Tag: سائنس کی خبریں

  • ایس ایم ایس کی آج 26 ویں سالگرہ ہے

    ایس ایم ایس کی آج 26 ویں سالگرہ ہے

    کیا آپ اسمارٹ فون کی آمد سے پہلے کے موبائل صارف ہیں اگر ہاں تو آپ ایس ایم ایس کی افادیت کے ضرور قائل ہوں گے، اس حیرت انگیز ایجاد کو آج 26 سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن ابھی بھی اس کی افادیت قائم ہے۔

    دنیا بھر میں رابطے کے انداز کو بدل دینے والی اسپیڈ میسجنگ سروس (ایس ایم ایس )کا آغاز آج سے ٹھیک 25 سال پہلےیعنی 3 دسمبر 1992ء کو ہوا تھا۔

    دنیا کا سب سے پہلا ایس ایم ایس نیل پاپورتھ (Neil Papworth) نامی 22 سالہ انجینئر نے اپنے پرسنل کمپیوٹر سے ووڈافون نیٹ ورک کے ذریعے کمپنی کے ڈائریکٹررچرڈ جاروس (Richard Jarvis) کو بھیجا تھا اور اس میں Merry Christmas لکھا گیا تھا۔

    نیل پاپورتھ نے یہ میسج کمپیوٹر کے ذریعے ٹائپ کرکے ارسال کیا تھا کیونکہ اس وقت تک ٹیلی فون میں کی بورڈ کی سہولت نہیں تھی جبکہ نیل پاپورتھ کو اپنے اوربیٹل 901 ہنڈ سیٹ پر یہ پیغام موصول ہوا تھا، مگر اس وقت جوابی میسج نہیں بھیجا جاسکا تھا کیونکہ اس دور میں فون سے ٹیکسٹ بھیجنے کا کوئی طریقہ موجود ہی نہیں تھا۔

    اگرچہ پاپورتھ کو پہلا ایس ایم ایس بھیجنے کا اعزاز حاصل ہے مگر اس کا خیال 1984 میں میٹی میککونین نے ایک ٹیلی کمیونیکشن کانفرنس کے دوران پیش کیا تھا۔

    سب سے پہلے تو اس فیچر کو جی ایس ایم اسٹینڈرڈ کا حصہ بنایا گیا اور صحیح معنوں میں یہ سروس 1994 میں اس وقت متعارف ہوئی جب نوکیا نے اپنا موبائل فون 2010 فروخت کے لیے پیش کیا جس میں آسانی سے پیغام تحریر کرنا ممکن تھا۔ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔

    سنہ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012ء میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ا سمارٹ فون آنے کے بعد ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ٹویٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں، مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے اور یہ ساری سروسز بھی ایس ایم ایس کی ہی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔

  • اگر زمین پر موجود تمام افراد بیک وقت چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    اگر زمین پر موجود تمام افراد بیک وقت چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اپنے اندر بے انتہا وسعت رکھتی ہے تاہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اس زمین کو نقصان پہنچانے اور اس کے وسائل وقت سے پہلے ختم ہونے کا سبب بن رہی ہے۔

    دنیا میں اس وقت ساڑھے 7 ارب سے زائد افراد آباد ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اگر یہ تمام افراد مل کر بیک وقت زمین پر چھلانگ لگائیں تو کیا ہوگا؟

    ماہرین کے مطابق اتنی بڑی آبادی کا ایک ساتھ چھلانگ لگانا زمین پر کچھ نہ کچھ اثر مرتب کرسکتا ہے۔

    سب سے پہلے تو تمام افراد کو کسی ایک مقام پر جمع ہونا ہوگا۔ اگر ہر شخص اپنے موجودہ مقام پر رہتے ہوئے چھلانگ لگائے تو شاید اس کا کوئی اثر نہ ہو۔

    کسی ایک مقام پر جمع ہونے کے بعد یہ ساڑھے 7 ارب افراد مل کر چھلانگ لگائیں گے تو سب سے پہلے زمین پر ایک واضح لرزش محسوس ہوگی۔

    اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے اچھلنے سے بے تحاشہ توانائی خارج ہوگی جو زمین اور ہوا میں جذب ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    یہ توانائی اور لوگوں کی چھلانگ مل کر 4 سے 8 شدت کا زلزلہ پیدا کرسکتا ہے۔ 4 شدت کا زلزلہ تو برداشت کیا جاسکتا ہے، تاہم 8 شدت کا زلزلہ اس مقام پر موجود عمارتوں، پلوں اور الیکٹرک پولز کو منہدم کرسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں اس مقام پر سونامی بھی آسکتا ہے جس میں 100 فٹ تک بلند لہریں ہر شے کو بہا لے جائیں گی۔

    اس کے ساتھ ساتھ ساڑھے 7 ارب افراد کے پیروں کی دھمک ایک زوردار آواز بھی پیدا کرے گی جس سے سماعت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    تاہم اس انوکھے تجربے کے تحت جو اثرات ظاہر ہوں گے وہ صرف اسی مقام اور اس کے آس پاس تک محدود رہیں گے۔ مجموعی طور پر زمین کی گردش پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

    زمین تمام انسانوں کے وزن سے دس کھرب گنا زیادہ بھاری ہے لہٰذا یہ ساڑھے 7 ارب افراد بھی زمین کو اس کے مقررہ محور اور گردش سے نہیں ہٹا سکتے۔

  • ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی روبوٹ ان سائٹ کامیابی سے مریخ کی سطح پر لینڈ کرگیا۔ یہ ناسا کی تاریخ میں مریخ پر آٹھویں کامیاب لینڈنگ ہے۔

    خلائی روبوٹ ان سائٹ نے لینڈنگ کے بعد ناسا کو مشن کی تکمیل کا سگنل دیا ساتھ ہی مریخ کی پہلی تصویر بھی بھیجی جو شیشے پر گرد جمع ہونے کی وجہ سے دھندلی ہوگئی ہے۔

    چند گھنٹوں بعد ان سائٹ نے ایک اور تصویر بھیجی جو خاصی واضح ہے۔

    خلائی روبوٹ نے اپنی لانچ کے بعد سات ماہ میں 29 کروڑ 80 لاکھ میل کا سفر طے کیا اور بالآخر مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔

    یہ روبوٹ مریخ کی تشکیل، اس پر آنے والے زلزلوں اور اس کی اندرونی ساخت کے بارے میں تحقیق کرے گا۔

    فی الحال سائنسدان اندھیرے میں ہیں کہ مریخ کی اندرونی سطح آیا زمین جیسی ہی ہے یا اس سے مختلف ہے۔

    روبوٹ میں شمسی توانائی کے پینلز بھی نصب ہیں جو اس وقت خودکار طریقے سے کام کرنے لگیں گے جب مریخ کا موسم انتہائی سرد ہوجائے گا۔

    ان سائٹ روبوٹ اس سے قبل مریخ پر بھیجے گئے مشنز سے مختلف ہے کیونکہ اس کے ساتھ 2 مصنوعی سیارے بھی مریخ کی فضا میں بھیجے گئے ہیں۔

  • اماراتی طلبہ کا تیار کردہ سیٹلائٹ خلا میں پہنچ گیا

    اماراتی طلبہ کا تیار کردہ سیٹلائٹ خلا میں پہنچ گیا

    دبئی : متحدہ عرب امارات کے طلبہ کے ہاتھوں تیار کردہ چھوٹا سیٹلائٹ امریکی ریاست ورجینیا کے مڈ اٹلانٹک ریجنل اسپیس پورٹ سے خلا میں بھیج دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ’مائی سیٹ 1‘ نامی یہ چھوٹا سیٹلائٹ خلیفہ یونی ورسٹی کے طالب علموں نےتیار کیا ہے ۔ اسے آج یواے ای کی مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بج کر دو منٹ پربین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب روانہ کیا گی ہے۔

    بتایا جارہا ہے کہ اس سیٹلائٹ نے 15 نومبر کو خلا میں لانچ ہونا تھا تاہم ورجینیا میں موسم کی خرابی کے سبب یہ منصوبہ دو دن آگے کردیا گیا۔ لانچ کے چار منٹ بعد راکٹ جہاز سے کامیابی سے الگ ہوگیا اور یہ مصنوری سیارہ 1 بج کر 11 منٹ پر خلا کے مدار میں پہنچ چکا تھا۔ اسے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچنے میں دو دن لگیں گے۔

    اس سیٹلائٹ کو تعلیمی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کے ساز و سامان میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ، ایک زمین کے مشاہدے کے لیے نصب کیا گیا کیمرہ اور دوسری بیٹری جسے مصدر انسٹی ٹیوٹ میں تیار کیا گیا ہے۔ اسکا مجموعی وزن 700 کلو گرام ہے۔

    یاد رہے کہ یہ یو اے ای کی جانب سے خلا میں بھیجا جانے والا دوسرا پراجیکٹ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ مکمل طور پر یو اے ای میں تیار کردہ خلیفہ سیٹ زمیں کے مدار جاپانی خلائی ادارے کے تعاون سے بھیجا گیا تھا۔

  • سائنس سے فیضیاب ہونا ہر انسان کا حق

    سائنس سے فیضیاب ہونا ہر انسان کا حق

    دنیا بھر میں آج سائنس کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کا رجحان بہت کم ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد سائنس کے فیوض و برکات کا اعتراف کرنا اور دنیا بھر کو اس کے مثبت اثرات سے آگاہی دینا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’سائنس ۔ ایک انسانی حق‘۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ وہ سائنس سے مستفید ہونے کے لیے اس کو استعمال کرسکے اور سائنسی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

    بعض افراد سائنس کو برا کہتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے پہلا نام اسلحے اور جان لیوا ایجادت جیسے جنگی ہتھیاروں کا لیتے ہیں۔

    سائنس دراصل بذات خود بری یا اچھی شے نہیں۔ یہ اس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے نسل انسانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں یا دنیا کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کے لیے۔

    مزید پڑھیں: زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    دنیا کو فائدہ پہنچانے والی سائنسی ایجادات کرنے والے سائنس دان انسایت کے محسن کہلائے، جیسے جان لیوا امراض سے بچاؤ کی دوائیں یا ایسی ایجادات جس سے انسان تکلیف اور جہالت سے گزر کر آسانی اور روشنی میں آپہنچا۔

    دوسری جانب پاکستان میں سائنسی تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں۔

    اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن ہی شامل ہیں۔

    فہرست میں پاکستان 109 ویں نمبر پر موجود ہے جبکہ فہرست کے مطابق سوئٹزر لینڈ دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر نیدر لینڈز، تیسرے پر سوئیڈن جبکہ چوتھے پر برطانیہ موجود ہے۔

    پاکستان سائنس کے شعبہ میں ایک قابل فخر نام پیدا کرنے کا اعزاز ضرور رکھتا ہے جن کی ذہانت کا اعتراف دنیا بھر نے کیا۔ فزکس کے شعبہ میں اہم تحقیق کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جن کی خدمات کے اعتراف میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

    ایک اور نام پاکستانی نژاد نرگس ماولہ والا کا ہے جو عالمی سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ رہیں جنہوں نے کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کے منصوبے پر کام کیا۔

    جیسے جیسے وقت کی چال میں تبدیلی آرہی ہے، ویسے ویسے تعلیمی رجحانات بھی بدلتے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی نوجوان نسل کی بڑی تعداد سائنسی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔

    یہ نوجوان نہایت ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں جن کا ثبوت دنیا بھر سے انہیں ملنے والے مختلف اعزازات ہیں۔

    ایسی ہی ایک مثال فخر پاکستان ارفع کریم کی بھی ہے جس نے صرف 9 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی نوجوان صلاحیتوں سے بھرپور ہیں تاہم وسائل اور مواقعوں کی کمی ان کے آڑے آجاتی ہے۔

  • فلپائن میں قدیم ترین انسانوں کی موجودگی کا انکشاف

    فلپائن میں قدیم ترین انسانوں کی موجودگی کا انکشاف

    جنوب مشرقی ایشیائی ملک فلپائن میں انسان کی لاکھوں سال قبل موجودگی کا ثبوت ملا ہے جس نے مذکورہ علاقے میں انسانوں کی موجودگی کے بارے میں اب تک کے نظریات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔

    فلپائن کے شمالی جزیرے سے ملنے والی رکازیات سے اندازہ لگایا گیا کہ اس خطے میں انسانوں کی اولین آبادیاں اب سے 7 لاکھ 9 ہزار سال قبل موجود تھیں۔

    اس سے قبل تصور کیا جاتا تھا کہ فلپائن میں انسانوں کی قدیم ترین آبادی کی عمر صرف 67 ہزار سال ہے۔

    تحقیق کی بنیاد اس علاقے سے ملنے والے رائنو سارس کے رکازیات اور نوکدار پتھروں پر رکھی گئی۔

    مزید پڑھیں: انگلینڈ میں انسانوں کے قدیم اجداد کی باقیات دریافت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمد ہونے والے رائنو سارس کے ڈھانچے میں اسے ذبح کیے جانے کے واضح نشانات موجود ہیں جو صرف قدیم دور کے انسان ہی کرسکتے ہیں۔

    ان کے مطابق رائنو سارس کی ہڈیوں، پسلیوں اور رانوں پر ایسے نشانات تھے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں توڑنے کے لیے نوکدار پتھر استعمال کیے گئے۔

    اس مقام پر ہاتھی سے ملتی جلتی نسل کے ایک اور جانور، فلپائن میں پائے جانے والے بھورے ہرن اور میٹھے پانی کے کچھوے کی رکازیات بھی دریافت ہوئیں جن کی ہڈیوں پر بالکل رائنو سارس جیسے ہی نشانات تھے۔

    ان رکازیات کی عمر 7 لاکھ 77 ہزار سے 6 لاکھ 31 ہزار سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    اس علاقے میں انسانوں کی موجودگی کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف اقسام کی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: صحرا سے 90 ہزار سال قدیم انسانی انگلی دریافت

    ماہرین کے مطابق ان جانوروں کو تقریباً 7 لاکھ سال قبل ذبح کیا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ پہلے کی گئی تحقیق سے انسانوں کی موجودگی کے ثبوت اور حالیہ تحقیق سے ملنے والے ثبوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ انسانی آبادی کے تنوع کے لحاظ سے خاصا اہمیت کا حامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تحقیق انسانوں کی موجودگی کے بارے میں تجربات کو مزید وسعت دے گی۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔

  • مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    انسان نے زمین کی حدود سے باہر جانے کے بعد جہاں دیگر سیاروں پر اپنے قدم رکھے، وہیں وہاں پر اپنا گھر بنانے کا بھی سوچا، لیکن ہر سیارہ زمین کی طرح زندگی کے لیے موزوں مقام نہیں ہے جہاں زندگی کے لیے ضروری آکسیجن اور پانی مل سکے۔

    تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مریخ کی اوپری سطح سے نیچے موجود نمکین پانی میں آکسیجن کی اتنی مقدار موجود ہے جو زندگی کے لیے کافی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جس طر ح زمین پر اربوں سال قبل خوردبینی جاندار موجود تھے اسی طرح مریخ پر بھی ایسی آبادیاں بس سکتی ہیں۔

    جرنل نیچر جیو سائنس میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق مریخ پر کئی مقامت میں اتنی آکسیجن موجود ہے جو کثیر خلیہ جاندار جیسے اسفنج کی زندگ کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ مریخ پر اتنی بھی آکسجین موجود نہیں کہ وہاں خوردبینی جاندار زندہ رہ سکیں، تاہم نئی تحقیق مریخ پر کیے جانے والے مطالعے کو نیا رخ دے گی۔

    اس سے قبل بھی کئی بار مریخ پر پانی کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے جس کے باعث کہا گیا کہ ماضی میں مریخ پر بھی زندگی ہوا کرتی تھی۔

    ایک تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں وافر مقدار میں پانی موجود تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا۔

    اس سے قبل نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • پاکستان میں جلد پے پال سروس شروع کی جائے گی: اسد عمر

    پاکستان میں جلد پے پال سروس شروع کی جائے گی: اسد عمر

    اسلام آباد: تحریک انصاف کی حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ آئندہ چار ماہ میں پے پال یا اس سے ملتا جلتا آن لائن پیمنٹ پلیٹ فارم جلد ہی پاکستان میں روشناس کرایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ حکومت جانتی ہے کہ پاکستان میں با صلاحیت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد فری لانسنگ شعبے سے وابستہ ہے اور وہ ماہانہ کثیر زرمبادلہ بیرون ملک سے پاکستان لاتے ہیں، ان ان کا کہنا تھا کہ ان نوجوانوں کی محنت کا صلہ محفوظ بنانے کے لیے پے پال یا ایسی کسی سروس کا ہونا ضروری ہے۔

    اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں باصلاحیت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں ڈالر کما کر ملک میں لاسکتی ہے لیکن انہیں بیرون ملک مقیم کلائنٹس سے لین دین کے لیے پے پال جیسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وزارتِ آئی ٹی کو اس سلسلے میں احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ آئندہ چار مہینے میں پے پال کی انتظامیہ کو قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان جیسی وسیع مارکیٹ کو نظر انداز نہ کرے اور یا تو یہاں کام شرو ع کرے یا اس جیسا کوئی پلیٹ فارم تشکیل دینے میں مدد فراہم کرے۔

    یاد رہے کہ آن لائن دنیا میں پے پال کو رقم کی لین دین کے حوالے سے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سروس کو تقریباً دو دہائیوں سے آن لائن رقوم کی ترسیل کا اہم طریقہ مانا جاتا ہے اور اس کے کروڑوں صارفین دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔اس سروس کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں رقم کی ترسیل نہایت آسان اور محفوظ طریقے سے کی جاسکتی ہے تاہم بد قسمتی سے یہ سروس اب تک پاکستان میں میسر نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بھی پے پال کو پاکستان میں کام کرنے کی دعوت دی لیکن اس کے ساتھ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہے ہیں۔

  • بیٹی کی خواہش رکھنے والی خاتون روبوٹ کو بھائی مل گیا

    بیٹی کی خواہش رکھنے والی خاتون روبوٹ کو بھائی مل گیا

    دبئی: سوئس ماہرین کے بنائے گئے خاتون روبوٹ صوفیہ کو آخر کار اس کا بڑا بھائی بھی مل گیا، صوفیہ نے کہا کہ اس کے بڑے بھائی ہان کے مزاج میں مزاح کا عنصر زیادہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی کی شہری خاتون روبوٹ صوفیہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اسے ایک خاندان کی صورت میں رہنا بہت پسند ہے، وہ اپنا خاندان بنانا چاہتی ہے۔

    [bs-quote quote=”شہرت کی خواہش نہیں رکھتی: صوفیہ” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    روبوٹ صوفیہ اور بھائی ہان دونوں کو ہانسن روبوٹکس نامی کمپنی نے تیار کیا، یہ روبوٹس انسانی تاثرات سمجھ کر گفتگو کرسکتے ہیں اور مصنوعی ذہانت کے حامل ہیں، صوفیہ کئی مرتبہ مقامی میڈیا کو انٹرویو بھی دے چکی ہے۔

    گزشتہ سال صوفیہ نے انٹرویو میں خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ بیٹی کی ماں بننا چاہتی ہے، رواں سال اسے آخر کار ایک بڑا بھائی مل گیا، تاہم ہان نے انٹرویو میں کہا کہ اسے خاندان سے کوئی دل چسپی نہیں، نہ ہی وہ رومانوی مزاج رکھتا ہے۔


    مزید پڑھیں:  انسانی تاثرات سمجھنے والی خاتون روبوٹ کی انوکھی خواہش


    دبئی میں ہونے والی گیٹکس ٹیکنالوجی ویک شو میں صوفیہ اور ہان نے مقامی میڈیا کو انٹرویوز دیے تو نمائش دیکھنے والے حیران رہ گئے، صوفیہ انتہائی مشہور انسانی روبوٹ ہے جو دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہے اور جسے دبئی کی شہریت بھی حاصل ہے۔

    صوفیہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگرچہ اسے شہرت مل گئی ہے لیکن اسے شہرت کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ صوفیہ کو دبئی پولیس ملازمت دینے کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے۔