگی محفوظ رہتی ہے۔

    اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ہم ایک بڑے سے انڈے میں رہ رہے ہیں جو مسلسل پھیل رہا ہے، تاہم تمام تر ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ماہرین اس بات کا حتمی تعین نہیں کرسکے۔

  • وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کو عظیم سائنسداں بنایا

    وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کو عظیم سائنسداں بنایا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کی عظمت ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس نے وہ نظریہ اضافت پیش کیا جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، تاہم اس کامیابی اور عظمت کے پیچھے حقیقتاً ایک عورت کا ہاتھ ہے جسے دنیا فراموش کر چکی ہے۔

    آئن اسٹائن کی عظمت اور کامیابی کا سہرا اس کی بیوی ملیوا کو جاتا ہے، جو اس وقت سے آئن اسٹائن کے ساتھ تھی جب وہ طالب علم تھا اور خود بھی اپنے اندر چھپے جوہر کو نہیں پہچان پایا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ ملیوا آئن اسٹائن سے کہیں زیادہ ذہین تھی، تاہم اسے آئن اسٹائن جیسی نصف شہرت بھی نہ مل سکی۔

    ملیوا میرک سربیا کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے بچپن سے ہی طبیعات اور ریاضی پڑھنے کا شوق تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کے والد نے اسے سوئٹزر لینڈ کی زیورخ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے بھیجا اور یہیں اس کی ملاقات آئن اسٹائن سے ہوئی۔

    ملیوا طبیعات کے شعبے میں واحد طالبہ تھی۔ داخلے کے امتحان میں ریاضی میں ملیوا نے آئن اسٹائن سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ یہی نہیں فائنل ایگزام میں بھی اپلائیڈ فزکس کے مضمون میں اس کا اسکور آئن اسٹائن سے کہیں زیادہ تھا۔

    دوران تعلیم ملیوا اور آئن اسٹائن میں محبت کا تعلق قائم ہوچکا تھا اور وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے تاہم آئن اسٹائن کے والدین اس رشتے کے مخالف تھے۔

    والد کا اعتراض تھا کہ آئن اسٹائن شادی کرنے سے پہلے کوئی ملازمت حاصل کرے جبکہ ان کی والدہ نے ایک نظر میں ملیوا کی حد درجہ ذہانت کو بھانپ لیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ شادی کے بعد وہ بہت جلد ان کے بیٹے پر حاوی ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    اس دوران مختلف شہروں میں رہائش کی وجہ سے دونوں کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی جس میں فزکس کی مشکل گتھیاں بھی زیر بحث آتیں۔ ملیوا مشکل سوالات کے اس قدر مدلل جوابات دیتی کہ آئن اسٹائن بھی اس کے سامنے اپنی کم عقلی کا اعتراف کرتا۔

    کچھ عرصے بعد ان دونوں نے مل کر اپنا پہلا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو ملیوا نے اپنا نام چھپوانے سے انکار کردیا۔ اس کی ایک وجہ اس وقت کی معاشرتی تنگ نظری تھی۔

    دونوں ہی یہ بات جانتے تھے کہ جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ اس مقالے کی مصنف ایک خاتون ہے تو اس کی سائنسی حیثیت صفر ہوجائے گی اور لوگ اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔

    دوسری وجہ یہ تھی کہ ملیوا چاہتی تھی کہ اس مقالے کی بدولت آئن اسٹائن کا نام بنے اور انہیں کچھ رقم بھی حاصل ہو تاکہ وہ شادی کرسکیں۔

    ملیوا کا آئن اسٹائن کا ساتھ دینے اور اس کے لیے قربانیاں دینے کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک دونوں ساتھ رہے۔ سنہ 1903 میں دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے اور یہاں سے ان دونوں کی نئی زندگی اور فزکس کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

    شادی کے بعد دونوں اپنی شامیں طبیعات کے مشکل اور پیچیدہ سوال حل کرنے میں گزارتے جبکہ رات دیر تک تحقیق و تدوین کا کام کرتے۔ دونوں کے مشترکہ دوستوں کا کہنا ہے کہ آئن اسٹائن کی ہر تحقیق اور مقالے میں انہوں نے ملیوا کو برابر کا حصہ دار دیکھا۔

    بے روزگاری کے دور میں جب آئن اسٹائن کو ایک ضخیم مقالہ نظر ثانی کے لیے پیش کیا گیا تو وہ لگاتار 5 ہفتے تک اس پر کام کرتا رہا اور کام کرنے کے بعد 2 ہفتوں کے لیے بستر پر پڑ گیا۔ اس دوران ملیوا نے آئن اسٹائن کے کام کو دوبارہ دیکھا اور اس میں بے شمار درستگیاں کیں۔

    جب آن اسٹائن کو ایک ادارے میں لیکچر دینے کی ملازمت ملی تو یہ ملیوا ہی تھی جو راتوں کو جاگ کر اگلے دن کے لیکچر کے نوٹس بناتی اور اگلی صبح آئن اسٹائن ان کی مدد سے لیکچر دیتے۔

    جب بھی ملیوا سے سوال پوچھا جاتا کہ جن تھیوریز اور تحقیق کی بنا پر آئن اسٹائن کو صدی کا عظیم سائنسدان قرار دیا جارہا ہے، ان میں ملیوا کا بھی برابر کا حصہ ہے تو وہ کیوں نہیں اپنا نام منظر عام پر لانا چاہتی؟ تو ملیوا کا ایک ہی جواب ہوتا کہ وہ آئن اسٹائن کو کامیاب اور مشہور ہوتا دیکھنا چاہتی ہے اور اسی میں اس کی خوشی پنہاں ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو

    ملیوا کی اس جاں نثاری اور خلوص کے باوجود آئن اسٹائن اس سے بے وفائی سے باز نہ رہ سکا اور سنہ 1912 میں ان کی شادی کے صرف 9 برس بعد آئن اسٹائن اپنی ایک کزن ایلسا کے دام الفت میں گرفتار ہوگیا۔

    دو برس بعد ملیوا نے آئن اسٹائن سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا اور واپس زیورخ چلی آئی۔ سنہ 1919 میں دونوں کے درمیان باقاعدہ طلاق کے معاہدے پر دستخط ہوئے، اسی سال آئن اسٹائن نے ایلسا سے شادی بھی کرلی۔

    اس وقت تک آئن اسٹائن کو نوبیل انعام دیے جانے کی باز گشت شروع ہوچکی تھی۔ دونوں کے درمیان طے پایا کہ اگر آئن اسٹائن کو نوبیل انعام ملا تو وہ اس کو نصف بانٹ لیں گے۔

    نوبیل انعام ملنے کے بعد آئن اسٹائن کا ارادہ بدل گیا اور اس نے ملیوا کو خط لکھا کہ انعامی رقم کے حقدار صرف اس کے بیٹے ہوں گے جس پر ملیوا بپھر گئی۔ اس وقت ملیوا شدید بیماریوں اور معاشی تنگ دستی کا شکار تھی لہٰذا اسے رقم کی سخت ضرورت تھی۔

    ملیوا نے کئی پرانے خطوط اور دستاویز آئن اسٹائن کو روانہ کیے اور اسے یاد دلایا کہ اگر ملیوا اور اس کی ذہانت آئن اسٹائن کے ساتھ نہ ہوتی تو وہ کبھی اس مقام تک نہ پہنچ پاتا۔

    جواب میں آئن اسٹائن نے ایک طنزیہ خط لکھتے ہوئے ملیوا کے اس خیال کو احمقانہ کہا۔ علیحدگی کے بعد آئن اسٹائن کے اس رویے کا ملیوا کو مرتے دم تک افسوس رہا، وہ اپنے بیٹے ہینز البرٹ اور والدین کو خطوط لکھتی اور اس بات کا اظہار کرتی تاہم یہ بھی کہتی کہ وہ اس بات کو اپنے تک رکھیں اور آئن اسٹائن کو رسوا نہ کریں۔

    ملیوا کی موت کے بعد ہینز کی بیوی نے ان خطوط کو شائع کرنے کی کوشش کی جو ملیوا نے اپنے بیٹے کو لکھے اور اس میں آئن اسٹائن کی خود غرضی کا ذکر کیا، تاہم آئن اسٹائن کے وکیل کی جانب سے اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔

    مجموعی طور پر ملیوا ایک سادہ عورت تھی جسے شہرت یا نام و نمود کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ اس کے برعکس وہ اپنے محبوب شوہر کو اونچے ترین مقام پر فائز دیکھنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنی خداداد صلاحیت اور بے پناہ قابلیت کو بھی شوہر کے لیے استعمال کیا۔

    وہ پہلی انسان تھی جس نے آئن اسٹائن کی ذہانت کو پرکھا باوجود اس کے، کہ وہ خود اس سے کہیں زیادہ ذہین تھی۔ اس نے ہر قدم پر آئن اسٹائن کا ساتھ دیا اور اس کی کامیابیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ملیوا نہ ہوتی تو آئن اسٹائن کبھی عظیم سائنس دان نہیں بن سکتا تھا۔

  • وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت وہ ستون ہے جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن کا دماغ دیگر انسانوں کی نسبت بڑا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار دنیا کے ذہین ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    تاہم وہ کیا چیز تھی جس نے آئن اسٹائن کو دنیا کا عظیم سائنسداں بنایا؟ اسی بات کو جاننے کے لیے جب آئن اسٹائن کی موت کے بعد ان کے دماغ پر تحقیق کی گئی تو اس میں دنگ کردینے والے حقائق سامنے آئے۔

    آئن اسٹائن سنہ 1955 کی ایک صبح 76 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد ایک ڈاکٹر تھامس ہاروے کو ان کا چیک اپ کرنے کے لیے بلایا گیا جنہوں نے آئن اسٹائن کی موت کی تصدیق کی۔

    گو کہ آئن اسٹائن نے اپنی زندگی میں کہہ دیا تھا کہ ان کی موت کے بعد انہیں دفن کیا جائے اور ان کا جسم سائنسدانوں کو مختلف تجربات کے لیے نہ دیا جائے تاہم ماہرین کم از کم ان کے دماغ کی جانچ کرنا چاہتے تھے اسی لیے ان کی موت کے ساڑھے 7 گھنٹے بعد ان کے دماغ کو جسم سے علیحدہ کرلیا گیا۔

    ایسے میں آئن اسٹائن کے ڈاکٹر تھامس نے موقع دیکھ کر ان کا دماغ چرا لیا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔

    تھامس نے اس عظیم دماغ کو 240 ٹکڑوں میں کاٹ کر مختلف جارز میں ڈال دیا اور اسے 40 برس تک اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپائے رکھا۔

    بالآخر 40 برس بعد تھامس اس دماغ کو منظر عام پر لے آیا اور تحقیق کے لیے اسے سائنسدانوں کے حوالے کردیا۔

    سائنسدانوں نے اس دماغ کی جانچ پڑتال کی تو نہایت حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ ماہرین نے دیکھا کہ آئن اسٹائن کے دماغ کی ایک جھلی پیرائٹل اوپرکیولم غائب تھی۔

    دماغ کو ایک حد میں رکھنے والی اس جھلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئن اسٹائن کے دماغ کا یہ حصہ عام دماغ سے 20 فیصد بڑا ہوگیا تھا۔

    دماغ کی اس غیر معمولی نشونما کی وجہ سے آئن اسٹائن میں ریاضی کو سمجھنے اور مختلف تصورات قائم کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ آئن اسٹائن کے دماغ میں عام دماغ کی نسبت 17 فیصد زیادہ نیورونز موجود تھے۔ ان اضافی نیورونز نے آئن اسٹائن کی دماغی کارکردگی میں اضافہ کردیا تھا جبکہ وہ اپنے تصورات کو تعمیری صورت میں ڈھالنے پر بھی قادر ہوگئے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام کیفیات ایک غیر معمولی دماغ کی نشانی ہیں جنہیں ’ابنارمل‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ آئن اسٹائن خوش قسمت تھے کہ ان کی ’ابنارملٹی‘ نے انہیں دنیا کا عظیم سائنسداں بنا دیا۔

    آئن اسٹائن کہا کرتے تھے، ’دنیا کا ہر شخص ذہین ہوتا ہے، لیکن اگر آپ کسی مچھلی کی صلاحیتوں کا اندازہ اس کے درخت پر چڑھنے سے لگانا چاہیں تو وہ ساری عمر اپنے آپ کو نالائق گردانتی رہے گی‘۔

    آپ اس عظیم سائنسداں کی بات سے کتنے متفق ہیں؟

  • باربی ڈول سائنس دان بن گئی

    باربی ڈول سائنس دان بن گئی

    دنیا بھر میں مقبول گڑیا باربی ڈول اب نئے انداز سے سامنے آگئی۔ پہلی بار سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ باربی ڈول کو پیش کیا جارہا ہے۔

    60 سال بعد پہلی بار سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک باربی ڈول کو پیش کیا گیا ہے۔

    ماضی میں باربی کمپنی پر تنقید کی جاتی تھی کہ وہ اپنی گڑیاں بہت زیادہ دبلی پتلی اور حد سے زیادہ پرکشش بناتے ہیں۔

    ان سے کھیلنے والی چھوٹی بچیاں لاشعوری طور پر اس گڑیا سے متاثر ہو کر اس جیسا بننا چاہتی ہیں، تاہم گزشتہ چند سالوں میں باربی کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا جن میں مختلف کیریئر اپنانے والی باربی اور حجاب کرنے والی باربی بھی شامل تھی۔

    لوگوں کا خیال تھا کہ وقت بدل رہا ہے، چونکہ چھوٹی بچیاں اپنی گڑیاؤں سے بے حد متاثر ہوتی ہیں لہٰذا بدلتے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے باربی کو خوبصورت پیش کرنے کے بجائے اسے باہمت اور کام کرنے والی باربی کے طور پر پیش کیا جانا چاہیئے۔

    باربی گڑیا بنانے والی کمپنی ماٹل کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ سال میں چند ایسی خواتین کے عکس پر گڑیائیں بنائیں گے جو کہ انتہائی متاثر کن اور انسپریشنل ہیں۔

    اس کی ایک مثال امریکی اولمپیئن ابتہاج محمد کے جیسی بنائی گئی گڑیا ہے۔

    اسی منصوبے کے تحت اب سائنسدان باربی پیش کی جارہی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت سائنس کے شعبے میں خواتین کی تعداد صرف 24 فیصد ہے۔

    سائنس دان باربی چھوٹی بچیوں کو بھی سائنس کے شعبے کی طرف بڑھنے کی ترغیب دے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔