Tag: سابق ایس ایس پی ملیر

  • نقیب اللہ قتل کیس: ملزم راؤ انوارعدالت میں پیش نہ ہوئے

    نقیب اللہ قتل کیس: ملزم راؤ انوارعدالت میں پیش نہ ہوئے

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں ملزمان کے وکلا کو 14مئی کوہرصورت دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منسوخہ کی درخواست پر سماعت کی۔

    سابق ایس ایس پی ملیرملزم راؤانوارعدالت میں پیش نہ ہوئے، ملزم پولیس اہلکارخضر حیات کے وکیل بھی پیش نہیں ہوئے۔

    مدعی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی طرف سے گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے، ملزمان کی جانب سے گواہوں کی جان کو خطرہ ہے، راؤ انوار اور دیگر کی ضمانتیں منسوخ کرکے جیل بھیجا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کے وکلا کو آخری مہلت دیتے ہوئے 14 مئی کو ہرصورت دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے کہ مقتول نقیب اللہ کے والد نے راؤ انوار و دیگر کی ضمانتیں منسوخ کرنے کے لیے درخواست دائر کررکھی ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤ انوار ودیگر کی ضمانتیں منظور کی ہیں۔

    نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    یاد رہے گزشتہ برس 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا۔

    ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

  • راؤ انوار کا محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ

    راؤ انوار کا محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی کردار اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کاعندیہ دے دیا اور کہا کہ جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر تک غلط درج کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے کہا کہ محرم کےبعد اہم پریس کانفرنس کروں گا، 5اعلیٰ افسران بھی جے آئی ٹی میں تفتیش صحیح نہیں کرسکے۔

    راؤ انوار کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں میرافون نمبرتک غلط درج کیا گیا، 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوا، میرا نمبر کراچی میں چل رہا تھا، یہ نمبر جب کراچی میں چل رہا تھا تو کسی کو کیوں نہیں پکڑا گیا۔

    اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی، عدالت نے مفرور ملزمان سابق ایس ایچ اوامان اللہ ، شعیب شوٹر سمیت12ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 3 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    سماعت میں تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ جمع کرائی ، رپورٹ میں کہا کہ مفرور ملزمان سابق ایس ایچ او امان اللہ ، شعیب عرف شوٹر سمیت دیگر روپوش ہیں،کوشش کررہے گرفتار کرلیا جائے۔

    یاد رہے نقیب اللہ قتل میں مبینہ طور پر ملوث مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو رہا کردیا گیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔