Tag: سارنگی نواز

  • اللہ رکھا خان جنھوں نے قائدِاعظم کے سامنے فنِ موسیقی کا جادو جگایا

    اللہ رکھا خان جنھوں نے قائدِاعظم کے سامنے فنِ موسیقی کا جادو جگایا

    معروف سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے بانی پاکستان قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ آج نہ تو وہ شخصیات رہیں اور نہ ہی وہ سارنگی باقی بچی جس کے بے روح وجود کو ایک ماہر اپنے فن و مہارت سے گویا زندہ کرنا جانتا تھا۔

    پاکستان کے معروف سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 27 جنوری 2002ء کو وفات پاگئے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں‌ کلاسیکی موسیقی کے عروج کے دور میں مختلف سازوں اور ان کے بجانے والوں کو بھی بڑی عزّت اور احترام حاصل رہا ہے اور ان کی شہرت دور دور تک ہوتی تھی۔ استاد اللّہ رکھا خان بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وقت گزرا تو یہ ساز بھی متروک ہوگئے اور سازندے دنیا سے ایک ایک کرکے اٹھتے چلے گئے۔ آج نہ تو سارنگی کی شکل ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے اور نہ ہی وہ فن کار جنھیں موسیقی کی دنیا میں کبھی اہمیت اور مقام حاصل تھا۔ دوسری طرف موجودہ دور میں موسیقی پر مبنی کسی پروگرام میں اس فن اور اس سے وابستہ ان ناموں کا تذکرہ بھی نہیں کیا جاتا جو کبھی ہاتھوں کی جنبش اور سانس کے زیر و بم سے سُر اور موسیقی چھیڑا کرتے تھے۔ شاید اسی کا نام گردشِ دوراں ہے۔ مگر ہندستانی موسیقی، اور تقسیم کے بعد سرحد کے دونوں اطراف بسے ان فن کاروں کا ذکر کتابوں میں اب بھی ملتا ہے اور یہ ساز اب بھی کسی میوزیم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

    ہندوستانی کلاسیکی سنگیت میں سارنگی وہ ساز تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی آواز سے سب سے زیادہ ملتا ہے۔ سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 1932ء میں سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ بچپن ہی میں امرتسر چلے گئے تھے، اور وہیں اپنے والد استاد لال دین سے سارنگی بجانی سیکھی۔ بعدازاں استاد احمدی خان، استاد اللہ دیا اور استاد نتھو خان جیسے ماہر سازندوں سے استفادہ کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ 1948ء میں پاکستان آگئے تھے۔ یہاں وہ ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوگئے اور 1992ء تک اسی سے وابستہ رہے۔

    سارنگی نواز استاد اللہ رکھا کو 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • بندو خان:‌ موسیقار اور باکمال سارنگی نواز

    بندو خان:‌ موسیقار اور باکمال سارنگی نواز

    متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد دونوں ممالک میں کئی بڑے نام تھے جو اپنے فن میں یکتا اور ہنر میں بے مثال تھے۔ ایک زمانہ میں جب فن و ثقافت اور ہنر کی قدر تھی تو موسیقی کی دنیا میں بندو خاں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا تھا۔ انھیں یہ کمال حاصل تھا کہ وہ سارنگی کی مدد سے مختلف سریلی اور نازک آوازیں نکال سکتے تھے جو عام طور پر سازوں کے ذریعے نہیں پیدا کی جا سکتیں۔

    معروف موسیقار اور سارنگی نواز بندو خان کا یہ تذکرہ ان کی برسی کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ 13 جنوری 1955ء کو وفات پاگئے تھے۔

    آج کلاسیکی موسیقی کی دنیا کے بندو خان اور ان جیسے کئی فن کار اور ماہر سازندے ہی ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ بدقسمتی یہ ہے کہ سارنگی اور اس جیسے کئی ساز اپنی تمام تر نزاکت و دل کشی اور کمال و ہنر کے باوجود متروک ہوچکے ہیں۔ نئی نسل کو سارنگی سے کوئی دل چسپی نہیں اور یوں بھی انھیں اس کی باریکیاں کون بتائے اور اس کا سلیقہ قرینہ کوئی نوجوان موسیقار کس سے سیکھے؟ پھر جدید موسیقی میں تو سارنگی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے 1959ء میں بعد از مرگ استاد بندو خان کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ بندو خان نے موسیقی اور سارنگی کا ابتدائی درس اور سازوں کی تربیت اپنے والد علی جان خان سے لی، پھر اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم پائی اور ریاضت کرکے فن کو نکھارا۔ آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس سے منسلک ہو گئے۔ بندو خان ریاست رام پور اور اندور کے دربار میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے عزّت اور انعام پاتے رہے تھے۔

    کہتے ہیں کہ ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی غرض سے استاد بندو خان نے سنسکرت بھی سیکھی تھی۔ یہ ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور جنون کی ایک مثال ہے۔

    بندو خان 1880ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علی جان خان بھی سارنگی نواز تھے جب کہ سُر ساگر کے موجد ممّن خان ان کے ماموں تھے۔ یوں اپنے گھر میں فنِ موسیقی پر باتیں اور ساز کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے بندو خان بھی اس کے شیدائی ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بندو خان کراچی چلے آئے تھے۔ یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور اسی شہر میں ان کا انتقال ہوا۔

    استاد بندو خان کو 500 راگوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ” تان پلٹے “، ” روایتی بندشیں“، ” راگ مالکوس “، ” راگ ملہار “ اور ” راگ بھیرویں “ استاد کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ استاد بندو خاں نے سارنگی بجانے میں تو کمال حاصل کیا مگر وہ اس میں نت نئی تبدیلیاں کرنے کا بھی سوچتے رہتے تھے، اور سارنگی کے تاروں کی تعداد 34 سے گھٹا کر 12 کر دی جس کی وجہ سے اس کے سریلے پن میں اضافہ ہو گیا۔ بندو خان کلاسیکی موسیقی پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔

    افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ استاد بندو خان اپنے فن کے اوج اور نہایت پذیرائی کے باوجود کبھی مالی طور پر آسودہ نہ ہوسکے۔ بہت تنگی ترشی سے وقت گزارا۔ ان کی قدر دانی زبانی جمع خرچ اور واہ وا تک محدود تھی۔ بندو خان نے اُردو اور ہندی میں دو کتابیں بھی تحریر کی تھیں جن کے نام ” جوہرِ موسیقی “ اور ” سنگیت وِوِیک درپَن“ ہیں۔

  • معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    سارنگی وہ ساز ہے جس کے ماہر برطانوی دور اور تقسیم کے بعد پاک
    و ہند میں روایتی دھنوں میں مقبول شاعری سے عوام کو محظوظ کرتے رہے۔ کئی سارنگی نوازوں نے موسیقی کی سنگت میں بڑا نام پیدا کیا جن میں سے ایک استاد حامد حسین خان بھی ہیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    استاد حامد حسین خان کا شمار پاکستان کے معروف سارنگی نوازوں میں‌ ہوتا ہے۔ وہ 2 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ دورِ جدید میں سارنگی جیسے ساز اور اس کے بنانے اور بجانے والے دونوں ہی اب ماضی کی ایک یاد بن چکے ہیں۔ سارنگی ایک کمان سے بجنے والا اور چھوٹی گردن کا تانتل ساز ہے جو ہندوستانی کلاسیکی سنگیت کا خوب صورت حصّہ رہا ہے۔

    پاکستان میں استاد حامد حسین خان نے اس ساز پر کئی سال تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب داد پائی۔ ان کا تعلق مراد آباد سے تھا۔ استاد حامد حسین خان 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد عرصہ دراز تک ریاست رام پور کے دربار سے وابستہ رہے اور موسیقی کے حوالے سے ان کا خاندان مشہور تھا۔

    استاد حامد حسین خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے نانا استاد حیدر بخش خان اور اپنے والد استاد عابد حسین خان سے حاصل کی جب کہ سارنگی کی تربیت اپنے ماموں استاد علی جان خان سے لی۔

    استاد حامد حسین خان آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ وہ نہایت عمدگی سے سارنگی بجانے کے لیے مشہور تھے اور بڑی مہارت سے سنگت میں دوسرے فن کاروں کا ساتھ دیتے تھے۔

    انھوں نے ہندوستان، پاکستان کے علاوہ بیرونَ ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور شائقین سے داد و تحسین سمیٹی۔

  • نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    سارنگی وہ ساز ہے جس کی روایتی دھنوں پر عوامی شاعری برصغیر میں مقبول رہی ہے۔ یہ ساز ہندوستان میں کلاسیکی سنگیت کا اہم حصّہ رہا ہے۔ آج اس فن میں اپنے کمال اور مہارت کو منوانے والے استاد نتھو خان کی برسی ہے۔ وہ 7 اپریل 1971ء کو جرمنی میں قیام کے دوران وفات پاگئے تھے۔

    استاد نتھو خان 1924ء میں موضع جنڈیالہ گورو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا موسیقی کے فن سے وابستہ تھا اور والد میاں مولا بخش بھی اپنے عہد کے معروف سارنگی نواز تھے۔ استاد نتھو خان نے اپنے والد ہی سے موسیقی کے ابتدائی رموز سیکھے اور بعد میں اپنے چچا فیروز خان، استاد احمدی خاں اور استاد ظہوری خان کی شاگردی اختیار کی۔

    سارنگی وہ ساز ہے جسے سیکھنے میں محنت بہت لگتی ہے اور جدید آلاتِ موسیقی میں اس کے مقابلے میں وائلن کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ استاد نتھو خان کی خوبی اور کمال یہ تھا کہ وہ کلاسیکی گانا بھی جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں اپنے وقت کے نام ور اور مشہور کلاسیکی گلوکاروں نے سنگت کے لیے منتخب کیا اور ان کے فن کے معترف رہے۔

    روشن آرا بیگم جیسی برصغیر کی عظیم گلوکارہ استاد نتھو خان کی مداح تھیں۔ اپنے وقت کے ایک معروف ساز کے ماہر اور اپنے فن میں یکتا استاد نتھو خان فقط 46 برس کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    13 جنوری 1955ء کو نام ور موسیقار اور مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان وفات پاگئے۔ 1959ء میں بعد از مرگ حکومت کی جانب سے ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا۔ آج استاد بندو خان کا یومِ وفات ہے۔

    موسیقی اور سارنگی کا ابتدائی درس اور سازوں کی تربیت اپنے والد علی جان خان سے جب کہ اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ استاد بندو خان آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن کے قیام کے فوراََ بعد ہی اس سے منسلک ہو گئے تھے۔ انھوں نے ریاست رام پور اور اندور کے دربار میں اپنے فن کی بدولت عزت پائی۔

    ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی غرض سے استاد بندو خان نے سنسکرت بھی سیکھی۔ یہ ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور جنون کی ایک مثال ہے۔

    1880ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے بندو خان کے والد علی جان خان بھی سارنگی بجاتے تھے۔ سُر ساگر کے موجد ممّن خان ان کے ماموں تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد بندو خان کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ استاد بندو خان نے کراچی ہی میں‌ مختصر علالت کے بعد دارِ فانی سے کوچ کیا۔

  • معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    انسانی آواز سے قریب ترین سمجھی جانے والی سارنگی وہ ساز ہے جس پر روایتی دھنوں میں عوامی شاعری سنانے والے کئی فن کاروں نے ہندوستان بھر میں‌ نام پیدا کیا اور اب یہ ساز اور اس کے ماہر ماضی کی خوب صورت یاد بن کر رہ گئے ہیں۔ سارنگی ایک کمان سے بجنے والا اور چھوٹی گردن کا تانتل ساز ہے جو ہندوستانی کلاسیکی سنگیت کا خوب صورت حصّہ رہا ہے۔

    آج استاد حامد حسین خان کی برسی ہے جن کا شمار پاکستان کے معروف سارنگی نوازوں میں‌ ہوتا ہے۔ وہ 2 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    مراد آباد سے تعلق رکھنے والے استاد حامد حسین خان 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد عرصہ دراز سے ریاست رام پور میں دربار سے وابستہ تھے اور موسیقی کے حوالے سے ان کا مشہور رہا ہے۔

    استاد حامد حسین خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے نانا استاد حیدر بخش خان اور اپنے والد استاد عابد حسین خان سے حاصل کی جب کہ سارنگی کی تربیت اپنے ماموں استاد علی جان خان سے لی۔

    استاد حامد حسین خان آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ انھیں‌ اس ساز پر مکمل مہارت حاصل تھی۔ وہ نہایت عمدہ سارنگی بجاتے اور مہارت سے دوسرے فن کاروں کی سنگت کرتے تھے۔

    استاد حامد حسین خان نے ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور داد و تحسین سمیٹی۔