Tag: سائنس کی خبریں

  • خوب صورت بچوں اور ڈمپلز کی وجہ کون؟ ماں یا باپ؟

    خوب صورت بچوں اور ڈمپلز کی وجہ کون؟ ماں یا باپ؟

    کچھ لوگوں کا یہ خیال رہا ہے کہ ماں جتنی خوب صورت ہوگی بچے اتنے ہی خوبصورت ہوں گے، لیکن محققین نے ایک ریسرچ اسٹڈی میں کچھ اور انکشاف کیا ہے۔

    سوال یہ تھا کہ بچوں کو خوب صورتی کس سے وراثت میں ملتی ہے؟ یعنی بچے خوبصورتی اپنی والدہ سے لیتے ہیں یا والد سے، محققین نے اس سوال کا جواب معلوم کر لیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک ریسرچ اسٹڈی سے پتا چلتا ہے کہ روایتی طور پر چہرے کے پرکشش نقوش جیسے کہ مضبوط جبڑے، گال کی ہڈیاں، اور ناک نقشہ دراصل بچے کو اپنے باپ سے وراثت میں ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ چہرے کی ساخت اور ہڈیوں کی نشوونما سے متعلق باپ کے جینز زیادہ غالب دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ دونوں والدین بچے کی مجموعی شکل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تاہم والد کے جینز کا بچوں کے چہرے خد و خال کی بناوٹ میں اہم کردار ہوتا ہے۔

    جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    محققین کے مطابق والدہ سے آنکھوں کی بناوٹ، بال وغیرہ کی خصوصیات بچوں میں منتقل ہوتی ہیں، اور ناک کی شکل اور سائز اکثر ایسی خصوصیات ہیں جو والدین دونوں سے وراثت میں ملتی ہیں لیکن یہ بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ ناک کی شکل کے لیے غالب جینز باپ سے آنے کا زیادہ امکان ہے۔

    مثال کے طور پر اگر ایک باپ کی ناک نمایاں یا پتلی ہے، تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس کے بچوں میں بھی ایسی خصوصیات ہوں گی۔ جب کہ چہرے کی مجموعی ساخت، بشمول جبڑے کی شکل، گال کی ہڈیاں، اور چہرے کی لمبائی، بھی باپ سے وراثت میں ملتی ہے۔ یہ نقوش جینیات اور ہڈیوں کی ساخت کے امتزاج سے متعین ہوتی ہیں، جن کے مردانہ نسب سے گزرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

    آنکھ کی شکل اور رنگ


    اگرچہ دونوں والدین اپنے بچوں کی آنکھوں کے رنگ اور شکل میں حصہ ڈالتے ہیں، کچھ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ آنکھوں کی شکل والد کی طرف سے آنے کا زیادہ امکان ہے۔ اسی طرح، آنکھوں کا مخصوص رنگ دونوں کے مختلف جینز سے متاثر ہو سکتا ہے، لیکن سبز یا نیلی آنکھوں جیسے مخصوص رنگ اکثر پدرانہ جینیات سے وابستہ ہوتے ہیں۔

    جلد کا رنگ


    کسی فرد کی جلد کا رنگ اس کی جلد میں موجود میلانین کی مقدار اور قسم سے طے ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر قبول کیا جاتا ہے کہ جلد کا رنگ والدین دونوں سے متاثر ہوتا ہے، لیکن کچھ تغیرات یا رنگت، جیسے کہ صاف یا سیاہ جلد، والد کے جینز سے آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

    ڈمپل


    ڈمپل وہ پیارے چھوٹے گھڑے ہوتے ہیں جو مسکرانے کے وقت ظاہر ہوتے ہیں، یہ چہرے کی ایک دل کش خصوصیت ہے جو اکثر باپوں سے وراثت میں ملتی ہے۔ اگر کسی باپ کے پاس ڈمپل ہیں تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ اس کے بچوں میں بھی ڈمپل ہوں گے۔

  • کیا آنتوں کے جرثومے نوزائیدہ بچوں کی علمی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں؟ محققین کا انکشاف

    کیا آنتوں کے جرثومے نوزائیدہ بچوں کی علمی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں؟ محققین کا انکشاف

    کینیڈا: برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے محققین نے بچوں کی آنتوں میں پائے جانے والے مخصوص جرثوموں اور ابتدائی علمی نشوونما کی کارکردگی کے درمیان اہم تعلق دریافت کر لیا ہے۔

    طبی سائنس میں محققین نے ایک اور اہم کارنامہ انجام دیا ہے، اور اس اہم سوال کو جواب فراہم کیا ہے کہ کیا آنتوں کے جرثومے نوزائیدہ بچوں کی علمی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں؟ محققین کا کہنا ہے کہ بچوں کے گٹ مائیکروبس (آنتوں کے جرثومے) اور علمی مہارت کے درمیان تعلق پایا گیا ہے۔

    یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا، کینیڈا کے سباسٹین ہنٹر اور ان کے ساتھیوں کا ایک مقالہ 9 اگست 2023 کو سائنسی جریدے PLOS ONE میں شائع ہوا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے میں 56 شیر خوار بچوں کا جائزہ لیا گیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ کچھ مائیکرو بایوم کمپوزیشن کا ’’پوائنٹ اینڈ گیز‘‘جیسے علمی ٹیسٹوں میں کامیابی کے ساتھ ایک تعلق موجود ہے۔

    واضح رہے کہ انسانی جسم میں گٹ مائیکروبس سے مراد وہ کھربوں جرثومے ہیں جیسا کہ بیکٹیریا، جو انسانی آنتوں میں رہتے ہیں اور مائیکرو بایوم وہ ماحول ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔ جسم میں زیادہ تر جرثومے مفید ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کا توازن بگڑ جائے تو یہ نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

    ماضی کے کئی مطالعات میں بھی ان جرثوموں کا دماغی نشوونما میں کردار کے حوالے سے شواہد سامنے آئے تھے، اب پہلی بار نوزائیدہ بچوں میں مخصوص مائیکروبس کا ان کی ابھرتی ہوئی علمی صلاحیتوں کے درمیان تعلق کو نوٹ کیا گیا ہے۔

    ڈیٹا تجزیے کے دوران شیر خوار بچوں میں سے ہر ایک نے مختلف علمی صلاحیتوں کی تین میں سے کم از کم ایک مشق کو مکمل کیا تھا، اور محققین نے آنتوں کے نمونوں کا استعمال کرتے ہوئے ان کے گٹ مائکرو بایوم کا جائزہ لیا، انھوں نے پایا کہ جو شیرخوار سماجی توجہ کے امتحان (پوائنٹ اینڈ گیز) میں کامیاب ہوئے، ان میں مخصوص جرثوموں کی تعداد زیادہ پائی گئی۔ ان بچوں کی آنتوں میں ایکٹینو بیکٹیریا فائلم کے مختلف جرثومے زیادہ تعداد میں موجود تھے، جب کہ فرمیکٹس فائلم کے جرثومے کم تعداد میں تھے۔

    تحقیق کے نتائج یوں تھے:

    بعض گٹ جرثوموں والے شیر خوار بچوں نے سماجی توجہ کے امتحان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    ایک متوازن دھڑکن کو سننے کے دوران دماغی سرگرمی کے مخصوص نمونوں کو خاص قسم کے جرثوموں اور میٹابولک کیمیائی رد عمل سے منسلک پایا گیا۔

    محقین کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • اڑنے والی مچھلی جیسا روبوٹ تیار

    اڑنے والی مچھلی جیسا روبوٹ تیار

    ماہرین نے پانی کی جانچ کے لیے ایسا روبوٹ تیار کرلیا جو پانی سے جست لگا کر باہر نکل سکتا ہے اور کچھ دیر تک پرواز کرسکتا ہے۔

    امپیریل کالج لندن کے ماہرین کی جانب سے تیار کیے گئے اس روبوٹ کو فلائنگ فش کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پانی میں رہنے کے بعد جست لگا کر باہر نکل سکتا ہے اور اس دوران اپنا توان برقرار رکھ سکتا ہے۔

    پانی سے نکلنے کے بعد یہ 26 میٹر تک ہوا میں بلند ہوسکتا ہے۔

    یہ کوئی ڈرون یا روبوٹک ہوائی جہاز نہیں ہے۔ اس روبوٹ کو تیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پانی کے نمونے لے کر انہیں ماہرین تک پہنچا سکے۔

    یہ روبوٹ ان مشکل مقامات کے لیے بہترین ہے جہاں تک انسانوں کی رسائی نہیں ہوسکتی، اس روبوٹ کے ذریعے برف کے درمیان سے پانی کے نمونے لینا بھی آسان ہوجائے گا۔

    روبوٹ میں ایک چھوٹا سا ٹینک منسلک کیا گیا ہے جہاں پانی جمع ہوتا رہتا ہے۔ فی الوقت اس روبوٹ کو تجرباتی بنیادوں پر استعمال کیا جارہا ہے اور ماہرین کو امید ہے کہ جلد وہ اس سے سمندروں اور دریاؤں کی بھی جانچ کرسکیں گے۔

  • انسان کے پہنچتے ہی خلا میں بھی جرائم شروع ہوگئے

    انسان کے پہنچتے ہی خلا میں بھی جرائم شروع ہوگئے

    انسان ایک طرف تو آسمانوں کی وسعت کو چیر کر خلا کو تسخیر کر رہا ہے اور نئے سیاروں پر پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب اپنی سرشت کے ہاتھوں بھی مجبور ہے، یہی وجہ ہے کہ خلا میں کیا جانے والا پہلا جرم بھی سامنے آگیا۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی خلا باز این مک کلین خلا میں اپنے قیام کے دوران ایک جرم کی مرتکب ہوئی ہیں جس کی جلد تحقیقات شروع کردی جائیں گی۔

    این کی ساتھی سمر وورڈن نے الزام لگایا ہے کہ این نے اپنے خلائی قیام کے دوران ان کے بینک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    اس ہم جنس پرست جوڑے نے سنہ 2014 میں شادی کی تھی، ان کا ایک بچہ بھی ہے جسے این مک کلین خلائی سفر پر جانے سے قبل اپنے ساتھ ناسا کے دفتر لائی تھیں اور اس کے ساتھ فوٹو شوٹ بھی کروایا تھا۔

    تاہم سمر وورڈن کی شکایت کے بعد اس فوٹو سیشن کو ہٹا دیا گیا۔ یہ دونوں خواتین اپنی شادی کے خاتمے کے لیے قانونی مراحل طے کر رہی ہیں اور بچے کی حوالگی کے لیے بھی ان کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

    سمر وورڈن جو خود بھی ایک سابق ایئر فورس اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے اکاؤنٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بعد انہوں نے بینک انتظامیہ سے کہا کہ وہ اس مقام کے بارے میں بتائیں جہاں سے ان کا اکاؤنٹ استعمال کیا گیا۔

    انہیں بتایا گیا کہ اس کام کے لیے استعمال کیا جانے والا کمپیوٹر نیٹ ورک امریکی خلائی ادارے ناسا میں رجسٹرڈ ہے جس کے بعد سمر نے نہ صرف پولیس میں رپورٹ درج کروائی بلکہ ناسا میں بھی باضابطہ طور پر اپنی شکایت جمع کروائی۔

    دوسری جانب این نے ان الزمات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایک مشکل مرحلے سے گزر رہی ہیں جب انہیں اپنی شادی ختم کرنی پڑ رہی ہے۔

    این مک کلین نے رواں برس اس وقت دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ حاصل کرلی تھی جب ان کے خلائی سفر کا اعلان کیا گیا تھا۔ این کو ایک اور خاتون خلا باز کے ساتھ خلائی چہل قدمی (اسپیس واک) کرنی تھی، اور زمین سے ان کی معاونت بھی ایک خاتون خلا باز کرسٹین فیکول کو کرنی تھی جس کے بعد یہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل پہلی ٹیم ہوتی جو خلائی چہل قدمی انجام دیتی۔

    مزید پڑھیں: خلا بازی کا ایک اور ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب

    تاہم ناسا کو اس وقت شدید شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب وہ عین موقع پر خواتین خلا بازوں کو ان کے مناسب سائز کے خلائی لباس فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ مجبوراً ناسا کو خلائی چہل قدمی منسوخ کرنی پڑی۔

    این کا جرم سامنے آنے کے بعد اب ناسا کے تفتیش کار مائیکل متایا نے کیس کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اگر جرم ثابت ہوگیا تو این کو مروجہ قوانین کے تحت سزا تو ہوسکتی ہے، تاہم جرم کا خلا سے ہونا اس کیس میں اہم موڑ اور پیچیدگی لا سکتا ہے۔

  • کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    چاند پر قدم رکھنے کے اہم ترین سنگ میل کو 50 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ ان 50 برسوں میں دنیا خلائی میدان میں بھی کافی آگے نکل چکی ہے، چاند کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی کئی کامیاب مشنز بھیجے جا چکے ہیں۔

    جب سے چاند کا سفر انسان کی دسترس میں آیا ہے تب سے دنیا کے دولت مند افراد چاند پر جانے، وہاں کی زمین کو اپنی ملکیت قرار دینے اور وہاں پر گھر بنانے کی خواہش کر چکے ہیں۔

    یہ وہ افراد ہیں جو زمین کے تمام وسائل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور زمین کی ہر سہولت ان کے لیے قابل رسائی ہے چنانچہ اب ان کا اگلا خواب چاند پر جانا ہے۔

    ایسا ہی ایک شخص ڈینس ہوپ بھی ہے جو پہلے ہی چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرچکا ہے۔ سنہ 1980 میں ڈینس نے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھ کر چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا اور دریافت کیا کہ اگر انہیں اس پر کوئی قانونی اعتراض ہے تو وہ اسے آگاہ کریں۔

    اقوام متحدہ نے ڈینس کے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد ڈینس خود کو اس حوالے سے کلیئر سمجھتا ہے۔

    اس کے بعد اس نے لونر ایمبسی نامی ویب سائٹ بنائی جہاں اس نے چاند پر جائیداد کی خرید و فروخت کا کام شروع کردیا، اور صرف یہی نہیں دنیا بھر سے اب تک 60 لاکھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس ویب سائٹ کے ذریعے چاند پر زمین خرید چکے ہیں۔

    ڈینس کے بعد اس کا بیٹا کرس لیمار اب یہ کام کر رہا ہے۔ وہ صرف 24.99 ڈالر کے عوض چاند کا ایک ایکڑ فروخت کر رہا ہے۔

    اگر لونر ایمبسی کی اس قیمت کو مدنظر رکھا جائے تو چاند کی زمین جو 9 ارب 38 کروڑ 37 لاکھ 48 ہزار 198 ایکڑ پر مشتمل ہے، کی کل قیمت 2 کھرب 34 ارب سے زائد بنتی ہے۔

    لیکن کیا آپ واقعی چاند پر جائیداد خرید سکتے ہیں؟

    سرد جنگ کے دور میں جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان خلائی دوڑ جاری تھی، تب اقوام متحدہ نے ایک خلائی معاہدہ طے کیا۔

    اس معاہدے کے مطابق کوئی بھی فلکی جسم جیسے چاند، کسی سیارے یا کسی شہاب ثاقب پر، کوئی بھی قوم حاکمیت، اپنے استعمال یا اس پر اپنے تصرف کے باعث وہاں اپنی ملکیت نہیں جتا سکتی۔

    یعنی کوئی بھی قوم وہاں اپنا جھنڈا لگا کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہماری زمین ہے۔

    تاہم کرس لیمار اور اس کے 60 لاکھ گاہک حکومتیں نہیں ہیں، یہ فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سو اسے اس معاہدے کا ایک جھول تو کہا جاسکتا ہے، تاہم چاند پر صاحب جائیداد ہونا پھر بھی ممکن نہیں۔

    سنہ 2015 میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ایک اسپیس ایکٹ پر دستخط کیے تھے جس کے تحت انفرادی طور پر چاند سمیت دیگر فلکی اجسام پر کان کنی اور خرید و فروخت کا کام کیا جاسکتا ہے، تاہم چاند کی زمین کی ملکیت پھر بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

    ناسا کے ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فار انٹرنل افیئرز اسٹیفن ای ڈوئل کے مطابق، جو ایک ریٹائرڈ وکیل بھی ہیں، ’آپ چاند پر جا سکتے ہیں اور وہاں سے اس کی مٹی یا پتھر تو ساتھ لاسکتے ہیں۔ لیکن آپ چاند پر کچھ لکیریں کھینچ کر اسے اپنا حصہ قرار نہیں دے سکتے‘۔

    یعنی آپ چاند پر زمین کی ملکیت نہیں حاصل کرسکتے۔

    اس کے باوجود چاند کے حوالے سے تجارتی دوڑ دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں کے درمیان جاری ہے۔ سنہ 2016 میں مون ایکسپریس وہ پہلی نجی امریکی کمپنی بنی جسے چاند پر لینڈ کرنے کی حکومتی اجازت ملی۔

    تاہم ابھی تک مون ایکسپریس کا شمسی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ کمپنی خلا میں ان خلائی مشنز کے لیے ایک گیس اسٹیشن بنانا چاہتی ہے جو خلا میں دور تک جانا چاہتے ہوں۔

    مون ایکسپریس کے علاوہ یورپی خلائی ایجنسی اور ایک اور نجی کمپنی پلینٹری ریسورسز بھی چاند کے حوالے سے تجارتی مقاصد رکھتی ہیں۔ جدید سائنس اور خلائی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ چاند پر بھی جلد تعمیراتی منصوبے اور ملکیتی تنازعے شروع ہوسکتے ہیں۔

  • ڈرونز بھی مصور بن گئے

    ڈرونز بھی مصور بن گئے

    اٹلی کے شہر روم میں 4 ڈرونز نے دیوار پر گریفٹی بنا ڈالی۔ دیوار پر پینٹنگ کا یہ مظاہرہ ایک پروجیکٹ کے تحت کیا گیا۔

    روم کی شہری انتظامیہ نے ’اربن فلائنگ اوپرا‘ نامی ایک پروجیکٹ کا اعلان کیا جس کے تحت شہریوں سے متاثر کن منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا، ایک ہزار افراد کے بھیجے گئے پروجیکٹ آئیڈیاز میں سے 100 کو قبول کیا گیا۔

    انہی میں سے ایک ڈرون کے ذریعے گریفٹی بنانے کا منصوبہ بھی تھا جسے روم کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی آف ٹیورن اور ٹیورن یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنایا۔

    دیوار پر پینٹنگ کے لیے ماہرین نے 4 ڈرونز کو کنٹرول کیا جو دیوار کو خوبصورت شاہکار میں تبدیل کرتے گئے۔ 3 مختلف مرحلوں میں دیوار پر شہر کی زندگی کی جھلک دکھائی گئی۔

    ماہرین کے مطابق اس کامیاب عملی مظاہرے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل میں ڈرونز رنگ و روغن اور پینٹنگ کا کام بھی کرسکیں گے۔

  • افریقی بچوں نے ذاتی کاموں میں مدد کے لیے روبوٹ تیار کرلیے

    افریقی بچوں نے ذاتی کاموں میں مدد کے لیے روبوٹ تیار کرلیے

    افریقی ملک نائجیریا میں 2 بچوں نے ایسے ذاتی روبوٹ تیار کیے ہیں جو گھر کے کاموں میں ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ دونوں بچوں کی عمریں 12 سال ہیں۔

    اوولولا اور فتحیہ عبدالہی نامی ان دو بچوں نے صرف ایک سال قبل ہی کوڈنگ کرنا سیکھی ہے اور اب ایک سال بعد وہ اس قابل ہوگئے ہیں کہ اپنے ذاتی کاموں کی مدد کے لیے روبوٹ تیار کرسکیں۔

    اوولولا کا روبوٹ چیزوں کو پہچان کر انہیں ایک سے دوسری جگہ پر منتقل کرسکتا ہے جبکہ فتحیہ کا روبوٹ کپڑے دھونے کے بعد انہیں تہہ کر کے رکھ سکتا ہے۔

    فتحیہ کہتی ہیں کپڑوں کو تہہ کرنا انہیں ایک مشکل عمل لگتا تھا چنانچہ انہوں نے ایسی مشین تیار کرنے کا سوچا جو ان کی مدد کرسکے۔ مستقبل میں وہ فوڈ سائنٹسٹ بننا چاہتی ہیں۔

    دوسری جانب اوولولا روبوٹک انجینئر بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ دونوں بچوں کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ مستقبل میں ضرور اپنی منزل حاصل کرلیں گے۔

  • بیک وقت ڈھیر ساری ڈیوائسز چارج کرنے والی میز

    بیک وقت ڈھیر ساری ڈیوائسز چارج کرنے والی میز

    دنیا بھر میں جیسے جیسے الیکٹرانک اشیا کا استعمال بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ان کی چارجنگ کے لیے بھی نئی نئی ایجادات متعارف کروائی جارہی ہیں، حال ہی میں ایسی میز پیش کی گئی ہے جو بیک وقت کئی ڈیوائسز چارج کرسکتی ہے۔

    اسپین کی ایک کمپنی کی جانب سے بنائی گئی میز جسے ’ای بورڈ‘ کا نام دیا گیا ہے بیک وقت 50 ڈیوائسز چارج کرسکتی ہے اور اس کے لیے اسے تاروں کی ضرورت بھی نہیں۔

    ای بورڈ ’چی‘ ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے جدید ماڈل کے موبائل فون اس سے تار کے بغیر چارج ہوسکتے ہیں۔

    ان میں آئی فون اور گیلکسی کے جدید ماڈلز، گوگل پکسل تھری اور تھری ایکس ایل، تقریباً تمام اسمارٹ واچز، ٹیبلٹس، ایئر بڈ اور ایئر فون شامل ہیں۔

    وائر لیس چارجنگ کی سہولت کے بغیر موبائل فونز کے لیے اس کے ساتھ ایڈاپٹرز بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یہ میز شمسی توانائی پر کام کرتی ہے اور مصنوعی روشنی کو بھی ذخیرہ کر کے اسے استعمال میں لاتی ہے۔

    کیا آپ اس میز کو اپنے گھر کی زینت بنانا چاہیں گے؟

  • انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈا ہماری روزمرہ کی غذا میں استعمال ہونے والا عام جز ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ انڈا ہماری کائنات کے کئی رازوں کا امین ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس کے کیلشیئم کاربونیٹ سے بنے چھلکے اور اس کے اندر کی دنیا کو غور سے دیکھیں تو اس کے اندر ہماری کائنات کی چھوٹی سی جھلک نظر آئے گی۔

    لوک کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں انڈے کا ذکر ثابت کرتا ہے کہ انڈا ہم سے بہت پہلے سے اس کائنات پرموجود ہے۔ قدیم مصری، یونانی، رومی اور انکا تہذیبوں سمیت مختلف مذاہب اور روایات میں انڈے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

    امریکا میں جنوبی کیلی فورنیا میں موجود ایک قبیلے کی دیو مالائی کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ جس طرح انڈا ٹوٹتا ہے بالکل ویسے ہی ہماری کائنات تخلیق ہوئی۔

    اسی طرح امریکی ریاست آئیووا کا ایک اور قبیلہ اوماہا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کروڑوں سال قبل ایک انڈا سمندروں میں پھینکا گیا جس کی حفاظت ایک سانپ کے پاس ہے، اس انڈے میں وہ تمام افراد آرام کر رہے ہیں جنہیں ابھی دنیا میں آنا ہے۔

    کیا ہماری کائنات بھی انڈے جیسی ہے؟

    سنہ 2006 میں ناسا کے ولکنسن سیٹلائٹ کی حاصل کردہ معلومات سے یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ کائنات (انڈے کی طرح) بیضوی شکل کی ہے۔ سائنسی طبقے نے آج تک اس مفروضے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

    تاہم اس سے قبل سولہویں صدی عیسوی میں جرمن ماہر فلکیات جوہانس کیپلر اس بات کی تصدیق کر چکا تھا کہ ہمارے سیارے سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گول دائرے میں نہیں بلکہ بیضوی دائرے میں گھومتے ہیں۔

    اسی طرح ماہرین کے مطابق انڈے کے خول اور چاند کی زمینی سطح میں بھی بے حد مماثلت ہے، دونوں کھردرے اور دانے دار ہیں۔

    انڈے کی بیضوی ساخت اپنے اندر یہ خصوصیت بھی رکھتی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک سرے پر بیرونی دباؤ ڈالا جائے تو وہ دباؤ تمام حصوں پر یکساں تقسیم ہوجاتا ہے جس کے بعد اندر موجود زندگی محفوظ رہتی ہے۔

    اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ہم ایک بڑے سے انڈے میں رہ رہے ہیں جو مسلسل پھیل رہا ہے، تاہم تمام تر ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ماہرین اس بات کا حتمی تعین نہیں کرسکے۔

  • بھارت کا آئندہ ماہ چاند پر خلائی مشن بھیجنے کا اعلان

    بھارت کا آئندہ ماہ چاند پر خلائی مشن بھیجنے کا اعلان

    بنگلور: بھارت نے آئندہ ماہ چاند پر خلائی تحقیقاتی مشن بھیجنے کا اعلان کردیا، اگر بھارت اس مشن میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ چاند پر پہنچنے والا چوتھا ملک ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کی چاند پر مشن بھیجنے کی یہ دوسری کوشش ہے۔ نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ اس بار اس کا خلائی مشن کامیاب ہوگا اور بھارتی قوم بھی امریکا، سابق سوویت یونین اور چین کے بعد چاند پر پہنچنے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

    بھارت نے اپنے مجوزہ خلائی مشن کو چاند رایان 2 کا نام دیا ہے۔ یہ مشن کھدائی کی مشین، لینڈنگ گاڑی اور موبائل گاڑی پر مشتمل ہوگی۔ خلائی گاڑی اور اس کے متعلقہ تمام اجزا بھارتی خلائی ایجنسی نے تیار کیے ہیں۔

    منصوبے کے مطابق چاند پر تحقیقاتی مشن 15 جولائی کو سریھا ریکوٹا مرکز سے بھیجا جائے گا۔ یہ مشن 6 ستمبر کو چاند کے قطب جنوبی میں اترے گا۔ چاند کی سطح پر اترنے کے بعد تحقیقاتی مشین کو زمین سے ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جائے گا۔

    بھارتی خلائی تحقیقاتی مرکز کے چیئرمین کے سیوان نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ چاند پر خلائی تحقیقاتی مشن بھیجنا ایک پیچیدہ مہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیقاتی مشن کا مقصد فضائی ٹیکنالوجی کو انسانی فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے۔

    یاد رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران بھارت نے خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی ترقی کی ہے۔ سنہ 2017 میں ایک ہی مہم کے دوران بھارت نے 104 مصنوعی سیارے فضا میں بھیجے تھے۔

    بھارت سنہ 2022 میں اپنے 3 سائنسدان بھی خلا میں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔