Tag: سائنس دان

  • وکی کوشل نے کترینہ کیف سے متعلق اہم بات بتا دی

    وکی کوشل نے کترینہ کیف سے متعلق اہم بات بتا دی

    بالی ووڈ کے معروف اداکار وکی کوشل نے اپنی اہلیہ، اداکارہ کترینہ کیف کے بارے میں اہم بات بتائی ہے۔

    حال ہی میں وکی کوشل نے مردوں کی صحت سے متعلق آگاہی مہم کے لیے ایک اسپتال کا دورہ کیا تاکہ مردوں کے عالمی دن سے پہلے مردوں کی صحت کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی کی جا سکے۔

     ایونٹ کے دوران وکی کوشل نے اس بارے میں بات کی کہ وہ اپنی ذہنی صحت کو کیسے برقرار رکھتے ہیں ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنی بیوی کترینہ کی تعریف بھی کی۔

    اداکار وکی کوشل نے کہا آپ سب زیادہ نہیں جانتے لیکن میری بیوی ایک چلتا پھرتا ڈاکٹر ہیں وہ ایک سائنس دان ہے،  انہیں بہت سی باتوں کا علم ہے اور وہ کچھ زیادہ ہی صحت کے حوالے سے آگاہی رکھتی ہیں۔

     انہوں نے کہا کہ وہ میری بہت مدد کرتی ہیں اور ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ میں میں اچھا کھا رہا ہوں اپنا خیال رکھ رہا ہوں اچھی طرح سو رہا ہوں اور صرف کام کرنے کے لیے تو نہیں بھاگ رہا ہوں۔

    یاد رہے کہ وکی کوشل بہت جلد ’گووندا نام میرا ‘ میں کیارا اڈوانی اور بھومی پیڈنیکر کے ساتھ مرکزی کردار میں نظر آئیں گے، اداکار سارہ علی خان کے ساتھ بھی فلم میں‌ نظر آنے والے ہیں۔

    واضح رہے کہ کترینہ کیف اور وِکی کوشل نے 2021 میں راجستھان میں شادی کی تھی۔

  • بلیک ہول سے نکلنے والی شے نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا

    بلیک ہول سے نکلنے والی شے نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا

    سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بلیک ہول ایک ایسا مادہ خار ج کررہا ہے جسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

    بلیک ہول کی عجیب واقعات کا سلسلہ 2018 میں اس وقت شروع ہوا جب سائنس دانوں نے دیکھا کہ زمین سے تقریباً ساڑھے 66 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک چھوٹے ستارے کو بلیک ہول نے ریزہ ریزہ کر دیا۔

    سائنس دانوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ بلیک ہولز اپنے اردگرد فلکی اجسام کو تباہ کر دیتے ہیں، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں کہ تین سال کے بعد بلیک ہول نے ایک مادہ خارج کرنا شروع کر دیا۔

    بلیک ہول پر ایک نئی تحقیق کرنے والی مصنفہ ایویٹ سینڈیز نے کہا کہ ’بلیک ہولز سے نکلنے والے اس مادہ نے ہمیں مکمل طور پر حیران کر دیا ہے، اس سے قبل کسی نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔‘

    سائنس دانوں نے اس پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلیک ہول سے باہر آنے والا یہ مادہ تاخیر کا شکار تھا، ہمیں ابھی نہیں معلوم کہ اس مادے کو باہر آنے میں تاخیر کیوں ہوئی لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر مزید تحقیق سے ہمیں اسے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملےگی۔

    محققین نے 2021 میں پہلی بار نیو میکسیکو میں قائم وی ایل اے کا استعمال کرتے ہوئے بلیک ہول کے اس مادے کا مشاہدہ کیا تھا۔ بلیک ہول کی اس غیر معمولی ریڈنگ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ دوبارہ حرکت میں آگیا ہے۔

    اس مادے کے خارج ہونے کے بعد بین الاقوامی ماہرین فلکیات کی ایک ٹیم یہ جاننے کے لیے میکسیکو پہنچی کہ حقیقت میں بلیک ہول میں کیا ہو رہا ہے، اور اس غیر متوقع حرکت کے پیچھے اصل ماجرا کیا ہے۔

    ماہرین فلکیات کی ٹیم نے اس سے متعلق تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ ریڈیو سگنیچر ڈرامائی حد تک عجیب تھے۔ بلیک ہول تین سال تک خاموش رہا جس کے بعد اب اس سے ریڈیو انرجی خارج ہونا شروع ہو گئی اور انرجی بھی ایسی جو انتہائی طاقت ور تھی۔

    سائنس دانوں کے مطابق بلیک ہول سے نکلنے والا مادہ بہت زیادہ تیزی سے نکل رہا ہے۔ اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے نصف فیصد کے برابر ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں اس طرح کے زیادہ تر واقعات میں یہ رفتار روشنی کی رفتار کا 10 فیصد ہوتی ہے۔

    سائنس دان اب اس بلیک ہول اور اس کے رویے کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ہی یہ جاننے کی بھی کوشش کررہے ہیں کہ ۔کیا  بلیک ہول اس طرح کا مادہ ماضی میں بھی خارج کرتا رہا ہے جسے وہ کبھی دیکھ نہیں پائے ہیں

  • بھارت اور چین پر وبائی امراض کے حملے کا خطرہ

    بھارت اور چین پر وبائی امراض کے حملے کا خطرہ

    گرم موسم کی وجہ سے پگھلتے گلیشیئرز جہاں بہت سے نقصانات کا سبب بن رہے ہیں، وہیں ماہرین نے ایک اور بڑے خطرے کی طرف اشارہ کردیا ہے جو بھارت اور چین کو لاحق ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے گلوبل وارمنگ کے باعث تیزی سے گلیشیئرز پگھلنے کے نتیجے میں بھارت اور چین کو لاحق خطرات سے خبردار کردیا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تبت کے گلیشیئرز پر وبائی امراض کی صلاحیت رکھنے والے 968 نامعلوم جرثومے دریافت ہوئے ہیں جو امراض پھیلانے کا مؤجب بن سکتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر خطرناک بیکٹیریا کا اخراج چین اور بھارت کو متاثر کرسکتا ہے اور ان جرثوموں میں نئی ​​وبائی بیماریاں پیدا کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: پگھلتی برف سے وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھل جائے گا

    ایک تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر جرثوموں کی 968 اقسام کی شناخت کی گئی ہیں جن میں سے کچھ سائنس کے علم میں تھیں تاہم، 98 فیصد اقسام نامعلوم ہیں۔

    سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں گلیشیئرز پگھلنے سے خطرناک جرثومے خارج ہو سکتے ہیں اور تبت کے گلیشیئر سے آنے والا پانی وبائی امراض کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ یہ چین اور بھارت میں بالترتیب دریائے زرد، یانگسی اور گنگا کو پانی فراہم کرتا ہے۔

    گزشتہ سال کے سیٹلائٹ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً تمام گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے دنیا بھر میں خطرناک پیتھوجینز کے اخراج کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

  • انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    پلاسٹک کی بے تحاشہ آلودگی نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ ہمارے پینے کے پانی اور غذا میں بھی شامل ہوگیا ہے اور اس کا نتیجہ بالآخر سامنے آگیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنس دانوں نے پہلی بار انسانی خون میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا ہے، انہوں نے جن افراد کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی ان میں سے لگ بھگ 80 فیصد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا گیا۔

    اس دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک ذرات خون کے ذریعے پورے جسم میں سفر کرسکتے ہیں اور اعضا میں اکٹھے ہوسکتے ہیں۔

    ابھی صحت پر ان کے اثرات کا تو علم نہیں مگر ماہرین فکر مند ہیں کہ ان ذرات سے انسانی خلیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جیسا لیبارٹری میں ثابت ہوا۔

    اسی طرح فضائی آلودگی کے ذرات کے بارے میں پہلے ہی علم ہے کہ وہ جسم میں داخل ہو کر ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے 22 افراد کے عطیہ کردہ خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا جو کہ سب صحت مند تھے، ماہرین نے 17 افراد کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کو دریافت کیا۔

    50 فیصد نمونوں میں اس پلاسٹک کے ذرات تھے جس کا استعمال پانی کی بوتلوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ ایک تہائی میں پولی اسٹرینی ذرات دریافت ہوئے۔

    یہ قسم فوڈ پیکنگ اور دیگر مصنوعات کے لیے استعمال ہوتی ہے، ایک چوتھائی کے خون کے نمونوں میں پولی تھیلین قسم کو دریافت کیا گیا جس سے پلاسٹک بیگ تیار کیے جاتے ہیں۔

    نیدر لینڈز کی وریجے یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب انسانی خون میں پولیمر ذرات کو دریافت کیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں تحقیق کو مزید بڑھانا ہوگا اور زیادہ نمونوں کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی اور اس حوالے سے تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ یقیناً تشویشناک ہے، یہ ذرات پورے جسم میں گردش کرسکتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل انوائرمنٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئے۔

  • ان سائنسدانوں میں سے دھوکے باز کون ہے؟

    ان سائنسدانوں میں سے دھوکے باز کون ہے؟

    کسی کا جھوٹ پکڑنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر کامن سینس سے کام لیا جائے اور بغور مشاہدے کی عادت ڈال لی جائے تو کسی کا بھی جھوٹ باآسانی پکڑا جاسکتا ہے۔

    دراصل بغور مشاہدے کی عادت ایسی فائدہ مند عادت ہے کہ یہ کسی شخص کی اچھائی یا برائی کا بھی پتہ لگا سکتی ہے۔

    تو آج آپ نے اسی مشاہدے کو کام میں لاتے ہوئے تصویر کو دیکھنا ہے اور بتانا ہے کہ لیب کوٹ پہنے ان 3 سائنسدانوں میں سے جعلساز کون ہے جو لیبارٹری میں مجرمانہ نیت سے داخل ہوا ہے۔

    کیا آپ معلوم کرنے میں کامیاب رہے؟ ایک بار پھر غور کیجیئے۔

    تینوں سائنسدانوں میں سے جعلساز دائیں ہاتھ والا شخص ہے۔

    اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس کے آئی ڈی کارڈ پر ایک خاتون کی تصویر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ کسی اور کا کارڈ چرا کر لیبارٹری میں داخل ہوا ہے اور اس کا یہ اقدام بتاتا ہے کہ یقیناً اس کی نیت کچھ اچھی نہیں۔

  • کروناویکسین: دنیا بھر سے وبا کے خاتمے کی نئی امید

    کروناویکسین: دنیا بھر سے وبا کے خاتمے کی نئی امید

    لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی میں کرونا ویکسین پراجیٹ کی سربراہی کرنے والی خاتون سائنس دان نے کہا ہے کہ ممکنہ دوا وبائی مریضوں کو طویل مدتی تحفظ فراہم کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں پروفیسر سارا گلبرٹ کا کہنا تھا کہ کروناویکسین کے تجربات سے ہمیں مثبت نتائج مل رہے ہیں، آزمائش کے دوران مریضوں میں مدافعتی نظام بھی درست پایا گیا، امید ہے ممکنہ ویکسین وبا کے شکار لوگوں کو طویل مدتی تحفظ فراہم کرے گی۔

    انہوں نے بتایا کہ ویکسین کے تجربے کے دوران صحت یاب مریضوں میں ’اینٹی باڈیز‘ کی مقدار تین گنا بڑھوتی دیکھی گئی، ممکنہ طور پر ویکسین مریضوں میں قوت مدافعت کا نظام بھی درست رکھے گی۔

    ایک اور ویکسین سے متعلق اچھی خبر آ گئی

    ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کی انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے کے لیے 8 ہزار رضاکاروں کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں، ہم بہت خوش ہیں کہ ہم نے کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے بہترین مدافعتی ردعمل کو دیکھا۔

    خاتون سائنس دان نے مزید کہا کہ اس ویکسین کی انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں دیکھا جائے گا کہ اٹھارہ سال سے زائد عمر کے متعدد افراد پر ویکسین کس طرح کام کرتی ہے اور کس حد تک لوگوں کو کووڈ 19 سے بچانے میں مددگار ہے۔ خیال رہے کہ وبا کی نئی لہر کے پیش نظر تجربات کا مرحلہ بھی تیز کیا جارہا ہے۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں 100 سے زائد کمپنیاں کرونا ویکسین کی تیاری پر کام کررہی ہیں، جن میں سے کچھ پہلے مرحلے جبکہ کچھ دوسرے مرحلے میں ہیں۔ چند کمپنیاں ایسی ہیں جنہوں نے کلینکل ٹرائل اور جانوروں پر تجربات کرلیے اور اب انہیں انسانوں پر آزمایا جائے گا۔

  • کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سائنس دانوں کا بڑا تجربہ کامیاب

    کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سائنس دانوں کا بڑا تجربہ کامیاب

    بگوٹا: جنوبی امریکا میں واقع ملک کولمبیا کے سائنس دانوں نے ’الٹرا وائلیٹ لائٹ‘ کی ایک قسم ’فار یو وی سی‘ کی مدد سے کروناوائرس کے پھیلاؤ روکنے کا ایک کامیاب تجربہ کیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ’فار یو وی سی‘ کی مصنوعی شعاعیں ہوا میں موجود کروناوائرس کو ختم کرسکتی ہیں۔

    ریسرچ رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں نے تجربے کے دوران مخصوص جگہ پر کرونا وائرس کی نمی کے ذرات کو فار یو وی سی لائٹ کے سامنے سے گزارا جس کے بعد وائرس کو اکھٹا کیا گیا تاکہ نتیجہ معلوم کیا جاسکے۔

    تحقیقی مطالعے کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ برونر کا کہنا ہے کہ تجربے کی رپورٹ سے واضح ہوا کہ مذکورہ لائٹ نے ہوا میں موجود کرونا کے ذرات کا 99.9 فیصد تک خاتمہ کردیا، وائرس کا کوئی بھی ذرا زندہ نہیں بچا۔

    ’کرونا صرف 34 منٹ میں مرسکتا ہے‘ امریکی سائنسدان کا دعویٰ

    انہوں نے بتایا کہ مذکورہ روشنی کرونا کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی جس کے باعث ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فار یو وی سی سسٹم کو عوامی مقامات پر نصب کریں گے جو مہلک وائرس کے پھیلاؤ میں معاونت کرے گا۔

    ’کرونا ویکسین‘ سے مریضوں کا علاج کب شروع کیا جائے گا؟

    ڈاکٹر کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس سسٹم کی پیشگی پیداوار پر بھی کام کررہے ہیں، یہ سرجیکل ماسک اور سماجی فاصلوں کا متبادل نہیں ہوسکتا، لیکن ہم اسے کرونا کے خلاف نیا ہتھیار کہہ سکتے ہیں۔

  • ایک اور ملک نے کرونا ویکسین دریافت کرنے کا دعویٰ کر دیا

    ایک اور ملک نے کرونا ویکسین دریافت کرنے کا دعویٰ کر دیا

    ابوجا: نائیجیریا کے سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کرونا کو روکنے میں مدد دینے کے لیے ایک منفرد ویکسین دریافت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری اس مہلک وبا پر قابو پاسکتی ہے، دنیا بھر میں ماہرین اس مقصد کے لیے پوری تندہی سے کوشاں ہیں۔

    نئے وائرس کو وِڈ نائنٹین سے 213 ممالک میں اب تک 4 لاکھ 70 ہزار 795 جان کی بازی ہار چکے ہیں،ایسے میں نائیجیریا سے کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے بڑی خبر سامنے آئی ہے۔

    نائیجیریا کے مقامی میڈیا کے مطابق سائنس دانوں کی جانب سے دریافت کی گئی منفرد ویکسین کرونا وائرس کے انفیکشن کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

    ویکسین سے متعلق تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر اولادیپو کولاول نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ یہ ویکسین مقامی سطح پر افریقا کے لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

    پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر اولادیپو کولاول کا کہنا تھا کہ طبی ماہرین کی ٹیم کو ویکسین دریافت کرنے کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کے لیے 20 ہزار ڈالر ملے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس منفرد ویکسین کی وسیع پیمانے پر استعمال اور عوام تک رسائی میں کم از کم 18 ماہ لگیں گے کیونکہ اس ویکسین کے لیے حکومت کی جانب سے منظوری درکار ہوگی۔

    نائیجیرین سائنس دانوں کے مطابق کرونا کے لیے دریافت کی گئی منفرد ویکسین کو متعدد بار ٹیسٹ کیا گیا ہے،یہ جعلی نہیں ہوسکتی، اس ویکسین کو خاص طور پر افریقی شہریوں کے لیے بنایا گیا لیکن یہ ویکسین دوسروں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔

  • ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، صرف تراشنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عبد القدیر خان

    ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، صرف تراشنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عبد القدیر خان

    کراچی: فخر پاکستان معروف سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا ہے کہ ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، انھیں صرف تراشنے کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قدیر خان جامعہ کراچی کے ڈاکٹر اے کیو خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے زیر اہتمام منعقدہ ”تھرڈ اورل پریزنٹیشن کمپٹیشن فار ایم فل اینڈ پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس“ کی اختتامی اور تقریب تقسیم انعامات سے خطاب کر رہے تھے۔

    انھوں نے کہا کہ جو طلبہ بیرون ممالک جاتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ سیاست اور مذہب پربات کرنے کی بہ جائے اپنی تعلیم و تحقیق پر توجہ مرکوز رکھیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ طلبہ اپنی زندگی کے اہم ترین برسوں میں خوب محنت کریں کیوں کہ یہ محنت پھر زندگی بھر کام آئے گی اور اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آ کر ملک کی خدمت کریں۔

    انھوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ میں عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تحقیق و تدریس کا عمل جاری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  وزیر اعلیٰ سندھ کی جامعہ کراچی میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی ہدایت

    ڈاکٹر عبد القدیر خان نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

    رئیس کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر تبسم محبوب نے کہا کہ ہمارے لیے یہ بات باعث افتخار ہے کہ آج کی تقریب میں جتنے ریسرچرز نے سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں وہ بین الاقوامی ریسرچرز کے ہم پلہ ہیں۔

  • آپ کا سامان سنبھال کر، آپ کے پیچھے پیچھے چلتا بیگ

    آپ کا سامان سنبھال کر، آپ کے پیچھے پیچھے چلتا بیگ

    کیا آپ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنے ساتھ موجود ضروری اشیا کے بیگ کو سنبھالے رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں؟ اور یہ عمل بعض اوقات آپ کو مشکل اور الجھن میں مبتلا کردیتا ہے؟

    تو پھر امریکی سائنسدانوں کی یہ ایجاد یقیناً آپ کے لیے ہے جس میں ایک روبوٹ آپ کا سامان سنبھالے آپ کے پیچھے پیچھے چلے گا۔

    gita-4

    یہ روبوٹ امریکی شہر بوسٹن کے سائنسدانوں نے بنایا ہے جسے گیتا کا نام دیا گیا ہے۔ اس روبوٹک بیگ میں آپ اپنی ضرورت کا تمام سامان رکھ سکتے ہیں۔

    gita-3

    اس روبوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ عام بیگ کی نسبت ہاتھ یا کاندھے پر لٹکانے کے بجائے اسے زمین پر آزاد چھوڑا جا سکتا ہے، جس کے بعد یہ اپنے اندر فیڈ کیے ہوئے ڈیٹا کے ذریعہ آپ کے پیچھے وہاں وہاں جائے گا، جہاں آپ جائیں گے۔

    robot

    یہ روبوٹ ری چارج ایبل ہے اور مکمل طور پر خود انحصار ہے۔ اگر آپ نے اس میں اپنے گھر کا پتہ بھی فیڈ کردیا ہے تو کہیں راستے میں کھو جانے کی صورت میں یہ اس فیڈ کی ہوئی معلومات کی بدولت خود بخود بآسانی آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔

    اس روبوٹ کے نیچے پہیے لگائے گئے ہیں جن پر گھومتا ہوا یہ آپ کا ہم سفر بنے گا۔