Tag: ساز

  • اس انوکھے ساز کو بجانے والے اب گنتی کے ہی رہ گئے ہیں، ویڈیو رپورٹ

    اس انوکھے ساز کو بجانے والے اب گنتی کے ہی رہ گئے ہیں، ویڈیو رپورٹ

    ویڈیو رپورٹ: ذیشان خاصخیلی

    مورچنگ سندھ کا تاریخی ثقافتی ساز ہے!

    اس ساز کو چرواہون کا ساتھی بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ بکریاں چرانے والے اس ساز کو فرصت میں بڑے شوق سے بجاتے تھے۔ ٹنڈو محمد خان کے پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا حاکم سولنگی مورچنگ ساز پر عبور رکھتا ہے، جو گزشتہ 30 سالوں سے اس ساز پر اپنے فن کا مظاہرہ کئی شہروں میں کر چکا ہے۔

    انگلیوں کی مدد سے لوہے کو منہ میں اندر رکھ کر سانسوں سے موسیقی کی خوب صورت دھن نکالنے والا یہ البیلا فنکار ثقافتی ساز مورچنگ کو زندہ رکھتا آ رہا ہے۔ مور چنگ ساز کو بیرون ملک میں بھی سراہا گیا، مگر اب اس ساز کو بجانے والے گنتی کے لوگ رہ گئے ہیں۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • رباب کی کہانی پڑھیے!

    رباب کی کہانی پڑھیے!

    کئی قدیم ساز اور آلاتِ موسیقی آج دست یاب نہیں جب کہ ان کے ماہر فن کار یا سازندوں کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ جدید دور میں موسیقی اور طرزِ‌ گائیکی کے ساتھ ساز بھی بدل گئے ہیں اور اسی جدّت میں پشتو لوک موسیقی کا "رباب” بھی کہیں گم ہوچکا ہے۔

    یہ ایک ایسا آلۂ موسیقی ہے جو بہت معروف ہے اور فن و ثقافت کے ماہرین نے اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ رباب جدید دور کے مقبول ساز گٹار سے ملتا جلتا آلۂ موسیقی ہے لیکن ان کی آواز اور شکل میں بہت فرق ہے۔

    کہتے ہیں یہ لفظ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس ساز کی ابتدا عرب ممالک سے ہوئی۔ لیکن بعض مؤرخین نے اسے پشتونوں کا ساز بتایا ہے جو بعد میں دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچا۔ 1982ء میں‌ شایع ہونے والی کتاب "پٹھانوں کے رسم و رواج” میں لکھا ہے: پشتون شادی بیاہ کی تقریبات گھڑے اور رباب کے آہنگ ہی سے عبارت ہے۔ عرب دنیا میں‌ بھی اس ساز کو قدیم موسیقی کے ساتھ اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

    زبان و ادب اور ثقافت کے ماہرین اس لفظ اور ساز سے متعلق مختلف آرا رکھتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رباب کا لفظ ’روب آب‘ سے نکلا ہے جس کے معنٰی پانی کی نغمگی ہے اور چوں کہ اس ساز کی آواز پانی کے بہاؤ جیسی ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا تھا۔ دوسری طرف اس کے عربی زبان کا لفظ ہونے پر اصرار کرنے والے اسے دو الفاظ ’روح اور باب‘ کا مرکب بتاتے ہیں، جس سے مراد روح کا دروازہ ہے۔ اکثر محققین کے مطابق اس ساز کو افغانستان میں بنایا گیا تھا۔

    رباب کی تین قسمیں ہیں جن میں بڑے سائز کا رباب 22 چھوٹے اور بڑے تاروں پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ درمیانے اور چھوٹے سائز کے رباب 19 اور 18 تاروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس آلۂ موسیقی کے مقابلے میں گٹار اور ستار بجانا آسان ہے۔ کیوں اسے چھیڑنے سے پہلے ‘سُر’ میں لانا ضروری ہوتا ہے جس کے بعد ہی اس سے سریلی اور تیز آواز نکلتی ہے۔

    مقامی طور پر رباب شہتوت کے درخت سے تیّار کیے جاتے تھے جو افغانستان اور پاکستان میں‌ پایا جاتا ہے۔

    اس لفظ کو پہلے حرف پر زبر، زیر اور پیش کے ساتھ بھی ادا کیا جاتا ہے جو مختلف معنیٰ‌ دیتے ہیں۔ مکہ مکرمّہ کے قریب ایک علاقہ بھی اسی نام سے پہچانا جاتا ہے۔

  • سہ تار جو ستار ہو گیا!

    سہ تار جو ستار ہو گیا!

    برصغیر میں موسیقی اور راگ راگنیوں کے ساتھ کئی خوب صورت سازوں نے بھی شائقین کے ذوق کی تسکین کی۔

    ان میں بعض ساز ایسے ہیں جو ایجاد کے بعد مختلف ادوار میں ماہر سازندوں کی اختراع سے مزید سحرانگیز اور پُرلطف ثابت ہوئے۔ ستار وہ ساز ہے جس سے کلاسیکی موسیقی کا ہر شائق واقف ہے، مگر یہ کب ایجاد ہوا، اسے برصغیر میں کس نام سے جانا جاتا تھا اور کیا ستار کسی دوسرے ساز کی ایک شکل ہے؟

    آئیے، اس ساز سے متعلق معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔

    کبھی یہ سہ تار کے نام سے جانا جاتا تھا جسے بعد میں ستار کہا جانے لگا۔ ستار دراصل ایک پرانے ہندی ساز وینا کی سادہ شکل ہے۔ برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کی دنیا اور اس کے شائقین میں اب یہ ساز ستار کے نام سے ہی مشہور ہے۔ چند دہائیوں قبل تک اسے بہت شوق اور دل چسپی سے سنا جاتا ہے اور آج بھی موسیقی کی محافل میں ستار لازمی ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق یہ ساز امیر خسرو کا ایجاد کردہ ہے، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود امیر خسرو نے اپنی تحاریر میں اس ساز کا ذکر نہیں کیا۔ ماہرین کے ایک گروہ نے اپنی کھوج کے بعد یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ساز اصل میں فارس یا کاکیشیا میں مروج تھا اور وہیں سے ہندوستان میں آیا، مگر معتبر اور مستند حوالوں میں اس ساز یعنی ستار کا موجد امیر خسرو کو ہی بتایا گیا۔

    مغل دور سے لے کر عہدِ حاضر تک اس ساز کو کئی باکمال فن کار ملے، لیکن جدید دور میں مزید چند دہائیاں بیت جانے پر یہ ساز اور اس کے تار انگلیوں سے چھیڑ اور سازندے کی مہارت کو ترس جائیں گی۔

    کلاسیکی آلاتِ موسیقی کا علم رکھنے والے اور سازوں کی زبانی آپ کو معلوم ہو گا کہ ستار کے کدو کو تونبا کہتے ہیں جب کہ اس کی لمبی کھوکھلی لکڑی کو ڈانڈ کہا جاتا ہے۔ تونبے کی چھت پر ہڈی کے دو پل سے ہوتے ہیں جو جواریاں کہلاتے ہیں، ان پر سے تاریں گزرتی ہیں۔

    ڈانڈ پر لوہے یا پیتل کے قوس سے بنے ہوتے ہیں جنھیں پردے یا سندریاں پکارا جاتا ہے۔ تاروں کا ایک سِرا تونبے کے پیچھے ایک کیل سے بندھا ہوتا ہے اور دوسرے کو ڈانڈ میں لگی ہوئی کھونٹیوں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ستار کے تاروں کی تعداد تو متعیّن نہیں رہی، مگر زیادہ تر اس میں چار تاریں، دو چکاریاں اور تیرہ طربیں رکھی جاتی ہیں۔