Tag: ساحل

  • جدہ کا خوبصورت ساحل شہریوں کی توجہ کا مرکز

    جدہ کا خوبصورت ساحل شہریوں کی توجہ کا مرکز

    ریاض: سعودی عرب کے شہر جدہ میں شمالی اور جنوبی کورنیش پر سال بھر بڑی تعداد میں لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں۔ اہل جدہ کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں۔

    شہر کی جنوبی سمت میں واقع ساحلی تفریح گاہ کو سیف بیچ کہا جاتا ہے، اس ساحل کو انتظامیہ نے کافی خوبصورت بنا دیا ہے اسی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ تفریح کے لیے آتی ہے۔

    سیف بیچ 3 ہزار میٹر پر پھیلا ہوا ہے جہاں تمام سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے مخصوص مقامات بنائے گئے ہیں جہاں بیک وقت 7 ہزار سے زائد گاڑیاں پارک ہو سکتی ہیں۔

    تفریح کے لیے آنے والوں کے لیے مخصوص بینچز نصب ہیں جن کے اطراف میں موبائل چارج کرنے کے لیے خصوصی ساکٹس بھی فراہم کیے ہیں تاکہ لوگوں کو موبائل یا ٹیبلٹ چارج کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    ساحل پرسفید ریت میلوں دور تک پھیلائی گئی ہے جس پر جاگنگ کرنے کا اپنا ہی لطف ہے جبکہ ساحلی ریت پر آرام کرنے کے لیے خصوصی شیڈز بھی لگائے گئے ہیں تاکہ دھوپ کی تمازت سے بچا جاسکے۔

    سیف بیچ کی انتظامیہ کی جانب سے فاسٹ فوڈ کارنر بھی قائم کیا گیا ہے جہاں انواع و اقسام کی اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں متحرک گاڑیوں کے ذریعے آئس کریم اور دیگر ڈرنکس بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔

  • کراچی: ریت میں پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے بڑی ٹگ بوٹ منگوالی گئی

    کراچی: ریت میں پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے بڑی ٹگ بوٹ منگوالی گئی

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ساحل پر ریت میں پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے بڑی ٹگ بوٹ منگوالی گئی، جہاز سے تیل کے ممکنہ رساؤ کو روکنے کے لیے انسداد آلودگی بند لگا دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے ساحل پر ریت میں پھنسنے والے جہاز سے تیل کے ممکنہ رساؤ کو روکنے کے لیے انسداد آلودگی بند لگا دیا گیا، بھاری مشینری کے پی ٹی کے شعبہ میرین پلوشن کنٹرول نے نصب کی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ہینگ ٹونگ 77 میں 118 ٹن بنکر آئل موجود ہے، سمندر میں موجیں جہاز کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ موجوں کی وجہ سے جہاز کے ٹوٹنے کا بھی اندیشہ ہے۔

    یاد رہے کہ ہانگ کانگ سے ترکی جانے والا جہاز 18 جولائی کو کراچی ہاربر پہنچا تھا، کے پی ٹی نے جہاز کو ہاربر پر لگنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ مذکورہ جہاز راں کمپنی کا ایک اور جہاز پہلے سے ہاربر پر موجود تھا۔

    کے پی ٹی ذرائع کے مطابق ہینگ ٹونگ کو دوسرے جہاز سے عملہ تبدیل کرنا تھا، کے پی ٹی نے عملے کی تبدیلی کا عمل کھلے سمندر میں کرنے کی ہدایت کی تاہم ہدایات ی خلاف ورزی کی گئی جس کے باعث جہاز تیز موجوں سے بہہ کر کلفٹن کے ساحل پر پھنس گیا تھا۔

    دوسری جانب جہاز کو نکالنے کے لیے مالک نے بڑی ٹگ بوٹ منگوالی ہے، ٹگ بوٹ متحدہ عرب امارات سے منگوائی گئی ہے جو آج دوپہر پہنچے گی۔ ٹگ بوٹ اور کے پی ٹی عملہ مشترکہ آپریشن سے جہاز کو نکالنے کی کوشش کریں گے۔

    جہاز کے مالک کو ریسکیو آپریشن سے پہلے تیل نکالنے کی ہدایت کی گئی ہے، میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور متعلقہ ادارے جہاز کی نگرانی کے لیے ساحل پر موجود ہیں۔

  • لہروں کے ساتھ ساحل پر بہہ کر آنے والے انسانی پاؤں نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا

    لہروں کے ساتھ ساحل پر بہہ کر آنے والے انسانی پاؤں نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا

    کیا ہوگا اگر آپ ساحل سمندر پر تفریح کے لیے جائیں اور وہاں آپ کو ایک جوگر اس طرح دکھائی دے کہ اس کے اندر ایک انسانی پاؤں بھی موجود ہو؟ ایسی ہی کچھ خوفناک صورتحال کچھ عرصے سے امریکن اور کینیڈین شہریوں کے ساتھ پیش آرہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا اور کینیڈا میں بحیرہ سالیش کے ساحلی علاقوں میں 20 اگست 2007 سے کٹے ہوئے انسانی پیر لہروں کے ساتھ بہہ کر آرہے ہیں۔

    ویسے تو کسی بھی ساحل پر لہروں کے ساتھ بہہ کر آنے والے انسانی پیر دل ہلا دیتے ہیں مگر 2007 سے 2019 کے درمیان جوتوں کے ساتھ 21 پیروں کو اس ساحلی خطے میں دریافت کیا گیا۔

    جسم سے علیحدہ ہوجانے والے ان پیروں کو ساحل پر آنے والے افراد نے دریافت کیا اور اب تک معمہ بنا ہوا تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، تاہم سائنسدانوں نے اب اس معمے کو حل کرلیا ہے یا کم از کم ان کا دعویٰ تو یہی ہے۔

    سب سے پہلے 20 اگست 2007 کو ایک 12 سالہ بچی نے ایک نیلے و سفید جوگر کو برٹش کولمبیا کے ایک جزیرے جڈیڈہا کے ساحل پر دیکھا، بچی نے جوتے کے اندر جھانکا تو اس میں ایک جراب تھی اور جب اس نے جراب کے اندر دیکھا تو اس میں ایک پیر موجود تھا۔

    6 دن بعد ایک قریبی جزیرے گبرولا میں ایک جوڑا سیر کررہا تھا جب اس نے ایک بلیک اینڈ وائٹ جوگر کو دیکھا اور اس کے اندر سڑتا ہوا پیر موجود تھا۔

    دونوں جوتوں کا سائز 12 تھا اور یہ دائیں پیر کے تھے یعنی یہ واضح تھا کہ یہ 2 مختلف افراد کے ہیں۔ اس معاملے نے پولیس کو دنگ کردیا اور مقامی حکام نے اس وقت میڈیا کو بتایا کہ دونوں پیر گل سڑ چکے تھے مگر ان پر گوشت موجود تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ اتنے کم وقت میں 2 پیروں کا ملنا کافی چونکا دینے والا ہے، اس طرح تو کسی ایک پیر کے ملنے کا امکان 10 لاکھ میں سے ایک فیصد ہوتا ہے، مگر 2 کی دریافت تو حیران کن ہے۔

    اگلے سال یعنی 2008 میں قریبی کینیڈین ساحلوں میں 5 مزید پیروں کو دریافت کیا گیا اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں خوف پھیل گیا جبکہ میڈیا کے قیاسات بڑھنے لگے، جیسے کیا کوئی سیریل کلر آزاد گھوم رہا ہے جو پیروں کا دشمن ہے؟

    اگلے 12 برسوں میں کینیڈین ساحلوں پر مجموعی طور پر 15 جبکہ امریکی ساحلی علاقوں میں 6 پیروں کو جوتوں کے ساتھ دریافت کیا گیا۔

    جوگرز پہنے یہ پیر بہت زیادہ مشہور ہیں اور وکی پیڈیا پر ان کا اپنا ایک پیج بھی ہے، اس شہرت کے نتیجے میں افواہوں میں بھی اضافہ ہوا جبکہ کچھ لوگ جوتوں میں مرغیوں کی ہڈیاں بھر کر کینیڈین ساحلوں پر چھوڑنے لگے۔

    کچھ کا خیال تھا کہ یہ مافیا گروپس کا کارنامہ ہے جو لاشوں کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔ لوگوں کی جانب سے پولیس سے رابطہ کر کے ان پیروں کے حوالے سے متعدد خیالات ظاہر کیے گئے۔

    پولیس حکام کے مطابق ہمیں سیریل کلرز کے بارے میں کافی دلچسپ تفصیلات ملیں یا یہ بتایا گیا کہ تارکین وطن سے بھرے ہوئے کنٹینرز سمندر کی تہہ میں موجود ہیں۔ مگر اس طرح کے اسرار کے لیے پولیس کی بجائے سائنسی تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مختلف سوالات جیسے پورے جسم کی بجائے صرف پیر ہی کیوں ساحل پر بہہ کر آرہے ہیں اور وہ مخصوص ساحلی پٹی پر ہی کیوں دریافت ہورہے ہیں؟ کے جواب اب سائنسدانوں نے دے دیے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ کسی نامعلوم سیریل کلر کا کام نہیں جو جوگرز سے نفرت کرتا ہے بلکہ اس معمے کے پیچھے ایک سادہ وجہ ہے اور وہ ہے جوتوں کی صنعت میں آنے والی ایک تبدیلی۔

    اس تبدیلی سے پہلے چند اہم نکات جان لیں تاکہ سائنسدانوں کی وضاحت زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں۔

    جب کوئی فرد حادثاتی یا خودکشی کے باعث سمندر میں مرتا ہے تو لاش یا تو تیرتی ہے یا ڈوب جاتی ہے۔

    اگر وہ تیرتی ہے تو ہوا کا بہاؤ اسے سطح پر لے آتا ہے اور وہ جلد ساحل تک پہنچ جاتی ہے جبکہ ڈوبنے کی صورت میں وہ ایک جگہ رہ سکتی ہے۔

    ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر پھیپھڑوں میں ہوا ہو تو جسم کے تیرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ ہوا سے خالی پھیپھڑے جیسے لاشوں کا ڈوبنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بالخصوص اگر ان کے جسموں پر بھاری ملبوسات یا پھیپھڑوں میں پانی بھر جائے تو لاش ڈوب جاتی ہے اور تہہ میں پہنچ جاتی ہے۔

    کورنرز سروس کی محقق یازدجیان نے اس معمے پر کافی کام کیا اور ان کا کہنا تھا کہ گہرے پانیوں میں پانی کا شدید دباؤ لاشوں کو بہنے سے روکتا ہے۔

    وہاں ایک مختلف قسم کا جراثیمی عمل ہوتا ہے اور لاش کے ٹشوز کو ایک چربیلے مادے ایڈیپوسیرے میں بدل دیتا ہے جو کم آکسیجن والے ماحول میں برسوں بلکہ صدیوں تک رہ سکتا ہے۔

    بحیرہ سالیش میں دریافت ہونے والی پیروں میں یازدجیان نے ایسا ہی کچھ دیکھا اس پر ایڈیپوسیرے کو دیکھا، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ جسم کے ڈوبنے کے بعد وہ گلنے سڑنے کے دوران زیرآب رہا، جس سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ وہ ڈوب گئے اور وہی پھنسے رہے، مگر پھر کیا پیروں کو بھی جسم کے ساتھ ہی نہیں جڑے رہنا چاہیئے؟

    اس بات کا جواب کورنرز سروس کے محقق بارب میکلنٹوک نے دیتے ہوئے بتایا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اب جان چکے ہیں کہ ایسے ہر کیس میں کیا ہوا۔

    ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ سنہ 2016 میں جب مزید پیر ساحل پر بہہ کر آئے تو ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ قتل کا نتیجہ ہیں بلکہ اس کی ایک متبادل اور قابل قبول وضاحت موجود ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب کوئی سمندر میں ڈوب کر تہہ میں پہنچ جاتا ہے تو ان کی جانب مردار خور لپکتے ہیں۔

    مگر یہ مردار خور کافی سست رفتاری سے کھاتے ہیں اور جسم کے سخت کی بجائے نرم حصوں کو ترجیح دیتے ہیں اور انسانوں کے نرم حصوں میں ٹخنے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔

    ٹخنے نرم ٹشوز اور ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جب ان کو یہ مردار خور چبا لیتے ہیں تو پیر لاش کے زیادہ گلنے سے قبل ہی تیزی سے الگ ہوجاتے ہیں۔

    آسان الفاظ میں پورا جسم ڈوب جاتا ہے مگر پیروں کو مچھلیاں جسم سے الگ کردیتی ہیں جو تیر کر ساحل پر پہنچ جاتے ہیں۔

    مگر یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آسکتا ہے کہ 2007 سے قبل ایسا کیوں دیکھنے میں نہیں آتا تھا تو اس کی وجہ حالیہ برسوں میں جوگرز ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہے۔

    اس طرح کے جوتے اب زیادہ نرم فوم سے بنتے ہیں جبکہ ان میں ایئر پاکٹس بھی موجود ہوتے ہیں۔

    بارب میکلنٹوک نے بتایا کہ ماضی میں ایسا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کبھی ایسے رننگ شوز موجود نہیں تھے جو اتنی اچھی طرح تیر سکتے ہیں، اسی لیے پہلے پیر بھی جسم کے ساتھ سمندر کی تہہ تک ہی محدود رہتے تھے۔

  • سعودی عرب: خواتین کے لیے علیحدہ ساحل بنانے کا منصوبہ

    سعودی عرب: خواتین کے لیے علیحدہ ساحل بنانے کا منصوبہ

    ریاض: سعودی عرب میں خواتین کے لیے علیحدہ ساحل بنانے پر کام شروع کردیا گیا، ساحل پر سبزہ زاروں کے علاوہ ریستوران، قہوہ خانے، سپر مارکیٹ اور مختلف قسم کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق الجبیل انڈسٹریل سٹی کی بلدیاتی کونسل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جبیل میں خواتین کے لیے پہلا علیحدہ ساحل کورنیش سی فرنٹ کے شمال میں بنایا جائے گا۔

    بلدیاتی کونسل کے چیئرمین نائف الدویش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے پہلے علیحدہ ساحل کا ڈیزائن تیار ہو چکا ہے، اس پر 90 روز کے اندر کام شروع کر دیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے سیاحتی منصوبوں میں سے ایک ہوگا۔ بلدیاتی کونسل نے اس حوالے سے 5 سالہ منصوبہ تیار کرلیا ہے۔

    نائف الدویش کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے پہلا علیحدہ ساحل سعودی وژن 2030 کا حصہ ہے، اس کا مقصد بلدیاتی کونسل کی سرمایہ کاری کو نئی جہت دینا اور زندگی کا معیار بلند کرنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ خواتین کے علیحدہ ساحل کے لیے مناسب رقبہ مختص کیا گیا ہے جہاں سبزہ زاروں کے علاوہ ریستوران، قہوہ خانے، سپر مارکیٹ اور مختلف قسم کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔

    چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ یہاں پرائیوسی کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے گا، یہ الجبیل شہر کی آبادی سے قریب ہوگا اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ الجبیل انڈسٹریل سٹی کے باشندے آسانی سے ساحل پہنچ سکیں گے اور وہاں سیر کر سکیں گے۔

  • سعودی بچے کو کھیلتے ہوئے لاکھوں ریال مالیت کے قیمتی پتھر مل گئے

    سعودی بچے کو کھیلتے ہوئے لاکھوں ریال مالیت کے قیمتی پتھر مل گئے

    ریاض: سعودی عرب میں ایک کم عمر بچے کو ساحل پر کھیلتے ہوئے قیمتی پتھر مل گئے جن کی مالیت لاکھوں ریال ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق تبوک کے علاقے الوجہ کے جنوبی سمندری ساحل پر ایک بچے کو کھیلتے ہوئے قیمتی عنبر مل گیا جس کا وزن 15 کلو ہے۔

    محمود ابو سالم کے مطابق ان کے بیٹے عبد الرحمٰن کو سمندری ساحل سے تیرتا ہوا قیمتی عنبر ملا ہے جو پتھروں سے مشابہہ ہے، اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں جو 3 رنگوں سیاہ، سرمئی اور سرخ رنگ کے ہیں۔

    انہوں نے جب ان ٹکڑوں کے بارے میں تحقیق شروع کی تو انہیں پتہ چلا کہ یہ قیمتی عنبر کے ٹکڑے ہیں۔

    والد کا مزید کہنا تھا کہ وہ عنبر کو تاجروں کے پاس بیچنے کے لیے لے گئے تھے جنہوں نے اس کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

    مارکیٹ میں سرخ عنبر کی قیمت 170 ہزار ریال فی کلو ہے، مٹیالے رنگ کے عنبر کی قیمت 145 ہزار ریال فی کلو اور سیاہ رنگ کا عنبر 110 ہزار ریال فی کلو ہے۔

  • سمندر سے عجیب و غریب مخلوق برآمد، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    سمندر سے عجیب و غریب مخلوق برآمد، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    جنوبی افریقہ میں سمندر سے ساحل پر آجانے والی عجیب و غریب سمندری حیات نے مقامی افراد کو خوفزدہ کردیا۔

    جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے ساحل پر چہل قدمی کرتے افراد نے نیلے رنگ کے اس آبی جاندار کو دیکھا جو دیکھنے میں ڈریگن کی طرح ہے۔

    مشہور تصوراتی جانور ڈریگن سے اس کی شباہت کی وجہ سے اسے بلو ڈریگن کہا جاتا ہے جبکہ اسے سمندر کا حسین ترین قاتل بھی مانا جاتا ہے۔

    ان ڈریگنز کی غذا سمندر کے زہریلے جاندار ہیں جنہیں کھانے کے بعد یہ خود بھی زہریلے بن جاتے ہیں، اگر یہ کسی انسان کو ڈنک مار دیں تو وہ متلی اور درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    بظاہر دیکھنے میں ڈریگن کی طرح معلوم ہونے والے اس جاندار کے جسم کے دیگر اعضا بھی پرندوں، چھپکلی اور ہشت پا کی طرح ہیں۔

    ان کی جسامت ایک انچ ہوتی ہے جبکہ یہ اوپر سے نیلے اور نیچے سے سفید ہوتے ہیں۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سمندر سے اکثر اوقات مختلف اقسام کی آبی حیات ساحل پر آجاتی ہے تاہم وہ انہیں خالی ہاتھ سے واپس سمندر میں ڈالنے سے پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں وہ زہریلے نہ ہوں۔

    مقامی افراد کی جانب سے بلو ڈریگن کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں جو بے حد وائرل ہورہی ہیں۔

  • جدہ میں پارکس اور تفریحی مقامات کھول دیے گئے

    جدہ میں پارکس اور تفریحی مقامات کھول دیے گئے

    ریاض: سعودی عرب میں کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے لگائے گئے کرفیو کے خاتمے کے بعد جدہ میں پارکس اور تفریحی مقامات کو بھی کھول دیا گیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے شہر جدہ میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پابندیاں ختم کیے جانے کے بعد پارکس اور ساحل کورنیش پر تفریحی مقامات کو بھی عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

    اس سے قبل ملک کے تمام علاقوں میں کووڈ 19 وائرس کی وجہ سے احتیاطی اقدامات کے تحت سماجی فاصلے کے اصول پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے پارکس اور ساحلی تفریحی مقامات کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

    کرفیو کے دوران بلدیہ اور دیگر اداروں کی جانب سے ساحلی پارکوں اور تفریحی مقامات کی از سر نو تزئین اور آرائش کا کام کیا گیا، اس دوران پارکوں میں جراثیم کش ادویات کا اسپرے کرنے کے علاوہ بیٹھنے کے مقامات کو بھی بہتر کیا گیا ہے۔

    بلدیہ حکام کا کہنا ہے کہ کرفیو کے دوران چونکہ تفریحی مقامات پر لوگ نہیں آرہے تھے اس لیے صفائی اور سینی ٹائزنگ کا کام تیزی سے مکمل کر لیا گیا۔

    واضح رہے جدہ میں عید الفطر کے بعد ساحلی تفریح گاہ ’کورنیش‘ کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تھا کیونکہ کرفیو کھلتے ہی بڑی تعداد میں لوگ کورنیش پر پہنچ گئے جس کی وجہ سے وہاں سماجی فاصلے کے اصول پر عمل ممکن نہیں رہا تھا۔

    وزارت صحت کی جانب سے سفارشات پر عمل کرتے ہوئے کرونا کے حفاظتی اقدام کے تحت کورنیش پر موجود تفریحی پارکوں کو 24 گھنٹے کی بنیاد پر سیل کر دیا گیا تھا۔

  • ساحلی پٹی پر بڑی تعداد میں کرمبیونیلا اور بلوم جیلی فش

    ساحلی پٹی پر بڑی تعداد میں کرمبیونیلا اور بلوم جیلی فش

    کراچی: پاکستان کی مختلف ساحلی پٹی پر بڑی تعداد میں کرمبیونیلا اور بلوم نامی جیلی فش دیکھی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر کرمبیونیلا اور بلوم جیلی فش دیکھی گئی۔ اس سے قبل یہ جیلی فش سال2002 اور 2003 میں بھی اس علاقے میں دیکھی گئی تھی۔

    محکمہ وائیلڈ لائف کے مطابق جیلی فش نے ماہی گیروں کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ بحیرہ عرب اور خلیج عمان میں سمندر کنارے2019 میں جیلی فش کی بڑی تعداد دیکھی گئی تھی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف نے دسمبر2019 میں بحیرہ عرب میں کرمبیونیلا اور سینی کی تصدیق کی تھی۔

    خیال رہے کہ ایک تحقیق کے مطابق جیلی فش تقریباً 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس جاندار کا دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام موجود نہیں ہوتا اس کے باوجود جیلی فش دن کے 24 گھنٹے خوراک کھاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بہ آسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

  • جدہ میں عوامی باتھ روم کے استعمال پر فیس مقرر

    جدہ میں عوامی باتھ روم کے استعمال پر فیس مقرر

    ریاض: جدہ کے ساحل جدہ کورنیش پر بنے باتھ رومز کے استعمال پر فیس عائد کردی گئی، مقامی افراد نے فیس عائد ہونے پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی شہر جدہ کے ساحل جسے کورنیش کہا جاتا ہے، پر بنے باتھ روم استعمال کرنے کے لیے فیس مقرر کر دی گئی ہے۔ ترجمان بلدیہ کے مطابق اسمارٹ باتھ روم کے لیے 7 ریال جبکہ روایتی بیت الخلا کے لیے 3 ریال فی کس مقرر کیے گئے ہیں۔

    محکمہ بلدیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ جدہ کے ساحل پر بنائے گئے باتھ روم کا کنٹریکٹ دینے کے لیے ٹینڈرز بھی طلب کیے جائیں گے۔

    ترجمان بلدیہ کے مطابق ساحل جدہ کی بہترین تفریح گاہ ہے اور یہاں روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں، ان کی ضروریات کے لیے بلدیہ کی جانب سے بیت الخلا تعمیر کیے گئے ہیں۔ ساحل کے مختلف مقامات پر 10 روایتی جبکہ 8 اسمارٹ بیت الخلا موجود ہیں۔

    اسمارٹ بیت الخلا میں داخلے کے لیے پری پیڈ کارڈ حاصل کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ پری پیڈ کارڈ مختلف قیمتوں کا ہوتا ہے تاہم اس کے کریڈٹ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

    اسمارٹ بیت الخلا میں گرم اور ٹھنڈے پانی کی سہولت کے علاوہ ہاتھ خشک کرنے کے لیے ایئر بلوورز کا بھی خصوصی انتظام موجود ہے۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والوں کا کہنا ہے کہ بلدیہ کی جانب سے روایتی باتھ رومز کو بھی نجی اداروں کی تحویل میں دے دیا گیا ہے جس سے انہیں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    البتہ کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ بہترین اقدام ہے اور اس سے لوگوں کو صاف ستھرے باتھ رومز ملیں گے۔

  • 25 سال بعد کراچی کے ساحلی علاقے صوبائی حکومت کے زیر انتظام لانے کا فیصلہ

    25 سال بعد کراچی کے ساحلی علاقے صوبائی حکومت کے زیر انتظام لانے کا فیصلہ

    کراچی: شہر قائد کے ساحلی علاقے 25 سال بعد صوبائی حکومت کے زیر انتظام لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سندھ حکومت نے کراچی کے ساحلی علاقوں کے انتظامی کنٹرول لینے کی تیاری کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کر لیا ہے، اس ترمیم کے بعد کراچی کے ساحلی علاقے صوبائی حکومت کے زیرِ انتظام آ جائیں گے۔

    بتایا گیا ہے کہ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے ساحلی علاقوں کو سندھ کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر انتظام کیا جائے گا، ترمیمی مسودہ قانون کے تحت کراچی کے ساحل سندھ حکومت کے کنٹرول میں آ جائیں گے۔

    اس سلسلے میں کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں 3 ترامیم شامل کی گئی ہیں، جس کے تحت سندھ کے تمام ساحلی علاقے کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کنٹرول میں ہوں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کراچی کے ساحل پر استعمال شدہ سرنجوں کا انکشاف،ایڈز اور ہیپاٹائٹس پھیلنے کا خدشہ

    پہلے ٹھٹھہ، بدین، سجاول کے ساحلی علاقے کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر اثر تھے، جب کہ کراچی کے ساحلی علاقوں کا انتظامی کنٹرول بلدیاتی اداروں کے پاس تھا، ترمیمی مسودہ سندھ اسمبلی سے منظوری کے بعد فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

    واضح رہے کہ ان دنوں کراچی شہر سمیت اس کے سواحل پر بھی گندگی کے ڈھیر موجود ہونے کے حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، ان ساحلوں کی صفائی کے لیے کئی مہمات بھی چلائی گئیں لیکن ساحلوں پر کچرا بدستور موجود ہے۔

    چند دن قبل کلفٹن کے ساحل پر اسپتال کے استعمال شدہ فضلے کی موجودگی نے انتظامیہ میں کھلبلی مچا دی تھی، ساحل پر استعمال شدہ سرنجز اور لیب کا سامان بڑی مقدار میں برآمد ہوا تھا، ابتدائی طور پر جس کے بارے میں یہ خیال کیا گیا کہ سرنجز منشیات کے لیے استعمال کی گئیں۔