Tag: سائنس

  • مستقبل کی کار پیش کردی گئی

    مستقبل کی کار پیش کردی گئی

    چین میں گاڑیوں کے ڈیزائن میں مزید جدت پیدا کرتے ہوئے ایسی گاڑی پیش کردی گئی جو فولڈ ایبل اسکرینز سے مزین ہے۔

    چین کے شمالی صوبے ہیبی میں منعقدہ چائنہ انٹرنشیل ڈیجیٹل اکانومی ایکسپو میں کانسیپٹ وہیکل پیش کی گئی جس میں ہر جگہ فولڈ ایبل اسکرینز مزین ہیں۔

    اسے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں گاڑی صرف آمد و رفت کا ذریعہ نہیں ہوگی بلکہ تفریح کا ذریعہ بھی ہوگی اور دوران سفر کاروباری امور بھی انجام دیے جاسکیں گے۔

    گاڑی کے اسٹیئرنگ ویل اور گیئر لیول بھی ٹچ اسکرین سے آراستہ ہیں۔ اسٹیئرنگ ویل کی اسکرین موسم کی صورتحال اور نقشہ فراہم کرتی ہے۔

    چین میں منعقدہ ایکسپو میں اس گاڑی کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔

  • مل کر نیا پاکستان بنا سکتے ہیں جس کی بنیاد سائنس و ٹیکنالوجی پر ہوگی: فواد چوہدری

    مل کر نیا پاکستان بنا سکتے ہیں جس کی بنیاد سائنس و ٹیکنالوجی پر ہوگی: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ مل کر نیا پاکستان بنا سکتے ہیں، اس کی بنیاد سائنس و ٹیکنالوجی پر رکھنی ہوگی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بنیاد بنائے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بائیو اکانومی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بیٹری اسٹوریج پر کام نہ کیا تو پیچھے رہ جائیں گے، توانائی کے شعبے کا مستقبل بیٹری سے جڑا ہوا ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ چین 2030 تک جی ڈی پی کا 30 فیصد بائیو اکانومی پر لے جائے گا، ہم 2030 تک جی ڈی پی کا 4 فیصد بائیو اکانومی پر لے جائیں گے، جہلم میں بائیو ٹیکنالوجی پارک بنانے جا رہے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت عدم توجہ کا شکار رہی۔

    انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان ٹیکنالوجی بیس ہوگا۔ سائنس منسٹر کو سر کھپانا پڑتا ہے کہ چاند دوربین سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، اس سے اندازہ کرلیں کہ ہم کتنا پیچھے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بنیاد بنائے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سے درخواست کی ہے ڈرون پالیسی سے متعلق نظر ثانی کی جائے، ڈرون بین کردیں گے تو زراعت کے حوالے سے ترقی رک جائے گی۔

    انہوں نے مخالفین کے لیے کہا کہ ہر جمعہ کو نئے مولوی کو ڈیل کرنا پڑتا ہے، 10 پندرہ سال امن کے چاہئیں جن میں پالیساں بنا کر عمل کرسکیں، مل کر نیا پاکستان بنا سکتے ہیں، اس کی بنیاد سائنس و ٹیکنالوجی پر رکھنی ہوگی۔

  • بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    لندن: ماہرین آثار قدیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا معاملہ جدید دنیا کے ساتھ نہیں جڑا بلکہ اس کا آغاز تو زمانہ قبل از تاریخ سے ہوا۔

    برطانیہ کی برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین نے اس سلسلے میں سائنسی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ کچھ ایسے واضح شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے قبل بھی مائیں اپنے بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلاتی تھیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ماؤں نے تین ہزار برس سے زاید عرصے قبل اپنے بچوں کو جانوروں کا دودھ بوتل کے ذریعے پلانا شروع کر دیا تھا۔

    اسس سلسلے میں ماہرین آثار قدیمہ نے تین ایسے بوتل نما مٹی کے برتنوں کا معائنہ کیا جو ایک اندازے کے مطابق 12 سو سال قبل از مسیح میں شیرخوار بچوں کے ساتھ دفنائے گئے تھے، ان پر ماہرین کو جانوروں کی چربی اور دودھ کے مولیکیولر فنگر پرنٹ ملے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کروڑوں برس قبل گم ہونے والا براعظم دریافت

    برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل از تاریخ کے بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانے کی یہ پہلی شہادت ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ جب بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانا شروع کر دیا گیا ہوگا تو عورتوں میں مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ گئی ہوگی اور یوں آبادی میں اضافے میں تیزی آ گئی ہوگی۔

    خیال رہے کہ انسان نے دودھ اور اس سے بنی اشیا کا استعمال اندازاً 6 ہزار برس قبل شروع کیا جب کہ انسان نے سات ہزار برس قبل شکار چھوڑ کر کاشت کاری اور جانور پالنا شروع کیا تھا۔

  • ہم سب کا دوست گوگل 21 سال کا ہوگیا

    ہم سب کا دوست گوگل 21 سال کا ہوگیا

    دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل آج اپنی 21 ویں سالگرہ منا رہا ہے، اپنی سالگرہ پر گوگل نے اپنے ڈوڈل پر ایک ناسٹلجک تصویر سجائی ہے۔

    گوگل کا قیام سنہ 1998 میں عمل میں آیا تھا، اس کے مالکان لیری پیج اور سرگئے برن نے اس کی بنیاد رکھی تھی اور آج گوگل ایپل کے بعد دنیا کی سب سے امیر ترین کمپنی ہے۔

    تاہم ایسا لگتا ہے کہ گوگل جو ساری دنیا کے بارے میں جانتا ہے اپنی سالگرہ کے اصل دن سے خود بھی واقف نہیں ہے۔ سنہ 2006 سے گوگل نے اپنی سالگرہ 27 ستمبر کو منانا شروع کی تاہم اس سے قبل گوگل اپنی سالگرہ 26 ستمبر کو منا رہا تھا۔

    صرف یہی نہیں بلکہ گوگل نے اپنی چھٹی سالگرہ 7 ستمبر کو منائی تھی اور اس سے پہلے یہ سالگرہ ستمبر کی 8 تاریخ کو منائی گئی تھی حالانکہ مذکورہ بالا میں سے کوئی بھی گوگل کی حقیقی سالگرہ نہیں ہے۔

    گوگل پر موجود اس کے اپنے کلینڈر کے مطابق کمپنی کا قیام ستمبر کی 4 تاریخ کو عمل میں لایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ گوگل کی تشکیل اسٹین فورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچ پراجیکٹ کے طور پر ہوئی تھی۔

    گوگل نے سنہ 2013 میں تسلیم کیا کہ اس نے چار مختلف تاریخوں پر سالگرہ منائی ہے تاہم اب یہ سالگرہ کئی سالوں سے 27 ستمبر کو ہی منائی جارہی ہے اور یہ وہ دن ہے جب گوگل نے 2002 میں پہلی بار اپنی سالگرہ کے لیے ڈوڈل کا استعمال کیا تھا۔

    آج اکیسویں سالگرہ کے موقع پر گوگل نے اپنے ڈوڈل کو پرانے کمپیوٹر سے سجایا ہے جس پر گوگل کا پرانا لوگو ہے۔

  • زلزلے کے اسباب، توہم پرستی اور سائنس

    زلزلے کے اسباب، توہم پرستی اور سائنس

    سائنسی ترقی نے انسان کو امراض، قحط، سفری دشواریوں پر بھی تو قابو  پانے کا ہنر سکھا دیا، لیکن ایسے کئی قدرتی مظہر ہیں، جن سے مقابلہ انسان کے لیے ممکن نہیں.

    ایسا ہی ایک آفت زلزلے بھی ہیں، جنھوں نے انسانی تاریخ میں تباہ کاریوں کی ہول ناک داستان رقم کیں، پورے پورے شہر زمین بوس ہوگئے، تہذیبیں تہس نہس ہوگئیں، داستانیں مٹ گئیں۔

    کسی زمانے میں زلزلے کے جھٹکوں سے طرح طرح کے قصے کہانیاں، اساطیر اور توہمات جڑے تھے،  کہیں اسے کسی بیل کے سینگ سے جوڑا جاتا، کبھی کسی چھپکلی سے۔ بہت سی قوموں میں‌ یہ خیال راسخ تھا کہ یہ خدا کا قہر ہے. 

    یونان سے تعلق رکھنے والے ممتاز فلسفی افلاطون اور ارسطو نے بھی اس ضمن میں اظہار خیال کیا، ان کے نزدیک زمین کی تہوں میں موجود ہواگرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے.

     سائنسی ترقی کے بعد انسان اب اس مظہر کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے اور اس ضمن میں بساط بھر احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتا ہے۔

    سائنسی نقطہ نظر

    سائنس دانوں زیر زمین پلیٹوں اور آتش فشاؤں کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں. ان پلیٹس کو  ٹیکٹونک پلیٹس کہا جاتا ہے، ان کے  نیچے میگما نامی پگھلا ہوامادہ حرکت کرتا ہے، جس کی حدت سے زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے.

    ان  ہی پلیٹس میں جنم لینے  والی حرکت اور ٹکراؤں کے باعث یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں.

    یہ ٹوٹنے ہوئے ٹکڑے جب اوپر کی سمت اٹھتے ہیں، جو زمین پر ارتعاش یا زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں. زلزلے کی شدت کا انحصار بھی میگما کی حدت اور ٹوٹ پھوٹ ہی پر  ہوتا ہے.

    آتش فشاں میں‌ ہونے والے دھماکوں کے ٹیکٹونک پلیٹس میں لہریں پیدا ہوتی ہیں، ان کے چار اقسام ہیں، جن سے دو  لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ، جب کہ دیگر دو  (پرائمری ویو، سیکنڈری ویو) زیر  زمین سفر کرتی ہیں.

    پرائمری لہریں، جن کی ماہیت آواز کی لہروں کے مانند ہوتی ہے، وہ زیر  زمین چٹانوں گزر جاتی ہیں، البتہ سیکنڈری ویوز جب چٹانوں سے گزرتی ہے، تو ان سے زلزلے جنم لیتے ہیں.

    زیر سمندر آنے والے زلزلے بھی ہول ناک تباہی لاتے ہیں. ان سے سمندری طوفان اور سیلابی کا خطرہ جنم لیتا ہے. ایسے زلزلوں سے جنم لینے والے لہریں سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے تباہی پھیلا سکتی ہیں.

    کیا زلزلے سے بچاؤ ممکن ہے؟

    جدید ترین سائنسی تحقیق اور احتیاطی تدابیر کے باوجود اس قدرتی آفت پر پوری طرح قابو پانا، اس کی شدت کم کرنا کرنا مشکل ہے.

    البتہ اس کی پیش گوئی سے متعلق حالیہ برسوں میں ہونے والی ریسرچ سے نئے در وا ہوئے ہیں.

    پیشگی اطلاع کے بعد اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر، شہریوں کی تربیت اور زلزلے کا مقابلہ کرنے والا انفرا اسٹرکچر اس کے نقصان کو بہت حد تک کم کرسکتا ہے.

    بدقسمتی سے پاکستان میں اس ضمن میں جامع اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

  • پہلی بار بلی کا کلون تیار

    پہلی بار بلی کا کلون تیار

    سنگاپور کی ایک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پہلی بار مصنوعی طریقے سے ایک بلی تیار کرلی ہے، بلی کا یہ کلون 2 ماہ قبل تیار کیا گیا تھا۔

    سنگا پور میں کام کرنے والی چینی بائیو ٹیک کمپنی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ کلون انہوں نے ایک 23 سالہ نوجوان کی درخواست پر تیار کیا ہے، نوجوان کی بلی 2 ماہ قبل مر گئی تھی اور اب اس کی نقل تیار کی گئی ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ بلی مرنے والی بلی کی ہوبہو نقل ہے اور مکمل طور پر صحت مند ہے، کمپنی نے اس عمل کے لیے مرنے والی بلی کے جسم سے نمونے اور گوشت کی کچھ مقدار حاصل کی تھی۔

    اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس سے قبل 40 کتوں کے کلون بھی تیار کرچکی ہے۔ کمپنی کے مطابق کتے کے کلون پر 53 ہزار امریکی ڈالر یعنی تقریباً 83 لاکھ پاکستانی روپے اور بلی کے کلون پر 35 ہزار امریکی ڈالر یعنی 55 لاکھ پاکستانی روپے کے اخراجات آتے ہیں۔

    خیال رہے کہ کلوننگ ایسا سائنسی طریقہ ہے جس کے تحت کسی بھی جاندار کے جسم سے نمونے، خلیات، خون اور گوشت وغیرہ لے کر اس کی مصنوعی طریقے سے تولید کی جاتی ہے۔

    تولید کے بعد اس نمونے کی افزائش کی جاتی ہے، اس عمل میں جاندار کی تولید اور افزائش کے لیے سائنسی طریقے سے ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جو کسی بھی جاندار کی پیدائش کے لیے درکار ہوتا ہے۔

    کئی ممالک میں اب تک انسانی اعضا کی کلوننگ کا دعویٰ بھی کیا جاچکا ہے۔

  • کسی شخص پر آسمانی بجلی گر پڑے تو کیا ہوگا؟

    کسی شخص پر آسمانی بجلی گر پڑے تو کیا ہوگا؟

    ملک بھر میں مون سون کا موسم جاری ہے اور مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہورہی ہیں، ایسے موسم میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں جس میں کئی افراد زخمی یا ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    یہ بات حیران کن لگتی ہے کہ محض چند لمحوں کے لیے کڑکنے والی آسمانی بجلی میں ایسا کیا ہے جو لوگوں اور جانوروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے اور درختوں کو تباہ کرسکتی ہے، آج ہم نے یہی جاننے کی کوشش کی ہے۔

    امریکا میں ہر سال آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں آگ لگنے کے 75 ہزار واقعات پیش آتے ہیں، امریکا میں ہی ہر سال 47 افراد آسمانی بجلی گرنے کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں، تاہم اس کا شکار 90 فیصد افراد زندہ بچ جاتے ہیں۔

    چند لمحوں کی آسمانی بجلی ایک مضبوط کھڑے درخت کو ایک لمحے میں دو ٹکڑوں میں تقسیم کرسکتی ہے، لہٰذا یہ بات خوفزدہ کردینے والی ہے کہ انسانی جسم کے اندر یہ کیا نقصانات کرتی ہوگی۔ موت کے علاوہ یہ بجلی انسانی جسم کو شدید اور دیرپا نقصانات پہنچا سکتی ہے۔

    آسمانی بجلی میں 1 سے 10 ارب جول توانائی ہوسکتی ہے، یہ اتنی توانائی ہے کہ اس سے 100 واٹ کا بلب مستقل 3 ماہ تک جلایا جاسکتا ہے۔

    جب یہ بجلی انسانی جسم کے اندر جاتی ہے تو جسم میں موجود ان چھوٹے الیکٹرک سگنلز کو شارٹ سرکٹ کرتی ہے جو ہمارے دل، پھیپھڑوں اور اعصابی نظام کو چلاتے ہیں، نتیجتاً آسمانی بجلی کا شکار شخص کو مندرجہ ذیل کیفیات میں سے کسی ایک یا تمام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    دل کا درہ

    مرگی کا دورہ

    شدید دماغی چوٹ

    ریڑھ کی ہڈی کو نقصان

    یاداشت چلے جانا

    اور یہی نہیں، آسمانی بجلی میں موجود توانائی سے پہنچنے والا نقصان تو کچھ بھی نہیں، اصل نقصان اس میں موجود حرارت سے ہوتا ہے۔

    جب آسمانی بجلی کڑکتی ہے تو یہ ایک لمحے میں اپنے ارد گرد کے ماحول کو سورج کی سطح سے 5 گنا زیادہ گرم کر دیتی ہے یعنی 53 ہزار فارن ہائیٹ۔ اس سے ہوا اچانک بہت تیزی سے پھیلتی ہے جس سے ایک زور دار شاک ویو پیدا ہوتی ہے، بجلی گرجنے کی آواز یہی شاک ویو ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے تو اس کے آس پاس 30 فٹ کے دائرے میں کھڑا شخص ایک بم دھماکے جتنا جھٹکا محسوس کرسکتا ہے اور اڑ کر دور گر سکتا ہے۔

    یہ حرارت، روشنی اور بجلی آپ کی آنکھوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس سے آپ کے پردہ چشم میں سوراخ ہوسکتا ہے اور کچھ ہفتوں بعد آنکھ میں لازمی موتیا اتر سکتا ہے۔ آسمانی بجلی مردوں کی جنسی قوت کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    یہ بجلی جسم میں اندر جانے اور نقصان کرنے کے بعد باہر نکلتی ہے تو مزید نقصان کرتی ہے، جسم سے باہر نکلتے ہوئے یہ خون کے سرخ خلیات پر دباؤ ڈالتی ہےجس سے وہ رگوں سے باہر جلد کی طرف نکلتے ہیں۔ اس سے جلد پر کچھ اس طرح کے نشانات بن جاتے ہیں جنہیں لچٹنبرگ فگرز کہا جاتا ہے۔

    آسمانی بجلی میں موجود حرارت جسم پر موجود دھاتی اشیا جیسے گھڑی یا زیورات کو بھی بے تحاشہ گرم کردیتی ہے جس سے تھرڈ ڈگری برن ہوسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں یہ جسم پر موجود بارش کے قطروں یا پسینے کو فوری طور پر بھاپ بنا کر دھماکے سے اڑا سکتی ہے اور اس دھماکے سے بجلی کا شکار شخص کے کپڑے بھی پھٹ سکتے ہیں۔

    آسمانی بجلی سے کیسے بچا جائے؟

    آسمانی بجلی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بارشوں کے موسم میں گھر سے نکلتے ہوئے موسم کی صورتحال دیکھی جائے۔ طوفان کے پیش نظر گھر پر ہی رہا جائے۔

    اگر آپ گھر سے باہر ہیں تو درختوں، کھمبوں کے نیچے کھڑے ہونے اور کھلی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔

    آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے محفوط ترین پناہ گاہ کوئی عمارت یا موٹے دھات سے بنی گاڑی ہے جس کے اندر رہا جائے۔

    مزید پڑھیں: طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

  • اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    سمندر میں جانے والے غوطہ خوروں کو اکثر اوقات شارک اور وہیلز کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی سمندری جانور کسی انسان کو نگل لے اور وہ زندہ سلامت اس کے منہ سے واپس آجائے۔

    سمندر میں خوف کی علامت شارک انسان کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے لیکن اس کے برعکس وہیل ایسا کوئی شوق نہیں رکھتی، وہ جارح بھی نہیں ہوتی اور حملہ کرنے کے بجائے صرف اپنا بڑا سا منہ کھول دیتی ہے جس سے ڈھیر سارے جانور اس کے منہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کوئی وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس انسان کے ساتھ کیا ہوگا؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    انسان کے مقابلے میں وہیل بہت بڑی ہوتی ہے اور وہ بیک وقت کئی انسانوں کو نگل سکتی ہے۔ بلیو وہیل کو زمین پر موجود سب سے بڑا جانور قرار دیا جاتا ہے۔ بلیو وہیل کی صرف زبان کا وزن ہاتھی کے برابر ہوتا ہے جبکہ اس کے منہ میں بیک وقت 400 سے 500 افراد سما سکتے ہیں۔

    البتہ بلیو وہیل کا جسمانی نظام انہیں اس قدر بڑا جاندار (انسان) نگلنے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم اس کے خاندان کی دیگر وہیلز جیسے اسپرم وہیل باآسانی انسان کو نگل سکتی ہے۔

    سنہ 1981 میں کچھ رپورٹس سامنے آئیں کہ سمندر میں سفر کرنے والے جیمز برٹلے نامی شخص کو وہیل نے نگل لیا ہے۔ جیمز کی کشتی پر وہیل نے حملہ کیا تھا اور اسے نگل لیا، اگلے دن کشتی کے دیگر عملے نے وہیل کو مار ڈالا۔

    وہ اسے کھینچ کر خشکی پر لائے اور اس کا پیٹ چیرا تو اندر سے جیمز بے ہوش لیکن زندہ حالت میں ملا، وہیل کے معدے میں موجود تیزاب کی وجہ سے جیمز کا چہرہ اور بازو سفید ہوگئے تھے جبکہ وہ اندھا بھی ہوچکا تھا۔

    کچھ عرصے بعد لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کیا کہ آیا واقعی جیمز کو وہیل نے نگلا تھا یا نہیں، اگر ہاں تو ان کے خیال میں وہیل کا تیزاب اس سے کہیں زیادہ جیمز کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ جدید دور میں سائنس نے اس سوال کا مفصل جواب دے دیا ہے۔

    فرض کیا کہ کسی انسان کو وہیل نے زندہ نگل لیا، سب سے پہلے اس کا سامنا وہیل کے خطرناک دانتوں سے ہوگا۔ اسپرم وہیل کے منہ میں موجود دانت نہایت تیز دھار ہوتے ہیں اور ہر دانت 20 سینٹی میٹرز طویل ہوتا ہے۔

    یہ دانت ایسا ہوتا ہے جیسے کسی شیف کے زیر استعمال تیز دھار چھری، وہیل کے منہ میں ایسے 40 سے 50 دانت موجود ہوتے ہیں اور وہیل کے نگلتے ہی یہ دانت کسی بھی شے کو کاٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

    فرض کیا کہ کوئی خوش قسمت شخص ان دانتوں سے بچ کر وہیل کے حلق میں پھسل گیا، اب یہاں اندھیرا ہوگا اور آکسیجن کی کمی اور میتھین کی زیادتی کی وجہ سے اسے سانس لینے میں بے حد مشکل ہوگی۔

    وہیل کے منہ میں موجود سلائیوا انسان کو نیچے دھکیلتا جائے گا۔ اب وہاں موجود ہائیڈرو کلورک تیزاب سے اس شخص کو اپنی جلد پگھلتی محسوس ہوگی۔

    اس کے بعد یہ شخص وہیل کے پہلے اور سب سے بڑی معدے میں گرے گا، یہاں اس کے استقبال کو وہ ننھے سمندری جانور موجود ہوں گے جن سے روشنی پھوٹتی ہے اور انہی وہیل بہت شوق سے کھاتی ہے۔ جب بھی معدے میں کوئی شے پہنچتی ہے تو یہ جانور اسے دیکھنے آتے ہیں کہ آیا وہ اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں۔

    ان جانوروں کے فیصلے سے قبل معدے میں موجود مائع انسان کو دوسرے، اور پھر تیسرے معدے میں دھکیل دے گا۔ اس دوران تیزاب سے اس کی پوری جلد پگھل چکی ہوگی اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی ہوں گی جو کسی بھی لمحے وہیل کے فضلے کے ساتھ اس کے جسم سے خارج ہوجائیں گی۔

    اس ساری تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہیل کے نگلے جانے کے بعد کوئی شخص اس حالت میں نہیں رہ سکتا کہ واپس لوٹ کر اپنے اس سفر کی کہانیاں سنا سکے، ایسا دعویٰ کرنے والے جیمز کو بھی سائنس نے جھوٹا قرار دے دیا۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ وہیل مچھلیاں انسانوں کو نگلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، البتہ آپ کو کبھی زیر آب جانے کا اتفاق ہو اور آپ کی مڈبھیڑ وہیل سے ہوجائے تو اس سے فاصلے پر رہیں کہ کہیں پانی کا دباؤ آپ کو اس کے کھلے منہ میں نہ پہنچا دے۔

  • ایسی کشتی جو سمندر میں حادثوں سے بچا سکتی ہے

    ایسی کشتی جو سمندر میں حادثوں سے بچا سکتی ہے

    دنیا بھر کے سمندروں میں کشتی الٹنے کے اندوہناک واقعات پیش آتے ہیں جن میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے چلے جاتے ہیں۔ اب ایسی کشتی بنا لی گئی ہے جو سمندر میں الٹنے کے بعد خودبخود سیدھی ہوجاتی ہے۔

    ایکس ایس وی 17 تھنڈر چائلڈ نامی اس کشتی کو بنانے کا مقصد سمندر میں ہونے والے حادثات سے بچنا ہے تاہم اس کے فیچرز دیکھ کر لگتا ہے کہ اسے عام انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جاسوسی اور جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے۔

    اس کشتی کی تیاری میں خیال رکھا گیا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے، یہ کشتی ہر قسم کے موسمی حالات میں اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہے۔

    12 افراد کی گنجائش پر مشتمل اس کشتی کی نشستیں ایسی ہیں جو جھٹکے لگنے کی صورت انہیں جذب کرلیتی ہیں اور بیٹھنے والے کو محفوظ رکھتی ہیں۔

    60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی اس کشتی میں ہتھیار بھی رکھے جاسکتے ہیں، اس کے اگلے حصے پر ایک مشین گن یا گرینڈ لانچر نصب کیا جاسکتا ہے جو ڈیک کے نچلے حصے میں چھپایا جاسکتا ہے۔ یہ ہتھیار کیبن سے کنٹرول کیے جاسکیں گے۔

    تھنڈر چائلڈ ریڈار سے بھی بچ نکلتی ہے جبکہ اس میں نائٹ ویژن کیمرہ سسٹم بھی موجود ہے۔

    اس کشتی کا بہترین فیچر اس کے الٹنے کی صورت میں خودبخود سیدھا ہوجانا ہے جس سے اندر موجود افراد کسی حادثے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

  • لڑکیوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کے لیے سمر پروگرام

    لڑکیوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کے لیے سمر پروگرام

    موسم گرما کی تعطیلات میں طلبا کے لیے سمر کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں طلبا کو مختلف سرگرمیوں سے متعارف کروایا جاتا ہے، تاہم نیویارک میں ایک سمر کیمپ صرف چھوٹی بچیوں کے لیے مخصوص ہے جہاں ان کو سائنس سے متعلق سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں۔

    نیویارک کا یہ سمر پروگرام 10 سے 13 سال کی عمر کی بچیوں کے لیے ہے جہاں انہیں ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھا میٹکس سے متعلق سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں۔

    اس سمر پروگرام کا مقصد لڑکیوں کو سائنس کے شعبے کی طرف راغب کرنا ہے۔

    پروگرام کا ایک اہم جز بچیوں کو فطرت سے قریب رکھنا ہے، بچیاں مختلف پارکس اور ساحلوں کا دورہ کرتی ہیں، وہاں کی مٹی سے واقف ہوتی ہیں اور وہاں ملنے والے جانوروں کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔

    جنگلی و آبی حیات کے بارے میں جان کر بچیوں میں مزید جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور یوں وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہوتی ہیں۔

    سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خواتین کی کمی کے حوالے سے مائیکرو سافٹ کمپنی کی شریک بانی میلنڈا گیٹس کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔

    میلنڈا کا کہنا ہے کہ سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی بھی شمولیت ازحد ضروری ہے۔