Tag: سائنسی تحقیق

  • کیلے کے چھلکے کا آٹا : فوائد جان کر حیران رہ جائیں گے

    کیلے کے چھلکے کا آٹا : فوائد جان کر حیران رہ جائیں گے

    کیلے کے چھلکوں کا ایک نیا استعمال اور اس کے متعدد طبی فائدے ہیں لہٰذا چھلکوں کو پھینکیں نہیں بلکہ ان کو اچھی طرح ابال کر سکھا دیں اور پھر پیس کر رکھ لیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق اگر کیلے کے چھلکوں سے آٹا تیار کرکے اسے گندم سمیت دیگر چیزوں کے آٹے ساتھ شامل کرکے غذائیں تیار کی جائیں تو وہ نہ صرف ذائقہ دار بنتی ہیں بلکہ وہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔

    ویب سائٹ ’’سائنس الرٹ‘‘ کے مطابق ایک سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کیلے کے چھلکوں کو ابال کر، خشک کرکے اور پیس کر بیکڈ اشیا میں اجزاء کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ذائقے اور فوائد کے لحاظ سے روایتی آٹے کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔

    BANANA

    ماہرین نے کیلے کے چھلکے کے فوائد جاننے کے لیے صاف کیلوں کے چھلکوں کو خشک کرنے کے بعد اس کا آٹا تیار کیا اور پھر اسے گندم کے آٹے میں ملاکر اس سے کچھ غذائیں تیار کیں۔

    ماہرین نے تیار کی گئی غذاؤں کا ذائقہ معلوم کرنے کے لیے 20 ماہر باورچیوں کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے تیار غذاؤں کے ذائقے میں فرق کی نشاندہی کی۔

    تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 7.5 فیصد کیلے کے چھلکے کے آٹے سے تیار کیے گئے کیک کو چکھنے والوں نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ لوگوں نے عام کیک کے مقابلے ذائقے میں اس کیک میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں کیا۔

    محققین نے پایا کہ کرسٹ سے افزودہ کیک فائبر، میگنیشیم، پوٹاشیم اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں جو دائمی بیماریوں اور کینسر سے لڑنے میں مدد کرتے ہیں۔

    تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 10 فیصد گندم کے آٹے کو کیلے کے چھلکے کے آٹے سے تبدیل کرنے سے روٹی میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ اور چکنائی کی مقدار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    علاوہ ازیں ماہرین نے نوٹ کیا کہ صرف گندم کے آٹے سے تیار کچھ خشک غذائیں تین ماہ کے اندر اپنا اثر چھوڑنے لگتتی ہیں مگر کیلے کے چھلکوں سے بنی غذاؤں میں تین ماہ بعد بھی ’اینٹی آکسیڈنٹ‘ نامی کیمیکل کی مقدار برقرار رہتی ہے، یہ کیمیکل انسانی جسم کے اعضا کو خراب یا بیمار ہونے سے بچاتا ہے۔

     

  • ٹوائلٹ سیٹ جیسے سَر والی کروڑوں سال پرانی مخلوق دریافت

    ٹوائلٹ سیٹ جیسے سَر والی کروڑوں سال پرانی مخلوق دریافت

    سائنس دانوں نے ڈائناسار سے چار کروڑ سال قدیم ایک مخلوق کی محفوظ باقیات دریافت کی ہیں جس کا سَر دیکھ کر ماہرینِ رکازیات (paleontologist) بھی حیران رہ گئے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایسا فقاریہ (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا) ہے جس کی باقیات میں سب سے نمایاں اس کی دو فٹ لمبی کھوپڑی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کا سَر ایک ٹوائلٹ سیٹ کی طرح چپٹا ہے۔

    سائنسی جریدے نیچر میں اس دریافت سے متعلق مقالہ پر مبنی رپورٹ کے مطابق برفانی دور کی اس مخلوق کا مسکن دلدلی علاقے تھے جہاں یہ زیادہ تر دلدل کی تہ میں رہتا تھا۔ یہ جانور گہری اور انتہائی گدلی جھیلوں میں بھی پائے جاتے تھے۔ ارضیات اور جانداروں کے باہمی تعلق اور ارتقائی عمل پر تحقیق میں‌ مصروف ماہرین نے اس قدیم جاندار کو گایاشیا جینی اے (Gaiasia jennyae) کا نام دیا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ چار ٹانگوں‌ کی مدد سے رینگنے والے خوف ناک جانوروں میں جسامت کے لحاظ سے ایک بڑا حیوان ہے۔ اس کی باقیات کی لمبائی آٹھ فٹ ہے جس میں اس کی کھوپڑی اور آپس میں جڑے ہوئے دانت نمایاں ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گایاشیا جینی اے اپنے آس پاس کسی جانور کی موجودگی کو محسوس کر کے اپنے مخصوص بناوٹ کے حامل منہ کو پوری طرح کھول دیتا اور انتظار کرتا کہ شکار کب اس کے قریب آئے اور وہ اسے جھپٹ لے۔ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ گایاشیا جینی اے اپنے دانت کسی شکار کے جسم میں‌ گاڑنے کے بعد اسے نگل جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    اس مخلوق کی باقیات نمیبیا سے ملی ہیں۔ یہ جنوبی افریقہ کا شمال کی طرف وہ علاقہ ہے جو ہزاروں سال سے اسی محلِ وقوع کے ساتھ کسی اور نام سے پہچانا جاتا ہوگا اور یہ وہ زمانہ تھا جب برفانی دور ختم ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ دلدلی زمین تیزی سے خشک ہو رہی تھی اور جنگل بنتی جا رہی تھی۔ اس وقت جانوروں کے مختلف گروہ موجود تھے جو بدلتے ہوئے ماحولیاتی نظام کے ساتھ معدوم ہوگئے اور کچھ مختلف شکلوں میں زندہ رہے۔

    ماہرینِ حیاتیات کا خیال ہے کہ جسامت میں ایک آدمی سے بھی بڑا گایاشیا جینی اے (Gaiasia jennyae) بہت طاقت ور اور بھاری بھرکم جانور رہا ہوگا۔ شکاگو کے فیلڈ میوزیم میں این ایس ایف کے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو اور نیچر اسٹڈی کے شریک سرکردہ مصنف جیسن پارڈو کہتے ہیں کہ "اس کے منہ کے سامنے پورے حصّے میں بڑے دانت ہیں۔ یہ اس کے بڑے شکاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے، لیکن ممکنہ طور پر گایاشیا جینی اے نسبتاً سست اور گھات لگانے والا شکاری بھی ہے۔”

    بیونس آئرس یونیورسٹی کی کلاڈیا مارسیکانو، اور ان کے ساتھی ماہرین کی اس دریافت پر تحقیق کے بعد قدیم دور کے حیاتیاتی نظام سے متعلق اہم معلومات اور بعض دل چسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس جانور کی باقیات کے مختلف نمونوں پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔ کلاڈیا مارسیکانو، جو پارڈو کے تحقیقی کام میں شریک مصنّف بھی ہیں، کہتی ہیں، "ہم نے ایک بہت بڑا نمونہ کسی پتّھر کی طرح پڑا ہوا پایا، جسے غور سے دیکھنے پر ہم ششدر رہ گئے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ بالکل مختلف چیز ہے۔ سب بہت پُرجوش نظر آرہے تھے۔” مارسیکانو نے مزید کہا، "کھوپڑی کا ابتدائی معائنہ کرنے کے بعد ہی اس کے اگلے حصّے کی ساخت نے خاص طور پر میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ یہ اس مخلوق کا واضح طور پر نظر آنے والا واحد حصّہ تھا، اور یہ ظاہر کرتا تھا کہ غیر معمولی طور پر آپس میں جڑ جانے والے بڑے دانتوں سے قدیم دور میں چوپائے منفرد طریقے سے شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔”

    ماہرین پر مشتمل اس ٹیم نے ایسے کئی نمونے تلاش کر لیے تھے، جن میں سے ایک میں اس مخلوق کی کھوپڑی اور ریڑھ کی ہڈی نمایاں تھی اور اس کی بنیاد پر گایاشیا جینی اے کی شکل و جسامت کا اچھی طرح اندازہ لگانا ممکن ہوا۔ پارڈو کا کہنا ہے کہ "یہ بہت اچھی بات تھی کہ اس میں ایک مکمل کھوپڑی بھی شامل تھی، جسے ہم اس عمر کے دوسرے جانوروں سے موازنہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتے تھے اور اس بات کا اندازہ لگا سکتے تھے کہ یہ جانور کیا ہے اور کیا چیز اسے منفرد بناتی ہے۔” اس مخلوق پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس میں بہت کچھ ہے جو اسے خاص بناتا ہے۔ پارڈو کا خیال ہے کہ گایاشیا جینی اے ایک اسٹیم ٹیٹراپوڈ (stem tetrapods) ہے۔ اس سے مراد ابتدائی چار ٹانگوں والے فقاری جانور ہیں۔ لیکن پارڈو کے یہ پہلے والے اسٹیم ٹیٹراپوڈ کے گروپ کی مخلوق ہے۔ پارڈو کے مطابق "کچھ اور قدیم جانوروں کی باقیات اس خطّے میں اب بھی موجود ہیں، جو 300 ملین سال پہلے کے ہیں، لیکن وہ چھوٹے تھے، جب کہ گایاشیا جینی اے بڑی اور بکثرت پائی جانے والی مخلوق ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے ماحولیاتی نظام کا سب سے بڑا شکاری تھا۔”

    گایاشیا جینی اے اس دور کی صرف ایک جاندار نوع ہے اور اس کی باقیات کا ملنا ماہرینِ حیاتیات کو کئی اہم معلومات اور ماحولیاتی نظام پر تحقیق میں مدد دے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جاندار کے یہ نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ اس وقت جانوروں کے بہت سے گروہ نمودار ہوئے تھے جن میں سے اکثر اس طرح ناپید ہوگئے کہ ہم واقعی نہیں جانتے وہ کہاں ہیں۔

  • خوشی کا چاکلیٹ سے کیا تعلق ہے؟ دلچسپ حقائق

    خوشی کا چاکلیٹ سے کیا تعلق ہے؟ دلچسپ حقائق

    خوشی کے لمحات میں منہ میٹھا کرانا ہماری دیرینہ روایات کا حصہ ہے، مٹھائی اور حلوے وغیرہ کے بعد اب ان کی جگہ چاکلیٹس نے لے لی ہے کیونکہ بچے ہوں یا بڑے، چاکلیٹ تقریباً سب ہی کی پسندیدہ ہے۔

    جدید سائنسی تحقیق کے مطابق بطور میٹھا کھلائی جانے والی چاکلیٹ کا تعلق صرف خوشیوں اور تقریبات سے ہی نہیں بلکہ انسانی صحت کے ساتھ بھی جڑا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق چاکلیٹ کھانے سے صحت پر بے شمار طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جس میں خوشی کے ہارمونز کا ریلیز ہونا، موڈ کا قدرتی طور پر خوشگوار ہونا اور سر درد جیسی شکایت کا فوری علاج سر فہرست ہے، چاکلیٹ ذہنی دباؤ سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    چاکلیٹ

    آسٹریلیا کے سوین برن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سینٹر فار ہیومن فارماکولوجی کی ایک تحقیق کے مطابق چاکلیٹ میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس سمیت بعض اجزاء دماغ میں سیروٹونن نامی نیورو ٹرانسمیٹر پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں جو ہمیں خوش اور پر سکون محسوس کرواتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق چاکلیٹ ہمیں تناؤ سے نمٹنے میں مدد کرتی ہے۔ ڈارک چاکلیٹ میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں، ماہرین صحت کے مطابق جو آپ کے مزاج کو بہتر بنانے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈارک چاکلیٹ میں پائے جانے والے یہ اجزاء ٹرپٹوفان، فینی لیتھیلالینین اور تھیوبرومین ہیں۔

    Chocolate

    رپورٹ کے مطابق فینائلیتھیلامین قدرتی طور پر کام کرنے والے اینٹی ڈپریسنٹ کے طور پر کام کرتا ہے اور ڈوپامائن کو خارج کرنے میں مدد کرتا ہے جس سے ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔

    رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاکلیٹ کا زیادہ استمعال صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا اس کو استعمال کرتے وقت احتیاط کرنا چاہیے تاکہ موٹاپا، کولیسٹرول میں اضافہ، ہائی بلڈ شوگر کی سطح وغیرہ سمیت پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔

    طبی ماہرین کے مطابق 50 گرام چاکلیٹ بار میں 250 کلو کیلوری ہوتی ہے۔ ماہرین صحت کا مشورہ ہے کہ تمام فوائد سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک دن میں 30 گرام تک ڈارک چاکلیٹ کھایا جاسکتا ہے۔

  • بچوں‌ کا اسکرین ٹائم کتنا رکھا جائے؟

    بچوں‌ کا اسکرین ٹائم کتنا رکھا جائے؟

    الہ آباد: بھارت میں ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے والدین کو تجویز دی ہے کہ بچوں کے اسکرین ٹائم کو دن میں 2 گھنٹے تک محدود کریں۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی جریدے ’بلیٹن آف سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ سوسائٹی‘ میں شائع شدہ ایک تحقیق میں ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ بچوں کے لیے اسکرین ٹائم روزانہ دو گھنٹے سے کم کیا جانا چاہیے۔

    یہ تحقیق الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ بشریات کے ایک ریسرچ اسکالر مادھوی ترپاٹھی نے کی، اس تحقیق میں ٹی وی، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون جیسے ڈیجیٹل آلات کے حوالے سے والدین کی نگرانی اور پالیسی سازی کی اہمیت کو مزید واضح کیا گیا۔

    شائع شدہ مقالے میں کہا گیا کہ الہ آباد ریاست اترپردیش میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، اس لیے دو مراحل کے بے ترتیب نمونے لینے کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے شہر کے 400 بچوں پر ایک کراس سیکشنل تحقیق کی گئی۔

    پہلے مرحلے میں الہ آباد شہر کے 10 میونسپل وارڈوں کا انتخاب کیا گیا، جن کی کل آبادی 11 ہزار سے 22 ہزار کے درمیان ہے، جب کہ دوسرے مرحلے میں ہر منتخب وارڈ سے بچوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے منتخب کیا گیا، تاکہ نمونے کا سائز حاصل کیا جا سکے۔

    اسکالر ترپاٹھی نے کہا ’نتائج سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر گھروں میں ٹیلی وژن کے بعد ڈیجیٹل کیمرے، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، کنڈل اور ویڈیو گیمز موجود ہیں، جس کی وجہ سے بچے زیادہ تر وقت اسکرین پر گزارتے ہیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ اسکرین پر زیادہ وقت گزارنے سے نہ صرف بچوں کو جسمانی طور پر متاثر کرتا ہے اور ان کی بینائی کو نقصان پہنچاتا ہے، بلکہ ان کی ذہنی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

  • ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    عام طور سے اسکولوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچے میتھس (ریاضی) کے مضمون سے سخت نالاں ہوتے ہیں، اور الجبرا، فریکشن اور بہت سارے فارمولوں میں پھنسے بچے، کسی بھی صورت ریاضی کا مضمون چھوڑنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک نئی سائنسی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ ریاضی (mathematics) چھوڑنے سے دماغ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور اگر 16 برس کی عمر میں ریاضی کا مضمون چھوڑا تو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    انسانی دماغ کی بہتر نشونما کے لیے ریاضی کے سوالوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاضی کا مضمون چھوڑنے سے دماغ کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    سائنسی تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے سولہ سال کی عمر میں جو طلبہ میتھمیٹکس چھوڑ دیتے ہیں، ان میں بدستور ریاضی پڑھنے والوں کی نسبت ایک قسم کے دماغی کیمیکل کی سطح کم رہ جاتی ہے، جو دماغ اور ادراکی قوت کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچرز نے دیکھا کہ جن طلبہ نے سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد ریاضی چھوڑ دیا، ان میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ نامی کیمیکل کی مقدار کم پائی گئی، جو کہ دماغ (brain) کی شکل پذیری کے لیے اہم ہوتا ہے۔

    نیورو ٹرانسمیٹر کے طور پر کام کرنے والے اس کیمیکل کی کمی دماغ کے ایک اہم حصے پری فرنٹل کارٹیکس (prefrontal cortex) میں پائی گئی، جو ریاضی، یادداشت، سیکھنے، استدلال کی صلاحیت اور مسائل کے حل کے لیے مدد کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ ’تجرباتی نفسیات‘ کے محققین نے اس مطالعے کے لیے 14 سے 18 برس کی عمر کے 130 طلبہ کو شریک کیا، 16 سال سے زائد عمر کے طلبہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑ چکے ہیں، اور چھوٹے بچوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان سب کو ایک برین اسکین اور ادراکی تجزیے سے گزارا گیا، اور پھر 19 ماہ بعد پھر دیکھا گیا۔

    جریدے پرسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع شدہ اس مقالے کے مطابق محققین نے سولہ سال کے بعد ریاضی پڑھنے اور نہ پڑھنے والے طلبہ میں دماغی کیمیکل کی کارکردگی میں واضح فرق دیکھا، تاہم 19 ماہ بعد بچوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ کی بہتر نشوونما ہوئی وہ سوالوں کو بہ آسانی حل کر سکے۔

    تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ریاضی کی مشکل مساوات کو حل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنا دماغ کے اس حصے کو مضبوط بناتا ہے، اور لوگوں کو ممکنہ طور پر بعد کی زندگی میں مشکل مسائل حل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے نیورو سائنس کے پروفیسر، روئی کوہن قدوش نے کہا کہ ریاضی میں دل چسپی نہ رکھنے والے بچوں کو اس کے مطالعے پر مجبور کرنا بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ ہمیں ان کے لیے متبادل راستے ڈھونڈنے چاہئیں تاکہ ان کے دماغ کی ورزش ہو سکے۔

  • معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    میجر آفتاب حسن کو سائنسی موضوعات پر اردو زبان کے مصنّف، محقّق اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے علمِ سائنس کے مختلف شعبوں کے حوالے سے مضامین اور تحقیقی کام کا اردو ترجمہ اور سائنسی اصطلاحات سازی میں‌ اہم کردار ادا کیا۔ آج میجر آفتاب حسن کی برسی ہے۔

    میجر آفتاب حسن بازید پور (بہار) میں 16 ستمبر 1909ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ملٹری اکیڈمی کاکول میں سائنسی شعبے کے سربراہ رہے، بعدازاں اردو سائنس کالج، کراچی کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔

    1960ء سے 1972ء تک جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے سربراہ رہے۔ اس دوران انھوں نے اردو زبان میں سائنسی اصطلاحات سازی اور سائنس و تحقیق کے موضوعات پر کتب کی اشاعت کے لیے نہایت اہم اور قابلِ ذکر کام کیا اور اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    وہ مقتدرہ قومی زبان کے پہلے معتمد بھی تھے۔ میجر آفتاب حسن 26 فروری 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پرانسانی زندگی کے قوی امکانات ہیں، یہ بات نئی سائنسی تحقیق سے ثابت ہوئی، اگرچہ اس سے قبل بھی مختلف تحقیق میں یہ ہی بات واضح ہوتی رہی ہے.

    نئی سائنسی تحقیق کے مطابق نظام شمسی کے سیارے مریخ پر زندگی کے آثارہونا ممکنات میں سے ہیں، سیارے کی تصویرمیں نمایاں ہوتے سرخی کو دیکھ کرسائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سرخی مریخ پرآبادی کے گمان کو تقویت دیتی ہے.

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پرہائیڈروجن پرمشتمل معدنیات بھی ہوسکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں کثیرتعداد میں پانی موجود تھا۔، محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا.

    mars

    سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشن میں شائع مضمون میں محققین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تاحال مذکورہ بالا تحیقیق کے قابل تسلی ثبوت نہیں ملے ہیں، مگر یہاں ایک انتہائی اہم سوال ہے کہ مریخ پر پانی کی موجودگی کیوں اور کیسے ممکن ہوئی ہے ؟

    مزید پڑھیں:مریخ پرپانی کی موجود گی کے شواہد ملے ہیں،ناسا

    ڈاکٹر ٹسچنر نے کہا کہ پانی کی موجودگی اس بات کی تصدیق ہے کہ یہاں زندگی کی ایک نسل فعال تھی،سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کے نمایاں آثار کے حوالے سے تجربات ایک باسکٹ بال میں ہوا کے دباؤ کے ذریعے سے تقریباً 363.000 بار کئے گئے۔

    واضح رہے کہ 2013 میں بھی اس قسم کی تحقیق کی گئی تھی جس کا نتیجہ موجودہ رزلٹ جیسا ہی تھا اور نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے،جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔