یوں تو سمندر کی دنیا بہت وسیع ہے اور انسان نے اس کے بہت سے راز کھنگال لیے ہیں، تاہم اب بھی سمندر کے کئی حصے انسان کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور یہی حال سمندر میں رہنے والے جانداروں کا ہے۔
سمندر کے زیادہ تر جاندار ہمارے جانے پہچانے ہیں تاہم کبھی کبھار کوئی ایسا جاندار بھی سامنے آجاتا ہے جنہیں دیکھ کر ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ کیوں کہ وہ ہمارے لیے اجنبی ہوتے ہیں۔
امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن نے ایسے ہی آبی جانداروں کی کچھ فہرست تیار کی ہے جو نہایت غیر معمولی ہیں اور یقیناً آپ نے انہیں اب سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔
نووا کی تیار کی گئی فہرست آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔
لندن: یورپ میں پلاسٹک سرجری کا ایک عجیب و غریب رجحان سامنے آ گیا ہے، لوگ اپنی فلٹر شدہ سیلفی جیسا جاذبِ نظر دکھائی دینے کے لیے پلاسٹک سرجری کلینکس کا رُخ کرنے لگے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یورپی نوجوانوں میں ایک نیا رجحان پروان چڑھنے لگا ہے، نوجوان اپنی فلٹر والی سیلفیز جیسا دکھائی دینے کے لیے پلاسٹک سرجری کروا رہے ہیں۔
پلاسٹک سرجری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے لوگ جاذبِ نظر دکھائی دینے کے لیے مشہور افراد کی تصاویر لایا کرتے تھے لیکن اب جدید موبائل ایپس نے اس رجحان کو تبدیل کر دیا ہے۔
پلاسٹک سرجنز کے مطابق لوگ اب اپنی ڈیجیٹل طریقے سے تبدیل شدہ تصاویر کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اپنی صورت بھی اگر فلٹر سے گزرے تو کسی سیلی بریٹی سے کم دکھائی نہیں دیتی۔
خیال رہے کہ موبائل ایپس میں موجود فلٹرز کی مدد سے آپ کی جلد ملائم ہوسکتی ہے، آنکھیں بڑی ہوسکتی ہیں، اور ناک بھی ستواں ہو جاتی ہے۔
پلاسٹک سرجنز کے مطابق اب ان کے 55 فی صد مریض اپنی سیلفیز جیسا دکھائی دینا چاہتے ہیں، لوگ تو یہ چاہتے ہیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟
بوسٹن میڈیکل سینٹر کے محققین نے کہا ہے کہ یہ معیار حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، مقبول ایپس میں دیے گئے فیچرز حقیقت اور تخیل کا فرق مٹا رہے ہیں، لوگوں کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی ہوگی۔
ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ فلٹرز والی ایپس سے ایسے لوگوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں جو اپنی شکل و صورت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہنے کی بیماری کا شکار ہیں۔
پاکستانی نژاد جرمن سائنسداں ڈاکٹر نزیر خواجہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح پاکستان سے دیگر طالب علم بھی اسپیس سائنس کے میدان میں آگے آئیں اور ملک کا نام روشن کریں، ان کی حالیہ تحقیق نے خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔
حال ہی میں ڈاکٹر نزیر خواجہ اور ان کی ٹیم نے ناسا ، یورپی اور اطالوی خلائی ایجنسی کے انتہائی مہنگے مشن ’کیسینی‘ سے حاصل شدہ ڈیٹا پر ثابت کیا ہے کہ مریخ کے ایک چاند ’انسلیداس ‘ پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی نشونما کے لیے درکار ہیں۔
ان کی اس تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ناسا نے گزشتہ ماہ اس کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد یہ ساری دنیا کے نشریاتی اداروں کی ہیڈلائن بن گئی۔ ڈاکٹر نزیر اور ان کے ساتھی فرینک پوسٹ برگ اس وقت سے ہی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں۔
پاکستان کے لیے فخر کا مقام یہ ہے کہ اس انتہائی بلند پایہ تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر نزیر خواجہ پاکستانی شہری ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیااور پھر وہیں خلائی تحقیق سے وابستہ ہوگئے۔
پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں، اس نیٹ ورک کے قیام کا مقصد اسپیس سائنس میں دلچسی رکھنے والے طلبہ و طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے تربیت یافتہ رضا کار اگلے مرحلےمیں اسکولوں میں جاکر طالب علموں کی رہنمائی کریں گے کہ مروجہ روایتی مضامین سے ہٹ کر بھی طالب علموں کے پاس کئی مواقع موجود ہیں۔
ڈاکٹر نزیر کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن سے حاصل کردہ ڈ یٹا پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زحل کے چاند پر موجود سمندر میں بالکل ویسے ہی نمکیا ت پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے سمندروں میں موجو د ہیں۔
اے آروائی نیوز کے لیے خصوصی طور پر ریکارڈ کردہ ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر نزیر نے اپنی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے زحل پر کوئی زندگی تلاش کرلی ہے بلکہ ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زحل کے چاند انسلیدس پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ اور یہ پہلی بار ہے کہ زمین سے باہر کسی مقام پرخلائی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو زندگی کے لیے سازگار حالات کے اتنے پختہ ثبوت ملے ہوں۔
آج دنیا بھر میں سیارچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد اس کرہ ارض کے مکینوں کو آسمان سے گرنے والے شہابِ ثاقب اور سیارچوں سے پھیلنے والی تباہی سے بچنے کے لیے تیار کرنا ہے، یاد رہے کہ زمین ماضی میں ایک سیارچے کے ٹکرانے سے اپنی 75 فیصد حیات سے محروم ہوچکی ہے۔
سیارچوں کاعالمی دن منانے کا آغاز آج سے چار سال قبل یعنی 30 جون 2014 میں کیا گیا۔خلائی تحقیقات کرنے والے اداروں اور اقوام متحدہ کے توسط سے اب ہر سال 30 جون کو یہ دن منا یا جاتا ہے اور آج دنیا بھر میں پانچواں عالمی یوم سیارچہ منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکا سے لے کر برطانیہ اور جرمنی سے لے کر آسٹریلیا تک مختلف سیمینارز اور سائنسی پروگرامات کا اہتمام کیا گیا ہے تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس حوالے سے انتہائی محدود پیمانے پر سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔
30 جون کو عالمی یوم سیارچہ منانے کا اولین مقصد یہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے افراد میں آسمان سے نازل ہونے والے ان سیارچوں کی ہلاکت خیزی اور بچاؤ کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جاسکے۔سیارچے یا ایسٹی رائڈ وہ اجسام ہیں جو ہمارے نظام ِ شمسی میں آزادانہ گھومتے رہتے ہیں اور عموما دیگر سیاروں سے ٹکرا کر بڑی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
تاریخی اور سائنسی حوالوں کے مطابق تقریبا 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے جدید میکسیکو کے سمندری علاقے چک سولب کے قریب 10 سے 15 کلو میٹر قطر کا ایک سیارچہ ٹکرایا تھا، جس کے نتیجے میں وہاں 150 کلو میٹر بڑا اور 20 کلومیٹر گہرا گڑھا پڑا۔
اس ٹکراؤ سے زمین کے اسٹریٹو سفیئر میں گرد و غبار اور دھواں اس قدر زیادہ تھا کہ سورج کی روشنی زمین پر پہنچنا تقریباً معدوم ہوگئی جبکہ اس سے خارج ہونے والی توانائی کا اندازہ لگانا اب تک مشکل ہے کیوں کہ کرہ ارض کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جو اس تصادم سے ہونے والی تباہی کی زد پر نہ آیا ہو۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ سیارچہ میکسیکو کے علاوہ زمین کے 87 فیصد حصے میں واقع کسی اور علاقے سے ٹکراتا تو شاید اتنی تباہی نہ ہوتی اور آج ڈائنا سارز جیسے عظیم الجثہ جانوروں کی کوئی نوع زمین پر ضرور موجود ہوتیں۔
دستیاب ریکارڈ کے مطابق یہ سیارچے 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے چک سو لب پر ہونے والے واقع کے بعد بھی وقتا فوقتا زمین پر تباہی پھیلاتے رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ اہم 30 جون 1908 کو رونما ہونے والے ‘ٹنگسکا’ کے واقع کو حاصل ہے جو روس میں دریائے ٹنگسکا او رمشرقی سائیبیریا کے قریب کم آبادی والا علاقہ ہے۔
اس واقعے کو اس حوالے سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ اس میں 200 سے 620 فٹ بڑا سیارچہ زمین کی سطح سے ٹکرانے کے بجائے فضا میں 5 سے 10 کلومیٹر کی بلندی پر شدید دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا تھا جس سے ری ایکٹر اسکیل پر 5 درجے کے زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے تھے، اس کے علاوہ اطراف میں 200 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات شدید متاثر ہوئے اور 80 لاکھ درخت جل کر خاکستر ہوگئے تھے، مگر آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، اس کے باوجود ٹنگسکا کے واقع کو کسی شہابیے یا سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے باعث ہونے والا تاریخ کا ہولناک ترین واقع قرار دیا جاتا ہے ، کیونکہ 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے ہونے والے چک سولب واقعے کی صرف دستیاب آثار قدیمہ سے ہی تصدیق ہو سکی ہے۔
پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں شہابیوں کی بارش یا سیارچوں کے ٹکراؤ کے حوالے سے آج کے جدید ڈیجیٹل دور میں بھی توہمات پائی جاتی ہیں اور آئے روز اس طرح کی خبریں گردش میں ہوتی ہیں کہ قیامت آنے والی ہے یا زمین کا اختتام ہوا چاہتا ہے اور اس طرح کی پیش گوئیاں عموما ایسے جیوتشی یا ایسٹرولوجرز کرتے ہیں جن کی سائنسی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔
اس امر میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ آسمان سے پتھروں کی بارش یا کسی سیارچے کا زمین سے ٹکراؤ چک سولب جیسی ہولناک تباہی کا باعث بن سکتا ہے، جس کی وجہ سے زمین پر آباد 75 فیصد مخلوق فنا ہو گئی تھی۔ مگر اس کی قبل از وقت پیش گوئی وہ بھی سائنسی معلومات سے بے خبر ایسٹر لوجزر کی جانب سے کی جانے والی پیش گوئی حقیقت سے بہت دور ہوتی ہے، عوام کو چاہیے کہ ایسی افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے مستند عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ خبروں پر نظر رکھا کریں۔
پاکستانی نژاد جرمن سائنس داں ڈاکٹر نُزیر اوران کےہمراہ سائنسدانوں کی ٹیم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سیارہ زحل کے چاند پرزندگی کے آثارموجود ہیں، یہ تحقیق ناسا اوریورپی اسپیس ایجنسی اور اطالوی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ مشن ’کیسینی‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا پرکی گئی ہے ۔
سائنس کی دنیا کے موقر ترین جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی تحقیق پاکستانی سائنسداں ڈاکٹرنزیراورڈاکٹر فرینک پوسٹ بر کی سربراہی میں کی گئی ہے جس کے مطابق زحل کے برفیلے چاند’’انسیلیدس‘‘ پر زندگی کےلیے موافق حالات موجودہ ہیں۔
نیچر نامی جریدے کا برقی عکس
ناسا کے خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔
یہ تحقیق یونی ورسٹی آف ہائیڈل برگ سے تعلق رکھنے والے نزیرخواجہ اورفرینک پوسٹ برگ کی سربراہی میں یورپین اسپیس ایجنسی میں کی گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے خلا میں تیرتے منجمد آمیزے کا جب تجزیہ کیا گیا تو اس میں نامیاتی مالیکیولز کے بڑے ٹکڑے پائے گئے جو کہ ارتقاء کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ہائیڈرو وینٹس کا عمل
اس حوالے سے ڈاکٹرپوسٹ برگ کا کہنا ہے کہ زحل کے چاند کےسمندروں میں جاری یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہماری زمین پر یہ عمل سمندروں کی تہہ میں جاری رہتا ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں کرہ ارض پر اولین حیات کا وجود ہوا تھا۔
ڈاکٹر پوسٹ برگ کی اس تحقیق میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر نزیر خواجہ ان کے شریکِ کار تھے اور دونوں ماہرین کے زیرِ نگرانی دنیا بھرکے نامور سائنسدانوں نے یہ تحقیق مرتب کی ہے۔
ڈاکٹرنُزیربطور پاکستانی
ڈاکٹر نزیر خواجہ کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔
ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
اسلام آباد میں ڈاکٹر نزیر خواجہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے
پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں
بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
کیسینی جہاز کا سفر
خیال رہے کہ کیسینی میں ایسے آلات موجود تھے کہ وہ خلا میں جس شے کا بھی معائنہ کرتا اس کا مکمل ڈیٹا یہاں امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کو موصول ہوجاتا تھا ۔ یہ جہاز چار ارب ڈالر کی لاگت سے خلا میں بھیجا گیا تھا جسے زحل تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ اس نے زحل سے کئی کار آمد تصاویر اور ڈیٹا یہاں سائنسدانوں کو فراہم کیا تھا ۔
خلائی جہاز کیسینی
سنہ 2017 میں اس کا رخ زحل کی سطح کی جانب موڑ کر اسے تباہ کردیا گیا تھا ۔سائنس دانوں کے مطابق کیسینی کا مشن پورا ہوچکا تھا، اس کا ایندھن اختتام پر تھا ، جس کے بعد وہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتا اس لیے اس جہاز کا تباہ ہونا بہتر تھا چنانچہ اسے زحل کے مدار میں داخل کردیا گیا۔
ناسا کے مطابق اس مشن پر چار ارب ڈالر کی لاگت آئی اور تیرہ برس کاعرصہ لگا، اس کی رفتار ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اسی رفتار سے یہ زحل کی سطح سے ٹکرانے کے لیے روانہ ہوا۔متوقع وقت پر جہاز کے سگنل آنا بند ہوگئے جس سے سائنس دانوں کو یقین ہوگیا کہ جہاز زحل سیارہ سے ٹکرا کر تباہ ہوچکا ہے۔