Tag: سالانہ بجٹ

  • آئیے "بجٹ” کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں!

    آئیے "بجٹ” کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں!

    جس طرح ایک عام آدمی یا کوئی تنخواہ دار اپنی گھریلو اور دوسری متعلقہ ضروریات کے لیے ماہانہ آمدن اور اخراجات میں توازن قائم رکھنے کے لیے سوچ بچار کرتا ہے یا ماہانہ بنیاد پر مالی امور چلانے کے لیے کوئی طریقہ اور اپنی کمائی اور صَرف کو جاننے، سمجھنے کے لیے پیمانہ مقرر کرتا ہے، بالکل اسی طرح حکومتیں بھی مالیاتی نظام کے تحت سالانہ بنیادوں پر مختلف صورتوں میں اپنی آمدن، اخراجات، خسارے اور مالی بچت کے لیے بجٹ کا اعلان کرتی ہیں۔

    مالیاتی امور اور ملکی سطح پر پیش کیے جانے والے بجٹ کو سمجھنا اور اس پر بحث کرنا کسی بھی عام آدمی کے لیے مشکل ہے، لیکن یہ حکومتی بجٹ عوام کو ریلیف دینے کے علاوہ مشکلات سے بھی دوچار کرسکتا ہے۔

    ہمارے ملک میں جب بھی کسی حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کیا گیا حزبِ اختلاف نے اعتراضات اور کڑی تنقید کی اور اسے عوام دشمن یا ان کی مالی مشکلات میں اضافے کا سبب بتایا۔ تحریکِ انصاف نے اپنے دورِ حکومت میں دوسرا سالانہ بجٹ پیش کیا ہے جس پر مباحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

    بجٹ سے متعلق یہ بنیادی معلومات آپ کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    کسی بھی ملک میں مالیات کا نظام، اس ملک کے سرکاری خزانے سے متعلق وزارت دیکھتی ہے۔ مالیات کا یہ نظام دراصل کسی حکومت کے محصول یا خرچ پر نظر رکھتے ہوئے اسے سنبھالتا ہے۔

    بجٹ کو دو حصوں میں‌ تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں ایک حکومتی آمدنی اور دوسرا اخراجات ہیں۔

    ہمارے ملک میں بجٹ کی وزیراعظم سے منظوری لینے کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے اور یہی تمام جمہوری حکومتوں کا طور ہے۔

    حکومتی آمدنی کی بات کی جائے تو یہ مختلف طریقوں سے سرکاری خزانے تک پہنچنے والی رقم ہے جن میں مختلف اشیائے ضرورت پر ٹیکس کا پیسہ، ریاستی وسائل اور ذخائر کو افراد یا ادارے استعمال کرنا چاہیں تو مخصوص رقم یا محصول کی مد میں خطیر رقم سرکاری خزانے میں جمع کراتے ہیں۔

    اسی طرح کے مختلف شعبوں میں لین دین اور خرید وفروخت بھی سرکاری خزانے کو مالی فائدہ پہنچاتی ہے۔

    اگر حکومتی اخراجات کو مختصرا بیان کیا جائے تو یہ وہ پیسہ ہوتا ہے جو کوئی بھی حکومت مختلف شعبوں میں‌ اور مختلف سرکاری منصوبوں پر لگاتی ہے، اسی طرح حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن وغیرہ پر بھی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

  • بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے وزیرِ مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے آج اپنی حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا ہے، بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے  گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560ارب روپے ہوگا۔

    بجٹ میں وفاقی وزراؤں کی تنخواؤں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے سرکاری افسران کی  تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چارلاکھ سالانہ آمدن والوں کو انکم ٹیکس دینا ہوگا۔

    وزیرمملکت حماداظہر نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کامجموعی قرضہ 31000ارب روپےہے، کمرشل قرضے سود پر لئے گئے ،بیرونی قرضوں کا حجم ضرورت سے زیادہ تھا،جاری کھاتوں کاخسارہ20ارب ڈالراورتجارتی خسارہ32ارب ڈالرتھا۔بجلی کےنظام کاقرضہ 1200ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

    ماضی میں روپےکی قدرمستحکم رکھنےکیلئےاربوں ڈالرجھونکےگئے ستمبر2017میں روپیہ گرنے لگا ترقی کا زور ٹوٹ گیا، سرکاری اداروں کاخسارہ1300ارب روپےرہا۔امپورٹ ڈیوٹی میں اضافےسےتجارتی خسارےمیں کمی ہوئی۔

    بجٹ تقریرکا عکس

    وزیراعظم پراعتمادکےباعث ترسیلات زرمیں2ارب ڈالرکااضافہ ہوا،12ارب ماہانہ گردشی قرضےمیں کمی آئی۔ دوست ممالک سے 9.2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملی ۔صنعتی اوربرآمدی شعبےکورعایتی نرخوں پربجلی،گیس فراہم کی گئی حکومتی اقدامات کےباعث برآمدات میں اضافہ ہوا۔

    آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کامعاہدہ ہوگیا ہے۔آئی ایم ایف بورڈکی منظوری کےبعدمعاہدےپرعملدرآمدہوگا،آئی ایم ایف معاہدےکےبعداضافی امدادبھی میسرآئےگی ۔

    مالیاتی نظم وضبط کےباعث سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ۔سعودی عرب سےمؤخرادائیگی پرتیل کی سہولت حاصل ہوئی،اگلےسال تیل کی درآمدی بل میں اگلےسال مزیدکمی آئیگی۔95ترقیاتی منصوبےمکمل کرنےکیلئےفنڈز جاری کئےگئے۔

    اسٹیٹ بینک کومزیدخودمختاری دی گئی ہے ، افراط زر کو مانیٹری پالیسی کےذریعے قابو کیاجارہاہے۔ سنگل ٹریژری اکاؤنٹ بنایا گیاہے،145ارب روپےکےریفنڈزجاری کئے۔

    بجٹ تخمینہ

    رواں سال وفاقی بجٹ کا تخمینہ 7،022 ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال سے تیس فیصد زیادہ ہے جبکہ وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6،717 روپے ہے۔

    ٹیکس نظام میں تبدیلی

    گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسی کے باعث بد ترین نتائج سامنے آئے، ٹیکس بیس میں 9 فی صد کمی ہوئی، ٹیکس اقدامات وسط مدتی پالیسی کا حصہ ہیں، ٹیکس چھوٹ اور مراعات میں مرحلہ وار کمی کی جائے گی۔

    حکومت کی توجہ مؤثر اور بے خوف ٹیکس کمپلائنس پر رہے گی، نظام میں بہتری کے لیے حقیقی آمدن پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا۔

    حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کے ذریعے اصلاحات فراہم کی ہیں۔

    ٹیکسز

    کارپوریٹ سیکٹر کے کاروبار چلانے والے افراد کا ٹیکس ریٹ کم رکھا جائے گا، کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، ٹیکس ریفنڈ کے لیے بانڈز جاری کرنے کی تجویز ہے۔

    انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا طریقہ کار انتہائی سادہ بنایا جا رہا ہے، حکومت پرمژری نوٹ جاری کرے گی، نئے گریجویٹس کو ملازمت فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ٹیکس کریڈٹ دیا جائے گا، نان فائلرز پر 50 لاکھ سے زائد مالیت کی جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کر دی ہے۔

    گزشتہ حکومت کی انکم ٹیکس چھوٹ سے 80 ارب کا نقصان ہوا، 6 لاکھ روپے سے زائد سالانہ آمدنی پر 5 سے 35 فی صد پروگیسو ٹیکس لگایا جائے گا، تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی کم از کم حد 6 لاکھ روپے کی تجویز ہے، غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی کم از کم حد 4 لاکھ روپے کی تجویز ہے۔

    ترقیاتی بجٹ

    گزشتہ برس ترقیاتی کاموں کے لیے دس کھرب تیس ارب روپے وفاقی سطح پر مختص کیے گئے تھے ، رواں برس تقریبا اٹھارہ کھرب روپے مختص کیے  گئے ہیں۔ اس میں سے 950 ارب روپے وفاقی منصوبوں کے لیے اور باقی صوبائی منصوبوں کے لیے ہیں۔

    ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، پانی وغیرہ کے لیے 93 ارب مختص کرے گی، حکومت کوشش کرے گی کہ قیمتوں میں کم از کم اضافہ ہو، عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہو تو بھی غریبوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے، 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لیے رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات میں صاف پانی، سرمایہ کاری اور بجلی کی فراہمی شامل ہیں۔

    نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے لیے 156 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پشاور کراچی موٹر وے کے سکھر سیکشن کے لیے 19 ارب روپے مختص، انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے کی تجویز ہے۔ کوئٹہ ڈیویلپمنٹ پیکج کا حجم 10.2 ارب روپے رکھا گیا ہے، 43.5 ارب روپے کراچی کے منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    دفاعی بجٹ

    پاکستان اپنے مخصوص جغرافیے کے سبب سیکیورٹی خدشات کا شکار ہے، دفاع پر کثیر رقم خرچ کرنا ہماری سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ گزشتہ برس دفاع کے لیے 11 کھرب روپے مختص کیے گئے ، پاک فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اس سال دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں لیا جائے گا، اس سال دفاعی بجٹ 1150 ارب  پر مستحکم رہے گا۔

    توانائی

    پاکستان میں توانائی کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے مستقل اقدامات کی ضرورت ہے گزشتہ برس اس مد میں 138 ارب روپے رکھے گئے تھے، رواں برس توانائی کی مد میں 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 300 یونٹ سے کم استعمال کرنے والوں کے لیے 200 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے تاکہ انہیں لاگت سے بھی سستی بجلی فراہم کی جاسکے۔

    اعلیٰ تعلیم

    پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک انتہائی مشکل امر ہے اور اس مد میں بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے، گزشتہ برس اس میں میں 57 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، رواں برس اس ضمن میں 43 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    صحت

    اٹھارویں ترمیم کے بعد سے صحت صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاق بھی صحت کی سہولیات کی فراہمی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے گزشتہ برس صحت کی مد میں37 روپے مختص کیے گئے تھے۔ صحت اورپانی کیونکہ لازم و ملزوم ہیں لہذا صحت و پانی کے منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 93 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    زراعت

    پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہےگزشتہ سال اس شعبے کی دی جانے والی سبسڈی صوبوں کی صوابدید پر چھوڑی گئی تھی ، اس سال زراعت کے فروغ کے لیے 280 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    کمزور طبقے کے لیے خصوصی پالیسی

    کمزور طبقے کے لئے  حکومت نے چار خصوصی پالیسیز ترتیب دی ہیں، کمزور طبقے کو بجلی پرسبسڈی دینے کے  لئے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    غربت کے خاتمے کے لئے نئی وزارت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، 10 لاکھ افراد کے لئے نئی راشن کارڈ اسکیم شروع کی جارہی ہے۔ احساس پروگرام کےتحت وظیفے 5000 روپے سے بڑھا کر 5500 روپے کیے جائیں گے۔

    عمر رسیدہ افراد کے لئے احساس گھر بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 سے بڑھا کر 1000 روپے کی جا رہی ہے. کمزور طبقے کی سماجی تحفظ کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

    کارپوریٹ سیکٹر کے کاروبار چلانے والے افراد کا ٹیکس ریٹ کم رکھا جائے گا، کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، ٹیکس ریفنڈ کے لیے بانڈز جاری کرنے کی تجویز ہے۔

    گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ

     حالیہ بجٹ میں ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس میں 2.5 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ 2 ہزار سی سی تک کی گاڑیوں میں ٹیکس میں5 فی صد، جب کہ 2 ہزار سے زائد سی سی کی گاڑیوں میں ٹیکس میں 7.5 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔

    بلوچستان پیکیج

    بجٹ میں کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کا حجم 10.2ارب روپے رکھا گیا ہے، بلوچستان کے کسانوں کے لئے مشترکہ اسکیم شروع کی ہے۔

    ملازمین کی تنخواہیں

    گریڈ  سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافہ، 17 سے 20 گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 5 فی صد اضافہ، 21 سے 22 گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تمام پنشنرز کی پنشن میں 10 فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے، معذور افراد کے وظیفے میں 1000 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

    وزرا نے رضا کارانہ طور پر تنخواہوں میں 10 فی صد کمی کا تاریخی فیصلہ کیا۔ بجٹ میں کم سے کم تنخواہ 17500 روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    کسٹم ڈیوٹی

    درآمدات سے حاصل ہونے والے ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، 1600 سے زائد ٹیرف لائن پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے، حکومت کسٹم ٹیرف کے اصلاحاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے۔

    امپورٹڈ اشیا پر کم سے کم ٹیکس لگایا جا رہا ہے، غیر بُنے کپڑے کی امپورٹ میں کمی کی جا رہی ہے، لکڑی کے فرنیچر میں استعمال کی کچھ اشیا پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے، بجٹ میں لکڑی پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔

    خوردنی تیل صاف کرنے والے پلانٹس کے پارٹس پر ڈیوٹی کم کر رہے ہیں، اسمگلنگ کم کر کے ضایع ہونے والے محصولات کو واپس لایا جائے گا، ادویہ میں استعمال کیمیکل پر ڈیوٹی 3 فی صد کم کی جا رہی ہے، ایل این جی پر 5 فی صد کسٹم ڈیوٹی عاید کر دی گئی ہے۔

    جنرل سیلز ٹیکس

     

    جنرل سیلز ٹیکس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جا رہا، دودھ کریم اور فلیورڈ دودھ پر 10 فی صد ٹیکس عاید ہوگا ، بھٹے کی اینٹوں پر 17 فی صد سیلز ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے، بھٹے کی اینٹو ں پر سیلز ٹیکس کی شرح علاقائی بنیاد پر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    موبائل فون پر عاید ٹیکس میں 3 فی صد کمی کر رہے ہیں، چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح 8 فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کر دی گئی ہے، امید ہے چینی پر صرف ساڑھے 3 روپے فی کلو اضافہ ہوگا۔

    تمام ایس آر اوز کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، خشک دودھ پر سیلز ٹیکس کی شرح کم کر کے 10 فی صد کر دی گئی ہے، 17 فی صد کی معیاری شرح کو بحال کر دیا گیا ہے، چمڑے کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس 17 فی صد بڑھا دیا گیا ہے۔

    ریسٹورنٹ، بیکرز، کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے والوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد سے کم کر کے ساڑھے 7 فی صد کر دی گئی ہے، اسٹیل میں استعمال اسکریپ پر 5600 فی صد میٹرک ٹن سیلز ٹیکس بحال کر دیا گیا ہے۔

    سونا، چاندی، ہیرے اور زیورات پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کے عمل کو بھی آسان بنایا جا رہا ہے۔ ماربل کی صنعت کو ملنے والی بجلی پر ایک روپے 25 پیسے فی یونٹ ٹیکس کی تجویز ہے۔ کمپنیوں پر 29 فی صد ٹیکس ریٹ 2 سال کے لیے منجمد کرنے کی تجویز ہے۔

    کولڈ ڈرنکس اور مشروبات

     

    کولڈ ڈرنکس اورمشروبات پر13 فی صد فیڈرل ایکسائزڈیوٹی، گھی اور خوردنی تیل پر 17 فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کی گئی ہے، خوردنی تیل کے بیجوں پر بھی رعایت ختم کی جائے گی، برانڈڈ گھی اور تیل پر 17 فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کی گئی ہے۔

  • عوام دشمن بجٹ لائے تو دکھاؤں گا احتجاج کیا ہوتا ہے: بلاول بھٹو

    عوام دشمن بجٹ لائے تو دکھاؤں گا احتجاج کیا ہوتا ہے: بلاول بھٹو

    اسلام آباد: بلاول بھٹو کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس ختم ہو گیا، ذرایع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلاول بھٹو نے ملک بھر میں پر امن احتجاج کی ہدایت کر دی ہے، انھوں نے سی ای سی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام دشمن بجٹ لایا گیا تو دکھاؤں گا کہ احتجاج کیا ہوتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ جمہوری، انسانی اور معاشی حقوق پر حملے ہو رہے ہیں، عام آدمی کے مسائل پر بات کرنے کے لیے سی ای سی اجلاس بلایا تھا، اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے حکومت نے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، ہم آصف زرداری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”میں آ رہا ہوں، دما دم مست قلندر ہوگا، معاشی، جمہوری حقوق پر سمجھوتا نہیں ہوگا۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”بلاول بھٹو”][/bs-quote]

    بلاول کا کہنا تھا کہ آصف زرداری صرف بہانہ ہیں، 18 ویں آئینی ترمیم اصل نشانہ ہے، آصف زرداری کو تو گرفتار کر لیا، حکومت اب عوام دوست بجٹ لائے، ہم نے ملکی مفاد کے لیے ہمیشہ یہی قدم اٹھایا ہے، اگر عوام دشمن بجٹ لائے تو پھر دکھاؤں گا کہ احتجاج کیا ہوتا ہے۔

    پی پی چیئرمین نے کہا کہ حکومت عوام سے کیے وعدوں پر پورا نہیں اتر رہی، اب عوام دشمن بجٹ لایا جا رہا ہے، عوام کے معاشی حقوق پر حملے کیے جا رہے ہیں، سندھ سے اسپتالوں سمیت دیگر ادارے چھینے جا رہے ہیں، پیپلز پارٹی ڈرے گی نہیں، صوبائی خود مختاری پر حملے کی مخالفت کرے گی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ حکومت ایک سلیکٹڈ جوڈیشری، اپوزیشن اور سلیکٹڈ میڈیا چاہتی ہے، عوام دوست بجٹ لائیں پھر مجھے بھی خوشی سے گرفتار کر لیں، والد کو اس عمر میں بند کر دیا، خاندان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ہم ہر فورم پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہر شہری کو احتجاج اور اپنا مؤقف پیش کرنے کا حق ہے، وزیرستان کے دو ایم این ایز کا پروڈکشن آرڈر فوری جاری کیا جائے، ہم دونوں ایم پی ایز کا مؤقف سن سکیں تاکہ معاملے کا پتا چلے، فاٹا میں ہمارے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے نہیں دی جا رہی، حکومتی ارکان فاٹا میں دھاندلی کرنے جا رہے ہیں، ڈائیلاگ کے بغیر فاٹا سمیت کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

    انھوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی رابطہ کمیٹی بنائی جائے گی جو پارلیمان اور باہر رابطے کرے گی، میں آ رہا ہوں، دما دم مست قلندر ہوگا، معاشی، جمہوری حقوق پر سمجھوتا نہیں ہوگا، میڈیا پر بہت پابندیاں ہیں، سینسر شپ ہے، عوامی رابطہ مہم کے سوا کوئی آپشن نہیں۔

    پی پی چیئرمین نے کہا کہ اسپیکر حکومتی بینچز کے اشاروں پر چل رہے ہیں، جانب دار رہنے پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا، اسپیکر نے وزیرستان کے ایم این ایز کی گرفتاری سے متعلق بھی نہیں بتایا تھا، کل تک ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔

  • پی ٹی آئی حکومت اپنا پہلا بجٹ آج پیش کرے گی، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع

    پی ٹی آئی حکومت اپنا پہلا بجٹ آج پیش کرے گی، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنا پہلا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کرے گی، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت آج مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع ہے، جب کہ اس سال دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

    وزیر اعظم عمران خان نے بجٹ تجاویز کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی آج طلب کر لیا ہے، پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی آج طلب کیا گیا ہے۔

    قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ پیش کریں گے۔

    وفاقی بجٹ کا کُل حجم 6 ہزار 800 ارب روپے ہے، 34.6 فی صد شرح سے اضافے کے ساتھ پانچ ہزار 550 ارب روپے کے ٹیکس محصولات کا مشکل ہدف حاصل کرنے کے لیے متعدد نئے ٹیکس عاید کرنے اور 750 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگا نے کی بھی تجویز ہے۔

    ذرایع کے مطابق بجٹ میں دی گئی رعایتیں اور سبسڈی ختم کرنے اور برآمدی شعبے کے لیے زیرو ٹیکس ریٹ کے خاتمے کی بھی تجویز ہے۔

    جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا حصہ 3 فی صد سے زیادہ بڑھائے جانے کا امکان ہے، ٹیکس بیس بڑھا کر 550 ارب روپے جب کہ اثاثہ جات ظاہر کرنے کی اسکیم سے ایک سو ارب روپے ملنے کا امکان ہے۔

    رواں مالی سال میں مختلف شعبوں کی ترقی کی شرح کیا رہی؟ اس سلسلے میں حفیظ شیخ نے کہا کہ معاشی شرح نمو 3.3 فی صد رہی، دو سال میں زر مبادلہ ذخائر میں نمایاں کمی ہوئی، گزشتہ حکومتوں نے آمدن سے زائد اخراجات کیے۔

    انھوں نے کہا کہ سفید ہاتھیوں کو دھکا لگا کر چلانے کے لیے قوم کا پیسا لگایا گیا، معاشی شعبوں کے لیے حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کر دیے ہیں، آیندہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف 4 فی صد مقرر کیا گیا ہے۔

  • حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی: حفیظ شیخ

    حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی: حفیظ شیخ

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ نے رواں مالی سال کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ نے کہا کہ اب معاشی حالات ایسے نہیں کہ اداروں کو ماضی کے انداز میں چلایا جائے، خسارے میں جانے والے ادارے ملکی خزانے پر 300 ارب روپے کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ملکی آبادی کا بڑا حصہ ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتا جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے، موجودہ حکومت کے معاشی اقدامات کے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے، مہنگائی کی صورت میں حکومت وقت کو ہی سب سے بڑی مشکل درپیش ہوتی ہے۔

    حفیظ شیخ نے کہا کہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے کے باوجود حکومت نے غریب طبقے پر بوجھ نہیں ڈالا، حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی، حکومت نے پس ماندہ طبقے کے معاشی تحفظ کے لیے خصوصی سماجی پروگرام ترتیب دیے ہیں اور اس کے لیے خصوصی رقم بھی مختص کی گئی ہے۔

    حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے معیشت کا اچھا برا دونوں بتا دیا گیا ہے، آیندہ سال سود پر 3 ہزار ارب خرچہ ہوگا، صوبوں کو دینے کے بعد وفاق کا ہاتھ خالی ہوگا، ٹیکسوں کے بغیر کام نہیں چلے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  حکومتی ترجمانوں کا اجلاس: بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے پر غور

    انھوں نے کہا کہ ملک کے زائد آمدن والے طبقے کو معاشی استحکام کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹانا ہوگا، کفایت شعاری کی مہم پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔

    انھوں نے کہا کہ معاشی صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلے درآمدات پر کنٹرول کرنا ہوگا، اس لیے درآمدات پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے، معاشی خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت نے بیرون ملک سے 9.2 ارب ڈالر کی معاونت لی، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بھی 6 ارب ڈالر سے زائد کا پیکیج لیا جا رہا ہے، تاہم غیر ملکی معاونت سے ملک کو خوش حال نہیں بنایا جا سکتا، اپنے اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا۔

    انھوں نے رواں مالی سال کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران اقتصادی ترقی کی شرح 3.29 فی صد رہی، زرعی شعبے کی شرح نمو 0.85 فی صد رہی، صنعتی شعبے کی شرح ترقی 1.4 فی صد جب کہ خدمات کی شرح نمو 4.7 فی صد رہی۔