Tag: سائنس و ٹیکنالوجی

  • بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کائنات میں بکھرے ہوئے وہ عجیب و غریب ستارے ہیں جن سے کوئی بھی چیز باہر نہیں نکل سکتی، یہاں تک کے روشنی بھی نہیں، اس لیے ان کو براہ راست دیکھ پانا ناممکن ہے، اس دقت کے باوجود ماہرین کو یقین ہے کہ کائنات میں بہت سارے بلیک ہول موجود ہیں، اسی وجہ سے سن 2020 کے فزکس نوبل انعام سے ان کی دریافت اور ان سے متعلق اہم تحقیقات پر تین سائنس دانوں: راجر پنروز (انگلستان)، رائنہارڈ گنزل (جرمنی) اور اندرے گیز (امریکا) کو نوازا گیا۔

    بلیک ہول کا خیال 18 ویں صدی میں سائنسی حلقوں میں آیا۔ نیوٹن کے دیے ہوئے مقولوں کو استمال کرکے ایک انگریز پادری سائنسدان جان مائیکل اور عظیم فرانسیسی ریاضی داں سائمن لاپلاس نے بلیک ہول کے وژن اور اس کے سائز کا فارمولا حاصل کرلیا۔

    غور کریں کہ اگر کسی راکٹ کی رفتار 40 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے سے کم ہو تو وہ زمینی کشش سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ وہ زمین کی طرف واپس آجائے گا۔ یہ رفتار اسکیپ رفتار کہلاتی ہے اور یہ زمین کے وزن اور اس کے سائز پر منحصر کرتی ہے۔ اگر پوری زمیں سکڑتے ہوئے ایک شیشے کی چھوٹی گولی کے برابر ہو جائے تو اسکیپ رفتار بڑھتے بڑھتے یعنی روشنی کی رفتار (ایک لاکھ اسی ہزار میل فی سیکنڈ) کے برابر ہو جائے گی اور تب زمین سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پائے گی۔ یعنی ہماری زمین ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جانے گی۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کائنات میں بکھرے ہوئے بلیک ہولز کو ڈھونڈ پانا ایک مشکل کام ہے۔

    سنہ 1915 میں آئن سٹائن نے زمینی کشش کو سمجھنے کے لیے انوکھا طریقہ کار پیش کیا جس کے مطابق مادہ اپنے چاروں طرف کائنات میں گھماؤ پیدا کر دیتا ہے اور جتنا زیادہ مادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ گھماؤ ہوگا۔ دوسری اور تمام چیزیں جو اس بڑے مادے کے نزدیک آئیں گیں وہ اسی گھماؤ دار راستے پر چلیں گیں۔

    جرمن سائنسدان کارل شوارزچائلڈ نے آئن سٹائن کے مقالوں کو استعمال کر کے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کے وزن اور اس کے سائز میں تقریباً وہی رشتہ ہے جو بہت پہلے مائیکل اور لاپلاس حاصل کر چکے ہیں۔ بلیک ہول کے چاروں طرف وہ حد جہاں جا کر کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی، وہ شوارزچائلڈ حد کہلاتی ہے۔

    چندرشیکھر کی اہم تحقیقات اور پھر امریکی ایٹم بم سے منسلک مشہور سائنسداں اوپن ہائمر نے یہ محسوس کیا کہ اگر مردہ ستاروں میں بہت زیادہ مادہ ہو تو وہ کشش کی وجہ سے حد درجہ سکڑنے پر بلیک ہول بن سکتے ہیں۔ اس سمجھ کے ساتھ یہ مشکل مسئلہ تھا کے ستارے کے حد درجہ سکڑ نے کی وجہ سے اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائے گا اور پھر فزکس کے تمام اصول وہاں پر ناقص ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے بلیک ہول میں سائنسدانوں کی دلچسپی صرف ریاضیات کی حد تک رہ گئی ہے۔ خود آئن سٹائن کو بلیک ہول کی حقیقت پر یقین نہیں تھا۔

    سنہ 1960 کے آس پاس فلکیاتی سائنسدانوں نے ایک بہت ہی حیرت انگیز ستارہ دریافت کیا۔ اس کو کواسار کہتے ہیں۔ اس دریافت نے تمام فلکیاتی سائنسدانوں میں بلیک ہول سے دلچسپی کو پھر سے زندہ کر دیا۔ کواسار وہ ستارے ہیں جن سے بے انتہا روشنی نکلتی ہے جو ہماری کہکشاں یا انڈرومیدہ کہکشاں کے کروڑوں ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے۔ کسی ستاروں کے جھرمٹ یا کسی ستارے کے پھٹنے سے اتنی روشنی نہیں نکل سکتی۔ صرف ایک ہی بات ممکن ہے کے کسی بڑے بلیک ہول کی وجہ سے آس پاس کا مادہ کائنات میں گھماؤ کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ بلیک ہول میں گر رہا ہو اور وہ تیز رفتاری کی وجہ سے بے حد گرم ہوکر بے پناہ روشنی پیدا کر رہا ہے۔ اس سمجھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید بلیک ہول کواسار ایک حقیقت ہیں۔

    کوا سار کی دریافت سے متاثر ہوکر راجر پنروز نے ریاضیات کے استمال سے بلیک ہول کی دریافت کو حقیقت کے نزدیک کر دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جب کوئی بڑا مردہ ستارہ بغیر کسی روک ٹوک کے سکڑنا شروع ہوگا تو بالآخر اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائۓ گا۔ اس ستارے کے باہر گولائی کی ایک حد ہوگی جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی۔ یہ وہی حد ہے جس کا ذکر اوپن ہائمر اور شوارز چائلڈ پہلے کر چکے ہیں۔

    یہ ایسی حد ہے جس کے بعد صرف مستقبل ہے اور پھر بلیک ہول کے سینٹر پر وقت ہمیشہ کے لیے رک جائے گا۔ وقت کے خاتمے جیسی انوکھی بات کو سمجھنے کے لیے شاید فزکس کے نئے مقولوں کی ضرورت ہوگی لیکن بلیک ہول کے چاروں طرف کی حد اس کے اندر کی لامحدودیت کو چھپائے ہوئے ہے۔ اس سمجھ نے سائنسدانوں میں بلیک ہول کی لامحدودیت کی وجہ سے تکلف کو ختم کر دیا۔ ان دلائل کے بعد بلیک ہول کو دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کے اب ہم صرف بلیک ہول کے آس پاس ان ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو تیزی کے ساتھ بلیک ہول میں ہضم ہوتے جا رہیں ہیں۔ اس سمجھ نے بلیک ہول کی دریافت کی دوڑ کو تیز کر دیا۔

    سنہ 1990 کے آس پاس گینزل اور ان کے فلکیاتی ساتھیوں نے انفراریڈ روشنی کا استمال کرکے بلیک ہول کی تلاش میں ساری توجہ اپنی کہکشاں کے سینٹر پر مرکوز کر دی جہاں پر ایک بڑے بلیک ہول کے ہونے کے بہت امکانات تھے۔ انفراریڈ روشنی کا استمال اس لئے کیا گیا کے آس پاس کی کائناتی دھول کی وجہ سے ٹیلی اسکوپ کے مشاہدات میں رکاوٹ نہ آسکے۔ دوسری دقت یہ تھی کہ ہماری زمین کے چاروں طرف پھیلی ہوا کے وجہ سے ستارے جگ مگ کرتے ہیں اس لئے ان کی تصویر دھندلی ہو جاتی ہے اور پھر ان ستاروں کی صحیح رفتار معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لئے گیز نے کیک کے بہت طاقتور ٹیلی اسکوپ کو استمال کیا تاکہ بہت کم وقت میں اچھی تصویر لی جا سکے۔

    چند ہی سالوں میں باریکی سے مشاہدات کے بعد دونوں تجرباتی تحقیقاتی گروپ ہماری کہکشاں کے بیچ میں بلیک ہول کے چاروں طرف تیزی سے چلتے ہوئے تاروں کے گھماؤ دار راستوں کو باریکی سے ناپنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان مشادات نے یہ ثابت کر دیا کے ہماری کہکشاں کے سینٹر پرایک بڑا بلیک ہول ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس حیرت انگیز دریافت کی اہمیت کی وجہ سے ان سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اس بات کا بہت ذکر ہوا کے ان تینوں انعام یافتہ سائنسدانوں میں گیز، نوبل انعام کی 120 سال کی تاریخ میں صرف چوتھی خاتون ہیں۔

    فزکس ایسا مضمون ہے، جس کا وہ دعویٰ بھی کرتا ہے، جو بنا کسی تفریق کے اچھے دماغوں کو نوازتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ سائنسدان عورت ہے یا مرد۔ لیکن فزکس کے نوبل انعام یافتہ لوگوں کی فہرست اس بات کی گواہی دیتی ہے کے شاید سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ پہلی خاتون سائنسدان مادام کیوری کو شروع ہی میں 103 میں نوبل انعام ملا، لیکن اس کے 60 سال کے بعد دوسری خاتون سائنسدان ماریا جیوپورٹ میر کو 1963 میں اور تیسری خاتون ڈونا اسٹرکٹ کو 2018 میں نوبلے انعام ملا۔ ایسی بہت ساری خاتون سائنسدان رہی ہیں جن کی مایہ ناز تحقیقات نوبل انعام کی مستحق ہونے کے باوجود اس انعام سے محروم رہیں۔ ان میں خاص نام ہیں: لیز مایٹنر، چین شنگ وو، ویرا ربن اور ہندوستان کی بیبھا چودھری جن کے نام سے ایک ستارہ بھی منسوب ہے۔

    گیز نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کی بڑے ہوتے ہوئے ہر منزل پر یہ سننا پڑا کہ تم یہ نہیں کر سکتیں کیونکہ تم لڑکی ہو، تمہارا داخلہ کیل ٹیک جیسی مشہور جگہ نہیں ہو سکتا۔ کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہر پڑھنے لکھنے والی لڑکی کو سننا پڑتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گیز نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کے کام کو ان تمام لڑکیوں کے نام منسوب کیا ہے جو تمام رکاوٹوں کے باوجود تحقیقات کے کام میں اچھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    فزکس کی تحقیقات کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کے ریسرچ کرنے کی سہولتیں ٹیکس دینے والوں کی عنایت ہے۔ ساری کامیابیاں اسی عنایت کی دین ہے اور اس لیے ہر ناانصافی کو ختم کرنا ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کوئی دباؤ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے تاکہ ریسرچ کے لیے بہتر ماحول بنے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کے پچھلے دو سالوں میں دو خواتین کو نوبل انعام ملا۔ کیا یہ اس بات کی نشان دہی ہے کے آنے والے وقت میں لڑکیوں کے لیے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا آسان ہوجائے گا؟ کیا فزکس میں لڑکیوں کے لیے رکاوٹیں کم ہو جائیں گی؟

  • ملک میں این 95 ماسک اور ٹمریچر گنز کی تیاری پر کام جاری

    ملک میں این 95 ماسک اور ٹمریچر گنز کی تیاری پر کام جاری

    اسلام آباد: قائمہ کمیٹی برائے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک میں سینی ٹائزر اور وینٹی لیٹرز بنائے جارہے ہیں، این 95 ماسک، فیس شیلڈ، ٹمریچر گنز اور ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹر مشتاق احمد کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں کرونا وبا کے دوران پیرا میڈیکل اسٹاف سمیت دیگر شہدا کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

    اجلاس میں کرونا وائرس کے دوران وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار پر بریفنگ دی گئی، بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان کونسل فار انڈسٹریل ریسرچ نے سینی ٹائزرز تیار کیے۔

    سیکریٹری سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ اس وقت یورپ اور امریکا میں سینی ٹائزرز برآمد کر رہے ہیں، کرونا وائرس پر ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اسپرے گنز ڈرونز اور سینی ٹائزرز بھی دفاعی ادارے بنا رہے ہیں۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ این 95 ماسک، فیس شیلڈ، ٹمریچر گنز اور ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے۔ سینی ٹائزر اور وینٹی لیٹرز ہم بنا چکے ہیں۔

    اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت نے وبا کے دوران وزارت سائنس کے ذیلی اداروں کو فنڈز نہیں دیے۔

    چیئرمین کمیٹی نے دریافت کیا کہ کرونا وائرس کے فنڈز کہاں گئے، کیا این ڈی ایم اے ریسرچ ادارہ ہے؟ سینٹر ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ آئندہ اجلاس میں این ڈی ایم اے اور وزارت خزانہ حکام کو بلایا جائے۔

    کمیٹی ارکان کا کہنا ہے کہ ویکسین پر کام وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیقی اداروں نے ہی کرنا ہے، وزارت سائنس کے ذیلی اداروں کو نظر انداز کرنے سے سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

    چیئرمین انجینیئرنگ کونسل کا کہنا تھا کہ اس وقت مڈل ایسٹ اور افریقہ کی مارکیٹ کھلی ہے، پاکستان وینٹی لیٹرز برآمد کر کے زر مبادلہ کما سکتا ہے۔

    چیئرمین کمیٹی نے دریافت کیا کہ کیا پاکستانی وینٹی لیٹرز ملک میں بن رہے ہیں یا اسیمبل ہو رہے ہیں؟ جس پر بتایا گیا کہ اس وقت دونوں کام ہو رہے ہیں جو پارٹس نہیں بن رہے وہ منگوائے جارہے ہیں۔

  • زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا: سینیٹ قائمہ کمیٹی

    زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا: سینیٹ قائمہ کمیٹی

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں کہا گیا کہ کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو فوری اس پر کام کرنا چاہیئے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین مشتاق احمد کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس پھیلنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

    چیئرمین کمیٹی مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو مسئلے پر فوری طور پر کام کرنا چاہیئے تھا۔

    اجلاس میں وزارت سائنس کی جانب سے کمیٹی کو سائنس ٹیلنٹ فارمنگ اسکیم پر بریفنگ دی گئی۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ ٹیلنٹ فارمنگ منصوبے میں دور دراز علاقوں کے طلبا کو تربیت دی جائے، یقینی بنایا جائے کہ منصوبے میں نجی اسکولوں کو شامل نہ کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ نجی اسکولوں کو دیگر بہت سے مواقع اور مراعات حاصل ہیں، اس کے برعکس سرکاری اسکولوں کے طلبا کو بہت کم مواقع حاصل ہوتے ہیں۔

    اپنی بریفنگ میں حکام نے پاکستان یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی کے منصوبے کے حوالے سے بتایا۔ حکام کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس کے عقب میں سائنس اینڈ انجینیئرنگ یونیورسٹی بنائی جائے گی۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ پہلے سے موجود یونیورسٹیز کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے، یونیورسٹیاں مالی خسارے کا شکار ہیں۔ پہلے سے موجود سیٹ اپ کو مزید پائیدار کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

  • سائنس پر توجہ ہمیں 25 سال میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتی ہے: فواد چوہدری

    سائنس پر توجہ ہمیں 25 سال میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتی ہے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی توجہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر رکھیں تو ہم 25 سالوں میں ترقی پذیر ملکوں سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں 1970 کی دہائی تک پاکستان تیسری دنیا کے اکثر ممالک سے بہت آگے تھا۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سنہ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان ہوا، ہمارا تمام تر فوکس دفاع پر چلا گیا۔ غلطی یہ ہوئی کہ امریکا اور چین کی طرح سول ملٹری انٹر فیس بناتے، ملٹری ریسرچ سول اور سول ریسرچ ملٹری شعبوں میں منتقل ہوتی۔

    انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکا، اب پوری کوشش ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیں کہ سول ملٹری ریسرچ کا انٹر فیس بنے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس ہفتے وزیر اعظم کو 30 ارب ڈالر کا ایکسپورٹ پلان پیش کریں گے، غیر روایتی برآمدات جن میں بائیو ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا حصہ ہوگا ہماری معیشت کو بدل کر رکھ دے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ایسے ٹیکس اسٹرکچر کی سفارش کی ہے کہ دنیا بھر سے لوگ ٹیکنالوجی خصوصاً بائیو ٹیکنالوجی کے لیے پاکستان کو دیکھیں۔

    وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت نے اپنا فوکس سائنس اور ٹیکنالوجی پر رکھا تو ہم 25 سالوں میں ترقی پذیر ملکوں سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آجائیں گے۔

  • رواں برس آئی فون کے ایک نہیں 2 ماڈلز لانچ ہوں گے

    رواں برس آئی فون کے ایک نہیں 2 ماڈلز لانچ ہوں گے

    رواں برس ایپل آئی فون کا ایک نہیں بلکہ دو نئے ماڈلز لانچ کرنے جارہا ہے۔ دونوں ماڈلز ایس ای سیریز کا حصہ ہوں گے۔

    سال 2020 میں ایپل 2 نئے ایس ای ٹو ماڈل کے آئی فون لانچ کرنے جارہا ہے، نئے ماڈلز کی اسکرینز 5.5 اور 6.1 انچ کی ہوں گی۔

    معروف ٹیکنالوجی تجزیہ کار منگ چی کو کے مطابق مذکورہ ماڈل کا ایس ای 2 پلس اگلے برس یعنی سنہ 2021 میں لانچ کیا جائے گا۔

    منگ چی کو کے مطابق نئے ماڈلز کا بنیادی ڈیزائن آئی فون 8 جیسا ہوگا تاہم اس کے فیچرز اپ گریڈ کیے جارہے ہیں۔

    ایس ای 2 ماڈلز میں تھری ڈی ٹچ فیچرز نہیں ہوں گے، یہ فیچرز آئی فون 11 سے بھی ختم کیے جا چکے ہیں۔ نئے ماڈلز میں ٹچ آئی ڈی فنگر پرنٹ ریڈر ہوگا جبکہ فیس آئی ڈی نہیں ہوگی۔

    علاوہ ازیں اس میں اے 13 چپ اور تھری جی بی ریم ہوگی۔ نئے فونز کے رنگ ممکنہ طور پر سلور، سپیس گرے اور سرخ ہوں گے۔

    گزشتہ برس ستمبر میں ایپل نے آئی فون 11 اور آئی فون 11 پرو لانچ کیے تھے۔ منگ چی کو کے مطابق اب رواں برس ایپل ایک نئے آئی پیڈ پرو اور نئے میک بک کے علاوہ آگمینٹڈ رئیلٹی کا ہیڈ سیٹ بھی لانچ کرے گا۔

  • خلائی مشنز کے لیے سخت فریم ورک کی ضرورت ہے: فواد چوہدری

    خلائی مشنز کے لیے سخت فریم ورک کی ضرورت ہے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ خلا سے ہر انسان کا تعلق ہے، خلائی مشنز کے لیے سخت عالمی فریم ورک کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ خلا سے ہر انسان کا تعلق ہے، یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا ماحول کا تحفظ کرنا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ خلائی مشنز کے لیے سخت عالمی فریم ورک کی ضرورت ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل فواد چوہدری نے بھارت کے ناکام خلائی مشن کو خلائی ماحول کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ خلائی مشن ماحول کے لیے خطرناک ہیں، بھارت خلا میں ملبہ پھیلانے کے باعث خلائی آلودگی کا بڑا سبب بنتا جا رہا ہے۔

    وزیر سائنس نے ناسا کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ خلائی مشن پورے ایکو سسٹم کے لیے خطرناک ہیں، ناسا سمیت دیگر عالمی تنظیموں کو بھارتی اقدام کا سخت نوٹس لینا چاہیئے۔

    فواد چوہدری نے وزارت سائنس کا منصب سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ سنہ 2020 میں پہلا پاکستانی خلا میں جائے گا اور یہ اقدام پاکستان کے اسپیس پروگرام کے لیے تاریخ ساز ہوگا۔

    پاکستان اور چین کے درمیان خلائی ٹیکنالوجی منتقلی کا معاہدہ ہوا تھا جس سے پاکستانی خلا نورد کے خلا میں جانے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ پاکستانی اور چینی خلانوردوں کو مشترکہ طور پر خلائی مشن پر بھیجا جائے گا اور چین پاکستان کو خلائی تحقیق میں مدد و تعاون فراہم کرے گا۔

    فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پہلے پاکستانی خلا باز کے لیے انتخاب اگلے سال (سنہ 2020 میں) ہوگا، پہلے مرحلے میں 50 خلا نورد شارٹ لسٹ کریں گے اور 50 میں سے 25 حتمی مرحلے میں جائیں گے۔

  • پاکستان کی نائیجیریا میں سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کی پیشکش

    پاکستان کی نائیجیریا میں سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کی پیشکش

    جدہ: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نائیجیرین ہم منصب سے ملاقات کے دوران نائیجیریا میں سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کی پیشکش کی۔

    تفصیلات کے مطابق جدہ میں سائنس ڈپلومیسی ورکشاپ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے شرکت کی۔

    ورکشاپ میں مختلف مسلم ممالک کے سائنسدانوں اور سائنسی منتظمین نے شرکت کی۔

    اس موقع پر وفاقی وزیر فواد چوہدری کی نائیجیریا کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون پر بات چیت ہوئی۔

    وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کے تعاون کی پیشکش کی، پاکستان نے نائیجیریا میں سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کی پیشکش کی۔

    انہوں نے کہا کہ نائیجیریا کے وزیر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔

    نائیجیرین وزیر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے، پاکستان سے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے سائنس کے شعبے میں پاکستان کی ترقی کو بھی سراہا۔

  • پاکستان کا مستقبل علم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے: فواد چوہدری

    پاکستان کا مستقبل علم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مستقبل علم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ سوشل سائنسز کی تعلیم ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کیپٹل یونیورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ لوگوں نے سوچا بھی نہیں تھا مگر ہم نے پانی پر ریسرچ کی۔ پاکستان ان 7 ممالک میں شامل ہے جو ایٹمی طاقت ہیں۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ خلا میں مشن بھیجنے کی بات پر لوگوں کا منہ کھلا رہ جاتا تھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک تھا جہاں موبائل فون آیا۔ پاکستان ایشیا میں دوسرا ملک ہے جس نے خلا میں راکٹ بھیجا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل علم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ سوشل سائنسز کی تعلیم ضروری ہے۔ جب ہم نے سپارکو بنایا تو چین اور بھارت خلائی پروگرام کی گنتی میں نہیں تھے۔ 70 کی دہائی میں افغان جنگ میں شامل ہونے پر ہماری توجہ ہٹ گئی۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ 8 ماہ میں سائنس و ٹیکنالوجی کے بجٹ میں 600 گنا اضافہ ہوا۔ انجینئرز اور سائنسدانوں کے لیے نوکریوں کے بہت سارے مواقع ہیں۔

    تقریب کے بعد فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی حالات پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں الیکشن کمیشن پرکوئی ڈیڈ لاک نہیں، پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ن لیگ نواز شریف سے بات کر کے فیصلہ کرنا چاہے تو یہ ان کی مرضی ہے، الیکشن کمشنر کے ریٹائر ہونے کے بعد 45 دن کا وقت ہوتا ہے۔ نواز شریف ڈاکٹر کی رائے پر باہر گئے حکومت کا عمل دخل نہیں۔ زرداری کے معاملے پر بھی ڈاکٹرز کی رائے پر معاملہ آگے بڑھے گا۔

    فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں کسی کو جیل میں رکھنے کا شوق نہیں، یہ لوگ ہمت پکڑیں اور باقی لوگ بھی پیسے دیں۔

  • پاکستان کو مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا: فواد چوہدری

    پاکستان کو مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا: فواد چوہدری

    کراچی: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ماضی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ نہیں دی گئی، پاکستان کو مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں دی فیوچر سمٹ کا آغاز ہوگیا، سمٹ میں گورنر سندھ عمران اسمعٰیل اور وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری شریک ہوئے۔

    سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا فواد چوہدری نے کہا کہ سنہ 2022 میں پاکستان اپنا پہلا خلائی مشن بھیجے گا، ماضی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ نہیں دی گئی۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مستقبل میں آلو، ٹماٹر اور پیاز بیچ کر اپنا خسارہ پورا نہیں کر سکتے، پاکستان کو مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک تھا جس نے فائبر آپٹک بچھایا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1951 میں سائنس میں قدم رکھ دیا، پاکستان نے پانی سے متعلق 1963 میں ریسرچ شروع کی تھی، ستر کے بعد ہم کھو گئے یونیورسٹیوں کے بجائے مدرسے بناتے رہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلا جنوبی ایشیائی ملک ہے جس نے موبائل کا استعمال شروع کیا۔ وزیر اعظم کو بتاتا رہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے سائنس کی وجہ سے آگے نکل گئے، ’وزیر اعظم کو بتایا ایسے ممالک میں وزیر سائنس ڈپٹی وزیر اعظم کے برابر ہوتا ہے‘۔

    اس سے قبل اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ایئر فورس کے پائلٹس کی ٹریننگ اچھی ہوتی ہے، پاکستان میں بھی ایئر فورس ہی خلا باز کا انتخاب کرے گی۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں وزیر اعظم کی خصوصی توجہ ہے، جس کے پاس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے متعلق آئیڈیاز ہیں ہم سے شیئر کرے۔ کوشش ہے نوجوانوں کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں چارج دے سکیں، ادائیگیاں موبائل فون پر لے آئیں گے۔

    انہوں نے مزید کہا تھا کہ چیئرمین ایچ ای سی قابل ہیں ان کا پلان تکمیل کو پہنچا تو ملک کی کامیابی ہوگی، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا بیوروکریٹ پروفیسر کو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے منچھر جھیل کی صفائی کرنا چاہتے ہیں۔

  • لڑکیوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کے لیے سمر پروگرام

    لڑکیوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کے لیے سمر پروگرام

    موسم گرما کی تعطیلات میں طلبا کے لیے سمر کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں طلبا کو مختلف سرگرمیوں سے متعارف کروایا جاتا ہے، تاہم نیویارک میں ایک سمر کیمپ صرف چھوٹی بچیوں کے لیے مخصوص ہے جہاں ان کو سائنس سے متعلق سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں۔

    نیویارک کا یہ سمر پروگرام 10 سے 13 سال کی عمر کی بچیوں کے لیے ہے جہاں انہیں ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھا میٹکس سے متعلق سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں۔

    اس سمر پروگرام کا مقصد لڑکیوں کو سائنس کے شعبے کی طرف راغب کرنا ہے۔

    پروگرام کا ایک اہم جز بچیوں کو فطرت سے قریب رکھنا ہے، بچیاں مختلف پارکس اور ساحلوں کا دورہ کرتی ہیں، وہاں کی مٹی سے واقف ہوتی ہیں اور وہاں ملنے والے جانوروں کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔

    جنگلی و آبی حیات کے بارے میں جان کر بچیوں میں مزید جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور یوں وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہوتی ہیں۔

    سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خواتین کی کمی کے حوالے سے مائیکرو سافٹ کمپنی کی شریک بانی میلنڈا گیٹس کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔

    میلنڈا کا کہنا ہے کہ سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی بھی شمولیت ازحد ضروری ہے۔