Tag: سابق وزیراعظم نوازشریف

  • ‘آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا’

    ‘آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا’

    لندن : سابق وزیراعظم نوازشریف نے جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا، مولانا فضل الرحمان نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف نے جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔

    ذرائع کے مطابق نوازشریف نے بھرپوراپوزیشن کاکرداراداکرنےکی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا حکومت کےساتھ بیٹھنا ہمارے مؤقف کی نفی ہے، آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا، مشترکہ حکمت عملی طےکریں گے۔

    نوازشریف نے مولانا فضل الرحمان سے گفتگو میں کہا رہبرکمیٹی کاجلداجلاس بلایاجائے، رہبرکمیٹی کے اجلاس میں مشترکہ حکمت عملی طے کی جائے۔

    سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میری بیماری ،دورہونےسےکمیونیکیشن نہ ہونےسےمسائل پیدا ہو رہے ہیں ، جس پر فضل الرحمان نے کہا کہ ن لیگ کو اپنے بہت قریب سمجھتاہوں، اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کونیب کے ذریعے ڈرایا جارہا۔

    مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کو نیب پیشیاں نہ بھگتنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کسی بھی پیشی پرکوئی بھی پارٹی رہنمانیب پیش نہ ہوں، پیشی سے انکار کیا جائے اور جیل بھرو تحریک شروع کی جائے۔

    رابطے میں دونوں رہنماؤں میں مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ چلنے پر اتفاق کیا گیا۔

  • نوازشریف سے متعلق حکومتی شرائط پر (ن) لیگ کا ردعمل آگیا

    نوازشریف سے متعلق حکومتی شرائط پر (ن) لیگ کا ردعمل آگیا

    لاہور: وفاقی کابینہ کی جانب سے نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط منظوری دیے جانےپر مسلم لیگ(ن) کا ردعمل سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق (ن) لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ نےعدالت پرعدالت قائم کردی ہے،عدالت نوازشریف کوعلاج کرانےکیلئےضمانت دےچکی ہے، کابینہ عدالت نہیں ہے اور نیب پہلے کی عدالت میں اپنامؤقف پیش کرچکی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کابینہ کی جانب سےدستاویزی طورپرشرائط ابھی تک نہیں ملیں،شرائط دیکھیں گےاس کےبعدعدالت جانےکافیصلہ کریں گے۔

    خرم دستگیرکا کہنا تھا کہ کابینہ عدالت نہیں ہے،شرائط شرمناک ہیں جس کی مذمت کرتےہیں،ضمانت عدالت لیتی ہے اوراعلیٰ عدلیہ ضمانتیں لےچکی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر نیب کی شرائط سامنے آگئیں

    (ن) لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کوشک ہےنوازشریف کی صحت پرتوکھل کربات کرے، حکومت کی جانب سےاس قسم کی شرائط کی مذمت کرتاہوں،کابینہ نےکب کسی کیس میں زرضمانت طلب کی ہے؟2عدالتیں ضمانت لےچکی ہیں کابینہ تیسری عدالت کیوں بن گئی۔

    خرم دستگیرکا مزید کہنا تھا کہ کابینہ کافیصلہ ملنےکے بعد عدالت جانےسےمتعلق کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط کی منظوری دے دی گئی، نواز شریف کو باہر جانے کے لئے سیکیورٹی بانڈز دینا ہوں گے۔

  • نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سوالیہ نشان بن گئی

    نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سوالیہ نشان بن گئی

    لاہور: سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے تاحال نہ نکالا جاسکا، ای سی ایل میں نام شامل ہونے کی وجہ سے نوازشریف کی پیر کی صبح بیرون ملک روانگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان نے کل صبح 9 بجکر5منٹ پرلندن کی ٹکٹ بک کرارکھی ہے تاہم نوازشریف کا نام ای سی ایل میں موجود ہے۔

    ای سی ایل سے نام نہ نکالے جانےپرنوازشریف کی روانگی سے متعلق بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اورشریف خاندان حکومتی فیصلے کے منتظر ہیں۔

    اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی علی نوازاعوان کا اے آر وائی کے پروگرام’ سوال یہ ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نوازشریف کانام ای سی ایل سےنکالنےکیلئے سمری آگئی ہے، وزارت قانون کی سمری کابینہ میں دیکھی جائےگی، وفاقی کابینہ کااجلاس منگل کوہوگا جس میں سمری پرفیصلہ کیاجائےگا۔

    واضح رہے کہ نواز شریف، شہباز شریف اور ڈاکٹر عدنان کی لندن کے لیے ٹکٹ بک کرلی گئی ہیں، بک کی گئی ٹکٹ پر واپسی کی تاریخ 27 نومبر درج ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: نیب کی سفارش پر ہی نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے گا، عمران خان

    ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن اور پاکستان میں ڈاکٹرز سے نوازشریف کی طبیعت کے حوالے سے مشاورت کرلی گئی ہے جبکہ لندن میں حسین نواز اور اسحاق ڈار نے انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔

    یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ذرائع کا کہنا تھا کہ نوازشریف کا نام 48سے 72گھنٹوں میں ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا۔

    سابق وزیراعظم نواز شریف نے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے درخواست دی تھی، درخواست نواز شریف کی فیملی کی جانب سے بیماری اور بیرون ملک علاج کرانے کی بنیاد پر دی گئی تھی ، درخواست میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف بیرون ملک علاج کے لئے جانا چاہتے ہیں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت کو مسترد کردیا اور کہا نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے، عدالت نے 20 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈویژن بنچ پر مشتمل جسٹس عامرفاروق اورجسٹس محسن اخترکیانی نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کی درخواست ضمانت مستردکردی۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے، طبی بنیادوں پرضمانت نہیں دی جاسکتی، طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کمرہ عدالت پہنچ گئے جبکہ ن لیگ رہنماؤں شاہد خاقان، خواجہ آصف ، میاں ابرار ، طلال چوہدری سمیت ن لیگی کارکنان کی بڑی تعداد بھی عدالت پہنچ گئی ہے۔

    اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیکورٹی سخت انتطامات کئے گئے ہیں اور اسلام آباد پولیس کے اضافی دستے اور سادہ لباس میں ملبوس اہلکار تعینات ہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج غیر متعلقہ افراد کو ہائیکورٹ میں داخلے پر پابندی ہے لیکن جن ساحل کا کیس لگا ہوا ہے صرف ان کو ہائیکورٹ داخل ہونے کی اجازت ہے۔

    نواز شریف نےطبی بنیادوں پرضمانت دینے کی درخواست کی تھی، جس پر جسٹس عامر فاروق اورجسٹس محسن اخترکیانی پرمشتمل دو رکنی بینچ نے دلائل کے بعد بیس فروری کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ

    جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی شخص کو اپنی زندگی کا علم نہیں، عدالت کیس کا فیصلہ دلائل سننے کے بعد میرٹ پر کرے گی، نیب کو کیسے معلوم کہ آئندہ ہفتے کس کو کیا بیماری ہوجائے، میڈیکل بورڈکے معاملے نیب سنجیدہ اقدامات نہیں کررہی، نوازشریف کی طبیعت جیسی بھی ہو علاج کی اجازت ہونا چاہیے۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نوازشریف نے میڈیکل بنیاد پر ضمانت کےلئےدرخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا نوازشریف کو انسانی  ہمدردی اورضروری چیک اپ کیلئےضمانت دی جائے، جیل میں ہونےکی وجہ سے ان کا پراپر چیک اپ نہیں ہوپارہا،عدالت جتنے مچلکے حکم کرگے جمع کرادیں گے۔

    مزید پڑھیں : طبیعت ٹھیک نہیں، علاج کرانا چاہتا ہوں، نواز شریف

    خیال رہے نواز شریف العزیزیہ کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں اور اپنی بیماری کے سبب لاہور کے جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں ، میڈیکل بورڈ نے سفارشات محمکہ داخلہ کو بجھوادیں ہیں ، جس میں انجیو گرافی تجویز کی گئی ہے۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

    بعد ازاں ان کی درخواست پر انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا تھا۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، نواز شریف اور شہباز شریف کی طلبی کی درخواستیں مسترد

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، نواز شریف اور شہباز شریف کی طلبی کی درخواستیں مسترد

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت نوسیاستدانوں اورتین بیوروکریٹس کی طلبی کی درخواستیں مسترد کردیں اور سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے نام ملزمان کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں تین رکنی فل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس سے متعلق سماعت کی، سماعت میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت ن لیگی رہنماؤں کی طلبی پر فیصلہ سنا دیا۔

    لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں منہاج القرآن کی جانب سے نواز شریف اور شہباز شریف سمیت نوسیاستدانوں اورتین بیوروکریٹس کی طلبی کی درخواستیں مسترد کردیں اور سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے نام ملزمان کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ دو ایک کی اکثریت سے آیا، جسٹس سرداراحمد نعیم اور جسٹس عالیہ نیلم نےدرخواستیں مسترد کیں جبکہ فل بینچ کےسربراہ جسٹس قاسم خان نے اختلافی نوٹ لکھا۔

    جسٹس سرداراحمد نے تحریری فیصلے میں کہا اےٹی سی نے گواہوں کی شہادتوں کے بعد سیاستدانوں کو طلب نہیں کیا، جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ عدم شواہد پرسیاستدانوں کی طلبی عدالتی کارروائی کو خراب کرے گی ، کیس دوبارہ ٹرائل کے لیے ماتحت عدالت کو نہیں بھجوایا جاسکتا۔

    فل بینچ کےسربراہ جسٹس قاسم خان نے کہا میرے خیال میں سیاستدانوں کو طلب نہ کرنے کا فیصلہ درست نہیں۔

    یاد رہے ٹرائل کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے استغاثہ کیس میں نواز شریف، شہباز شریف سمیت سابق وزرا کو بے گناہ قرار دیا تھا، عوامی تحریک نے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

    ادارہ منہاج القرآن کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ دہشتگردی عدالت میں زیر سماعت استغاثہ میں نواز شریف. شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، سعد رفیق، پرویز رشید، عابدہ شیر علی اور چودھری نثار کے نام میں شامل کیے جائیں آور دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، جس کے تحت ان کے نام استغاثہ میں شامل نہیں کیے۔

    فل بنچ نے سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی درخواست کو بھی مسترد کردیا، مشتاق سکھیرا نے استغاثہ میں اپنی طلبی کے احکامات کو چیلنج کیا تھا اور استدعا کی تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے استغاثہ سے انکا نام خارج کیا جائے، ان کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔

    رواں سال 27 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں تین رکنی فل بینچ نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    درخواست گزار کے وکلا نے دلائل میں کہا تھا  کہ سانحہ ماڈل ٹاون ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس میں میاں نوازشریف اور شہباز شریف سمیت ن لیگ کی اعلی سیاسی شخصیات شامل تھیں۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس، لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

    درخواست گزار نے عدالت کو بتایا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے حوالے سے انسداد دہشت گردی عدالت میں استغاثہ دائر کیا گیا جس میں ان تمام سیاسی شخصیات کو فریق بنایا گیا مگر عدالت نے ان کو طلب نہیں کیا اور محض پولیس افسران کو ہی نوٹس جاری کیے۔

    منہاج القرآن کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل کا کہنا تھا کہ ثبوتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف ، شہباز شریف ، رانا ثنااللہ ، خواجہ آصف، چوہدری نثار ، خواجہ سعد رفیق سمیت ن لیگی رہنما ہی اس قتل عام کے ماسٹر مائنڈ ہیں لہذا عدالت حکم دے کہ ان تمام شخصیات کو طلب کیا جائے۔

    اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا ازخود نوٹس لے کر ہائی کورٹ کو دوہفتوں میں سماعت مکمل کر کے فیصلہ سنانے کے احکامات جاری کیے تھے۔

    خیال رہے 19 ستمبر کو سربراہ پی اے ٹی ڈاکٹر طاہر القادری نے وطن واپسی پر تحریک انصاف کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو سزا دے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے راستے میں 116 پولیس افسر رکاوٹ ہیں۔

    واضح رہے کہ جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں جامع منہاج القرآن کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے کے لیے خونی آپریشن کیا گیا، جس میں خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جب کہ 90 افراد زخمی ہو گئے تھے۔