Tag: سافٹ ویئر

  • پیجر دھماکوں کے اسرائیلی اقدام کے بعد امریکا کو چین اور روسی سافٹ اور ہارڈ ویئر سے خوف

    پیجر دھماکوں کے اسرائیلی اقدام کے بعد امریکا کو چین اور روسی سافٹ اور ہارڈ ویئر سے خوف

    لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے اسرائیلی وحشیانہ اور غیر انسانی اقدام کے بعد امریکا کو چین اور روسی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سے خوف لاحق ہو گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر کاروں، ٹرکوں اور بسوں میں چین اور روس میں تیار کردہ کچھ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے استعمال پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

    امریکی وزیر تجارت گینا ریمنڈو کا کہنا تھا کہ آج گاڑیاں کیمرے، مائیکرو فون، جی پی ایس ٹریکنگ سسٹم اور انٹرنیٹ سے منسلک دیگر ٹیکنالوجیز سے لیس ہیں، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس ڈیٹا تک رسائی رکھنے والا کوئی غیر ملکی دشمن ہماری قومی سلامتی اور خفیہ پالیسیوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔

    تاہم چین نے اس سے مختلف مؤقف پیش کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ امریکا دراصل قومی سلامتی کی آڑ چینی کمپنیوں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا ’’ہم امریکا کی جانب سے قومی سلامتی کے تصور کی توسیع اور چینی کمپنیوں کے خلاف امتیازی کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘

    چین نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چینی اداروں کے لیے کھلا، منصفانہ اور شفاف کاروباری ماحول فراہم کرے۔ خیال رہے کہ امریکا نے چین کے خلاف الیکٹرک گاڑیوں، بیٹریوں اور دیگر مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کیا تھا اور سائبر سکیورٹی کے خطرے کے پیش نظر چینی ساختہ کارگو کرینوں کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن اب سافٹ ویئر سے متعلق مزید پابندیاں 2027 میں اور تین سال بعد ہارڈ ویئر میں نافذ کر دی جائیں گی۔

  • اسماعیل ہنیہ تک  پہنچنے کے لیے اسرائیل نے  کون سے سافٹ وئیر کا استعمال کیا؟

    اسماعیل ہنیہ تک پہنچنے کے لیے اسرائیل نے کون سے سافٹ وئیر کا استعمال کیا؟

    اسرائیل نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تک پہنچنے کے لیے کون سے سافٹ وئیر کا استعمال کیا، یورپی مبصر نے اس حوالے تفصیل بتادی۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیل نے ’اسپائینگ سافٹ وئیر‘ کی مدد سے اسماعیل ہنیہ پر باقاعدہ ٹریک کر کے حملہ کیا۔

    حماس کے سربراہ ہ کی شہادت پر یورپی مبصر برائے مشرق وسطیٰ ایلیا جے میگنیئر کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے اسپائینگ سافٹ ویئرکی مددسے اسماعیل ہنیہ پرباقاعدہ ٹریک کرکے حملہ کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

    ایلیا جے میگنیئر نے بتایا کہ اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے حماس کے سربراہ کی لوکیشن معلوم کی، جب وہ واٹس ایپ پر اپنے بیٹے سے بات چیت کر رہے تھے، اسی دوران ان کی لوکیشن معلوم ہوگئی۔

    یورپی مبصر کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر سافٹ وئیر کو استعمال کیا، جبکہ واٹس ایپ میسج کے ذریعےان کی لوکیشن معلوم کی۔

    مبصر کے مطابق اسرائیلی ساختہ یہ سافٹ وئیر مذکورہ شخص کی لوکیشن بتا دیتا ہے، اس شخص کی اپارٹمنٹ میں موجودگی بھی ظاہر کر دیتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ اسپائی وئیر سافٹ وئیر اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس فرم ایس ایس او گروپ کی جانب سے تیار کردہ پیگاسس سافٹ وئیر ہے، پگاسس سافٹ وئیر کی خصوصیات یہ بھی ہے کہ یہ اسمارٹ فونز میں صارف کے میسجز، تصاویر، لوکیشن ڈیٹا اور یہاں تک کہ موبائل کیمرہ تک بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے، وہ بھی موبائل صارف کی اجازت کے بغیر۔

  • امریکہ میں روسی اینٹی وائرس سافٹ ویئر کی فروخت پر پابندی

    امریکہ میں روسی اینٹی وائرس سافٹ ویئر کی فروخت پر پابندی

    واشنگٹن: امریکہ کی جانب سے اہم اعلان سامنے آیا ہے، جس میں ماسکو میں قائم سائبر سیکورٹی کمپنی کسپرسکی کے بنائے گئے اینٹی وائرس سافٹ ویئر کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ امریکہ میں کمپنی کی کارروائیاں ’روسی حکومت کی جارحانہ سائبر صلاحیتوں اور کسپرسکی کے آپریشنز پر اثر انداز ہونے یا اس کی ہدایت کرنے کی صلاحیت کے باعث‘ قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہیں۔

    بیان کے مطابق روسی کمپنی اب معمول کی دیگر سرگرمیوں کے علاوہ امریکہ میں اپنا سافٹ ویئر فروخت نہیں کر سکے گی اور نہ ہی اسے پہلے سے استعمال میں آنے والے سافٹ ویئر کو اپ ڈیٹ فراہم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

    امریکی محکمہ تجارت کے بیان کے مطابق کسپرسکی کے وسیع پیمانے پر انسٹال کردہ اینٹی وائرس سافٹ ویئرز کے ذاتی اور پیشہ ور صارفین کو خطرات کی وجہ سے متبادل تلاش کرنا چاہئے۔

    یو ایس سکریٹری آف کامرس نے کہا کہ ہم امریکی قومی سلامتی اور امریکی عوام کی حفاظت کے لیے اپنے پاس موجود ہر آلے کا استعمال جاری رکھیں گے۔

    روس نے بارہا یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ کسپرسکی لیب جیسی روسی کمپنیوں کا استحصال کرنے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتا ہے، تاکہ وہ حساس امریکی معلومات کو جمع کر سکے اور اسے ہتھیار بنا سکے۔

    واضح رہے کہ کسپرسکی کا سافٹ ویئر صارفین کو ٹروجن ہورس، اسپائی ویئر اور دیگر سائبر خطرات سے بچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

    یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والوں کیلیے بڑی خوشخبری

    امریکہ میں کسپرسکی سافٹ ویئر کی فروخت پر 20 جولائی سے پابندی عائد کر دی جائے گی اور روس کی یہ ملٹی نیشنل کمپنی 29 ستمبر تک موجودہ صارفین کو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ فراہم کر سکے گی۔

  • اسلام آباد میں سافٹ ویئر سٹی بنانے کا فیصلہ

    اسلام آباد میں سافٹ ویئر سٹی بنانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں سافٹ ویئر سٹی بنانے سمیت اہم فیصلے کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو آئی ٹی سیکٹر میں مضبوط کرنے کا عزم کیا گیا۔

    اجلاس میں پاکستان سے آئی ٹی سافٹ ویئرز کی ایکسپورٹس بڑھانے کے لیے اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔ ملک بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا نیٹ ورک بڑھانے کے لیے اہم فیصلے کیے گئے، ٹیلی فون ٹاورز کے ذریعے شہروں کی ڈیجیٹلائز کنیکٹیوٹی کی منظوری بھی دی گئی۔

    اجلاس میں بینڈوتھ اور فائبر آپٹک کا عمل فوری مکمل کرنے، ملک کی سافٹ ویئر ایکسپورٹس کو 10 بلین ڈالرز تک لے جانے اور چھوٹے سافٹ ویئر ایکسپورٹرز کے لیے ریلیف پیکج متعارف کروانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

    اجلاس کے شرکا نے وفاقی دارالحکومت میں 40 ایکڑ پر مشتمل سافٹ ویئر سٹی بنانے کا فیصلہ کیا، سافٹ ویئر سٹی میں لوکل سافٹ ویئر کمپنیوں کو سہولتیں ملیں گی۔

    اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی ادارے لوکل کمپنیوں سے سافٹ ویئر خریدیں گے۔

    علاوہ ازیں صوبائی اور وفاق کی جانب سے عائد ڈبل ٹیکس ختم کرنے، راولپنڈی اور اسلام آباد کی یونیورسٹیز کو انٹر کنیکٹ کر کے ڈیجیٹلائز کرنے اور ایکسپورٹرز کو ڈالر کا ایکسچینج ریٹ مارکیٹ سے بہتر دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ایکسپورٹرز رسیو ایبل رقم کے مساوی قرض حاصل کر سکیں۔

    اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ملک کا مستقبل ہے، آئی ٹی سیکٹر کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں میں آئی ٹی سیکٹر میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ حکومت قابل نوجوانوں کی ہر ممکن طریقے سے سہولت کاری کے لیے پرعزم ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو فری لانس سہولتیں اور مراعات فراہم کریں گے، لاکھوں نوجوانوں کی صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی اور نوکریوں کے مواقع میسر آئیں گے۔

    انہوں نے ہدایات دیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے، اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کے قیام اور 5 جی اسپیکٹرم کے اجرا پر کام تیز کریں اور بڑے شہروں میں فائبرائزیشن کے ذریعے ٹاورز کو ملانے کا کام مکمل کریں۔

    وزیر اعظم نے اس حوالے سے ٹائم لائنز پر مبنی مفصل روڈ میپ بھی ایک ہفتے میں طلب کر لیا۔

  • ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    فیس بک کے صارفین میں گزشتہ ایک ہفتے سے ’’ٹین ایئرز چیلنج ‘‘ کافی مقبول ہورہا ہے ، فیس بک نے اسے بے ضرر قرار دیا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بہرحال اس پر تحفظات ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح چہرے کی شناخت کی یہ مہم مستقبل میں انسانی زندگیوں پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

     یہ ٹین ایئرز چیلنج ہے کیا؟، فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے کسی صارف نے اپنی 10 سال پرانی تصویر ، 2019 کی تصویر کے ساتھ ملا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک مقبول ٹرینڈ بن گیا، اب تک دنیا بھر سے پچاس لاکھ سے زائد افراد اس ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرچکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا موقف ہے کہ یہ در اصل فیس بک کی جانب سے صارفین کے چہرے کا ڈیٹا جمع کرنے کی مہم ہے تاکہ وہ اپنے خطرناک حد تک سمجھ دار آرٹی فیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) سسٹم کو دنیا بھر میں پھیلے اپنے کروڑوں صارفین کے چہرے شناخت کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی تربیت دے سکے۔ یاد رہے کہ فیس بک پہلے ہی چہرے کی پہچان کرنے والی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے اور حالیہ کچھ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی فیس بک صارف کسی ایسے صارف کی تصویر اپ لوڈ کرتا ہے جو آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے ، تب بھی فیس بک کا الگوریتھم چہرہ پہچان کر تصویرمیں موجود صارف کو ٹیگ کردیتا ہے، تاہم یہ الگوریتھم فی الحال زیادہ پرانی تصاویر کو شناخت نہیں کرپا رہا تھا۔

    اس حوالے سے فیس بک کا موقف یہ ہے کہ چہرہ پہچانے والی ٹیکنالوجی کا کنٹرول صارف کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے بند کرسکتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صارفین جو پرانی تصاویر اپ لوڈ کررہے ہیں ،ان میں سے زیادہ تر فیس بک پر پہلے سے موجود ہیں اور فیس بک اپنے شرائط و ضوابط کے مطابق ان تک رسائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

    فیس بک کے اس موقف پر ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے موقف اختیار کیا ہے کہ بے شک وہ تصاویر پہلے سے سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن فی الحال فیس بک یہ نہیں جانتا کہ جس وقت وہ تصاویر اپ لوڈ کی گئیں، آیا وہ تازہ تصاویر تھیں یا پھر ماضی کی تصاویر کو اسکین کرکے یا کسی اور میڈیم سے انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اس چیلنج کی مدد سے فیس بک کے لیے اپنے الگوریتھم کو یہ سکھانا انتہائی آسان ہوگیا ہے کہ اس کا صارف دس سال پہلے کیسا دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کہ صارفین دس سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ، بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا اے آئی سسٹم صارف کے چہرے میں گزشتہ دس سال میں آنے والی تبدیلیوں کا پیٹرن سمجھے گا اور اس کے بعد آنے والی کئی دہائیوں تک صارفین کو پہچان لینے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔

    خیبر پختونخواہ پولیس اب جدید ترین ’فورجی ہیلمٹ‘ استعمال کرے گی

    اس کو مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک صارف جس نے آج یہ چیلنج قبول کیا اور اپنی تصاویر اپ لوڈ کردیں، فیس بک کے الگوریتھم نے اس شخص کے چہرے میں گزشتہ دس سالوں میں آنے والے تغیر کے پیٹرن کو سمجھ لیا۔ اب یہ شخص اگر آئندہ بیس سال کے لیے انٹرنیٹ کے خیر آباد کہہ دے اور اس کے بعد آکر کسی نئی شناخت کے ذریعے سوشل میڈیا کی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو یہ الگوریتھم اسے پہچان لے گااور اس کی ماضی کی شناخت نکال کر سامنے لے آئے گا۔

    [bs-quote quote=” آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے” style=”style-5″ align=”left”][/bs-quote]

    یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب ہو کیوں رہا ہے؟۔ فیس بک اور اسی نوعیت کی دوسری ٹیک کمپنیز ماضی میں ڈیٹا فروخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرچکی ہیں جیسے گوگل اور امیزون وغیرہ ۔ ایک عام صارف کے لیے شاید یہ بات اتنی اہمیت کی حامل نہ ہو کہ کوئی تجارتی کمپنی اسے اس کے چہرے اور دیگر عادات کے ساتھ پہچانتی ہے لیکن وہ صارفین جو قانون سے واقفیت رکھتے ہیں ، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔ آج کی دنیا میں سب سے قیمتی شے ڈیٹا ہے، جو کہ مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے، تجارتی کمپنیاں اپنی تشہیری مہم کو دن بہ دن فوکس کرتی جارہی ہیں ، اسے مثال سے سمجھیں، آپ کپڑوں کے کسی برانڈ پر اپنا کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کار ڈ استعمال کرتے ہیں اور اگلے دن سے آپ کے پاس اسی برانڈ کے متوازی برانڈ کے میسجز، ای میلز اور سوشل میڈیا اشتہارات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    گو کہ فیس بک کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹین ایئرز چیلنج کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کو کسی بھی کمپنی یا ادارے کو فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کل کو وہ ایسا کرنا چاہیں تو اس وقت دنیا کے قوانین میں موجود کوئی بھی قانون انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا ۔

    گزشتہ دنوں امیزوں کو اپنے صارفین کا ڈیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فروخت کرنے پرشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اوراسے شخص کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا تھا، تاہم قانونی طور پر وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

    اس ٹیکنالوجی کا فائدہ کیا ہے؟


    گزشتہ دنوں ہم نے خبروں میں دیکھا کہ پولیس اب اسمارٹ گوگل گلاس استعمال کیا کرے گی بلکہ چین میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع بھی ہوچکا ہے ۔ یعنی سڑک پر موجود تمام پولیس اہلکاروں کی آنکھ پر ایک چشمہ موجود ہے اور وہ وہاں موجود جس شخص پر نظر ڈالتے ہیں اس کا ماضی ان کے سامنے آجاتاہے۔ اگر کوئی شخص کسی مجرمانہ سرگرمیوں میں مطلوب ہے تو اسی وقت پولیس اہلکار کو الرٹ ملتا ہے اور وہ اس شخص کو دبوچ سکتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرویلنس کیمرے نصب ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں ایک اور مشق بھی کی جارہی ہے کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے سڑک عبور کرتا ہے ، یا ڈرائیونگ کرتا ہے تو سی سی ٹی وی کیمرے ، جو کہ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم سے منسلک ہیں اس شخص کی شناخت وہاں قرب و جوار میں موجود اسکرینوں پر نشر کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اس مشق کے سبب شہریوں پر قانون کی پاسداری کے لیے معاشرتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

     

    ایک اور فائدہ اس کا تجارتی دنیا کو حاصل ہوا ہے ، جس کی مثال امیزون گو نامی سپر اسٹور ہیں، ایک صارف سپر اسٹور میں داخل ہوتا ہے تو وہاں نصب کیمرہ اس کی شناخت کرتا ہے اس کے بعد دیگر کیمرے دیکھتے ہیں کہ صارف نے کونسا سامان لیا اور صارف سامان اٹھا کر بغیر کسی جھنجھٹ کے باہر آجاتا ہے ، فوراً ہی اسے موبائل فون پر بل کی رقم موصول ہوجاتی ہے جسے وہ چند بٹن دبا کر اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادا کردیتا ہے۔ اس ڈیٹا کی مدد سے سپر اسٹورز کو شاپ لفٹرز سے چھٹکارہ پانے میں بھی سہولت مل رہی ہے ، کوئی ایسا شخص جو ماضی میں اس قسم کے مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے ، جیسے ہی کسی اسٹور میں داخل ہوتا ہے ، اس کی شناخت ہوجاتی ہے اور اس کی نگرانی کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

    ترقی یافتہ ممالک میں شہری ہر وقت ایسی ٹیکنالوجی کے حصار میں رہتے ہیں جس سے پولیسنگ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہر شخص ایک دن میں کم از کم 75 بارایسے کیمروں کی زد میں آتا ہے، اور ہر بار میں ا س شخص کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جس سے حکومت کو اپنے شہریوں پر قانون کا اطلاق کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

    گزشتہ سال اس کی ایک مثال ہم نے پاکستان میں بھی دیکھی کہ ولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے بعد واقعے کی ویڈیو میں سے ڈیٹا نکال کر ملزمان کو شناخت کیا گیا اور اس کے بعد انہیں گرفتارکیا گیا۔ چند روز قبل کراچی میں بھی ایک منفرد واقعہ پیش آیا جب موبال چھیننے والے دو ملزمان نے چھینے گئے موبائل سے تصاویرکھینچیں اوروہ جی میل پراپ لوڈ ہوگئیں، جہاں سے انہیں پولیس نے حاصل کرکے نیشنل ڈیٹا بیس کے ذریعے انہیں ڈھونڈا اورگرفتارکیا۔

    چہرے کی شناخت کا نقصان


    ہرنئی شے اپنے اندر جہاں خواص رکھتی ہے وہیں ا س کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں، جہاں اس سسٹم سے حکومت کو پولیسنگ کا نظام بہتر کرنے میں مدد ملے گی ، وہیں یہ نظام شخص کی انفرادی آزادی یا آزادی اظہارِ رائے پر بھی قدغن لگانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کی صورت میں کسی احتجاج میں شریک ہوتا ہے تو حکومت اپنے اس مخالف کو لمحوں میں شناخت کرلے گی، جس کے بعد اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کا بنیادی مقصد تجارتی کمپنیوں کو فروخت کرنا ہے جس سے وہ اپنی تشہیری مہم ترتیب دے سکیں، تو اب صارفین ہر وقت اشتہاری یلغار کی زد میں ہوں گے ، جو کہ آپ کی ذاتی پسند نا پسند تک کو جان کر آپ تک رسائی کررہی ہوگی ، ایسی صورتحال میں فرد وقتی طور پر فیصلہ کرنے کا اختیار کھو بیٹھتا ہے اور ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت کے تحت کمپنیوں کے داؤ میں آکر معاشی نقصان اٹھاتا ہے۔

    چہرے کی شناخت کا سب سے بڑا نقصان بارہا سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاچکاہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس جس تیزی سے خود کی تربیت کررہی ہے اور انسانوں کی زندگیوں میں دخل اندازی کررہی ہے، مستقبل میں انسان ہمہ وقت اس خطرے سے دوچاررہیں گے کہ یہ نظام ہماری ہر عادت سے واقف ہیں اور اگر کبھی یہ نظام انسانوں کی مخالفت پر اتر آتا ہے تو اس کرہ ارض پرانسانوں کے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں وہ ان نظام سے چھپ کر اس کے خلاف صف آرا ہوسکیں۔

    پاکستان میں کیونکہ ٹیکنالوجی پہلے آتی ہے اور اس کے اچھے برے استعمال کی تمیز بعد میں، توسوشل میڈیا صارفین کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیا کریں اور کسی بھی نئی چیز کے پیچھے آنکھ بند کرنے کے بجائے چند لمحے گوگل پر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرلیا کریں کہ اس میں انہی کی بھلائی ہے ، بصورت دیگر یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے۔