Tag: سائنس

  • بھارت میں ناخن جتنے ننھے منے مینڈک دریافت

    بھارت میں ناخن جتنے ننھے منے مینڈک دریافت

    نئی دہلی: بھارتی سائنسدانوں نے مینڈک کی ایک انوکھی نسل دریافت کی ہے جو نہایت ننی منی اور انگلی کے ناخن جتنی ہے۔

    یہ مینڈک بھارت کے مغربی گھاٹ نامی پہاڑی سلسلے میں پائے گئے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مینڈک کی یہ قسم ایک عرصے سے بہ کثرت یہاں موجود تھی مگر اپنی جسامت کی وجہ سے اب تک یہ کسی کی نظر میں نہ آسکی۔

    frog-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مینڈکوں کی جسامت کیڑے مکوڑوں جیسی ہے۔

    بھارتی سائنسدان ایک طویل عرصے سے اس علاقے میں پائی جانے والی جنگلی حیات پر کام کر رہے ہیں۔

    کچھ عرصے قبل اسی علاقے میں مکڑی کی ایک نئی قسم دریافت کی گئی تھی جو حیرت انگیز طور پر ہالی ووڈ فلم سیریز ہیری پوٹر میں دکھائی جانے والی ٹوپی کی شکل جیسی تھی۔

    ماہرین نے اس مکڑی کا نام ٹوپی کے مالک گوڈرک گریفنڈر کے نام پر رکھا تھا۔

    اس مکڑی کی دریافت کے بعد تحقیق میں شامل سائنس دانوں نے ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کو بھی اس بات سے مطلع کیا تھا۔ جے کے رولنگ نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹیم کو مبارک باد دی تھی۔

  • دنیا بدل دینے والی 5 مسلمان ایجادات

    دنیا بدل دینے والی 5 مسلمان ایجادات

    یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ جس وقت یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہو اتھا، اس وقت اسلامی تہذیب و  تمدن اپنے عروج پر تھی اور سائنس، طب، اور فنون و ادب سمیت مسلمان ہر شعبہ میں کارہائے نمایاں سر انجام دے رہے تھے۔

    ابن سینا کی طب کے لیے خدمات ہوں، خوارزمی کی ریاضی میں اصلاحات ہوں، یا جابر بن حیان کی علم کیمیا کے لیے ایجادات ہوں، مسلمانوں نے بہت پہلے سے ایجادات و دریافتوں کی بنیاد ڈال دی تھی، اور مغربی سائنس دانوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے اسی بنیاد کے سہارے سائنس کو مزید ترقی دی۔

    آج ہم دنیا کو بدل دینے والی کچھ ایسی ہی ایجادات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں وجود میں آئیں۔ ان ایجادات کو پڑھ کر بہت سے لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا، اور بہت سے لوگوں کی معلومات و یادداشت کا اعادہ ہوجائے گا۔

    :کافی

    کیا آپ جانتے ہیں؟ دنیا بھر میں روزانہ ڈیڑھ بلین سے زائد کافی کے کپ پیے جاتے ہیں۔ شاید آپ کو علم نہ ہو لیکن کافی کا اصل منبع بھی ایک مسلمان ملک یمن ہے۔

    coffee

    یمن سے سفر کرتی یہ کافی خلافت عثمانیہ کے دور میں ترکی تک پہنچی، اس کے بعد یورپ جا پہنچی اور آج کافی یورپ کا سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔

    :یونیورسٹی

    کیا آپ کے علم میں ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلی باقاعدہ درسگاہ کہاں اور کس نے قائم کی؟

    یہ کام افریقی ملک مراکش میں 859 عیسوی میں انجام پایا اور اس عظیم کام کو انجام دینے والی ایک خاتون فاطمہ الفریہ تھی جو ایک مراکشی تاجر کی بیٹی تھی۔

    fatima

    یہ دنیا کی پہلی درسگاہ تھی جو فارغ التحصیل طالب علموں کو ان کی تعلیم کا تحریری ثبوت یعنی ڈپلومہ یا ڈگری بھی دیتی تھی۔

    یہ قدیم درسگاہ اب بھی فعال ہے اور کچھ عرصہ قبل ہی اس میں موجود کتب خانے کو از سر نو تعمیر کے بعد بحال کردیا گیا ہے۔ اس لائبریری میں درسگاہ کی بانی فاطمہ کا یہیں سے حاصل کیا جانے والا ڈپلومہ بھی ایک لکڑی کے تختہ پر نصب ہے۔

    2

    دنیا بھر کی تہذیب و تمدن میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک اور ادارے جامعہ الازہر کا قیام بھی 970 عیسوی میں قاہرہ میں عمل میں لایا گیا۔

    :کیمرہ

    آج کے دور میں سیلفی لینا یا تصاویر کھینچنا ایک لازمی عمل سمجھا جاتا ہے اور یہ سوچنا بھی ناممکن ہے کہ کیمرے کا وجود نہ ہو۔

    تصویر کھینچنے کا عمل دراصل اس نظریے پر مبنی ہے کہ روشنی کے ذریعہ کسی لمحے کو قید کیا جائے اور بعد ازاں اسے تصویری شکل دی جائے۔

    یہ نظریہ سب سے پہلے گیارہویں صدی میں عراقی سائنس دان ابن الہیشم نے پیش کیا۔ انہوں نے بصری زاویوں پر کام کیا اور دنیا کا پہلا کیمرہ (ابتدائی شکل) انہی کا ایجاد کردہ ہے۔

    8

    4

    تو اب جب بھی آپ کوئی تصویر کھینچیں تو ابن الہیشم کو دعا دیں کہ ان کی بدولت آپ اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات کو تصاویر کی صورت قید کرنے میں کامیاب ہوئے۔

    :فضائی سفر

    یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ فضائی سفر کا خیال اور اس کی پہلی کامیاب کوشش 2 امریکی بھائیوں رائٹ برادران کی مرہون منت ہے۔

    لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ان دونوں بھائیوں نے اڑنے کے خیال پر انہی خطوط پر کام کیا جو ایک ہسپانوی مسلمان سائنسدان عباس ابن فرناس نے نویں صدی میں وضع کیے۔

    5

    6

    اور یہ بات شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ دنیا کی پہلی اڑنے والی مشین بھی عباس ابن فرناس ہی کی ایجاد کردہ ہے جسے خود سے باندھ کر انہوں نے چند منٹوں تک فضا میں کامیاب پرواز بھی کی تھی۔

    :الجبرا

    طالب علموں کو مشکل میں ڈال دینے والے، مگر بڑی بڑی سائنسی و فلکیاتی تجربہ گاہوں میں بہت سے مسائل کردینے والے الجبرا کی ایجاد کا سہرا بھی مسلمان سائنسدان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی کے سر ہے۔

    7

    خوارزمی نے عراق و ایران میں رہ کر علم ریاضی میں بے شمار اصلاحات و اضافے کیے جن کے لیے آج ریاضی پڑھنے اور پڑھانے والے ان کے مشکور ہیں۔

    کیا آپ ان ایجادات کے تخلیق کاروں کے بارے میں جانتے تھے؟ ہمیں ضرور بتایئے کہ اسے پڑھ کر آپ کی معلومات میں کتنا اضافہ ہوا۔

  • خواتین کے بعد سائنس دان بھی ٹرمپ کے خلاف سراپا احتجاج

    خواتین کے بعد سائنس دان بھی ٹرمپ کے خلاف سراپا احتجاج

    واشنگٹن: امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکیوں کی بڑی تعداد سراپا احتجاج ہے۔ یہ مظاہرین ٹرمپ کو اپنا صدر ماننے سے انکاری ہیں۔ اب امریکی سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کی طرح وہ بھی ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مارچ منعقد کریں گے۔

    صدر ٹرمپ کی حلف برادری کے اگلے ہی روز ہالی ووڈ اداکارؤں سمیت لاکھوں خواتین نے احتجاجی مارچ منعقد کیا تھا۔

    اس کے بعد سوشل میڈیا پر 2 سائنس دانوں نے تبادلہ خیال کیا کہ انہیں بھی اپنا احتجاجی مارچ منعقد کرنا چاہیئے۔

    دو سائنسدانوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس خیال کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک ویب سائٹ، ٹوئٹر اکاؤنٹ اور فیس بک گروپ وجود میں آگیا جس میں ٹرمپ کے خلاف سائنس مارچ کی تفصیلات پر غور کیا جانے لگا۔

    ہزاروں افراد نے انٹرنیٹ پر ان پلیٹ فارمز کو جوائن کرلیا۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس مارچ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ ہر شعبہ کی طرح سائنس کے شعبہ کو بھی ٹرمپ سے شدید خطرہ لاحق ہے۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسی

    انہوں نے بتایا کہ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ٹرمپ کے خلاف اپنا احتجاج کس طرح ریکارڈ کروائیں، کہ ہم نے دیکھا کہ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ سے وہ صفحہ غائب ہوگیا جو ماحول دوست سائنسی اقدامات کے بارے میں تھا۔

    یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کا صفحہ انرجی پالیسی سابق صدر اوباما کے ماحول دوست منصوبوں کے بارے میں تھا جو انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں شروع کروائے تھے۔

    ٹرمپ اپنے انتخاب سے قبل ہی اس منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کر چکے تھے، اور جیسے ہی انہوں نے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا، امریکی صدارتی پالیسی سے اس کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس صفحہ کا وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ سے غائب ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ اپنے ماحول دشمن خیالات میں نہایت سنجیدہ ہیں اور یہ نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے نہایت خطرناک بات ہے۔

    انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ صدر ٹرمپ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کو ایک وہم سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کے درجہ حرارت میں اس وقت شدید اضافہ ہوچکا ہے اور ہم تباہی کی طرف جارہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کا غلط ٹوئٹ کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کا سبب

    مارچ کے منصوبے میں شامل ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ باخبر ذرائع کے مطابق ٹرمپ سائنس کے شعبہ کے لیے فنڈز میں کٹوتی کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

    سائنس مارچ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق مارچ کی تاریخ کا اعلان بہت جلد کردیا جائے گا۔

  • سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال 2016 اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بہت جلد ہم اس سال اور اس کی یادوں کو الوداع کہہ کر نئے سال میں داخل ہوجائیں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سال کے اختتام سے چند لمحوں قبل ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بہت کم پیش آتا ہے؟

    آج یعنی 2016 کے آخری دن جب 11 بج کر 59 منٹ ہوں گے تو ہم نئے سال میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے لیے ہمیں مزید 1 سیکنڈ کا انتطار کرنا پڑے گا۔

    دراصل آج وقت کے دورانیے میں ایک سیکنڈ کا اضافہ ہوجائے گا اور جس وقت 12 بج کر 1 منٹ ہونا چاہیئے اس وقت 12 بجیں گے اور ایک سیکنڈ بعد ہم اگلے سال میں داخل ہوں گے۔

    وقت کی یہ رفتار برطانیہ، آئرلینڈ، آئس لینڈ اور کچھ افریقی ممالک میں اپنی چال بدلے گی جبکہ پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں وقت وہی رہے گا اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہوگی۔

    leap-3

    سائنسدانوں کے مطابق جس طرح فروری کی 29 ویں تاریخ کا سال لیپ کا سال کہلاتا ہے، اسی طرح اس اضافی سیکنڈ کو بھی لیپ سیکنڈ کہا جاتا ہے اور آج اس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں 2016 کا آخری منٹ 60 کے بجائے 61 سیکنڈ کا ہوگا۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لیپ سیکنڈ ہر ڈیڑھ سال کے وقفے کے بعد آتا ہے اور آخری لیپ سیکنڈ 30 جون 2015 میں دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب پیرس آبزرویٹری کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق وقت میں اس اضافے کے بعد، خلا کے وقت کا درست تعین کرنے کے لیے بھی اس میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

    سائنسی و خلائی تحقیقوں کے لیے سیکنڈ کا ہزارواں حصہ بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ زمین کے وقت کے ساتھ خلا کے وقت کو بھی درست کیا جائے۔

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کا دورانیہ ہمیشہ ایک سا نہیں ہوتا اور اس میں چند سیکنڈز کا اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔

    leap-2

    ماہرین کے مطابق یہ فرق اس لیے رونما ہوتا ہے کیونکہ زمین کی گردش کا سبب بننے والے جغرافیائی عوامل اس قدر طویل عرصے تک اتنی درستگی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ کسی نہ کسی وجہ سے ان میں فرق آجاتا ہے جو نہایت معمولی ہوتا ہے۔

    رائل گرین وچ آبزرویٹری کے سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی گردش میں جن وجوہات کے باعث تبدیلی آتی ہے ان میں چاند کے زمین پر اثرات، برفانی دور کے بعد آنے والی تبدیلیاں، زمین کی تہہ میں موجود دھاتوں کی حرکت اور ان کا زمین کی سطح سے ٹکراؤ، اور سطح سمندر میں اضافہ یا کمی شامل ہیں۔

    چند روز قبل ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں ماہرین کا کہنا تھا کہ زمین کی گردش کی رفتار کبھی آہستہ ہوتی ہے اور کبھی تیز، لیکن فی الحال مجموعی طور پر زمین کی گردش کی رفتار آہستہ ہوگئی ہے یعنی دن بڑے ہوگئے ہیں۔

  • دنیا کے لیے سائنس فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    دنیا کے لیے سائنس فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    دنیا بھر میں آج سائنس کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کا رجحان بہت کم ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد سائنس کے فیوض و برکات کا اعتراف کرنا اور دنیا بھر کو اس کے مثبت اثرات سے آگاہی دینا ہے۔

    بعض افراد سائنس کو برا کہتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے پہلا نام اسلحے اور جان لیوا ایجادت جیسے جنگی ہتھیاروں کا لیتے ہیں۔ سائنس دراصل بذات خود بری یا اچھی شے نہیں۔ یہ اس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے نسل انسانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں یا دنیا کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کے لیے۔

    دنیا کو فائدہ پہنچانے والی سائنسی ایجادات کرنے والے سائنس دان انسایت کے محسن کہلائے۔ جیسے جان لیوا امراض سے بچاؤ کی دوائیں یا ایسی ایجادات جس سے انسان تکلیف اور جہالت سے گزر کر آسانی اور روشنی میں آپہنچا۔

    کچھ عرصہ قبل گلوبل انوویشن انڈیکس 2016 کی جاری جانے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں۔

    اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن ہی شامل ہیں۔

    فہرست کے مطابق سوئٹزر لینڈ دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر سوئیڈن، تیسرے پر برطانیہ جبکہ چوتھے پر امریکا موجود ہے۔

    پاکستانی سائنسدان کی حیرت انگیز ایجاد *

    رواں سال کی اس فہرست میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے بھی پیچھے ہے جس کے مطابق بھارت 66 ویں، بھوٹان 96 ویں، سری لنکا 91 ویں اور بنگلہ دیش 117 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    البتہ پاکستان سائنس کے شعبہ میں ایک قابل فخر نام پیدا کرنے کا اعزاز ضرور رکھتا ہے جن کی ذہانت کا اعتراف دنیا بھر نے کیا۔ فزکس کے شعبہ میں اہم تحقیق کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جن کی خدمات کے اعتراف میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

    abdus-salam

    ایک اور نام نرگس ماولہ والا کا ہے جو عالمی سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ رہیں جنہوں نے کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کے منصوبے پر کام کیا۔

    nargis

    جیسے جیسے وقت کی چال میں تبدیلی آرہی ہے، ویسے ویسے تعلیمی رجحانات بھی بدلتے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی نوجوان نسل کی بڑی تعداد سائنسی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ نوجوان نہایت ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں جن کا ثبوت دنیا بھر سے انہیں ملنے والے مختلف اعزازات ہیں۔

    حال ہی میں سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سائنسدان ڈاکٹر واصف فاروق کو جرمن وزارت برائے تعلیم اور تحقیق کی جانب سے ’گرین ٹیلنٹ ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔

    واصف فاروق کو یہ اعزاز بائیو فیول کی پیداوار کے لیے فوسل فیول پر انحصار کرنے والے کارخانوں اور بجلی گھروں میں سبز کائی سے تیار کردہ ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کے منصوبہ پر دیا گیا ہے۔

  • کافی میں حل ہوجانے والا چمچہ

    کافی میں حل ہوجانے والا چمچہ

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کے بعض ممالک میں ایسے ریستوران ہیں جو کافی میں حل ہوجانے والے چمچہ اپنے گاہکوں کو پیش کرتے ہیں۔

    کافی میں دودھ اور چینی مکس کرنے کے ساتھ ساتھ چمچہ بھی آہستہ آہستہ پگھلتا جاتا ہے اور بالآخر یہ کافی کا حصہ بن جاتا ہے جسے پینے والا بآسانی پی جاتا ہے۔

    دراصل یہ چمچے گیلیئم سے بنائے جاتے ہیں۔

    gallium-3

    گیلیئم ایک مرکری پارے جیسا عنصر ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے۔ یہ زنک اور ایلومینیئم بنانے کے دوران حاصل کیا جاتا ہے۔

    gallium-4

    گیلیئم کو ایل ای ڈی لائٹس اور ڈی وی ڈی پلیئر کی لیزر میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس سے چھوٹی چھوٹی چپ بھی بنائی جاتی ہیں۔ گو کہ یہ جسم کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اسے استعمال کرنے سے قبل دستانے پہننے ضروری ہیں کیونکہ یہ ہاتھوں کو بری طرح گندا کر سکتا ہے۔

    منجمد حالت میں یہ اپنے کنٹینر میں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ اسے استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کنٹینر جس میں اسے رکھا گیا ہے اسے گرم پانی میں ڈالا جائے جس کے بعد اس کے اندر موجود گیلیئم پگھل کر مائع حالت میں آجائے گا۔

    gallium-2

    یہ دنیا کے ان چند سائنسی عناصر میں سے ایک ہے جو ٹھنڈا ہونے کے بعد پھیل جاتا ہے۔ اس کے برعکس اکثر عناصر ٹھنڈا ہو کر سکڑتے جبکہ گرم ہو کر پھیل جاتے ہیں جیسے برف۔

    مائع گیلیئم کو پھیلا کر اگر خشک کیا جائے تو اس سے آئینہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔

    gallium-5

    گو کہ اس کے انسانی صحت پر کوئی مضر اثرات تو نہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس سے بنے ہوئے چمچہ اپنی کافی میں ڈال کر پیئیں۔ کیمیائی عناصر سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

  • فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    واشنگٹن: ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔

    امریکا کے نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں کی جانے والی ایک ریسرچ کے مطابق ایک دماغی اسکین میں دماغ کے ٹشوز میں آلودگی کے باعث پیدا ہونے والے ذرات پائے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فضا میں موجود مضر صحت ذرات جیسے آئرن آکسائیڈ الزائمر کی نشونما اور اس میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    اس نئی تحقیق نے فضائی آلودگی کے باعث ہونے والے طبی خطرات میں اضافہ کردیا ہے۔

    اس سے قبل ماہرین نے فضائی آلودگی کے صرف پھیپھڑوں اور دل پر منفی اثرات کے حوالے سے تحقیق کی تھی۔ حالیہ تحقیق سے پتہ چلا کہ فضائی آلودگی کے باعث مضر صحت چھوٹے چھوٹے ذرات انسانی دماغ تک بھی پہنچتے ہیں اور اس پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے 37 افراد کے دماغی ٹشوز کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے کچھ افراد آلودہ ترین شہروں کے رہائشی تھے اور انہی کے دماغ میں ایسے ذرات پائے گئے۔ ماہرین کے مطابق ایسے ہی ذرات ان افراد کے دماغ میں بھی دیکھے گئے جو کسی بجلی گھر کے قریب رہائش پذیر تھے۔

    مزید پڑھیں: محبت کی نشانی تاج محل آلودگی کے باعث خرابی کا شکار

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث ہر سال 30 لاکھ جبکہ ہر روز 18 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ شرح ایڈز، ٹی بی اور سڑک پر ہونے والے حادثات کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

  • پاکستان سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک

    پاکستان سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک

    پاکستان دنیا کے سب کم تخلیقی صلاحیت والے ممالک میں سے ایک ہے۔ دنیا کے 128 سب سے زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 119واں ہے۔

    گلوبل انوویشن انڈیکس 2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں۔ اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن ہی شامل ہیں۔

    sci-2

    فہرست میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے بھی پیچھے ہے جس کے مطابق بھارت 66 ویں، بھوٹان 96 ویں، سری لنکا 91 ویں اور بنگلہ دیش 117 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    فہرست کے مطابق سوئٹزرلینڈ دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر سوئیڈن، تیسرے پر برطانیہ جبکہ چوتھے پر امریکا موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں پاکستانی نژاد خاتون سائنسدان کا اہم کارنامہ

    واضح رہے کہ پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں اس وقت پرائمری اسکول جانے کی عمر کے تقریباً 56 لاکھ طلبہ اسکول جانے سے قاصر ہیں (یعنی دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والوں بچوں کا 62 فیصد) جبکہ لوئر سیکنڈری اسکول جانے کی عمر کے تقریباً 55 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

    دوسری جانب بلوغت کی عمر کو پہنچتے ایک کروڑ سے زائد نوجوان اپر سیکنڈری اسکول جانے سے محروم ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تعداد 2 کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    واشنگٹن: سائنسدانوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زیر زمین گہرائی میں پمپ کرنے کے بعد اسے پتھر میں تبدیل کر کے کلائمٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔

    یہ تجربہ آئس لینڈ میں کیا گیا جہاں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    co2-1

    تحقیق کے سربراہ جرگ میٹر کے مطابق کاربن کا اخراج اس وقت دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے نقصانات سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ اسے ٹھوس شکل میں تبدیل کرلیا جائے۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس پر زور دے رہے ہیں۔

    اس سے قبل کاربن کو مٹی کی چٹانوں کے نیچے دبانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ وہاں سے کسی بھی وقت لیکج شروع ہوسکتی تھی۔

    co2-2

    آئس لینڈ کے ہیلشیڈی پلانٹ میں شروع کیا جانے والا یہ پروجیکٹ ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلاتا ہے جو آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    co2-3

    تحقیق میں شامل ایک پرفیسر کے مطابق اس کامیابی سے انہیں بہت حوصلہ ملا ہے اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر آب مارٹن اسٹٹ کے مطابق اس طریقہ کار سے کاربن کی ایک بڑی مقدار کو محفوظ طریقہ سے پتھر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔