Tag: سائنس فکشن

  • انگریزی ادب اور سائنس فکشن

    انگریزی ادب اور سائنس فکشن

    سائنس فکشن یوں تو ایک جدید صنف ہے لیکن اس کی جڑیں صدیوں پرانے ادب میں پیوست ہیں۔

    اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی دوسری صدی عیسوی کے شامی مصنف لوسیان آف ساموساٹا کی یونانی زبان میں کی گئی تصنیف ’’ٹرو ہسٹری‘‘ کی صورت میں ملتی ہے۔ اس کتاب میں خلائی سفر، سیاروں کے درمیان جنگوں اور خلائی مخلوق کا ذکر موجود ہے۔ الف لیلہ کی چند کہانیوں میں سائنس فکشن کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ دسویں صدی عیسوی کی ایک جاپانی لوگ کہانی ’’دی ٹیل آف دی بیمبو کٹّر‘‘ میں چاند سے آنے والی ایک لڑکی کا ذکر ہے جو بڑی ہونے کے بعد واپس لوٹ جاتی ہے۔ بارہویں صدی میں ابن النفیس نے عربی زبان میں ایک ناول لکھا۔ یہ عربی زبان کا پہلا ناول ہے جس میں سائنس فکشن کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ اب چلیں انگریزی ادب کی طرف تو کئی نام سامنے آتے ہیں

    پہلے بات ہوجائے ایڈگار ایلن پو کی جن کے کئی افسانے اور ناول دراصل سائنس فکشن تھے۔ مثال کے طور پر ’’دی نیریٹر آف آرتھر گورڈن پیم آف نانٹوکٹ‘‘ یا ’’دی بیلون ہوآکس‘‘ وغیرہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج جس صنف کو ہم سائنس فکشن کہتے ہیں، انگریزی میں اس صنف کی شروعات ہربرٹ جارج ویلز نے کی تھی۔ ویلز کا پہلا سائنس فکشن ناول ’’دی ٹائم مشین‘‘ تھا جو 1895ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا ہیرو ایک ٹائم مشین کی مدد سے مستقبل میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد ویلز نے تقریباً 50 سائنس فکشن ناول اور بہت سارے سائنسی افسانے لکھے۔ اس کے ناولوں میں ’’دی اِن ویزیبل مین، دی سَول آف اے بشپ، دی فرسٹ مین اِن دی مُون، دی وار آف دی ورلڈز، دی آئی لینڈ آف ڈاکٹر مورائیو اور یو کینٹ بی ٹُو کئیرفل‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ زیادہ تر نقادوں کی نظر میں ایڈگر ایلن پو (امریکا)، ایچ جی ویلز (برطانیہ) اور جولس ورن (فرانس) تینوں مشترکہ طور پر جدید سائنس فکشن کے بانی کہے جا سکتے ہیں۔ اسی زمانے میں سیموئیل بٹلر نے ایک ناول Erewhon لکھا، جس میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ مشینیں ایک دن سائنس دان بن جائیں گی اور انسانوں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔ سر آرتھر کانن ڈائل (جو اپنے جاسوسی کر دار شرلاک ہومز کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں) نے سائنس فکشن بھی لکھی۔ مشہور مصنف رڈیارڈ کِپلنگ نے بھی دو سائنسی افسانے ’’وِدھ دی نائٹ میل‘‘ اور ’’اَیز اِیزی اَیز اے بی سی‘‘ لکھے۔ بنگال کی رقیہ سخاوت حسین (بیگم رقیہ) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی کہانی ’’سلطاناز ڈریم‘‘ دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھی گئی پہلی فیمینسٹ سائنس فکشن ہے۔ انہوں نے یہ کہانی انگریزی میں لکھی تھی جو 1905ء میں شائع ہوئی۔ امریکا میں جارج ٹوکر نے ناول ’’اے وُایج ٹو دی مُون‘‘ لکھا۔ ایڈورڈ بیلامی کا ناول ’’لُکنگ بیک ورڈ‘‘ انیسویں صدی میں امریکا کا دوسرا سب سے زیادہ بکنے والا ناول تھا۔ اس ناول میں مستقبل میں قائم ہونے والے ایک آئیڈیل معاشرے کی عکاسی کی گئی تھی۔ 1894ء میں وِل ہاربن نے ایک ناول ’’لینڈ آف دی چینجنگ سَن‘‘ لکھا جس میں دکھایا گیا کہ زمین کے مرکز میں ایک ترقی یافتہ نسل کے لوگوں کی حکومت ہے جو روشنی کے لیے ایک مصنوعی سورج استعمال کرتے ہیں۔ مشہور ادیب مارک ٹوین نے ایک سائنسی ناول ’’اے کونیکٹیکٹ ینکی اِن کنگ آرتھرز کورٹ‘‘ لکھا جس میں مستقبل میں وقت کا سفر کرنا دکھایا گیا ہے۔ اس ناول میں پہلی عالمی جنگ کی پیش گوئی کی گئی۔

    جیک لندن نے کئی سائنس فکشن کہانیاں لکھیں جن میں ’’دی اَن پیرالل اِنویژن، دی آئرن ہِیل، اور دی ریڈ وَن‘‘ اہم ہیں۔ ایڈورڈ ایورٹ ہیل نے ایک ناول ’’دی برنک مُون‘‘ لکھا جس میں مصنوعی سیارے کا ذکر موجود ہے۔ ایڈگر رائس بوروز نے پَلپ میگزین کے لیے سائنس فکشن لکھنا شروع کیا۔ اس کی کہانی ’انڈر دی مُونز آف مارس‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس نے کئی کہانیاں لکھیں۔

    (مرسلہ: احمد علی)

  • سائنس فکشن فلم کالکی 2898 نے باکس آفس پر تاریخ رقم کردی

    سائنس فکشن فلم کالکی 2898 نے باکس آفس پر تاریخ رقم کردی

    تیلگو فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے معروف ہدایتکار ناگ اشوین کی سائنس فکشن فلم ’کالکی 2898 اے ڈی ‘ نے دنیا بھر میں 3 دن کے اندر ریکارڈ بزنس کرلیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق 27 جون کو ریلیز ہونے والی فلم ’ کالکی 2898 اے ڈی کی دنیا بھر میں دھوم ہے، فلم نے صرف 3 دن کے اندر 415 کروڑ کا بزنس کرلیا ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق فلم کالکی 500 کروڑ تک پہنچنے والی تیز ترین فلم بن گئی، فلم نے اپنے پہلے دن تمام زبانوں میں باکس آفس پر دنیا بھر میں 191.5 کروڑ روپے کا بزنس کیا تھا۔

    فلم کو دنیا بھر میں 6 زبانوں میں ریلیز کیا گیا ہے، وی جے یانتھی پروڈکشن کے بینر تلے اس فلم نے اپنے ریلیز کے تین دن کے اندر ہی گراس باکس آفس کلیکشن پر 415 کروڑ  کا دنیا بھر میں بزنس کرلیا ہے۔

    واضح رہے کہ اس فلم میں تیلگو سپر اسٹار پرابھاس، بالی ووڈ سپر اسٹار امیتابھ بچن، کمل ہاسن، دیپکا پڈوکون، دیشا پٹانی اور دیگر نے زبردست اداکارہ کے جوہر دکھائے ہیں۔

    فلم کالکی اے ڈی 2898 میں امیتابھ بچن نے اشوتھاما کا کردار ادا کیا جبکہ کمل ہاسن کو ’سپریم یاسکین‘ دکھایا گیا ہے، یہ جمعرات 27 جون کو  تھیٹر پر ریلیز کی گئی تھی۔

  • خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    اردو زبان میں رومانوی کہانیاں، تاریخی اور سماجی موضوعات پر ناولوں کے ساتھ جاسوسی ادب خوب لکھا گیا، اور اس میدان میں کئی نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کو تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن سائنس فکشن کا معاملہ کچھ مختلف رہا ہے۔ اگرچہ تقسیمِ ہند سے قبل بھی اردو زبان میں سائنس فکشن لکھا گیا اور مقبول بھی ہوا، لیکن اس میدان میں کم ہی نام سامنے آئے۔ انہی میں ایک خان محبوب طرزی بھی ہیں جن سے اردو ادب اور ناول کے قارئین کی اکثریت واقف نہیں ہے۔

    خان محبوب طرزی کی حیات، ان کے فن اور نگارشات کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لیں‌ کہ وہ تقسیمِ ہند کے بعد چند برس ہی زندہ رہے اور اس وقت تک سائنس فکشن صرف تجسس اور مہم جوئی تک محدود تھا اور سائنسی نظریات یا کسی خاص تھیوری سے متأثر ہو کر بہت کم ناول لکھے گئے، لیکن دنیا بھر میں سائنس فکشن اور بامقصد ادب تخلیق ہو رہا تھا۔ اردو میں بہت بعد میں‌ سائنسی نظریات اور ان کی بنیاد پر ہونے والی ایجادات پر کہانیاں لکھی گئیں۔ کچھ ادیبوں‌ نے اپنے قاری کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر سائنسی مفروضے، چونکا دینے والے آلات یا انوکھی مشینوں کو اپنے ناولوں یا افسانوں میں پیش کیا اور چند ایسے تھے جنھوں نے اپنے تخیل کے سہارے ایسی حیران کن کہانیاں لکھیں جن کا ایک عام آدمی اس زمانے میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

    خان محبوب طرزی کا سنہ پیدائش 1910ء ہے۔ وہ اردو کے ان اوّلین مصنّفین میں سے ہیں جو اپنے سائنس فکشن ناولوں کی بدولت مقبول تھے۔ اس کے علاوہ وہ کئی تاریخی، جاسوسی اور مہم جوئی پر مبنی ناولوں کے بھی خالق تھے۔ محبوب طرزی ہندوستان کے مشہور نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے وابستہ رہے۔

    ان کا تعلق افغانستان کے تاتارزئی قبیلے سے تھا اور اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ طرزی لکھتے تھے۔ ان کے آبا و اجداد بعد میں ہجرت کر کے لکھنؤ چلے گئے تھے اور وہیں محلہ حسین گنج میں خان محبوب طرزی نے آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ویسلی مشن اسکول میں حاصل کی اوراس کے بعد اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں‌ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے جہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ علی گڑھ میں ہی وہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے افسانے اپنے دور کے معروف ادبی پرچوں‌ اور جرائد میں شایع ہونے لگے۔

    خان محبوب طرزی کو ایک بسیار نویس کہا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ بڑے کنبے کی وہ مالی ضرویات بھی تھیں جن کو ایک سربراہ کی حیثیت سے محبوب طرزی کو بہرحال پورا کرنا تھا۔ سو، انھوں نے کئی کہانیاں دوسروں کے نام سے بھی لکھیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ کے لیے قفل سازی کے ایک کارخانے میں سپر وائزر کے طور پر کام کیا۔ فوج میں اسٹور کیپر رہے، فلم سازی اور ہدایت کاری میں بھی خود کو آزمایا۔ کلکتہ کی کار دار کمپنی میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا اور آر پی بھارگو کے ساتھ رقص و موسیقی کا پروگرام’’پرستان‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ کچھ مدت تک لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انھوں نے سائنیٹون فلم کمپنی میں ملازمت کی۔ پھر 1948ء میں خود فلم کمپنی قائم کی مگر کام یابی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ نسیم انہونوی ان کے ایک ایسے شناسا تھے جو سمجھتے ہیں: "طرزی صاحب میرے خیال سے جس کام کے لیے پیدا ہوئے تھے وہ انھیں نہ مل سکا۔ وہ کام تھا فلم کا ڈائریکشن۔ میں نے طرزی صاحب سے بار بار کہا کہ طرزی صاحب ایک بار بال بچّوں کو بھول کر گھر سے راہِ فرار اختیار کیجیے اور بمبئی کی فلم کمپنیوں میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔” طرزی صاحب یہ نہیں‌ کر سکے اور اخراجات کی فکر سے ہلکان ہوتے رہے۔

    خان محبوب طرزی کی علمی اور ادبی دل چسپیوں میں ترجمہ نگاری اور صحافت بھی شامل تھی۔ انھوں نے روزنامہ اودھ، روزنامہ اردو اور بعض دیگر اخبارات میں بھی کام کیا۔ یہاں بھی آسودگی ان کا مقدر نہ بنی۔ اور پھر وہ ناول نگاری میں پوری طرح مشغول ہوگئے۔ امین سلونوی جن سے خان محبوب طرزی کا بہت قریبی تعلق رہا، وہ کہتے ہیں: "وہ کہیں بھی رہے ناول نگار ہی رہے۔

    اگر اسے طرزی صاحب کا امتیازی وصف کہنا غلط نہ ہو تو وہ ایک ساتھ کئی ناول لکھنے والے بسیار نویس تھے۔ مائل ملیح آبادی کے بقول: "وہ بے پناہ لکھنے والے تھے۔ ان کا ہاتھ ٹائپ رائٹر تھا۔ لکھنے لگتے تھے تو لکھے ہوئے کاغذوں کا ڈھیر لگا دیتے۔ سب لوگ باتیں کرتے رہیں لیکن طرزی صاحب وہیں بیٹھے لکھتے رہیں گے اور کاغذ کے بعد کاغذ قلم کے نیچے سے نکلتا رہے گا… انہوں نے گھنٹوں کے حساب سے بھی دو تین سو صفحات کے ناول لکھے ہیں۔ لگ بھگ بارہ سو صفحات کا ناول مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں کسی دوسرے مصنّف کے نام سے لکھ ڈالا۔ پھر اس کے بعد ہی سترہ اٹھارہ سو صفحات کسی اور مصنّف کے نام سے لکھ دیے۔”

    طرزی کی ناول نگاری کے بارے میں سلامت علی مہدی کہتے ہیں: "دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی ناول نگار نہیں ہے جو تاریخی ناول بھی لکھے اور جاسوسی ناول بھی۔ جو دن کے ابتدائی حصے میں کسی سائنسی ناول کا مسودہ لکھے، دن کے آخری حصّہ میں کسی معاشرتی ناول کا حصّہ پورا کرے اور رات کو کسی رومانی ناول میں عورت کے حسن اور اس کے محبت بھرے دل کی کوئی نغمگیں کہانی بیا ن کرے۔”

    بیک وقت تین چار مختلف موضوعات پر کہانیاں بُننا بھی طرزی صاحب ہی کا کمال تھا۔ ہندوستانی ادیب احمد جمال پاشا نے لکھا ہے: ’’بات لکھنے لکھانے پر آئی تو عرض کرنے دیجیے کہ وہ دو تین دن میں چار پانسو صفحات کا ناول لکھ لیتے تھے جب کہ دوسرا محض لکھا ہوا ناول اس مدت میں نقل بھی نہیں کر سکتا۔ لطف یہ ہے کہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں بھی فرق نہ آنے پاتا۔ خود بقول ان کے وہ لکھتے کیا تھے، اپنی تھکن اتارتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات و اسلامی سیاست پر مضامین بھی لکھتے رہتے۔ تقریباً تین سو کتابیں وہ ہیں جو خود ان کے نام سے چھپیں اور کتنے ناول لوگوں نے خرید کر اپنے نام سے چھپوا لیے اور مصنّف کہلائے۔‘‘

    خان محبوب طرزی کے قلم سے سیکڑوں ناول نکلے اور بڑی تعداد میں فروخت بھی ہوئے، لیکن بحیثیت ایک قلم کار وہ آسودگی ان کا مقدر نہیں بن سکی جس کے لیے وہ دن رات لکھنے میں مشغول رہے۔ اس مقبول ناول نگار نے 25 جون 1960ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ان کا ایک ناول "اڑن طشتری” 1952 میں شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے مسلمانوں کی شان دار تاریخ اور اسلاف کے کارناموں کو رجائیت پسندی کے ساتھ پیش کیا۔ اس ناول کا مرکزی خیال یہ تھا کہ نویں صدی عیسوی کے آخر میں اندلسی مسلمانوں کی سائنسی ایجادات سے دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ اور موجودہ دور کے سائنس داں بھی ان ایجادات پر دنگ ہیں۔ ایک اندلسی انجنیئر اڑن طشتری بناتا ہے اور اپنے چالیس ساتھیوں کے ساتھ اس کے ذریعے ایک نئی دنیا میں جا کر آباد ہوجاتا ہے۔ پھر دورِ حاضر کا ایک سائنس داں ٹیلی ویژن کی مدد سے اس سیارہ کا پتہ لگا کر اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر وہاں پہنچتا ہے۔ ان کے اس ناول کے زیادہ تر کردار مسلمان ہی ہیں۔ ان کا یہ ناول ان کے مذہبی تشخص اور اس تفاخر کو اجاگر کرتا ہے جس کا بحیثیت مسلمان وہ شکار رہے کہ دوسرے سیارے پر بھی مسلمان ہی غالب ہیں اور بڑی فصیح و بلیغ عربی بولتے ہیں۔ اس ناول کے اہم کرداروں میں ایک مولوی، مولوی عبدالسلام بھی ہیں جو خلا نوردوں کی راہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں خلائی سفر کے دوران بلکہ دوسرے سیارے پر باجماعت نماز بھی انہی مولوی کی اقتداء میں پڑھی جاتی ہے۔ ناول میں جابجا عربی مارکہ اردو اصطلاحات بھی ہیں جو اکثر مضحکہ خیز اور عام قاری کے لیے ان کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس ناول کی چند کم زوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ اس دور کا ایک دل چسپ ناول تھا، اور مزے کی بات یہ کہ ناول نگار نے خواتین خلا نوردوں کو بھی اس میں پیش کیا ہے مگر روایتی ملبوس اور بناؤ سنگھار میں مصروف دکھا کر خاصی حد تک مضحکہ خیزی پیدا کردی ہے۔

    محبوب خان طرزی سے متعلق اس تحریر میں اب ہم اردو کے ممتاز نقاد، ادیب اور شاعر شمسُ الرحمٰن فاروقی کے مضمون سے چند اقتباسات شامل کررہے ہیں جو ان کے فن اور تخلیقات پر روشنی ڈالتا ہے۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں: "آج کا زمانہ ہوتا تو خان محبوب طرزی پر دو چار رسالوں کے نمبر نکل چکے ہوتے، یا نمبر نہ سہی گوشے ضرورہوتے۔ ایک دو کتابیں بھی ان پر آچکی ہوتیں۔ لیکن وہ زمانہ اور تھا، اردو معاشرے میں تمول کی اتنی فراوانی نہ تھی، اور ہمارے ادیبوں کو بھی اپنی تشہیر سے زیادہ اپنی تحریر کی فکر تھی، کہ اچھے سے اچھا لکھا جائے۔ شہرت تو حاصل ہوتی رہے گی۔

    خان محبوب طرزی ہمارے ان ادیبوں میں تھے جنھوں نے قلیل معاوضے پر اپنی صلاحیتیں قربان کر دیں۔ اردو کا مفلوک الحال ادیب، کا یہ فقرہ ان پر صادق آتا ہے۔ وہ زمانہ بھی ایسا ہی تھا، اردو کو پوچھنے والے کم تھے اور کم ہوتے جارہے تھے۔ ایسے حالات میں اردو فکشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے خان محبوب طرزی کو داد دینی پڑتی ہے۔ اردو میں سائنس فکشن کا انھیں موجد کہا جاسکتا ہے، اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ خان محبوب طرزی جیسا سائنس فکشن اردو میں پھر نہ لکھا گیا۔ اسرار اور مہم جوئی بھی ان کا ایک میدان تھا۔ پھر بچارے کو وہی وہانوی کے نام سے فحش یا نیم فحش افسانے اور مختصر ناول بھی لکھنے پڑے۔ مجھے وہی وہانوی کا کوئی ناول یاد نہیں آتا، لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان ناولوں میں کوئی شاق انگیز بات نہ تھی اور آج کے معیاروں سے انھیں فحش شاید نہ بھی قرار دیا جائے۔

    طرزی صاحب کا پہلا ناول جو مجھے یاد ہے، "برق پاش” تھا۔ اس میں ایک تھوڑے سے جنونی سائنس داں نے لیسر کی طرح کی شعاعوں کو دور سے مار کرنے والے ہتھیار کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ تفصیل ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن لیسر کا اس میں ذکر شاید نہ تھا، ہاں فاصلے سے بجلی کی طرح گرنے اور ہدف کو بے دریغ ہلاک کرنے کا مضمون ضرور تھا۔ اس سائنس داں نے کچھ طریقہ ایسا ایجاد کیا تھا کہ وہ لیسر کی قوت کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں مرتکز کر کے انگلی کے اشارے سے قتل کی واردات انجام دیتا تھا۔ ایک طرح سے اسے انگریزی کے ایک فرضی لیکن مقبول کردار "دیوانہ سائنس داں” کا نقشِ اول کہا جا سکتا ہے۔ پھر میں نے تلاش کر کے، اور کبھی کبھی خود خرید کر کے خان محبوب طرزی کے کئی ناول پڑھے۔ان میں سائنسی ناول "دو دیوانے” مجھے خاص طور پر یاد ہے کیونکہ اس کے مرکزی سائنس داں کردار نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے خلائی جہاز میں ابدُ الآباد کائنات کا چکر لگاتا رہوں گا اور سورج کی شعاعوں سے اپنی غذا حاصل کروں گا۔ اس کا انجام مجھے یاد نہیں، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سورج کی شعاعوں سے غذا حاصل کرنے کا تصور اس زمانے میں بالکل نیا تھا اور سائنس نے شاید اس وقت اتنی ترقی بھی نہ کی تھی کہ ایسا ممکن ہوسکے۔ اس ناول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ خلا کے سفر کے دوران اس سائنس داں کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آواز کبھی مرتی نہیں، مختلف طرح کی اور مختلف زبانوں کی تقریریں اور خطاب کائنات کے مختلف گوشوں میں اب بھی سنے جا سکتے ہیں۔ یہ خیال بھی، جہاں تک میں جانتا ہوں، بالکل نیا تھا۔ ایک اور ناول "سفرِ زہرہ” کا عنوان میرے ذہن میں رہ گیا ہے لیکن اس کے بارے میں اور کچھ مجھے یاد نہیں آتا۔

    "شہزادی شب نور” ناول میں مہم جوئی، اسرار اور جستجو کے کئی عنا صر موجود تھے۔ پورے ناول پر ایک خاموش، پر اسرار فضا چھائی ہوئی محسوس ہوتی تھی جن ناولوں کا میں ذکر رہا ہوں، انھیں میں نے آج سے کوئی ستر بہتر برس پہلے پڑھا تھا۔ ان کا دل کش نقش اب بھی باقی ہے، اگرچہ مطالعے کا ذوق مجھے جلد ہی انگریزی ادب کی طرف لے گیا۔

    میں سمجھتا تھا کہ طرزی صاحب کو آج کوئی نہیں جانتا اور مجھے اس کا رنج بھی تھا کہ اس زمانے میں اردو نے کئی مقبول ناول نگار دنیا کو دیے تھے: رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری، قیسی رامپوری، اے۔ آر۔ خاتون، اور ان سے ذرا پہلے منشی فیاض علی اور ایم۔ اسلم۔ اِن میں کوئی ایسا نہ تھا جو خان محبوب طرزی کی طرح کا ابداع اور تنوع رکھتا ہو۔”

    دوسری طرف طرزی صاحب کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ بسیار نویسی نے ان کے ناولوں کو معیار سے دور کر دیا تھا۔ اس ضمن میں سید احتشام حسین لکھتے ہیں: ’’ یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ بعض مصنفوں کو تاریخ اپنے دامن میں جگہ نہیں دیتی لیکن اس کے پڑھنے والے اس کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ادبی تنقید کا یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے اور ادیب کی وقتی مقبولیت اس کی کام یابی ہے یا تھوڑے سے ایسے لوگوں کا متاثر ہونا جو ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ محبوب طرزی اعلیٰ ادبیات سے دل چسپی لینے والوں میں مقبول نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں چھپتی اور بکتی تھیں اور بعض کتابیں اتنی مقبول تھیں کہ ان کے کئی کئی اڈیشن شائع ہوئے۔

  • معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    میجر آفتاب حسن کو سائنسی موضوعات پر اردو زبان کے مصنّف، محقّق اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے علمِ سائنس کے مختلف شعبوں کے حوالے سے مضامین اور تحقیقی کام کا اردو ترجمہ اور سائنسی اصطلاحات سازی میں‌ اہم کردار ادا کیا۔ آج میجر آفتاب حسن کی برسی ہے۔

    میجر آفتاب حسن بازید پور (بہار) میں 16 ستمبر 1909ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ملٹری اکیڈمی کاکول میں سائنسی شعبے کے سربراہ رہے، بعدازاں اردو سائنس کالج، کراچی کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔

    1960ء سے 1972ء تک جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے سربراہ رہے۔ اس دوران انھوں نے اردو زبان میں سائنسی اصطلاحات سازی اور سائنس و تحقیق کے موضوعات پر کتب کی اشاعت کے لیے نہایت اہم اور قابلِ ذکر کام کیا اور اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    وہ مقتدرہ قومی زبان کے پہلے معتمد بھی تھے۔ میجر آفتاب حسن 26 فروری 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • صدیوں پہلے لکھے گئے ناول جو سائنسی ایجادات کا سبب بنے

    صدیوں پہلے لکھے گئے ناول جو سائنسی ایجادات کا سبب بنے

    انسان ہمیشہ سے پُرتجسس رہا ہے۔ ان دیکھے اجسام، عجیب و غریب، ماورائے عقل، پوشیدہ اور دست رس سے دور کوئی دنیا اور اشیا اسے متوجہ کر لیتی ہیں۔ جب انسان نے غور و فکر کی عادت اپنائی، شعور اور آگاہی کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنے تخیل کو مہمیز دی تو ایسا ادب تخلیق کیا جو صدیوں بعد سائنسی اختراعات و ایجادات کی بنیاد بنا۔

    ہم ان نام ور اور باکمال ناول نگاروں کا آپ سے تعارف کروا رہے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات میں صدیوں پہلے زمین اور انسانوں سے متعلق جن ماورائی، غیر حقیقی اور حیرت انگیز تصورات پیش کیے اور آج سائنس نھیں حقیقت کا روپ دے چکی ہے۔ وہ تصورات اب ہمارے سامنے ہیں اور انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہی ادیبوں اور دانش وروں کی بدولت نئی دُنیاؤں کی تلاش اور ایجادات کا سفر بھی شروع ہوا۔

    From the earth to the moon
    لگ بھگ تین صدیوں پہلے جولز ورنے کی یہ تخلیق منظرِ عام پر آئی تو پڑھنے والے اسے محض ایک ناول سمجھ کر لطف اندوز ہوئے۔ اس ناول میں ایک ایسے خلائی جہاز کا تصوّر پیش کیا گیا تھا جو ایک طاقت وَر توپ سے داغے جانے کے بعد چاند کے مدار میں پہنچ جاتا ہے۔ مصنف نے حیران کن اور دل چسپ انداز میں اسے چاند کے گرد چکر لگاتا ہوا بتایا۔ یہ اس دور میں خلافِ عقل اور ناقابل فہم ضرور رہا ہو گا مگر اسے پڑھنے والوں نے بے حد پسند کیا۔ کہانی میں مدار سے اس اسپیس شپ کی زمین پر واپسی کی لفظی صورت گری کی گئی تھی۔ آج انسان خلا نوردی اور کہکشاؤں کا کھوج لگانے کے ساتھ چاند پر بھی پہنچ چکا ہے۔

    Twenty thousand leagues under the sea
    اسی ناول نگار کے تخیل نے ایک ایسے سیّارچے کی کہانی بھی بُنی جو خلا کے اسرار دریافت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس قلم کار کا یہ ناول شاہ کار مانا جاتا ہے جس میں اس نے ایک آب دوز کا تصوّر پیش کیا تھا جو سمندر کی گہرائی میں پہنچ کر سَر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ ناولز بیسٹ سیلر ثابت ہوئے اور متعدد یورپی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔ صدیوں پہلے ایک انسان کے تخیل کی اڑان کتابی صورت میں ملکوں ملکوں قارئین تک پہنچی اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ دیو قامت سمندری جہاز اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس آب دوزیں سمندر کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔

    First man in the moon
    ایک اور سائنس فکشن رائٹر ایچ جی ویلز ہے جس نے فلکیات کو اپنا موضوع بنایا۔ یہ وہ ناول ہے جسے پڑھ کر انسان کے پہلے خلائی مشن کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ایک ادیب کے ذہن نے مستقبل کی صورت گری کی ہو گی۔ سترھویں صدی عیسوی میں اس فکشن نگار نے اپنے ناول میں انسان کو چاند پر اتارا تھا اور بیسویں صدی میں اس کہانی نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔

    Journey to the center of the earth
    اسی فکشن نگار نے اپنی اختراعی صلاحیت اور قلم کی طاقت سے ایک اور ناول کاغذ پر منتقل کیا جس میں انسانوں کو ڈائنو سار کے دور میں دکھایا۔ اس ناول نے قدیم زمانے کے قوی الجثہ حیوان سے متعلق انسانوں کو مزید تحقیق پر اکسایا اور ڈائنو سار کے ڈھانچوں کی دریافتوں کے ساتھ ان پر باقاعدہ ریسرچ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول بھی سائنسی میدان میں ترقی کا سبب بنا۔

  • ٹوٹے ہوئے اسمارٹ فون سے سائنس فکشن فلم تیار

    ٹوٹے ہوئے اسمارٹ فون سے سائنس فکشن فلم تیار

    سائنس فکشن فلم کا سنتے ہی ذہن میں بڑے بڑے سیٹ، فلم سازی کے جدید آلات اور بہت سارے لوگوں کی ٹیم آجاتی ہے، یہ تصور کرنا محال ہے کہ عام سے ساز و سامان کے ساتھ کوئی سائنس فکشن اور اسپیشل افیکٹس والی فلم تیار ہوسکتی ہے۔

    تاہم افریقی ملک نائیجیریا میں کچھ نوجوان لڑکے ایک ٹوٹے ہوئے موبائل فون اور نہایت محدود وسائل کے ذریعے سائنس فکشن فلمیں بنا رہے ہیں۔

    نائیجیریا کے ایک چھوٹے سے شہر کے رہائشی یہ 8 نوجوان شارٹ فلم بنانے کے لیے ٹوٹا پھوٹا سا اسمارٹ فون اور ایک خستہ حال اسٹینڈ استعمال کرتے ہیں۔ ان لڑکوں نے خود کو ’کرٹکس کمپنی‘ کا نام دیا ہے۔

    کرٹکس کمپنی کے کریو نے انٹرنیٹ پر موجود ٹیوٹوریل ویڈیوز سے اسپیشل افیکٹس کا استعمال سیکھا ہے جسے وہ اپنی فلموں میں استعمال کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ویڈیوز کو وائرل نہیں کرنا چاہتے، بس یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے شہر میں موجود لڑکے کچھ نیا کر رہے ہیں۔

    ان لڑکوں کے پاس نہایت پرانا سامان اور عام سی اسپیڈ کا انٹرنیٹ ہے اور وہ بھی اکثر بجلی جانے کی وجہ سے ٹھپ ہوجاتا ہے۔ ایک 5 منٹ کی شارٹ فلم کو رینڈر کرنے میں انہیں 2 دن لگ گئے۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ 10 منٹ کی فلم تیار کرسکتے ہیں کیونکہ اس فلم کو اپ لوڈ ہونے میں بھی خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ کچھ دن قبل کی جانے والی فنڈ ریزنگ میں انہیں 6 ہزار ڈالر حاصل ہوئے جس سے انہوں نے کچھ نیا سامان خریدا ہے۔

    ان لڑکوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کچھ کرنا چاہتے ہیں جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

    نائیجیریا کی فلم انڈسٹری نولی ووڈ فلموں کی تعداد کے حوالے سے دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری سمجھی جاتی ہے۔ کرٹکس کپمنی کو امید ہے کہ ان کا مستقبل روشن ہے اور وہ بہت جلد اپنی منزل حاصل کرلیں گے۔

  • بادشاہی مسجد کے اوپر اڑتا ڈریگن

    بادشاہی مسجد کے اوپر اڑتا ڈریگن

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کیسا ہوگا؟ یا اگر کوئی ایسی سائنس فکشن فلم بنائی جائے جس میں پاکستان کو دکھایا جائے گا، تو وہ پاکستان کیسا ہوگا؟

    تصور کرنے کو تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک پاکستانی مصور نے اس تصور کو حقیقت میں ڈھال دیا۔

    عمر گیلانی نامی یہ فنکار پیشے سے تو مکینکل انجینئر ہیں تاہم انہیں مصوری کا جنون ہے۔ عمر نے اپنی تعلیمی تجربات اور اپنی پرواز تخیل کو جوڑ کر فن کے کچھ نادر نمونے تخلیق کیے ہیں جن میں وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل کا پاکستان کیسا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مچھلی پر سواری کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    دراصل انہوں نے پاکستان کی سڑکوں اور فضاؤں میں سائنسی رنگ کی آمیزش کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ کوشش نہایت شاندار ہے۔

    آیئے آپ بھی ان کی سائنس فکشن تصاویر دیکھیں۔

    ایک کچی آبادی میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔ پس منظر میں بلند و بالا جدید عمارات نظر آرہی ہیں۔

    8

    لاہور کی بادشاہی مسجد کے اوپر ایک ڈریگن اڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

    2

    ایک گاؤں سے خلا میں راکٹ فائر کرنے کا منظر۔

    5

    ایک خان صاحب اپنے روایتی لباس اور ٹوپی میں اسٹار وارز کے مشہور کردار کے مدمقابل۔

    3

    پاکستان کے مشہور لکی ایرانی سرکس میں ایک ڈریگن کو سدھایا جارہا ہے۔

    6

    اس تصویر میں دکھائی دی جانے والی مخلوق کو عمر باؤنٹی ہنٹر کا نام دیتے ہیں۔ پس منظر میں لاہور کا پرہجوم بازار اور سڑک پر چلتے رکشے نظر آرہے ہیں۔

    9

    ایک روبوٹ تاریخی پس منظر رکھنے والی کسی عمارت میں ستار بجا رہا ہے۔ گویا روبوٹ بھی اپنی روایات سے غافل نہیں ہے۔

    7

    تنگ اور گنجان آباد گلیوں میں پگڑی پہنے ایک شخص کی جدید موٹر سائیکل پر سواری۔

    11

    ایک ننھی بچی سڑک پر بھیک مانگتی نظر آ رہی ہے اور اس کا ایک بازو مشینی ہے۔

    4

    اور تو اور مستقبل کے پاکستان میں اڑنے والے ٹرک بھی ایجاد ہوچکے ہیں، جو روایت کے مطابق مقررہ حد سے زیادہ وزن اٹھا کر محو سفر ہیں۔ فضا میں اڑنے والا یہ ٹرک روایتی ٹرک آرٹ سے مزین ہے۔

    10

    تو کہیئے، کیسی لگی آپ کو مستقبل کے پاکستان کی منظر کشی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتایئے۔

  • سائنس فکشن فلم ایکس ماکینا کا ٹریلر جاری کر دیا گیا

    سائنس فکشن فلم ایکس ماکینا کا ٹریلر جاری کر دیا گیا

    ہالی ووڈ: سائنس فکشن سے بھرپور ہالی ووڈ فلم ایکس ماکینا کا نیا ٹریلر جاری کر دیا گیا ہے.

    ہالی ووڈ فلم ایکس ماکینا کا فکشن اور ایکشن سے بھرپور ٹریلر جاری کر دیا گیا ہے ، فلم کے ہدایتکار ایلکس گارلینڈ نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔

    فلم کی کہانی ایک ایسے پروگرامر کے گرد گھومتی ہے، جو روبوٹ کی صلاحیت اور ذہانت بڑھانے کے لئے انوکھے مشن پر جاتے ہیں، فلم میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والوں میں ڈامہنال گلیسن،آسکر ایساک اور ایلیشیا وکاندر سمیت دیگر فنکار شامل ہیں۔

    اس میں انھیں کتنی کامیابی ملتی ہے یہ جاننے کے لئے شائقین کو اکیس جنوری تک انتظار کرنا پڑے گا۔

  • ہالی ووڈ:سائنس فکشن فلم "دی میزرنر”کا ٹریلر ریلیز

    ہالی ووڈ:سائنس فکشن فلم "دی میزرنر”کا ٹریلر ریلیز

    ہالی ووڈ کی سائنس فکشن ایکشن سے بھرپور فلم۔۔دی میز رنر۔۔کا نیا ٹریلر ریلیز ہوگیا۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی جو لفٹ کے ذرہعے ایک ایسی دنیا میں جا پہنچتاہے جہاں اس کی یاداشت کھو جاتی ہے۔۔اسے یاد ہے تو صرف اپنا نام۔۔اس دنیا میں اس کا کوئی دوست نہیں اور سب ہی انجان ہیں ۔

    ایسے میں جادوئی طاقتوں اور حیرت انگیز کمالات سےاس کو ہوتے ہیں نئےتجربات۔،زندگی کا نیا رخ اسے دیکھنے کو ملتاہے۔۔غیر مرئی قوتیں اسے ختم کرنا چاہتی ہیں مگر زندگی کی جنگ لڑنی ضروری ہے۔۔ ایکشن سے بھرپورسائنس فکشن فلم۔۔ دی میز رنر۔۔ رواں سال ستمبر میں ریلیزہوگی۔