Tag: سائنس کی خبریں

  • خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    خلا سے زمین کا خوبصورت نظارہ

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا مرکز (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔

    یہ اسٹیشن امریکا، روس، یورپ، جاپان اور کینیڈا کے خلائی مراکز کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کیا گیا تھا اور اس کا مقصد زمین سے باہر خلا میں مختلف تجربات اور مشاہدات کرنا ہے۔

    مزید پڑھیں: بین الاقوامی خلائی مرکز کب تک کارآمد رہے گا؟

    یہ اسٹیشن دوسرے سیاروں کی طرف جانے والی مہمات اور خلابازوں سے بھی رابطے میں رہتا ہے جبکہ خلا میں ہونے والی تبدیلیوں سے مسلسل سائنس دانوں کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں اس اسٹیشن سے زمین کیسی دکھائی دیتی ہے؟ تو چلیں پھر آج وہاں سے زمین کی سیر کرتے ہیں۔

  • میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    ایک طویل عرصے سے اس بات پر بحث جاری ہے کہ سائنس کے شعبے میں خواتین کی تعداد کم کیوں ہے؟ اس شعبے میں مہارت رکھنے والی خواتین یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین سائنس سے دور ہیں۔

    مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس کی اہلیہ میلنڈا گیٹس اس بارے میں کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔

    میلنڈا گیٹس بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں جو دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔

    وہ خود کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مائیکرو سافٹ کمپنی میں ایک دہائی تک کام کیا ہے۔

    ایک انٹرویو میں میلنڈا نے بتایا کہ انہوں نے وکالت اور طب کے شعبے میں بے تحاشہ خواتین کو دیکھا ہے، لیکن ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھامیٹکس کے شعبوں میں صورتحال مختلف ہے۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔

    میلنڈا اب فلاحی کاموں کے ساتھ سائنس کے شعبوں میں صنفی برابری کے فروغ کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ہمیں سائنس کی خواتین پروفیسرز کی بھی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں سائنس پڑھنے کی طرف راغب ہوں، سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی شمولیت بھی ازحد ضروری ہے‘۔

  • کپڑے دھونے کے بعد تہہ کرنے میں بہت وقت لگتا ہے؟

    کپڑے دھونے کے بعد تہہ کرنے میں بہت وقت لگتا ہے؟

    ایک خاتون خانہ کو اندازہ ہے کہ کپڑے دھونے کے بعد انہیں تہہ کر کے واپس رکھنا کتنا وقت طلب کام ہے، خصوصاً اگر گھر میں افراد زیادہ ہوں تو یہ کام کئی گھنٹوں پر محیط ہوجاتا ہے۔

    یہی نہیں کپڑے عموماً ہفتے میں ایک یا 2 بار دھوئے جاتے ہیں لہٰذا یہ کام بھی اتنی ہی بار کرنا پڑتا ہے۔

    اگر کپڑوں کو تہہ کر کے نہ رکھا جائے تو بکھرے کپڑوں کا ایک ڈھیر گھر کے کسی کونے میں پڑا آپ کی سلیقہ مندی کو منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔

    تاہم اب خواتین کے لیے ایسی مشین ایجاد کرلی گئی ہے جو دھلے ہوئے کپڑوں کو تہہ بھی کردے گی۔

    فولڈی میٹ نامی یہ مشین خواتین کا وقت بچانے کے لیے بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ بس آپ کو ایک کے بعد ایک کر کے اس میں کپڑے رکھتے جانے ہوں گے جو تہہ ہوکر باہر آتے جائیں گے۔

    مائیکرو ویو اوون کی شکل کی یہ مشین آپ کی زندگی کو آسان اور گھر کو سمٹا ہوا بنا سکتی ہے۔

  • نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    دنیا کا سب سے معتبر اعزاز نوبل انعام اب تک کئی خواتین کو مل چکا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام پہلی بار جس خوش نصیب خاتون کے حصے میں آیا وہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس داں میری کیوری تھیں۔ وہی میری کیوری جنہوں نے ریڈیم کی دریافت کی تھی۔

    سنہ 1867 میں پیدا ہونے والی میری کا تعلق وارسا کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ ذہین تھی اور اس نے بہت کم عمری میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔

    جب اس کی والدہ اور بڑی بہن کا انتقال ہوا تو اسے مجبوراً گھر چلانے کے لیے ملازمت کرنی پڑی۔ اس کی پہلی ملازمت ایک معلمہ کی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب خود اس کی تعلیم نامکمل تھی۔

    اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا تاہم پولینڈ کی یونیورسٹیوں میں اس وقت خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔ میری نے اپنے طور پر طبیعات اور ریاضی کی کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    وہ سائنس کے شعبے میں آگے جانا چاہتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سائنسی ایجادات اور دریافتیں برے کاموں سے زیادہ بہتری کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    6 سال تک ملازمت کرنے کے بعد وہ اتنی رقم جمع کرسکی کہ فرانس جاسکے اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرسکے۔

    فرانس آنے کے بعد بھی میری نے اپنی زندگی کا زیادہ تر عرصہ نہایت غربت میں گزارا۔ وہ طویل وقت تک سخت محنت کرتی رہتی جبکہ بعض اوقات وہ پورا دن ایک ڈبل روٹی، پنیر اور ایک کپ چائے پر گزارا کرتی۔

    یونیورسٹی میں اس کے تمام ہم جماعت مرد تھے جو اکثر مشکل تھیوریز سمجھنے کے لیے اس کی مدد لیا کرتے تھے۔ میری نے طبیعات کی ڈگری حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی ایک فرانسیسی طبیعات داں سے شادی کرلی۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    یہ وہ دور تھا جب ایکسرے نیا نیا دریافت ہوا تھا اور میری اسے سمجھنے اور اس پر کام کرنے کے لیے نہایت پرجوش تھی۔ میری ہی تھی جس نے تیز (تابکار) شعاعوں کی دریافت کی اور انہیں ریڈیو ایکٹیوٹی کا نام دیا۔

    یہ بہت بڑی دریافت تھی جو اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کی تھی۔ اس دریافت کو طبیعات میں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا لیکن یہ نامزدگی صرف میری کے شوہر کے لیے تھی۔

    شدید صنفی امتیاز کے اس دور میں لوگ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی عورت سائنس پر بھی کام کرسکتی ہے؟

    اس کے شوہر کے اصرار پر بالآخر اس کی محنت کو بھی تسلیم کیا گیا اور دونوں کو انعام کے لیے نامزد کیا گیا، بعد ازاں میری نے اپنے شوہر کے ساتھ نوبل انعام جیت لیا اور اس کے ساتھ ہی وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

    اس وقت آئن اسٹائن نے میری کی ہمت بندھائی اور تمام تنقید اور طنز کو نظر انداز کرنے کو کہا۔ آئن اسٹائن نے میری کو نصیحت کی، ’کبھی بھی حالات یا لوگوں کی وجہ سے اپنی ذات کو کمتر مت جانو‘۔

    یہ وہ وقت تھا جب لیبارٹریز میں صرف مرد ہوا کرتے تھے اور میری ان میں واحد خاتون تھیں، لیکن وہ ان کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔

    میری نے بعد ازاں مزید 2 عناصر پولونیم اور ریڈیم دریافت کیے۔ اس دریافت پر اسے ایک بار پھر نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا، اور اس بار یہ انعام کیمیا کے شعبے میں تھا۔

    جنگ عظیم اول کے دوران میری کو ایک تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ ایکسریز سے زخمی فوجیوں کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے تاہم ایکسرے مشین اس وقت بہت مہنگی تھیں۔

    اس موقع پر بھی میری نے ہمت نہیں ہاری اور ایک ہلکی پھلکی ایکسرے مشین ایجاد کر ڈالی جو ٹرک کے ذریعے اسپتال تک پہنچائی جاسکتی تھی۔ اس مشین کی بدولت 10 لاکھ فوجیوں کی جانیں بچائی گئیں۔

    ساری زندگی تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے والی میری بالآخر انہی شعاعوں کا شکار ہوگئی، اس کا انتقال 4 جولائی 1934 کو ہوا۔

    میری کیوری نہ صرف نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں بلکہ وہ اب تک واحد خاتون ہیں جنہیں 2 مختلف شعبوں میں نوبل انعام ملا۔ ان کی دریافتوں نے جدید دور کی طبعیات اور کیمیائی ایجادات میں اہم کردار ادا کیا۔

    وہ کہتی تھیں، ’ہمیں یقین ہونا چاہیئے کہ خدا نے ہمیں کسی نے کسی صلاحیت کے تحفے سے نواز ہے۔ ہمیں بس اس تحفے کو پہچاننا ہے اور اس مزید مہمیز کرنا ہے‘۔

  • یوسین بولٹ نے ’خلائی دوڑ‘ میں بھی سب کو پیچھے چھوڑ دیا

    یوسین بولٹ نے ’خلائی دوڑ‘ میں بھی سب کو پیچھے چھوڑ دیا

    دنیا کے تیز ترین انسان یوسین بولٹ اگر خلا میں دوڑیں گے تب بھی سب کو پیچھے چھوڑ دیں گے جس کا ثبوت انہوں نے بغیر کشش ثقل والے جہاز میں ہونے والی دوڑ میں فاتح بن کر دے دیا۔

    کینیا سے تعلق رکھنے والے معروف ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے زیرو گریوٹی جہاز کا سفر کیا۔ یہ جہاز سابق خلا بازوں کو ایک بار پھر خلائی سفر جیسا موقع فراہم کرتا ہے۔

    اس جہاز میں ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جس سے کشش ثقل صفر ہوجاتی ہے اور مسافر خلا میں اڑنے لگتے ہیں۔ ایسی ہی ایک فلائٹ میں یوسین بولٹ نے بھی سفر کیا اور وہاں بھی دوڑ لگائی۔

    مزید پڑھیں: یوسین بولٹ کن جانوروں کو دوڑ میں شکست دے سکتے ہیں؟

    زمین کی طرح اس دوڑ میں بھی بولٹ فاتح ٹھہرے اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    گو کہ اب بولٹ ریٹائر ہوچکے ہیں تاہم ان کے قدموں کی تیزی اب بھی برقرار ہے اور وہ انسانوں کے ساتھ کئی جانوروں کو بھی دوڑ میں ہرا سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ بے شمار ریکارڈز رکھنے والے بولٹ کی اوسط رفتار 23 میل فی گھنٹہ جبکہ زیادہ سے زیادہ رفتار 27 میل فی گھنٹہ ہے۔

  • خلا میں ایسی دھات دریافت جس کے سامنے اسٹیل موم ہے

    خلا میں ایسی دھات دریافت جس کے سامنے اسٹیل موم ہے

    خلا میں تیرتے ایک نیوٹران ستارے پر ہونے والی تحقیق میں ایک ایسی دھات کی موجودگی کا انکشا ف ہوا ہے جو کہ زمین پر استعمال کی جانے والی مضبوط ترین دھات اسٹیل سے دس ارب گنا مضبوطی کی حامل ہے۔

    یہ تحقیق انڈیانہ یونی ورسٹی آف بلومنگٹن میں انجام دی گئی ہے ، تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہیں کہ نیوٹران تیاروں پر پائی جانے والی ایک دھات جسے نیوکلئیر پاستا کا نام دیا گیا ہے اس قد ر ٹھوس ہے کہ اس توڑنے کے لیےدرکار قوت اسٹیل کو توڑنے کے لیے درکار قوت سے دس ارب گنا زیادہ ہے۔

    تحقیق میں شریک مصنف اور ماہرِ فزکس چارلس ہوروٹز کا کہنا ہے کہ سننے میں یہ پاگل پن کی حد تک بڑا لگتا ہے لیکن دریافت کا گیا مادہ اس قدر ٹھوس ہے کہ زمین پر موجود کسی شے سے اس کا موازنہ ممکن نہیں ، اور نہ ہی یہاں کسی لیبارٹری میں اس کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ نیوٹران ستارے اس وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی مردہ پڑتا ستارہ ایک دھماکے سے پھٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ وافر مقدار میں نیوٹران سے بھرپور غبار پید ا کرتا ہے ، اس غبار پر انتہائی طاقتور کششِ ثقل کی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں ، جس کے سبب اس غبار میں موجود مٹیریل انتہائی غیر معمولی خصوصیات رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ دھات نیوٹران اسٹار کی سطح سے ایک کلومیٹر نیچے ہے جہاں ایٹمی نیوکلیائی مادے اس حد تک دباؤ کا شکار ہیں کہ وہ نیوٹران اور پروٹان کے اس مکسچر کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔ تاحال یہ ساری تحقیق نظریے کی بنیاد پر ہے اور کسی بھی سائنسی لیبارٹری میں اس کا تجزیہ ممکن نہیں ہے۔

    یہ مادہ ستارے کی تہہ میں مختلف اشکا ل میں موجود ہے اور اس کی نوڈلز سے ملتی جلدی شکل کے سبب اسے ’نیوٹران پاستا ‘کا نام دیا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ستارے کی تہہ میں جیسے جیسے اندر جاتے جائیں گے یہ مادہ اور سخت اور ٹھوس ہوتا جائے گا۔

  • گھاس کھانے والی سبزی خور شارک

    گھاس کھانے والی سبزی خور شارک

    گہرے سمندروں میں رہنے والی شارک اپنے جان لیوا اور خونی حملوں کی وجہ سے مشہور ہے اور شارک کا نام سنتے ہی ذہن میں بڑے بڑے جبڑے اور خون ابھر آتا ہے۔

    تاہم اب ماہرین نے ایسی شارک بھی شناخت کرلی ہے جو گوشت کے ساتھ ساتھ گھاس بھی بہت شوق سے کھاتی ہے۔

    اس قسم کی شارک گلف میکسیکو اور بحر اوقیانوس کے آس پاس دیکھی گئی تھیں تاہم اب ماہرین نے ان پر تحقیق کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے مزید معلومات فراہم کی ہیں۔

    شارک کی یہ قسم بونٹ ہیڈ شارک کہلائی جاتی ہے اور اس کی 60 فیصد خوراک سمندری گھاس پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ یہ کیکڑے، مچھلیاں، گھونگھے اور مشروم بھی کھا لیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: شارک جو 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے

    سائنس دانوں نے جب اس شارک کی جسمانی ساخت کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ ان شارکس میں ایسے دانت موجود نہیں جو گھاس یا پودوں کو کاٹ سکیں، تاہم یہ گھاس معدے میں جا کر جسمانی ایسڈ کے ذریعے جزو بدن بن جاتی ہے۔

    یہ گھاس نہ صرف ان شارکس کی غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ ان کے وزن میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق گھاس میں موجود اجزا شارک کے لیے بہترین ہیں۔

    ماہرین کے مطابق انہیں شارک کی اس نسل پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • ہماری زمین کی گہرائی میں کیا ہے؟

    ہماری زمین کی گہرائی میں کیا ہے؟

    کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری زمین جس پر ہم رہتے ہیں، اپنے رہنے کے لیے گھر بناتے ہیں، اپنے اندر کیا رکھتی ہے؟

    اگر زمین کو کھودا جائے تو ہم کتنی گہرائی میں جاسکتے ہیں؟ اور اس گہرائی میں ہمیں کیا ملے گا؟

    آئیں آج ان تمام سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    زمین کی اب تک کی معلوم گہرائی روس کے جزیرہ نما حصہ (پینسولا) کولا میں موجود ہے جہاں ایک 7.5 میل گہرا گڑھا موجود ہے جسے کولا بورہول کہا جاتا ہے۔

    یہ گڑھا سمندر کی اب تک کی معلوم گہرائی سے بھی زیادہ گہرا ہے۔

    زمین کی گہرائی کو جانچنے کے لیے اس گڑھے کی کھدائی سنہ 1970 میں سوویت یونین کے دور میں شروع کی گئی۔

    اس کھدائی سے اب تک 3 اہم دریافتیں کی جاچکی ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں وہ دریافتیں کیا ہیں۔


    ایک پوری تہہ غائب ہوگئی

    زمین کے اندر موجود پتھریلی تہہ میں بسالٹ نامی تہہ موجود نہیں۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین کی تہہ میں بلند درجہ حرارت کے باعث سخت مادے مائع حالت میں موجود ہیں اور انہی میں سے ایک تہہ بسالٹ کی ہے۔

    تاہم اس کھدائی میں ماہرین کو بسالٹ نہیں ملا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس تہہ کا کوئی وجود نہیں، ممکن ہے یہ تہہ مزید گہرائی میں واقع ہو جہاں ابھی تک انسان نہ پہنچ سکا ہو۔


    گہرائی میں پانی

    پانی عموماً زمین کے اندر اوپر ہی ہوتا ہے اور تھوڑی سی کھدائی کے بعد نکل آتا ہے جس کا ثبوت جا بجا کھدے کنویں اور دیہی علاقوں میں نصب ہینڈ پمپس ہیں جو زمین سے پانی نکال کر زمین کے اوپر آباد افراد کی ضروریات پورا کرتے ہیں۔

    تاہم سائنس دانوں نے اس گہرائی سے بہت دور 4.3 میل نیچے بھی پانی دریافت کیا۔ اس قدر گہرائی میں پانی کی موجودگی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔


    سب سے حیرت انگیز دریافت

    کھدائی کے اس عمل کے دوران سب سے حیرت انگیز دریافت زمین کے اندر اتھاہ گہرائی میں خوردبینی رکازیات (فاسلز) کی شکل میں زندگی کی موجودگی تھی۔

    یہ فاسلز جن پتھروں میں دریافت کیے گئے ان پتھروں کی عمر 2 ارب سال تھی۔ ان فاسلز میں خورد بینی جانداروں کی 35 انواع دریافت کی گئیں۔


    کھدائی کیوں روکی گئی؟

    انسانی عقل کو دنگ کردینے والے انکشافات پر مبنی اس کھدائی کو سنہ 1994 میں کئی وجوہات کے باعث روک دیا گیا۔

    پہلی وجہ تو زمین کی تہہ کا ناقابل برداشت درجہ حرارت تھا جو 180 سینٹی گریڈ پر تھا۔

    اس کے علاوہ جیسے جیسے کھدائی ہوتی گئی، ویسے ویسے زمین کے اندر پتھروں کی کثافت یا مضبوطی میں اضافہ ہوتا گیا۔ کھدائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مزید گہرائی میں ڈرلنگ کرنا کسی پلاسٹک سے ڈرل کرنے جیسا ہوگیا تھا۔

    ایک اور وجہ عوام میں عجیب و غریب خیالات کا پھیل جانا بھی تھا۔

    کھدائی کے دوران جب پانی کی موجودگی سامنے آئی تو لوگوں نے اسے حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں آنے والے عظیم سیلاب سے جوڑنا شروع کردیا جس کے بعد زمین پر دوبارہ زندگی کا آغاز ہوا تھا۔

    لوگوں کا ماننا تھا کہ اس عظیم سیلاب کے بعد جب پانی اترا تو وہ زیر زمین گڑھوں اور نالوں میں پھیل گیا اور اب اس قدر گہرائی میں پانی کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ یہ طوفان اور عظیم سیلاب کوئی دیو مالائی داستان نہیں بلکہ حقیقت تھی۔


    خوفزدہ کردینے والا مفروضہ

    کھدائی کے اس عمل کے دوران ماہرین کے دلوں میں بھی ایک مفروضہ بیٹھ گیا جو کافی انوکھا اور کسی حد تک خوفزدہ کردینے والا تھا۔

    ماہرین کے مطابق جہاں تک وہ کھدائی کرچکے تھے، اس حد سے آگے مزید کھدائی کرنا جہنم کی طرف جانکلنے کے مترادف تھا، جو ان کے خیال میں زمین کی گہرائی میں موجود تھی۔

    ان ماہرین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب وہ کھدائی کرتے ہوئے زمین کی گہرائی کی طرف بڑھ رہے تھے تو انہیں بعض اوقات نامانوس سی چیخیں بھی سنائی دیتی تھیں۔

    ان کے مطابق یہ چیخیں تکلیف میں مبتلا ان روحوں کی تھیں جو جہنم میں جل رہی تھیں۔

    اور آخر میں آپ کو سب سے زیادہ خوفناک بات سے آگاہ کرتے چلیں، یہ کھدائی جہاں پر ختم ہوئی وہ مقام زمین کے مرکز تک کا صرف 0.002 حصہ ہے۔

    یعنی زمین کی لامتناہی گہرائی ابھی مزید کئی عظیم دریافتوں کی منتظر ہے، کیا معلوم انسان اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ اسے دریافت کرسکے۔

  • آپ کے گھر کی نگرانی کے لیے ڈیجیٹل الو

    آپ کے گھر کی نگرانی کے لیے ڈیجیٹل الو

    اگر آپ کو کسی گھر میں الو کا ہم شکل ایک پیارا سا کھلونا نظر آئے جو آپ کے قریب آنے پر آنکھیں کھول دے تو ہوشیار ہوجائیں، کیونکہ یہ کوئی کھلونا نہیں بلکہ آپ کی نگرانی کے لیے سیکیورٹی کیمرہ ہے۔

    گھر کی حفاظت کے لیے لگایا گیا کیمرہ ’الو‘ یوں اپنی آنکھوں جیسے سینسرز بند رکھتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی حرکت ہو تو یہ فوراً اسے ریکارڈ کرلیتا ہے۔

    اس کے ساتھ یہ اس حرکت کی ویڈیو بنا کر گھر کے مالک کو ای میل بھی کردیتا ہے۔

    موبائل فون ایپ سے کنٹرول ہونے والا یہ کیمرہ اس کمرے میں بھی لگایا جاسکتا ہے جہاں آپ کا چھوٹا بچہ کھیل رہا ہے، اس کے بعد یہ آپ کو لائیو اسٹریمنگ سے دکھائے گا کہ آپ کا بچہ کیا کر رہا ہے۔

    اس میں کلر ایڈجسمنٹ اور تصویر کھینچنے کا آپشن بھی ہے جبکہ بیٹری ختم ہونے کے بعد اسے چارج کیا جائے گا جس کے بعد یہ پھر سے اپنا کام سر انجام دے گا۔

  • خواتین کو جنسی حملوں سے بچانے والا اسمارٹ فون کیس

    خواتین کو جنسی حملوں سے بچانے والا اسمارٹ فون کیس

    دنیا بھر میں خواتین پر راہ چلتے جنسی حملے نہایت عام ہوگئے ہیں اور ایسے واقعات ان خواتین کے ساتھ زیادہ پیش آتے ہیں جو اکیلی یا کسی وجہ سے رات کے وقت سفر کریں۔

    تاہم اب اسمارٹ فون کا ایسا کور بنا لیا گیا ہے یا جو ان حملوں سے تحفظ دے سکتا ہے۔

    یہ کیس تمام وقت کسی عام کیس کی طرح اسمارٹ فون کو گرنے سے بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے کام آئے گا۔

    لیکن اس کا صرف ایک بٹن دبانے سے اس کے کونے پر دو نوکیلے سرے نکل آئیں گے جو کرنٹ پیدا کریں گے۔

    یہ نوکیلے سرے حملہ آور کے جسم میں کہیں بھی لگا دیے جائیں تو وہ بوکھلا کر آپ کو چھوڑ دے گا جس کے بعد باآسانی خود کو بچایا جاسکتا ہے۔

    اس کیس کو بھی بجلی سے ریچارج کرنے کی ضرورت ہوگی تاہم اس کی بیٹری میں اضافی استعداد موجود ہے جو کئی دن تک چل سکتی ہے۔