Tag: سائنس دانوں کا دعویٰ

  • دانتوں کی دوبارہ نشوونما کے لیے دوا تیار

    دانتوں کی دوبارہ نشوونما کے لیے دوا تیار

    جاپانی سائنس دانوں کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہوں ایسی منفرد دوائی تیار کرلی ہے، جسے استعمال کرنے کے بعد انسان کے قدرتی دانت نکل آئیں گے۔

    رپورٹس کے مطابق انسانوں سمیت زیادہ تر جانداروں کے دانت قدرتی طور پر صرف دو بار ہی نکلتے ہیں، پہلی بار بچپن میں انسان کے دانت ٹوٹنے کے بعد دوبارہ نکل آتے ہیں، مگر دوسری بار ٹوٹ جائیں تو پھر نہیں نکلتے۔

    ماہرین کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نئی دوائی سے تیسری بار بھی دانت اگ سکیں گے اور ماہرین کے ابتدائی تجربات کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں۔

    جاپانی نشریاتی ادارے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ماہرین کی جانب سے تیار کردہ دوائی کو ابتدائی طور پر چوہو پر آزمایا گیا، جس دوران چوہوں کے دانت قدرتی طور پر دوبارہ تخلیق ہوگئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق ماہرین نے اینٹی باڈی کو تقویت پہنچانے والی دوائی چوہوں کو دی اور دیکھا کہ ان کے دانت قدرتی طور پر تیسری بار ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دانتوں کی دوبارہ تخلیق میں رکاوٹ بننے والی پروٹین (USAG-1) کو بلاک کرکے تیسری بار بھی دانتوں کو قدرتی طور پر اگنے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران دوائی کی مدد سے چوہوں میں پروٹین (USAG-1) کو بلاک کیا تو ان کے دانت قدرتی طور پر دوبارہ تخلیق ہونا شروع ہوگئے تھے۔

    اسی طرح ماہرین نے بعض بالغ انسان رضاکاروں پر بھی تحقیق اور دوائی کے ذریعے ان کی بھی (USAG-1) پروٹین بند کی تو ان میں بھی دانت تخلیق ہونا شروع ہوگئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی آزمائش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دواتی اور طریقے کی مدد سے تیسری بار ایسے دانت بننا شروع ہوجاتے ہیں جو کسی بھی سبب کی وجہ سے بن نہیں پائے تھے لیکن دوائی کی مدد سے وہ ابھر کر سامنے آئے۔

    ناک سنکنا کس قدر نقصان دہ ہیں؟ لازمی احتیاط کریں، ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    ماہرین کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مذکورہ دوائی اور طریقے سے ٹوٹ جانے والے دانتوں کو بھی قدرتی طور پر دوبارہ تخلیق ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

  • مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    واشنگٹن: سائنس دانوں نے مریخ پر جمی برف کے نیچے 12 میل چوڑی مائع پانی کی ایک جھیل کا سراغ لگایا ہے۔

    امریکی جرنل سائنس میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سرخ سیارے پر پہلی مرتبہ اتنا زیادہ مائع پانی دریافت کیا گیا ہے، سائنس دان ایریکو فلامینی کا کہنا ہے کہ وہاں پانی موجود ہے ہمیں اس بابت کوئی شک نہیں ہے۔

    سائنس دان اس سیارے پر پانی کی موجودگی کے حوالے سے ایک طویل عرصے سے تحقیق میں مصروف تھے کیونکہ اس سے یہ واضح ہوسکتا ہے کہ کیا اس سیارے پر کبھی زندگی بھی موجود تھی یا کیا اب بھی وہ کسی شکل میں وہاں موجود ہوسکتی ہے؟

    آسٹریلیا کی سون برن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلن کے مطابق ’یہ ایک حیران کن نتیجہ ہے، جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مریخ پر مائع پانی موجود ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس سیارے پر کسی نہ کسی صورت میں زندگی کے لیے موافق حالات رہے ہوں گے۔‘

    سائنس دانوں کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر مریخ پر پانی مائع شکل میں موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی انسانی مشن کے اس سرخ سیارے پر اترنے کی صورت میں زمین کے اس اہم سایہ سیارے پر انسانوں کو زندہ رہنے میں بھی مدد مل سکے گی۔

    مریخ پر ملنے والی اس جھیل میں نہ تیرا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ پانی پیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اس سیارے کی سطح پر انتہائی سفاک اور سرد ماحول میں جمی برف سے کوئی ڈیڑھ کلو میٹر تہہ میں ہے۔

    ناقدین سائنس دانوں کے مطابق دریافت کی گئی جھیل ایک طرف تو انتہائی سرد اور خراب ماحول میں ہے اور دوسری جانب اس میں سیارے سے نمکیات اور معدنیات کی انتہائی زیادہ ملاوٹ ہوئی ہوگی، جس کی بنا پر اسے مائع پانی کہنا درست ہوگا۔

    سائنس دانوں کے مطابق نکتہ انجماد سے کہیں نیچے پانی مائع حالت میں نہیں مل سکتا اور مائع حالت میں پانی کا ملنا خود یہ بتا رہا ہے کہ اس میں میگنشیم، کیلشیم اور سوڈیم کی بھاری مقدار موجود ہوسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ مریخ اب سرد، خشک اور بنجر سیارہ ہے، تاہم 3.6 ارب برس قبل ایسا نہیں تھا تب یہ ایک گرم اور نم زدہ سیارہ ہوتا تھا اور اس پر بڑی مقدار میں مائع پانی موجود تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک’پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔