Tag: سارہ انعام قتل کیس

  • سارہ انعام قتل کیس :  مقتولہ کے والد کا مجرم کی والدہ کو سزا دلانے کے لئے عدالت سے رجوع

    سارہ انعام قتل کیس : مقتولہ کے والد کا مجرم کی والدہ کو سزا دلانے کے لئے عدالت سے رجوع

    اسلام آباد : سارہ انعام قتل کیس میں مقتولہ کے والد انعام الرحیم نے مجرم کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سارہ انعام قتل کیس میں مقتولہ کے والد انعام الرحیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔

    والد انعام الرحیم نے مجرم کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔

    مقتولہ کے والد نے وکیل راؤ عبد الرحیم کے ذریعے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ سیشن عدالت نے ثمینہ شاہ کو کیس سے بری کیا، سیشن عدالت کا ثمینہ شاہ کو کیس سے بری کرنے کا فیصلہ قلعدم قرار دیاجائے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے ثمینہ شاہ کو زیادہ سے زیادہ سزا سنائی جائے۔

    یاد رہے عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائےموت کا حکم دیا تھا اور ملزمہ ثمینہ شاہ کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا تھا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ڈسٹرکٹ کمپلیکس کے باہر سارہ انعام کے والد انعام الرحیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے کو درست قرار دیا اور کہا شاہنواز امیر کو جب تک پھانسی پر لٹکایا نہیں جاتا،پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

    انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ جس وقت سارہ انعام کا قتل ہوا اس وقت اس گھر میں تین لوگ موجود تھے، ایک سارہ انعام، شاہنواز امیر اور شاہنواز امیر کی والدہ ثمینہ شاہ موجود تھے، یہ جھوٹ ہے کہ شاہنواز امیر کی والدہ کو کچھ پتہ نا ہو کیونکہ رات کو آواز دور دور تک جاتی ہے ، میری عدالت سے گزارش ہے شاہنواز کی والدہ کو بھی قتل چھپانے کے جرم میں سزا ہونی چاہئیے۔

  • سارہ انعام قتل کیس،  مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت کا حکم

    سارہ انعام قتل کیس، مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت کا حکم

    اسلام آباد: سارہ انعام قتل کیس میں عدالت نے مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت ہوئی ، مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو کمرہ عدالت پہنچایا گیا۔

    عدالت نے سارہ انعام قتل کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائےموت کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے شاہنواز امیر کو 10 لاکھ روپےجرمانہ بھی کیا اور ملزمہ ثمینہ شاہ کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔

    یاد رہے سارہ انعام قتل کیس میں پراسیکیوٹر راناحسن عباس نے عدالت سے ملزم شاہنوازامیر کے لیے سزائے موت کی استدعا کی تھی۔

    یاد رہے تھانہ شہزاد ٹاؤن کی حدود میں 23 ستمبرکو سارہ انعام کو قتل کردیا گیا تھا، جس کے بعد جائے وقوع سے پولیس نے مرکزی ملزم شاہ نواز کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔

    شاہنوار امیر کی والدہ ثمینہ شاہ بھی ملزمہ نامزد ہیں، بعد ازاں پانچ دسمبر 2022 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

    بعد ازاں ملزم شاہنواز امیر نے دوران تفتیش سارہ انعام کے قتل کا اعتراف کرلیا اور ساتھ ہی طلاق دینے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

    ملزم شاہ نواز نے دوران تفتیش بتایا تھا کہ سارہ انعام اسے رقم نہیں بھیجتی تھی، قتل سے چند روز پہلے سارہ کے ساتھ فون پر تلخ کلامی کے بعد سارہ کو طلاق دے دی تھی، طلاق کے بعد 22 ستمبر کو سارہ انعام ابو ظہبی سے ملزم شاہ نواز کے فارم ہاؤس میں آئی، ملزم کا کہنا ہے کہ رات کو سارا انعام نے تکرار شروع کردی اور رقم کا حساب مانگنے لگی جس پر پہلے سارہ انعام کو شو پیس مارا۔

    ملزم شاہ نواز کا کہنا تھا کہ زخمی ہونے کے بعد سارہ انعام نے شور کرنا شروع کیا تو ڈمبل اٹھا کر اس کے سر پر متعدد وار کر کے قتل کردیا اور بیوی کی لاش باتھ روم کے ٹب میں چھپا دی۔

  • سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ آج ایک بجے سنایا جائے گا

    سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ آج ایک بجے سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ آج ایک بجے سنایا جائے گا، عدالت نے 9 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد مین سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ آج ایک بجے سنایا جائے گا، جج ناصر جاوید رانا فیصلہ سنائیں گے۔

    عدالت نے 9 دسمبر کو تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد پاکستانی نژاد کینیڈین سارہ انعام کے قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    دوران سماعت بعد ملزم شاہنوار امیر کی والدہ ثمینہ شاہ کے وکیل نے عدالت سے اپنی موکلہ کو کیس سے بری کرنے کی استدعا کی تھی۔

    پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے بتایا تھا کہ ’سارہ کو حقیقتاً متعدد زخم آئے، طبی رپورٹ کے مطابق تشدد کی وجہ سے سارہ کی موت واقع ہوئی، ’صرف سر کے زخم کی بات نہیں، سارہ کے جسم پر متعدد زخموں کے نشانات تھے، شاہنواز سارہ کو ساری رات ٹارچر کرتے رہے۔‘

    رانا حسن کا کہنا تھا ’ثمینہ کی جائے وقوع پر موجودگی ثابت ہو چکی ہے جبکہ ملزم کے والد ایاز امیر موقعے پر موجود نہیں تھے۔‘

    شریک ملزمہ نے روسٹرم پر آکر بیان میں کہا ’میں دوسرے کمرے میں تھی جب مجھے شاہنواز کی کال آئی، انہوں نے کہا امی ادھر آئیں، میں جب وہاں پہنچی تو شاہنواز اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔ میں نے خود ایاز امیر کو کال کی اور بتایا کہ کیا ہوا تو انہوں نے مجھے کہا کہ شاہنواز کو باندھ کر کمرے میں بند کر دیں بھاگ نہ جائے، اگر میں چاہتی تو شاہنواز کو بھگا سکتی تھی اور سامان بھی چھپا دیتی۔

    اس سے قبل سارہ انعام قتل کیس میں پراسیکیوٹر راناحسن عباس نے عدالت سے ملزم شاہنوازامیر کے لیے سزائے موت کی استدعا کردی۔

    یاد رہے 23 ستمبر 2022 کو سارہ انعام کو قتل کیا گیا تھا، جس کے بعد سارہ انعام کے قتل کے الزام میں ملزم شاہنوار امیر کو گرفتار کیا گیا، شاہنوار امیر کی والدہ ثمینہ شاہ بھی ملزمہ نامزد ہیں، بعد ازاں پانچ دسمبر 2022 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

  • سارہ انعام قتل کیس :  ملزم شاہنواز امیر کے لیے سزائے موت کی استدعا

    سارہ انعام قتل کیس : ملزم شاہنواز امیر کے لیے سزائے موت کی استدعا

    سلام آباد: سارہ انعام قتل کیس میں پراسیکیوٹر راناحسن عباس نے عدالت سے ملزم شاہنوازامیر کے لیے سزائے موت کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سارہ انعام قتل کیس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں سماعت ہوئی، کمرہ عدالت میں ملزم شاہنوازامیر، مقتولہ کے والد انعام الرحیم بھی موجود تھے۔

    پراسیکیوٹر راناحسن عباس کی جانب سے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سارہ انعام کو ٹارچر کیاگیا، جسم پر بیشتر زخموں کے نشانات تھے، تفتیش میں کسی تیسرے شخص کا ڈی این اے نہیں آیا، تفتیش میں شاہنوازامیر کا ڈی این اے میچ ہوا ہے، شاہنوازامیر نے ثبوتوں کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی۔

    راناحسن عباس نے بتایا کہ فارم ہاؤس کی سی سی ٹی وی فوٹیج 2 دن قبل ڈس کنکٹ کردی گئی تھی، شاہنوازامیر نے سارہ انعام کے ساتھ ظالمانہ سلوک رکھا، سارہ انعام کو وٹس ایپ پر دھمکی آمیز پیغامات بھیجے، شاہنوازکی سارہ انعام کے ساتھ وٹس ایپ چیٹ ریکور ہوچکی ، طلاق کے میسجز بھی ریکور ہوچکے، جسے شاہنوازنے پیغامات کو ڈیلیٹ کیاتھا۔

    پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سارہ انعام کو ساری رات ٹارچر کیاگیا، منہ پر تھپڑوں کے نشانات تھے، سارہ انعام کے بازوؤں پر بھی زخم تھے، قتل سے پہلے تشدد ثابت ہوتاہے،موت 12 سے 24 گھنٹوں کے درمیان ہوئی، اس وقت شاہنواز امیر کی والدہ گھر پر موجودتھیں، کیسے ہوسکتا سارہ کی آواز نہ آئی ہو۔

    راناحسن عباس نے مزید کہا کہ ملزمہ ثمینہ شاہ نے پولیس کو آگاہ کرنے کی بجائے والد ایازامیر کو کال کی، ملزم کی والدہ نے والد کو کال کی، پولیس کو کال کیوں نہیں کی، سارہ انعام ابو ظہبی میں اعلیٰ عہدے کی نوکری کرتی تھیں، ان کو پاکستان بلا کر بری طرح ٹارچر کیاگیا۔

    پراسیکیوٹر نے عدالت سے ملزم شاہنوازامیر کے لیے سزائے موت کی استدعا کردی اور اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد ملزم شاہنواز کے وکیل بشارت اللہ 2 بجے دلائل کا آغاز کریں گے، سارہ انعام قتل کیس کی سماعت میں 2 بجے تک وقفہ ہے۔

  • ملزم شاہنواز امیر  نے سارہ انعام کے قتل  کا اعتراف کرلیا

    ملزم شاہنواز امیر نے سارہ انعام کے قتل کا اعتراف کرلیا

    اسلام آباد : ملزم شاہنواز امیر نے دوران تفتیش سارہ انعام کے قتل کا اعتراف کرلیا اور ساتھ ہی طلاق دینے کا دعویٰ بھی کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے سارہ انعام قتل کیس میں چالان سیشن کورٹ میں جمع کروایا ، جس میں کیس کے مرکزی ملزم شاہ نواز نے سارہ انعام کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔

    چالان میں بتایا گیا کہ ملزم شاہ نواز نے دوران تفتیش بتایا کہ سارہ انعام اسے رقم نہیں بھیجتی تھی، قتل سے چند روز پہلے سارہ کے ساتھ فون پر تلخ کلامی کے بعد سارہ کو طلاق دے دی تھی۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ طلاق کے بعد 22 ستمبر کو سارہ انعام ابو ظہبی سے ملزم شاہ نواز کے فارم ہاؤس میں آئی، ملزم کا کہنا ہے کہ رات کو سارا انعام نے تکرار شروع کردی اور رقم کا حساب مانگنے لگی جس پر پہلے سارہ انعام کو شو پیس مارا۔

    ملزم شاہ نواز نے بتایا کہ زخمی ہونے کے بعد سارہ انعام نے شور کرنا شروع کیا تو ڈمبل اٹھا کر اس کے سر پر متعدد وار کر کے قتل کردیا۔

    مرکزی ملزم شاہ نواز نے پولیس کو بتایا کہ بیوی کی لاش باتھ روم کے ٹب میں چھپا دی۔

    پولیس نے ملزم کی نشاندہی پرلاش اورجس ڈمبل سے سارہ انعام کو قتل کیا گیا برآمد کیا، ملزم کی شرٹ ، ہاتھوں اور ڈمبل پر خون اور بال لگے تھے۔

    پولیس رپورٹ کے مطابق ملزم سے پانچ پاسپورٹ ، پانچ موبائل اور نکاح نامہ کی کاپی قبضہ میں لی گئی تھی جبکہ ملزم کی نشاندہی پر سارہ انعام کا پرس، شرٹ اور مرسیڈیز گاڑی، لیپ ٹاپ سی سی ٹی وی کیمروں کی ڈی وی آر قبضے میں لی گئی۔

    ملزم اور مقتولہ کا موبائل فون لیپ ٹاپ فرانزک کے لیے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ بھیجا گیا۔ ۔

    یاد رہے تھانہ شہزاد ٹاؤن کی حدود میں 23 ستمبرکو سارہ انعام کو قتل کردیا گیا تھا، جس کے بعد جائے وقوع سے پولیس نے مرکزی ملزم شاہ نواز کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔

  • سارا انعام قتل کیس، شاہنواز امیر کی والدہ کی عبوری ضمانت میں توسیع

    سارا انعام قتل کیس، شاہنواز امیر کی والدہ کی عبوری ضمانت میں توسیع

    اسلام آباد: سارا انعام قتل کیس میں شاہنواز امیر کی والدہ کی عبوری ضمانت میں توسیع کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں سارا انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہنواز امیر کی والدہ ثمینہ شاہ کی عبوری ضمانت میں 7 اکتوبر تک توسیع کر دی گئی۔

    ایڈیشنل سیشن جج شیخ سہیل نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے سارا انعام کی فیملی کے وکیل کی استدعا پر سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔

    سارا انعام کے والد انجینئر انعام الرحیم کی جانب سے راؤ عبد الرحیم ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، جب کہ ثمینہ شاہ اپنے وکیل ارسل امجد ہاشمی کی ہمراہ عدالت کے روبرو پیش ہوئیں۔

    وکیل راؤ عبد الرحیم نے عدالت میں کہا کہ سارا انعام کی فیملی کی طرف سے کہا گیا کہ کسی بے گناہ کو اس کیس میں ملوث نہیں کرنا چاہتے، اس لیے ان کو مزید وقت دیا جائے، یہ اپنے دفاع میں جو لانا چاہتے ہیں لے آئیں، میں نے بھی اس حوالے سے کچھ شواہد دیکھنے ہیں۔

    سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سارا انعام کی فیملی کے وکیل کی استدعا پر سماعت 7 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

  • عدالت کا صحافی ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم

    عدالت کا صحافی ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سارہ انعام قتل کیس میں سیشن عدالت نے صحافی ایاز امیر کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ایاز امیر کو سارہ انعام قتل کیس کے مقدمے سے خارج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

    سیشن جج نے اپنے فیصلے میں کہ ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

    قبل ازیں، اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میں سینئر سول جج محمد عامر عزیز کے روبرو سارہ انعام قتل کیس کی سماعت ہوئی، پولیس نے ایاز امیر کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد عدالت میں پیش کیا، اور مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

    پولیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ رات کو ایاز امیر سے تفتیش کی ہے، ملزم شاہنواز کا ان سے رابطہ ہوا تھا، مقتولہ کا والد بھی اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔

    ایاز امیر کی جانب سے ایڈووکیٹ بشارت اللہ، نثار اصغر اور ملک زعفران نے وکالت نامے جمع کرا دیے، وکیل بشارت اللہ نے کہا یہ مقدمہ 23 ستمبر کو واقعے کے تین گھنٹے بعد درج ہوا، ایاز امیر کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، پولیس عدالت کو ابھی تک نہیں بتا سکی کہ کس ثبوت کے تحت ایاز امیر کو گرفتار کیا ہے۔

    انھوں نے کہا انگلینڈ سے اگر بندہ آ رہا ہے تو وہ اس کیس کا گواہ نہیں، ایاز امیر اپنے گھر چکوال میں تھا اس نے پولیس کو اطلاع دی، 35 سال سے ایاز امیر کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں، ہماری استدعا ہے کہ سردست صفحہ مثل پر کوئی ثبوت نہیں ہے، ہمیں مقدمہ سے ڈسچارج کیا جائے۔

    سرکاری وکیل نے کہا یہ ساری باتیں ٹرائل کی ہیں ریمانڈ اسٹیج پر دیکھا جائے کہ کیا ثبوت آئے ہیں، کل مقتولہ کے والدین آئے ہیں انھوں نے تدفین بھی کرنی ہے، ابھی تک ایاز امیر کا واٹس ایپ پر رابطہ ہوا وہ ثبوت ہے، اگر ہمیں خود بھی لگتا ہے اگر یہ بے گناہ ہے تو ہم ڈسچارج کر دیں گے، ایاز امیر کو نامزد بھی والدین نے کیا ہے۔

    جج نے استفسار کیا کہ ایاز امیر کو کس نے نامزد کیا وہ کدھر ہیں، سرکاری وکیل نے بتایا کہ وہ مقتولہ کے چچا ہیں اور پاکستان ہی میں ہیں، جج نے پوچھا آپ کے پاس بادی النظر میں کیا ثبوت ہے، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ مقتولہ کے قتل کے بعد ملزم کا اپنے والد سے رابطہ ہوا ہے، سرکاری وکیل نے بھی کہا کہ مقتولہ کے والدین کے پاس سارے ثبوت ہیں۔

    وکیل بشارت اللہ نے کہا پولیس ایک بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے، والد کا بیٹے سے رابطہ وقوعہ کے بعد ہوا ہے، اگر باپ کا بیٹے سے رابطہ ہو جائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے، پھر تو پولیس جس جس سے رابطہ ہوا ان کو ملزم بنا دے گی، پولیس خود کہہ رہی ہے بے گناہ ہوئے تو ڈسچارج کر دیں گے، لیکن اتنے دن گرفتار رکھا جگ ہسائی ہوئی اس کا ذمہ دار کون ہے؟

    ایاز امیر کے وکیل نے کہا ابھی پولیس ثبوت اکٹھی کر رہی ہے اور ایاز امیر کو گرفتار کر لیا گیا ہے، مقتولہ کے والدین کا کوئی بیان بھی نہیں ہے، پولیس بندہ گرفتار کر کے ثبوت ڈھونڈ رہی ہے، ہماری استدعا ہے ایاز امیر کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔

    سرکاری وکیل نے کہا واٹس ایپ کال کا سی ڈی آر نہیں آتا، موبائل فون کو فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے، وکیل بشارت اللہ نے کہا جب ثبوت آ جائیں تو پھر وارنٹ لے کرآ جائیں اور گرفتار کر لیں، سرکاری وکیل نے کہا ہم نے ثبوت بنانے ہوتے تو بنا دیتے، ایمان داری سے کام کر رہے ہیں، وکیل بشارت نے کہا آپ کی ایمان داری یہ ہے کہ میرے مؤکل 4 دن سے ہتھکڑی میں کھڑے ہیں۔