Tag: سائنس

  • ٹوٹے ہوئے اسمارٹ فون سے سائنس فکشن فلم تیار

    ٹوٹے ہوئے اسمارٹ فون سے سائنس فکشن فلم تیار

    سائنس فکشن فلم کا سنتے ہی ذہن میں بڑے بڑے سیٹ، فلم سازی کے جدید آلات اور بہت سارے لوگوں کی ٹیم آجاتی ہے، یہ تصور کرنا محال ہے کہ عام سے ساز و سامان کے ساتھ کوئی سائنس فکشن اور اسپیشل افیکٹس والی فلم تیار ہوسکتی ہے۔

    تاہم افریقی ملک نائیجیریا میں کچھ نوجوان لڑکے ایک ٹوٹے ہوئے موبائل فون اور نہایت محدود وسائل کے ذریعے سائنس فکشن فلمیں بنا رہے ہیں۔

    نائیجیریا کے ایک چھوٹے سے شہر کے رہائشی یہ 8 نوجوان شارٹ فلم بنانے کے لیے ٹوٹا پھوٹا سا اسمارٹ فون اور ایک خستہ حال اسٹینڈ استعمال کرتے ہیں۔ ان لڑکوں نے خود کو ’کرٹکس کمپنی‘ کا نام دیا ہے۔

    کرٹکس کمپنی کے کریو نے انٹرنیٹ پر موجود ٹیوٹوریل ویڈیوز سے اسپیشل افیکٹس کا استعمال سیکھا ہے جسے وہ اپنی فلموں میں استعمال کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ویڈیوز کو وائرل نہیں کرنا چاہتے، بس یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے شہر میں موجود لڑکے کچھ نیا کر رہے ہیں۔

    ان لڑکوں کے پاس نہایت پرانا سامان اور عام سی اسپیڈ کا انٹرنیٹ ہے اور وہ بھی اکثر بجلی جانے کی وجہ سے ٹھپ ہوجاتا ہے۔ ایک 5 منٹ کی شارٹ فلم کو رینڈر کرنے میں انہیں 2 دن لگ گئے۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ 10 منٹ کی فلم تیار کرسکتے ہیں کیونکہ اس فلم کو اپ لوڈ ہونے میں بھی خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ کچھ دن قبل کی جانے والی فنڈ ریزنگ میں انہیں 6 ہزار ڈالر حاصل ہوئے جس سے انہوں نے کچھ نیا سامان خریدا ہے۔

    ان لڑکوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کچھ کرنا چاہتے ہیں جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

    نائیجیریا کی فلم انڈسٹری نولی ووڈ فلموں کی تعداد کے حوالے سے دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری سمجھی جاتی ہے۔ کرٹکس کپمنی کو امید ہے کہ ان کا مستقبل روشن ہے اور وہ بہت جلد اپنی منزل حاصل کرلیں گے۔

  • زیر زمین ٹرینوں کے لیے سرنگ کیسے تیار کی جاتی ہے؟

    زیر زمین ٹرینوں کے لیے سرنگ کیسے تیار کی جاتی ہے؟

    دنیا بھر میں زیر زمین ٹرین کے ذریعے سفر نہایت عام ہوگیا ہے، اس مقصد کے لیے طویل ٹرین لائنز بچھائی جاتی ہیں جبکہ خوبصورت اسٹیشنز بھی بنائے جاتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں ٹنوں وزنی ٹرانسپورٹ کے اس نظام کے لیے زمین کی کھدائی کیسے کی جاتی ہے اور کیسے زمین دوز سرنگ بنائی جاتی ہے؟

    زیر زمین وسیع و عریض سرنگ کھودنے کے لیے ارتھ پریشر بیلنس شیٹ نامی مشین استعمال کی جاتی ہے، اس کے اگلے سرے پر ایک طاقت ور مشین نصب ہوتی ہے جو گھومتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔

    اس پوری مشین کا قطر 40 فٹ ہوتا ہے جبکہ اس کی لمبائی 312 فٹ ہوتی ہے، یہ مشین زمین کے اندر ہر ہفتے 1 ہزار فٹ تک کھدائی کرسکتی ہے۔

    ہائیڈرولک سلنڈرز کے ذریعے کام کرنے والی اس مشین کا اگلا گھومنے والا حصہ مٹی، پتھر اور دیگر اشیا کو کاٹتے ہوئے آگے بڑھتا ہے، اس دوران یہ ہر ہفتے 9 ہزار میٹرک ٹن مٹی باہر پھینکتی ہے۔

    کھدائی ہونے کے بعد اسی مشین کے ذریعے سرنگ میں زمین پر اور دیواروں پر لوہے کا جال بچھایا جاتا ہے جس کے بعد اس پرمزید کام کیا جاتا ہے۔ زیر زمین تعمیرات کرتے ہوئے سب سے اہم کام زمین کے اندر کھدائی کرنا ہوتا ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد بقیہ کام نہایت آسانی اور تیزی سے انجام دیا جاتا ہے۔

  • طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

    طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

    فضائی سفر کرنے والے افراد اکثر اوقات دوران سفر جھٹکوں کا سامنا تو کرتے رہتے ہیں، تاہم بہت کم افراد جانتے ہیں کہ ان میں کچھ طیارے کے آسمانی بجلی سے ٹکرانے کے باعث بھی ہوتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آسمانی بجلی طیارے سے ٹکرا جائے تو در حقیقت ہوتا کیا ہے؟

    آسمانی بجلی کے طیارے سے ٹکرانے کے دوران آپ ایک زور دار آواز سنتے ہیں، کھڑکی کے باہر سے ایک بجلی کا جھماکہ بھی دکھائی دیتا ہے اور بعض اوقات طیارے کی لائٹس بھی جلتی بجھتی دکھائی دیں گی، تاہم یہ ایک معمول کی بات ہے۔

    امریکا کے کمرشل فلیٹ میں موجود ہر طیارہ سال میں کم از کم ایک بار ضرور اس صورتحال کا شکار ہوتا ہے، یعنی صرف امریکا میں ہر سال آسمانی بجلی کے طیارے سے ٹکرانے کے 7 ہزار واقعات ہوتے ہیں۔

    جب آسمانی بجلی طیارے سے ٹکراتی ہے تو بجلی جہاز کی نوک سے ٹکرا کر اندر جاتی ہے اور طیارے کی دم سے باہر نکلتی ہے، یعنی یہ پورے جہاز سے گزرتی ہے۔ بجلی کی ایک برق سورج کی سطح سے 5 گنا زیادہ گرم ہوتی ہے اور اس کی گرماہٹ طیارے کو خاصا نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    تاہم اس وجہ سے طیاروں کو کم ہی حادثات پیش آتے ہیں اور آسمانی بجلی ٹکرانے سے طیارہ گرنے کا آخری واقعہ سنہ 1963 میں پیش آیا تھا۔

    آج کل بنائے جانے والے طیاروں میں آسمانی بجلی سے ٹکراؤ کے خدشے کو خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے اور ہر طیارے کو ہر ٹیک آف سے قبل اچھی طرح ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں حیرت انگیز حقائق

    آج کل بنائے گئے طیاروں کی تعمیر کے وقت طیارے کی بیرونی سطح کو ایلومینیئم کی تہہ سے ڈھانپا جاتا ہے۔ یہ تہہ آسمانی بجلی کو گزرنے کا راستہ دے دیتی ہے اور طیارے کے اندر موجود حساس آلات محفوظ رہتے ہیں۔ البتہ طیارے کی نوک کو اس تہہ سے نہیں ڈھانپا جاتا۔

    اس حصے میں دراصل طیارے کی ریڈار ٹیکنالوجی موجود ہوتی ہے جو کسی تہہ سے ڈھانپنے کی صورت میں کام نہیں کرتی۔ چنانچہ نوک کے گرد دھاتی پٹیاں لگا دی جاتی ہیں جو آسمانی بجلی کا رخ موڑ کر اسے ریڈار سے دور رکھتی ہیں۔

    آسمانی بجلی سے ایک اور خطرہ فیول ٹینک کو ہوسکتا ہے جو بجلی کی ایک ہی لہر سے بھڑک کر پھٹ سکتے ہیں چنانچہ ان کے گرد ایلومینیئم کی اضافی موٹی تہہ بنائی جاتی ہے تاکہ یہ جلنے سے محفوظ رہیں۔

    ماہرین کے مطابق طیارے کو آسمانی بجلی سے خطرہ نہیں ہوتا، ایسے وقت میں طیارے کو خطرہ آسمانی بجلی سے پیدا ہونے والے جھٹکوں، تیز ہوا اور طوفان سے ہوتا ہے۔

  • اڑتا ہوا باتھ ٹب

    اڑتا ہوا باتھ ٹب

    ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ مختلف ایجادات بھی سامنے آرہی ہیں، ایسی ہی ایک ایجاد جرمنی سے تعلق رکھنے والے 2 بھائیوں نے بھی کی ہے۔

    سوشل میڈیا پر ’دا ریئل لائف گائز‘ کے نام سے مشہور ان بھائیوں نے اڑنے والا باتھ ٹب بنایا ہے۔ ایک سال کی محنت سے تیار کردہ یہ اڑن ٹب اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے اڑتا ہے جس کے ذریعے ڈرون کام کرتا ہے۔

    یہ باتھ ٹب ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کام کرتا ہے۔

    اس ایجاد کے لیے ان بھائیوں نے جرمن حکومت سے باقاعدہ اجازت لی۔ ان کا تیار کردہ اڑنے والا باتھ ٹب 30 میٹر کی بلندی تک اڑ سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اس پروجیکٹ کی اجازت ملی۔

    اس پروجیکٹ کے لیے مختلف کمپنیوں کی جانب سے مالی معاونت بھی کی گئی۔

    فی الحال یہ ٹب صرف ان ڈور اڑایا جارہا ہے تاہم دونوں بھائیوں کو امید ہے کہ بہت جلد وہ اسے بیرونی سرگرمیوں میں بھی استعمال کرسکیں گے۔

  • نازک اشیا کو گرفت میں لینے والا حساس مصنوعی ہاتھ تیار

    نازک اشیا کو گرفت میں لینے والا حساس مصنوعی ہاتھ تیار

    امریکی ماہرین نے نازک چیزوں کو با آسانی گرفت میں لینے والا حساس مصنوعی ہاتھ تیار کرلیا، اس ہاتھ کی تیاری میں 15 برس کا عرصہ لگا۔

    اب تک تیار کیے جانے والے مصنوعی ہاتھ نازک اشیا کو گرفت میں نہیں لے سکتے تھے۔ اب یہ نئے تیار کردہ ہاتھ اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ یہ نہ صرف نازک اشیا کو گرفت میں لے سکتے ہیں بلکہ محسوس بھی کرسکتے ہیں۔

    یونیورسٹی آف اوٹاہ میں تیار کیے گئے یہ ہاتھ اسٹار وارز کے کردار لیوک اسکائی واکر سے متاثر ہیں اور ان بازوؤں کو لیوک کا نام ہی دیا گیا ہے۔

    یہ بازو دھات اور موٹرز سے بنائے گئے ہیں جبکہ ان کی اوپری سطح جلد جیسی رنگت کی حامل ہے۔ یہ نیا ہاتھ 100 مائیکرو الیکٹروڈز اور تاروں کے ذریعے پہننے والے کے اعصاب سے جڑ جاتا ہے جس کے بعد یہ اعصاب کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس پروستھیٹک بازو پہننے والے اس بازو کو اپنے دماغ کے ذریعے استعمال کرسکتے تھے۔ اس جدید اور منفرد بازو کی تیاری میں 15 سال کا عرصہ لگا ہے۔

  • اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    ہم کئی نسلوں سے اس زمین پر آباد ہیں، ہم روز بروز ہوتی ترقی کی بدولت اپنے پڑوسی سیاروں اور اپنے نظام شمسی سے باہر کے حالات بھی کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں لیکن ان پر غور کرنے کا وقت ہمیں بہت کم ملتا ہے۔

    آئیں آج ہم اپنے اس گھر یعنی زمین اور کائنات کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ہماری کائنات ایک بہت بڑے دھماکے جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے، کے نتیجے میں 13 ارب 80 کروڑ سال قبل وجود میں آئی۔ کائنات ابتدا میں بہت سادہ تھی۔ یہاں کچھ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسیں موجود تھیں جبکہ بہت ساری توانائی بھی موجود تھی۔

    اس وقت کائنات میں ستارے، کہکہشائیں اور سیارے موجود نہیں تھے جبکہ کسی جاندار کا بھی وجود نہیں تھا۔

    کچھ وقت بعد کائنات میں کچھ پیچیدہ اجسام ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ کائنات میں پہلی بار ستارے اور کہکہشاں بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد نمودار ہوئے۔

    کچھ بڑے ستارے بنے اور پھر ختم ہوگئے، یہ دھماکے سے پھٹے اور اس دھماکے سے نئے اجسام وجود میں آئے۔ ان اجسام نے مزید نئے عناصر کو جنم دیا جیسے مٹی، برف، پتھر اور معدنیات۔ پھر ان عناصر سے سیارے بننا شروع ہوئے۔

    ہمارا سورج اور نظام شمسی ساڑھے 4 ارب سال قبل نمودار ہوا۔

    4 ارب سال قبل زمین پر زندگی نے جنم لیا۔ اس زندگی کا ارتقا ہونا شروع ہوا مگر تب بھی زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے اور یک خلیائی (ایک خلیے پر مشتمل) تھے۔ 1 ارب سال قبل پہلی بار کثیر خلیائی (بہت سارے خلیوں پر مشتمل) زندگی نے جنم لیا۔

    50 کروڑ سال قبل زمین پر بڑے اجسام عام ہوگئے تھے جیسے درخت یا ٹائرنا سارس۔ ان سب میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ انسان کا ظہور صرف 2 لاکھ سال قبل اس زمین ہوا۔

    انسان کی آمد اس زمین پر ایک اہم واقعہ تھی، کیونکہ انسان اس سے قبل آنے والی تمام مخلوق سے منفرد اور بہتر تھا۔ انسان نے اپنے آس پاس کی معلومات اور اپنے خیالات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا شروع کیا جس سے آنے والی نسلیں پرمغز ہونا شروع ہوئیں۔

    اب، صرف چند سو سال میں انسان نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ پورے کرہ ارض اور اس میں بسنے والے تمام جانداروں کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

    بے تحاشہ ترقی، ٹیکنالوجی اور دولت سے انسان موسموں کا رنگ، دریاؤں اور ہواؤں کا رخ تک بدلنے پر قادر ہوگیا ہے اور اس جنون میں اپنے ہی گھر کو نقصان پہنچانا شروع ہوگیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف اگلے چند سال میں انسان کی ترقی اس بات کا تعین کرلے گی کہ آیا یہ کرہ ارض اور اس پر موجود جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے یا اگلے کئی لاکھ سال تک موجود رہیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام سیارے کی مخلوق کی بقا، ایک مخلوق (انسان) کی مرہون منت ہے۔ اس بقا کی جنگ لڑنا ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ چیلنج 4 ارب سال میں ایک ہی بار درپیش ہے۔

  • 13 سالہ معذور طالبہ کو فلمی کردار جیسے بازو مل گئے

    13 سالہ معذور طالبہ کو فلمی کردار جیسے بازو مل گئے

    ہالی ووڈ فلم الیتا بیٹل اینجلز میں دکھائے گئے بازو ایک 13 سالہ معذور طالبہ کو لگا دیے گئے۔

    13 سالہ طالبہ ٹیلی صرف 15 ماہ کی عمر میں ایک بیماری کے باعث اپنے بازوؤں سے محروم ہوگئی تھی۔ اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے الیتا اینجل کی ٹیم نے اوپن بائیونکس نامی کمپنی کی معاونت حاصل کی اور معذور بچی کے بازوؤں کی تیاری کا کام شروع کیا۔

    فلم میں دکھائے گئے بازو تشکیل دینے کے لیے ہدایت کار جیمز کیمرون کی بھی مدد لی گئی۔

    بعد ازاں ٹیلی کو لندن بلایا گیا، وہ سمجھی شاید اسے کسی فوٹو شوٹ کے لیے بلایا گیا ہے مگر وہاں فلم کریو اس کے لیے کوئی اور ہی تحفہ لیے موجود تھا۔

    ٹیلی کو بازوؤں کا تحفہ دینے کے بعد اسے الیتا فلم کے پریمیئر میں بھی بلایا گیا جہاں دنیا بھر کے فوٹوگرافرز نے اس باہمت بچی کی تصاویر کھینچیں۔

  • امریکا اور جنوبی کوریا میں 5 جی انٹرنیٹ سروس کی فراہمی شروع

    امریکا اور جنوبی کوریا میں 5 جی انٹرنیٹ سروس کی فراہمی شروع

    واشنگٹن: امریکا اور جنوبی کوریا میں موبائل فون کمپنیوں نے 5 جی انٹرنیٹ سروس کی فراہمی شروع کردی، مذکورہ کمپنیوں نے دنیا میں سب سے پہلے 5 جی سروس فراہم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی کوریا اور امریکا میں موبائل فون کمپنیوں نے 5 جی انٹرنیٹ سروس کی فراہمی شروع کردی ہے۔ امریکی کمپنی ویرائزن نے مجوزہ تاریخ سے ایک ہفتہ قبل ہی شکاگو اور مینیا پولس میں یہ سروس جاری کردی۔

    ادھر جنوبی کوریا میں یہ سروس دارالحکومت سیؤل سمیت 85 شہروں میں فراہم کی جائے گی۔ وہاں بھی مقررہ تاریخ یعنی 5 اپریل سے دو روز قبل ہی منتخب صارفین کو یہ سروس فراہم کر دی گئی۔

    جنوبی کوریا کے بقیہ صارفین کو یہ سروس جمعہ 5 اپریل سے مہیا کی گئی۔ امریکا اور جنوبی کوریا کی دونوں کمپنیوں نے دنیا میں سب سے پہلے 5 جی سروس فراہم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    جنوبی کوریا میں سنہ 2014 میں وائر لیس ٹیکنالوجی 5 جی کا ابتدائی خاکہ پیش کیا گیا تھا اور اسے دنیا بھر میں سنہ 2020 تک عام کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

    ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق 5 جی ٹیکنالوجی سے اسمارٹ فونز پر انٹرنیٹ کی رفتار پچاس گنا بڑھ جائے گی جس کے ذریعے صارفین محض ایک سیکنڈ میں کئی میگا بائیٹ کی فلم ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے۔

  • شہاب ثاقب گرنے کا منظر کیمرے کی آنکھ میں قید

    شہاب ثاقب گرنے کا منظر کیمرے کی آنکھ میں قید

    شہاب ثاقب کا گرنا بعض اوقات خوبصورت منظر بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ حجم میں بڑا ہو تو زمین کے لیے خوفناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکا میں ایسے ہی شہاب ثاقب کے گرنے کے منظر کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرلیا گیا۔

    فلوریڈا کے شہر گنیز ویل میں رات 3 بجے دوران سفر ایک شہری کو روشنی کا گولہ گرتے ہوئے نظر آیا جسے اس نے اپنے کیمرے میں قید کرلیا۔

    بعد ازاں امریکی محکمہ موسمیات نے بھی شہاب ثاقب گرنے کی تصدیق کردی۔

    خیال رہے کہ خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

  • ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    یوں تو انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اور اسے دیگر تمام مخلوقات سے ذہین اور عقلمند سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض مواقع ایسے بھی آئے جب انسانوں نے جانوروں اور پرندوں سے کچھ نیا سیکھا۔

    دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم جاپان، جو پوری دنیا کے لیے ترقی اور محنت کی ایک مثال ہے، اس نے بھی ایک نہایت اہم سبق ایک ننھے سے پرندے سے سیکھا۔

    30 سال قبل جاپان کی بلٹ ٹرین دنیا بھر میں مقبول تھی جو گولی کی رفتار سے سفر کیا کرتی تھی، تاہم یہ ٹرین ایک مقام پر نہایت پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔

    جب بھی یہ ٹرین کسی سرنگ میں داخل ہوتی تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا، سرنگ سے گزرتے ہوئے یہ ٹرین بہت روز دار آواز پیدا کرتی تھی۔ اس شور سے وہاں کی جنگلی حیات، ٹرین کے مسافر، اور آس پاس کے رہائشی بہت زیادہ پریشان ہوتے۔

    دراصل ہوتا یوں تھا کہ جب ٹرین سرنگ میں داخل ہوتی تو سرنگ میں موجود ہوا پر دباؤ پڑتا، دباؤ سے ایک صوتی لہر پیدا ہوتی، یہ ہوا آگے جاتی اور سرنگ سے باہر نکلتے ہوئے اس سے ایسی آواز پیدا ہوتی جیسے زوردار فائرنگ کی گئی ہو۔ ہوا کے اس دباؤ کی وجہ سے ٹرین کی رفتار بھی ہلکی ہوجاتی۔

    اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ننھے سے پرندے کنگ فشر نے جاپانی ماہرین کو انوکھا راستہ دکھایا۔

    پانی سے مچھلیوں کا شکار کرنے والے اسے پرندے کی چونچ نہایت نوکدار تھی۔ ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کی چونچ سر کی طرف سے چوڑی تھی اور آگے جا کر نوکدار ہوجاتی۔

    اس کی وجہ سے پرندہ نہایت آسانی اور تیزی سے اپنی چونچ پانی میں داخل کردیتا۔

    جاپانی ماہرین نے بلٹ ٹرین کے لیے بھی یہی تکنیک اپنائی اور ایسی ٹرین بنائی جس کا اگلا حصہ نوکدار تھا۔ یہ ٹرین سرنگ میں ہوا پر دباؤ ڈالے بغیر ہوا کو چیرتی ہوئی آگے نکلتی اور بغیر کوئی آواز پیدا کیے تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہتی۔

    کامیاب تجربے کے بعد جاپان میں بلٹ ٹرین کے لیے یہی ماڈل اپنا لیا گیا اور اس کا نام کنگ فشر ٹرین رکھا گیا۔ یہ ٹرین کم آواز میں نہایت تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے۔ یہ ماڈل بعد میں نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں اپنا لیا گیا۔