Tag: سائنس

  • نریندر مودی کی انتہاپسند سوچ نے بھارتی سائنس دانوں کو لپیٹ میں لے لیا

    نریندر مودی کی انتہاپسند سوچ نے بھارتی سائنس دانوں کو لپیٹ میں لے لیا

    ممبئی: نریندر مودی کی انتہاپسند سوچ نے بھارتی سائنس دانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، مضحکہ خیز دعوے سامنے آنے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق سالانہ انڈین سائنس کانگریس کے دوران مودی جی کی دقیانوسی سوچ کی اتنی شدت سے حمایت  کی گئی کہ سنجیدہ حلقوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔

    انڈین سائنس کانگریس کے 106ویں اجلاس میں سائنسی طرز فکر کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ہندو دیو مالائی کہانیوں کو بنیاد بنایا گیا۔

    اجلاس میں شریک آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نگیشور راؤ نے کہا کہ رامائن کے زمانے میں ہوائی جہاز موجود تھے اور ہندو بادشاہ کے پاس 24 ہوائی جہاز تھے۔

    کانفرنس میں ایک یونیورسٹی کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ قدیم ہندو ماہرین نے ہزاروں سال پہلے اسٹیم سیل پر تحقیق کی تھی۔

    تامل ناڈو کی ایک یونیورسٹی کے  ایک سائنس داں تو اس حد تک چلے گئے کہ آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن کو غلط ٹھہراتے ہوئے کششِ ثقل کی لہروں کا نام ‘نریندر مودی لہریں’ رکھنے کا احمقانہ مطالبہ کر دیا۔


    مزید پڑھیں: الیکشن نزدیک آتے ہی نریندر مودی نے فلموں کو اپنا ہتھیار بنا لیا


    یاد رہے کہ اس اجلاس کا افتتاح خود نریندر مودی نے کیا تھا اور اسے ایک قابل قدر کاوش قرار دیا تھا۔

    خیال رہے کہ نریندر مودی اور ان کے وزرا خود بھی ماضی میں اس طرح کے بچگانہ دعوے کرتے رہے ہیں۔ نریندی مودی نے  ہندوؤں کے دیوتا گنیش کی بنیاد پر کہا تھا کہ ہندوستان میں ہزاروں برس قبل کاسمیٹک سرجری ہوا کرتی تھی ۔ 

    مودی جی کے ایک وزیر کا دعویٰ ہے کہ انٹرنیٹ قدیم ہندوستانیوں کی کی ایجاد تھا۔

    ادھر انڈین سائنٹفک کانگریس ایسوسی ایشن نے اس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے خیالات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

  • پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    آج کی جدید سائنس ایسے ایسے میدان سر کررہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، آج انسانی ایجادات خلا کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے نظامِ شمسی سے باہر نکل چکی ہیں اور بہت جلد ہی یہ انسان پڑوسی سیارے پر آباد ہونے کی تیاری کررہا ہے۔

    آج سے ایک صدی پہلے تک یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھی اور اگر کوئی ایسے نظریات پیش کرتا تو اسے دیوانہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن آج کی دنیا میں یہ سب حقیقت ہے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک صدی پہلے تک یہ سب دیوانگی سمجھا جارہا تھا تو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں ہمارے نبی ﷺ مدینے کی مسجد کے منبر سے افلاک کی وسعتوں کے بارے میں ایسی آیات مسلمانوں کو حفظ کرارہے تھے جن کے بارے میں صدیوں ابہام رہا اور اب انسانی ارتقاء کی اس جدید ترین صدی میں ان کی تصدیق ممکن ہوئی ہے۔

    یہاں ہم پیش کررہے ہیں کچھ ایسی آیات جو کہ کائنات کی وسعتوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو بھی حیران کیے ہوئے ہیں۔


    جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ چاند اور سورج ایک مقررہ حساب سے اپنا کام انجام دے رہیں تب سورہ رحمان کی آیت پانچ میں قرآن کہتا ہے

    [bs-quote quote=”والشمس والقمر بحسبان

    آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    سورہ رحمان کی آیت 19 اور 20میں خالق ِ کائنات زمیں پر موجود نمکین اور میٹھے پانی کے فرق کو بیا ن کرتا ہے۔

    [bs-quote quote=”مرج البحرین یلتقیان۔ بینھما برزخ لا یبغن

    اور اس نے دو دریا جاری کردیے جو آپس میں مل جاتے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان برزخ) ہے کہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد طواف کرتا ہے، ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے ، لیکن قرآن نے دونوں نظریات سے ہٹ کر سورہ یس کی آیت نمبر 38 میں بیان کیا کہ

    [bs-quote quote=”والشمس تجری لمستقر لھا ۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم

    اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالٰی کا” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آج سائنس داں جانتے ہیں کہ سورج جسے ساکن تصور کیا جاتا ہے درحقیقت اپنے پورے نظامِ شمسی اور اس سے بڑھ کر یہ پوری کہکشاں ایک نامعلوم سمت میں رواں دواں ہے۔

    آج سے14 سو سال قبل جب عرب میں اسلام ، محمد عربی ﷺ کے زیر سایہ نمو پارہا تھا ، اس زمانے کے ماہرینِ فلکیات سمجھتے تھے کہ چاند ، سورج اور ستارے درحقیقت آسمان میں لٹکے ہوئے چراغ ہیں اور اپنی جگہ ساکن ہیں لیکن قرآن نے سورہ یس کی آیت نمبر 40 میں انکشاف کیا کہ

    [bs-quote quote=”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر والا اللیل سابق النھار۔ وکل فی فلک یسبحون

    نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آسمان کے لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ اپنی جگہ پر جامد ہے لیکن جب جدید سائنس نے انسان کو اس آسمان یعنی خلا کی وسعتوں تک رسائی دی تو انکشاف ہوا کہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، اس امر کو اللہ قرآن کی سورہ الذریات کی آیت نمبر 47 میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ

    [bs-quote quote=”والسما بنینا ہا باید وانالموسعون

    اس آسمان کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے مسلسل پھیلاتے چلے جارہے ہیں” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]


    یقیناً بحیثیتِ مسلم ہمارے لیے یہ امر قابلِ ا فتخار ہے کہ آج جو کچھ سائنس دریافت کررہی ہے اس کے اشارے ہمیں قرآن نے 14 صدیوں قبل ہی دے دیے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ یہ قرآن ہمارے لیے ہی نازل کیا گیا تھا۔ ہمارے رب نے اسے انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات قرار دے کر ہم سے کہا تھا کہ اس ( قرآن ) میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

    کیا ہی اچھا ہو کہ ہم محض غیر مسلموں کی دریافتوں کو قرآن سے سند عطا کرنے کے بجائے خود آگے بڑھیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے ایسے کام کرجائیں کہ دنیا قرآن کا مطالعہ کرکے ایک دوسرے سے کہیں،  کہ دیکھو! مسلمانوں کو ان کے رب نے جو نشانی قرآن میں بتائی تھی وہ انہوں نے دریافت کر ڈالی ہے۔

    آج کی دنیا علم و فن کی دنیا ہے، تیز رفتار سائنسی ترقی کی دنیا ہے اگر ہم نے اس میدان کی جانب توجہ نہیں دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حشر بھی ویسا ہی ہو، جیسا کہ ہم سے اگلوں کا ہوا اور ان کے قصے بھی اسی قرآن میں ہمیں کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں کہ ہم ہدایت حاصل کرسکیں۔

  • ریت میں سر چھپانے والے کیڑے کا نام ڈونلڈ ٹرمپ رکھ دیا گیا

    ریت میں سر چھپانے والے کیڑے کا نام ڈونلڈ ٹرمپ رکھ دیا گیا

    پاناما میں دریافت کیے جانے والے ایک کیڑے کا نام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر رکھ دیا گیا۔ اسے یہ نام ریت میں اپنا سر چھپانے کی عادت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

    اس ایمفی بیئن (جل تھلیے) کا نام ڈرموفس ڈونلڈ ٹرمپی رکھا گیا ہے۔ کیڑے کی ٹانگیں نہیں ہیں، یہ نابینا ہے جبکہ یہ اپنا سر ریت میں چھپانے کی عادت بھی رکھتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیڑے کی یہ عادت بعین ڈونلڈ ٹرمپ جیسی ہے جو دنیا کو تباہی سے دو چار کرنے والے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کو ماننے سے انکاری ہیں۔

    ان کی یہ حرکت گویا طوفان کو سامنے دیکھ کر ریت میں سر چھپا لینے جیسی ہے۔ علاوہ ازیں اس کیڑے کا سر بھی ٹرمپ کے انوکھے نارنجی بالوں سے مشابہہ ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر اس سے پہلے بھی کئی جانداروں کا نام رکھا جاچکا ہے جو ان سے مشابہت رکھتے تھے۔

    اس سے قبل زرد رنگ کے سر والے ایک طوطے اور اسی شکل کے اڑنے والے کیڑے کا نام بھی امریکی صدر کے نام پر رکھا جاچکا ہے۔

  • سائنس سے فیضیاب ہونا ہر انسان کا حق

    سائنس سے فیضیاب ہونا ہر انسان کا حق

    دنیا بھر میں آج سائنس کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کا رجحان بہت کم ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد سائنس کے فیوض و برکات کا اعتراف کرنا اور دنیا بھر کو اس کے مثبت اثرات سے آگاہی دینا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’سائنس ۔ ایک انسانی حق‘۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ وہ سائنس سے مستفید ہونے کے لیے اس کو استعمال کرسکے اور سائنسی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

    بعض افراد سائنس کو برا کہتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے پہلا نام اسلحے اور جان لیوا ایجادت جیسے جنگی ہتھیاروں کا لیتے ہیں۔

    سائنس دراصل بذات خود بری یا اچھی شے نہیں۔ یہ اس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے نسل انسانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں یا دنیا کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کے لیے۔

    مزید پڑھیں: زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    دنیا کو فائدہ پہنچانے والی سائنسی ایجادات کرنے والے سائنس دان انسایت کے محسن کہلائے، جیسے جان لیوا امراض سے بچاؤ کی دوائیں یا ایسی ایجادات جس سے انسان تکلیف اور جہالت سے گزر کر آسانی اور روشنی میں آپہنچا۔

    دوسری جانب پاکستان میں سائنسی تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں۔

    اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن ہی شامل ہیں۔

    فہرست میں پاکستان 109 ویں نمبر پر موجود ہے جبکہ فہرست کے مطابق سوئٹزر لینڈ دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر نیدر لینڈز، تیسرے پر سوئیڈن جبکہ چوتھے پر برطانیہ موجود ہے۔

    پاکستان سائنس کے شعبہ میں ایک قابل فخر نام پیدا کرنے کا اعزاز ضرور رکھتا ہے جن کی ذہانت کا اعتراف دنیا بھر نے کیا۔ فزکس کے شعبہ میں اہم تحقیق کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جن کی خدمات کے اعتراف میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

    ایک اور نام پاکستانی نژاد نرگس ماولہ والا کا ہے جو عالمی سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ رہیں جنہوں نے کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کے منصوبے پر کام کیا۔

    جیسے جیسے وقت کی چال میں تبدیلی آرہی ہے، ویسے ویسے تعلیمی رجحانات بھی بدلتے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی نوجوان نسل کی بڑی تعداد سائنسی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔

    یہ نوجوان نہایت ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں جن کا ثبوت دنیا بھر سے انہیں ملنے والے مختلف اعزازات ہیں۔

    ایسی ہی ایک مثال فخر پاکستان ارفع کریم کی بھی ہے جس نے صرف 9 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی نوجوان صلاحیتوں سے بھرپور ہیں تاہم وسائل اور مواقعوں کی کمی ان کے آڑے آجاتی ہے۔

  • فلپائن میں قدیم ترین انسانوں کی موجودگی کا انکشاف

    فلپائن میں قدیم ترین انسانوں کی موجودگی کا انکشاف

    جنوب مشرقی ایشیائی ملک فلپائن میں انسان کی لاکھوں سال قبل موجودگی کا ثبوت ملا ہے جس نے مذکورہ علاقے میں انسانوں کی موجودگی کے بارے میں اب تک کے نظریات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔

    فلپائن کے شمالی جزیرے سے ملنے والی رکازیات سے اندازہ لگایا گیا کہ اس خطے میں انسانوں کی اولین آبادیاں اب سے 7 لاکھ 9 ہزار سال قبل موجود تھیں۔

    اس سے قبل تصور کیا جاتا تھا کہ فلپائن میں انسانوں کی قدیم ترین آبادی کی عمر صرف 67 ہزار سال ہے۔

    تحقیق کی بنیاد اس علاقے سے ملنے والے رائنو سارس کے رکازیات اور نوکدار پتھروں پر رکھی گئی۔

    مزید پڑھیں: انگلینڈ میں انسانوں کے قدیم اجداد کی باقیات دریافت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمد ہونے والے رائنو سارس کے ڈھانچے میں اسے ذبح کیے جانے کے واضح نشانات موجود ہیں جو صرف قدیم دور کے انسان ہی کرسکتے ہیں۔

    ان کے مطابق رائنو سارس کی ہڈیوں، پسلیوں اور رانوں پر ایسے نشانات تھے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں توڑنے کے لیے نوکدار پتھر استعمال کیے گئے۔

    اس مقام پر ہاتھی سے ملتی جلتی نسل کے ایک اور جانور، فلپائن میں پائے جانے والے بھورے ہرن اور میٹھے پانی کے کچھوے کی رکازیات بھی دریافت ہوئیں جن کی ہڈیوں پر بالکل رائنو سارس جیسے ہی نشانات تھے۔

    ان رکازیات کی عمر 7 لاکھ 77 ہزار سے 6 لاکھ 31 ہزار سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    اس علاقے میں انسانوں کی موجودگی کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف اقسام کی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: صحرا سے 90 ہزار سال قدیم انسانی انگلی دریافت

    ماہرین کے مطابق ان جانوروں کو تقریباً 7 لاکھ سال قبل ذبح کیا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ پہلے کی گئی تحقیق سے انسانوں کی موجودگی کے ثبوت اور حالیہ تحقیق سے ملنے والے ثبوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ انسانی آبادی کے تنوع کے لحاظ سے خاصا اہمیت کا حامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تحقیق انسانوں کی موجودگی کے بارے میں تجربات کو مزید وسعت دے گی۔

  • میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    ایک طویل عرصے سے اس بات پر بحث جاری ہے کہ سائنس کے شعبے میں خواتین کی تعداد کم کیوں ہے؟ اس شعبے میں مہارت رکھنے والی خواتین یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین سائنس سے دور ہیں۔

    مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس کی اہلیہ میلنڈا گیٹس اس بارے میں کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔

    میلنڈا گیٹس بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں جو دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔

    وہ خود کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مائیکرو سافٹ کمپنی میں ایک دہائی تک کام کیا ہے۔

    ایک انٹرویو میں میلنڈا نے بتایا کہ انہوں نے وکالت اور طب کے شعبے میں بے تحاشہ خواتین کو دیکھا ہے، لیکن ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھامیٹکس کے شعبوں میں صورتحال مختلف ہے۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔

    میلنڈا اب فلاحی کاموں کے ساتھ سائنس کے شعبوں میں صنفی برابری کے فروغ کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ہمیں سائنس کی خواتین پروفیسرز کی بھی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں سائنس پڑھنے کی طرف راغب ہوں، سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی شمولیت بھی ازحد ضروری ہے‘۔

  • مکڑیاں اڑ بھی سکتی ہیں

    مکڑیاں اڑ بھی سکتی ہیں

    ہماری زمین پر کچھ جاندار خصوصاً کیڑے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ یہ اڑتے نہیں، جیسے سانپ یا مکڑی وغیرہ۔

    مگر حال ہی میں ماہرین نے دل دہلا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ مکڑی اڑ بھی سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مکڑی اپنا جالا کیسے بناتی ہے؟

    کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق مکڑیاں اڑنے کی تکنیک جانتی ہیں اور اس کے لیے انہیں ہوا کی ضرورت بھی نہیں۔

    تحقیق کے مطابق مکڑیاں زمین کی مقناطیسی لہروں کے ذریعے اڑ سکتی ہیں اور طویل فاصلے طے کر سکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مکڑیوں کو زمین کی مقناطیسی لہروں کے ساتھ ساتھ حرکت کرتے دیکھا گیا ہے تاہم یہ حرکت بہت معمولی ہوتی ہے۔

    اس تحقیق کی بنیاد وہ مشاہدہ بنا جس میں سائنسدانوں نے دیکھا کہ مکڑیاں بہت اوپر فضا میں اڑ رہی تھیں حالانکہ اس وقت انہیں اڑانے کے لیے ہوا بھی نہیں چل رہی تھی۔

    مزید پڑھیں: معصوم سی مکڑی سے ملیں

    تحقیق کے لیے ایک تجربہ بھی کیا گیا جس میں مصنوعی طور پر مقناطیسی لہریں پیدا کی گئیں۔ ماہرین نے دیکھا کہ اس دوران مکڑیوں نے اڑنے کی کوشش کی جبکہ کچھ فضا میں اڑنے بھی لگیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ مکڑیاں بعض غیر معمولی مقامات پر کیوں پائی جاتی ہیں جیسے آتش فشاں پہاڑوں کے قریب، یا زمین سے دور بیچ سمندر کسی بحری جہاز میں۔ دراصل مکڑیاں کہیں بھی سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

  • بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    ایجادات اور تخلیق قدرت کی جانب سے عطا کی گئی ذہانت کے ساتھ ساتھ انتھک محنت، ریاضت اور بے شمار جاگتی راتوں اور بے آرام دنوں کے بعد سامنے آتی ہیں۔

    اگر یہ ایجاد نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہو تو نہ صرف اپنے موجد بلکہ دنیا کے ہر شخص کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تاہم تخلیق کا یہ عمل کچھ لوگوں کے لیے موت کا پیغام بھی ثابت ہوتا ہے۔

    ایک تخلیق کار کو، چاہے وہ سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور یا مصنف، اپنی تخلیق بہت عزیز ہوتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے بدقسمت موجد بھی گزرے ہیں جو اپنی ہی تخلیق کردہ ایجاد کے ہاتھوں موت سے ہمکنار ہوگئے۔


    ریڈیم

    ریڈیم میری کیوری نامی خاتون کی دریافت ہے جنہوں نے طویل عرصے تک اس پر تحقیق کی اور اس دریافت پر 2 بار نوبیل انعام کی حقدار ٹہریں۔

    تاہم سنہ 1934 میں وہ طویل عرصے تک تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے کے باعث لیو کیمیا (ہڈیوں کے گودے کے کینسر) کا شکار ہو کر انتقال کر گئی تھیں۔


    ایرو ویگن

    ایرو ویگن نامی گاڑی کا موجد ویلیرین اباکووسکی سنہ 1921 میں اپنی ایجاد کردہ گاڑی کی پہلی آزمائش کے دوران ہلاک ہوگیا۔

    ایئر کرافٹ کے انجن پر چلنے والی یہ گاڑی پہلے تجربے کے دوران اس وقت الٹ گئی تھی جب وہ نہایت برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔


    پیراشوٹ سوٹ

    ایک آسٹریلوی نزاد فرانسیسی موجد فرنز ریچلٹ نے سنہ 1912 میں پیرا شوٹ سوٹ ایجاد کیا تھا۔ اس کا مقصد ان پائلٹوں کی جان بچانا تھی جو طیارے کے کسی حادثے کا شکار ہونے کے بعد طیارے سے چھلانگ لگانا چاہتے ہوں۔

    پیراشوٹ سوٹ مکمل ہونے کے بعد اس کی آزمائش کے لیے ایفل ٹاور کا انتخاب کیا گیا۔ اس موقع پر میڈیا کو بھی دعوت دی گئی۔

    تاہم بدقسمتی سے پہلی آزمائشی اڑان ہی بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی اور سوٹ کا موجد اپنے بنائے ہوئے سوٹ میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔


    ٹائی ٹینک

    سنہ 1912 میں گلیشیئر سے ٹکرا کر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کا موجد بھی اس حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔

    جہاز کا چیف ڈیزائنر تھامس اینڈریوز جونیئر اس وقت پانی میں ڈوب گیا جب وہ لائف بوٹ میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کی مدد کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: کیا ٹائی ٹینک واقعی برفانی تودے سے ٹکرایا تھا؟


    جدید پرنٹنگ مشین

    جدید پرنٹنگ کا بانی ولیم بلاک سنہ 1867 میں اپنی ہی بنائی ہوئی پرنٹنگ مشین میں آ کر اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھا۔

    روٹری پرنٹنگ پریس نامی اس مشین میں تصاویر کو گردش کرتے سلنڈر کے ذریعے پرنٹ کیا جاتا ہے۔

    حادثے کے وقت ولیم نے چرخی کو چلانے کے لیے اس پر اپنی ٹانگ سے زور آزمائی کی جس پر اچانک مشین چل پڑی اور ولیم کی ٹانگ برق رفتاری سے گھومتی چرخی میں آکر کٹ گئی۔

    نو دن تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اس کی ٹانگ کا انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا جس کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔


    پانچ تکلیفیں ۔ موت کا طریقہ

    ایک چینی شخص لی سی کی جانب سے قیدیوں کو سزا دینے کے لیے ایجاد کیا جانے والا یہ طریقہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا۔

    اس طریقے میں مجرم کے جسم کو گودا جاتا، اس کی ناک اور دونوں پاؤں کاٹ دیے جاتے، بعد ازاں اسے جنسی اعضا سے بھی محروم کردیا جاتا جس کے بعد مجرم اذیت ناک تکالیف کی تاب نہ لا کر خود ہی ہلاک ہوجاتا۔

    تاہم 208 قبل مسیح میں اس وقت کے قن خانوادے کے ایک بادشاہ کی حکم عدولی کے جرم میں موجد کو بھی اسی کے ایجاد کردہ طریقے کا حقدار قرار دیا گیا اور ہزاروں لوگوں کی اذیت ناک موت کا سبب بننے والا یہ شخص خود بھی اسی طریقے سے موت کا شکار ہوگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    سائنس زندگی بدل دینے کا نام ہے، سائنس کی نت نئی ایجادات اور تحقیق نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے۔

    آج ہماری زندگی میں موجود ایک ایک شے سائنس کی مرہون منت ہے۔ ہم ان سائنسی اشیا کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی کا ایک لمحہ بھی گزارنا نا ممکن لگتا ہے۔

    تاہم کچھ ایجادات ایسی ہیں جو حقیقتاً ہماری زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے اور ہماری زندگی آسان بنانے میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔

    آج سائنس کے عالمی دن کے موقع پر ہم آپ کو ایسی ہی کچھ ایجادات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے بہت سی ایجادات آپ کے زیر استعمال نہ ہوں، لیکن ان کے بارے میں جاننا آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔


    الارم کلاک میٹ۔ پایہ دان یا فٹ میٹ میں نصب الارم جسے بند کرنے کے لیے آپ کا بستر سے اٹھ کر اس پر کھڑا ہونا ضروری ہے۔


    پھلوں کی صفائی کرنے والا فروٹ کلینر۔


    ویڈیو ریکارڈنگ کانٹیکٹ لینس۔ یہ لینس آپ کو سامنے کا منظر دکھانے کے ساتھ ساتھ اسے ریکارڈ بھی کرتا جائے گا۔


    استری کے لیے دہرا بورڈ جس کی پشت پر آئینہ نصب ہے۔


    شمسی توانائی سے چلنے والا آرام دہ اسٹینڈ جو رات میں آپ کو روشنی بھی فراہم کرے گا۔


    نیل پالش کو سنبھالے رکھنے والا ہولڈر۔


    کھیرے کو کاٹنے والا سلائسر۔


    بستر کے ساتھ رکھی جانے والی سائیڈ ٹیبل جس پر کھانے کی ٹرے بھی نصب ہے۔


    واشنگ مشین میں جوتوں کو خشک کرنے کے لیے نصب جالی۔


    ورزش کروانے والی کرسی۔


    دیوار پر رنگ و روغن کرنے کے لیے نرم رولر۔


    صفائی کے لیے جیلی دار ’کپڑا‘ جو مشکل جگہوں کی صفائی کرسکتا ہے۔


    یو ایس بی پورٹ کے ذریعے چارج ہونے والے بیٹری سیل۔


    خود بخود گرم ہونے والی چھری جو باآسانی جمے ہوئے مکھن کو کاٹ سکتی ہے۔


    سوٹ کیس میں تبدیل ہونے والا اسکوٹر۔


    سائیکل سواروں کے لیے حفاظتی بیگ پیک جو پیچھے آنے والوں کو ان کی سمت سے آگاہ کرتا ہے۔


    سورج کی روشنی سے چلنے والا پلگ ساکٹ۔

    مضمون و تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی طالب علم سائنس اور ریاضی سے نابلد

    پاکستانی طالب علم سائنس اور ریاضی سے نابلد

    اسلام آباد: غیر معیاری طرز تعلیم کے سبب پاکستانی طالب علموں کی کم استعدادی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور حال ہی میں ایک سروے میں انکشاف ہوا کہ پاکستانی طالب علم سائنس اور ریاضی کے مضامین میں خطرناک حد تک پیچھے ہیں۔

    تعلیم کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے میں نجی و سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم سائنس اور ریاضی کے مضامین سے نابلد نکلے۔

    سروے رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی طالب علموں نے سائنس اور ریاضی کے مضامین میں نہایت کم اسکور حاصل کیا، جبکہ فاٹا اور سندھ کے اسکولوں سے حاصل کیے جانے والے ڈیٹا میں یہ اسکور مزید نیچے گر گیا۔

    students-2

    مذکورہ رپورٹ نے ان اسکولوں کی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے جو اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور اس بنیاد پر والدین سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کرتے ہیں لیکن طالب علموں کو دور جدید کی یعنی معیاری سائنس اور ریاضی کی تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

    سروے میں دنوں مضامین میں طلبا نے اوسطاً ایک ہزار میں سے 4 سو سے کچھ ہی زیادہ نمبرز حاصل کیے۔ مذکورہ رپورٹ میں پنجاب کے اسکول گو کہ آگے رہے تاہم ان کا اوسطاً اسکور بھی 490 تک محدود رہا۔

    رپورٹ میں اس زبوں حالی کی وجہ ناقص تعلیمی نظام، سائنس اور ریاضی کے شعبہ جات میں مواقعوں اور ملازمتوں کی کمی، اور اساتذہ کی نا اہلی کو قرار دیا گیا جن کے باعث وہ ان مضامین میں ہونے والی اصلاحات سے بے خبر رہتے ہیں نتیجتاً وہ طالب علموں کو وہی سکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے کئی عشروں قبل خود سیکھا۔

    اس سے قبل بھی گلوبل انوویشن انڈیکس کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں۔

    اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن شامل تھے۔

    sci-2