Tag: سائنسی ادب

  • انگریزی ادب اور سائنس فکشن

    انگریزی ادب اور سائنس فکشن

    سائنس فکشن یوں تو ایک جدید صنف ہے لیکن اس کی جڑیں صدیوں پرانے ادب میں پیوست ہیں۔

    اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی دوسری صدی عیسوی کے شامی مصنف لوسیان آف ساموساٹا کی یونانی زبان میں کی گئی تصنیف ’’ٹرو ہسٹری‘‘ کی صورت میں ملتی ہے۔ اس کتاب میں خلائی سفر، سیاروں کے درمیان جنگوں اور خلائی مخلوق کا ذکر موجود ہے۔ الف لیلہ کی چند کہانیوں میں سائنس فکشن کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ دسویں صدی عیسوی کی ایک جاپانی لوگ کہانی ’’دی ٹیل آف دی بیمبو کٹّر‘‘ میں چاند سے آنے والی ایک لڑکی کا ذکر ہے جو بڑی ہونے کے بعد واپس لوٹ جاتی ہے۔ بارہویں صدی میں ابن النفیس نے عربی زبان میں ایک ناول لکھا۔ یہ عربی زبان کا پہلا ناول ہے جس میں سائنس فکشن کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ اب چلیں انگریزی ادب کی طرف تو کئی نام سامنے آتے ہیں

    پہلے بات ہوجائے ایڈگار ایلن پو کی جن کے کئی افسانے اور ناول دراصل سائنس فکشن تھے۔ مثال کے طور پر ’’دی نیریٹر آف آرتھر گورڈن پیم آف نانٹوکٹ‘‘ یا ’’دی بیلون ہوآکس‘‘ وغیرہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج جس صنف کو ہم سائنس فکشن کہتے ہیں، انگریزی میں اس صنف کی شروعات ہربرٹ جارج ویلز نے کی تھی۔ ویلز کا پہلا سائنس فکشن ناول ’’دی ٹائم مشین‘‘ تھا جو 1895ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا ہیرو ایک ٹائم مشین کی مدد سے مستقبل میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد ویلز نے تقریباً 50 سائنس فکشن ناول اور بہت سارے سائنسی افسانے لکھے۔ اس کے ناولوں میں ’’دی اِن ویزیبل مین، دی سَول آف اے بشپ، دی فرسٹ مین اِن دی مُون، دی وار آف دی ورلڈز، دی آئی لینڈ آف ڈاکٹر مورائیو اور یو کینٹ بی ٹُو کئیرفل‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ زیادہ تر نقادوں کی نظر میں ایڈگر ایلن پو (امریکا)، ایچ جی ویلز (برطانیہ) اور جولس ورن (فرانس) تینوں مشترکہ طور پر جدید سائنس فکشن کے بانی کہے جا سکتے ہیں۔ اسی زمانے میں سیموئیل بٹلر نے ایک ناول Erewhon لکھا، جس میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ مشینیں ایک دن سائنس دان بن جائیں گی اور انسانوں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔ سر آرتھر کانن ڈائل (جو اپنے جاسوسی کر دار شرلاک ہومز کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں) نے سائنس فکشن بھی لکھی۔ مشہور مصنف رڈیارڈ کِپلنگ نے بھی دو سائنسی افسانے ’’وِدھ دی نائٹ میل‘‘ اور ’’اَیز اِیزی اَیز اے بی سی‘‘ لکھے۔ بنگال کی رقیہ سخاوت حسین (بیگم رقیہ) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی کہانی ’’سلطاناز ڈریم‘‘ دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھی گئی پہلی فیمینسٹ سائنس فکشن ہے۔ انہوں نے یہ کہانی انگریزی میں لکھی تھی جو 1905ء میں شائع ہوئی۔ امریکا میں جارج ٹوکر نے ناول ’’اے وُایج ٹو دی مُون‘‘ لکھا۔ ایڈورڈ بیلامی کا ناول ’’لُکنگ بیک ورڈ‘‘ انیسویں صدی میں امریکا کا دوسرا سب سے زیادہ بکنے والا ناول تھا۔ اس ناول میں مستقبل میں قائم ہونے والے ایک آئیڈیل معاشرے کی عکاسی کی گئی تھی۔ 1894ء میں وِل ہاربن نے ایک ناول ’’لینڈ آف دی چینجنگ سَن‘‘ لکھا جس میں دکھایا گیا کہ زمین کے مرکز میں ایک ترقی یافتہ نسل کے لوگوں کی حکومت ہے جو روشنی کے لیے ایک مصنوعی سورج استعمال کرتے ہیں۔ مشہور ادیب مارک ٹوین نے ایک سائنسی ناول ’’اے کونیکٹیکٹ ینکی اِن کنگ آرتھرز کورٹ‘‘ لکھا جس میں مستقبل میں وقت کا سفر کرنا دکھایا گیا ہے۔ اس ناول میں پہلی عالمی جنگ کی پیش گوئی کی گئی۔

    جیک لندن نے کئی سائنس فکشن کہانیاں لکھیں جن میں ’’دی اَن پیرالل اِنویژن، دی آئرن ہِیل، اور دی ریڈ وَن‘‘ اہم ہیں۔ ایڈورڈ ایورٹ ہیل نے ایک ناول ’’دی برنک مُون‘‘ لکھا جس میں مصنوعی سیارے کا ذکر موجود ہے۔ ایڈگر رائس بوروز نے پَلپ میگزین کے لیے سائنس فکشن لکھنا شروع کیا۔ اس کی کہانی ’انڈر دی مُونز آف مارس‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس نے کئی کہانیاں لکھیں۔

    (مرسلہ: احمد علی)

  • کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    ماسٹر رام چندر برطانوی ہند کی ایک عالم فاضل شخصیت اور ریاضی کے مشہور معلّم تھے جنھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں اور اپنے علمی و تحقیقی مضامین کے سبب قارئین میں مقبول ہوئے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا انگلستان میں بھی چرچا ہوا اور اس وقت کی سرکار نے انھیں گراں قدر علمی کاوش پر انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان رہا ہے۔

    انھوں نے اس سلسلے میں ایک رسالے کے توسط سے اپنی تحریر میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں خود ہی اپنے مشاہدہ و تحقیق سے اسے واضح کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون ہم آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ ماسٹر رام چندر کا سنِ‌ وفات 1880ء ہے۔ پیشِ نظر تحریر مصنّف کے مخصوص اور منفرد طرزِ بیان کی حامل ہے جو پُرلطف اور زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کرکے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”