Tag: سالگرہ

  • یومِ پیدائش: معین اختر پرستاروں کے دلوں‌ میں زندہ ہیں!

    یومِ پیدائش: معین اختر پرستاروں کے دلوں‌ میں زندہ ہیں!

    آج معین اختر کا یومِ پیدائش ہے۔ ایک عظیم فن کار اور خوب صورت انسان جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر ان کی یاد دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

    اسٹیج، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم نگری تک ان کا فن اور اس کے مختلف روپ لازوال ہیں۔ اداکاری میں بے مثال معین اختر کی زندگی کا سفر بھی شان دار رہا۔ انھیں انسان دوست، سب کے مددگار اور تعاون کرنے والے کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    کراچی میں 24 دسمبر، 1950 کو آنکھ کھولنے والے معین اختر چند ماہ کے تھے جب ان کے والد محمد ابراہیم محبوب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انھوں نے تقسیمِ ہند کے بعد مراد آباد سے ہجرت کر کے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی اور یہاں ان کا معاش ایک کاروبار سے جڑا ہوا تھا۔

    ڈراموں اور اسٹیج پر کامیڈی کے ساتھ معین اختر نے ایک میزبان، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    سولہ برس کی عمر میں معین اختر نے اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ اسٹیج کے ساتھ ریڈیو پر اپنے فن کا اظہار کرنے کے بعد ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر کو پاکستان بھر میں شناخت مل چکی تھی۔

    ان کے مقبول ترین شوز میں‌ لوز ٹاک، ففٹی ففٹی، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسے کھیل شامل ہیں۔

    معین اختر کے فن کا سفر پینتالیس برس پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن ہے۔ کئی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے معین اختر کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

  • بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    آج اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش ہے۔ اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ 3 سال قبل خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔

    بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جبکہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہرلا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    بانو قدسیہ نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ایک مختلف بانو

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائنگ روم میں چلی گئیں‘۔

    ’پھر ڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی‘۔

    ’میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘۔

    بانو قدسیہ سنہ 2017 میں 4 فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں جس کے بعد اردو ادب کا ایک تابندہ باب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    کراچی: خوش بو جیسے اشعار اور نظمیں کہنے والی اردو زبان کی مقبول عام شاعرہ پروین شاکر کا 67 واں یوم پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔

    رنگ اور خوش بو کی شاعرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گوگل نے اپنا ڈوڈل پروین شاکر کے نام کر دیا ہے۔

    خوش بو، صد برگ، خود کلامی، اور انکار جيسے شعری مجموعوں کی مصنفہ پروین شاکر بلاشبہ ہر دل عزیز شاعرہ تھیں، کتاب خوشبو سے شہرت کی بلنديوں کو چھونے والی شاعرہ کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    24 نومبر 1952 کو کراچی ميں پيدا ہونے والی پروين شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئیں اور 42 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔

    محبت کی خوش بو شعروں میں سمونے والی پروین شاکر نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، آج ان کے مداح ان کی 67 ویں سال گرہ منا رہے ہیں۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی شاعرہ پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں، بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    ان کے چند مشہور اور زبان زد عام اشعار یہ ہیں:

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوش بو کی طرح میری پذیرائی کی

    ….

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

    ….

    وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
    مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

    ….

    حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    ….

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

    ….

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

    ….

    تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
    اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں

    ….

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

  • شاہ محمود قریشی کی وزیراعظم عمران خان کو67 ویں سالگرہ پرمبارکباد

    شاہ محمود قریشی کی وزیراعظم عمران خان کو67 ویں سالگرہ پرمبارکباد

    اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اللہ وزیراعظم عمران خان کو صحت بھری زندگی دے تاکہ وہ قوم کی امنگوں اور نئے پاکستان کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان کو 67ویں سالگرہ پرمبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو دنیا سچے لیڈر، مسلم امہ کے رہنما کے طور پرجانتی ہے۔

    وزیرخارجہ نے کہا کہ وزیراعظم نے جیسے بھارتی مظالم کےخلاف آواز بلند کی اس کی مثال نہیں ملتی، اللہ وزیراعظم عمران خان کو صحت بھری زندگی، استقامت عطا فرمائے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اللہ وزیراعظم عمران خان کو استقامت دے تاکہ وہ قوم کی امنگوں اور نئے پاکستان کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 67 بہاریں دیکھ لیں۔ عمران خان 5 اکتوبر 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔

    پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیراعظم عمران خان کی سالگرہ کے حوالے سے ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔

  • عثمان ڈار کی وزیراعظم کو67 ویں سالگرہ پر مبارکباد

    عثمان ڈار کی وزیراعظم کو67 ویں سالگرہ پر مبارکباد

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی عثمان ڈار کا کہنا ہے کہ عمران خان کی شکل میں سچا اور ایماندار لیڈر پاکستان کی خوش قسمتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی عثمان ڈار نے کہا کہ ملک وقوم کی ترقی کے لیے محنت کرنے والے وزیراعظم کو سالگرہ مبارک ہو۔

    انہوں نے کہا کہ پوری قوم وزیراعظم کی صحت اوردرازی عمر کے لیے دعاگو ہے، عمران خان کی شکل میں سچا اور ایماندار لیڈر پاکستان کی خوش قسمتی ہے۔

    وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی نے کہا کہ دعا ہے اللہ وزیراعظم کے نئے پاکستان کا خواب جلد پورا کرے۔

    عثمان ڈار نے کہا کہ نوجوان مقصد کے حصول میں صرف وزیراعظم کو آئیڈیل سمجھتے ہیں، وزیراعظم عزم حوصلے، استقامت کے ذریعے ملک کی تقدیر ضرور بدلیں گے۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 67 بہاریں دیکھ لیں۔ عمران خان 5 اکتوبر 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔

    پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیراعظم عمران خان کی سالگرہ کے حوالے سے ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔

  • ہم سب کا دوست گوگل 21 سال کا ہوگیا

    ہم سب کا دوست گوگل 21 سال کا ہوگیا

    دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل آج اپنی 21 ویں سالگرہ منا رہا ہے، اپنی سالگرہ پر گوگل نے اپنے ڈوڈل پر ایک ناسٹلجک تصویر سجائی ہے۔

    گوگل کا قیام سنہ 1998 میں عمل میں آیا تھا، اس کے مالکان لیری پیج اور سرگئے برن نے اس کی بنیاد رکھی تھی اور آج گوگل ایپل کے بعد دنیا کی سب سے امیر ترین کمپنی ہے۔

    تاہم ایسا لگتا ہے کہ گوگل جو ساری دنیا کے بارے میں جانتا ہے اپنی سالگرہ کے اصل دن سے خود بھی واقف نہیں ہے۔ سنہ 2006 سے گوگل نے اپنی سالگرہ 27 ستمبر کو منانا شروع کی تاہم اس سے قبل گوگل اپنی سالگرہ 26 ستمبر کو منا رہا تھا۔

    صرف یہی نہیں بلکہ گوگل نے اپنی چھٹی سالگرہ 7 ستمبر کو منائی تھی اور اس سے پہلے یہ سالگرہ ستمبر کی 8 تاریخ کو منائی گئی تھی حالانکہ مذکورہ بالا میں سے کوئی بھی گوگل کی حقیقی سالگرہ نہیں ہے۔

    گوگل پر موجود اس کے اپنے کلینڈر کے مطابق کمپنی کا قیام ستمبر کی 4 تاریخ کو عمل میں لایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ گوگل کی تشکیل اسٹین فورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچ پراجیکٹ کے طور پر ہوئی تھی۔

    گوگل نے سنہ 2013 میں تسلیم کیا کہ اس نے چار مختلف تاریخوں پر سالگرہ منائی ہے تاہم اب یہ سالگرہ کئی سالوں سے 27 ستمبر کو ہی منائی جارہی ہے اور یہ وہ دن ہے جب گوگل نے 2002 میں پہلی بار اپنی سالگرہ کے لیے ڈوڈل کا استعمال کیا تھا۔

    آج اکیسویں سالگرہ کے موقع پر گوگل نے اپنے ڈوڈل کو پرانے کمپیوٹر سے سجایا ہے جس پر گوگل کا پرانا لوگو ہے۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 93 ویں سالگرہ ہے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 93 ویں سالگرہ ہے

    کراچی: آواز میں جاذبیت، کانوں میں رس گھول دینے والے نور جہاں کے مدھر سرلوگ آج تک نہ بھول سکے، ملکہ ترنم نورجہاں کی آج 93ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

    فن گائیکی کا سرمایہ، مدھر اورسریلی آواز کی مالک برصغیر کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں، موسیقی کا ایک درخشاں عہد تھیں، اکیس ستمبرانیس سوچھبیس کوقصورمیں جو تارہ روشن ہوا وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیا۔

    نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا، اپنے فن اورمحبت کی بنا پر لوگوں نے انہيں ملکہ ترنم کا خطاب ديا، نورجہاں نے اپنے فنی کیرئر کا آغاز انیس سو پینتیس میں بطورچائلڈ اسٹارفلم پنڈ دی کڑیاں سے کیا جس کے بعد انمول گھڑی،ہیرسیال اور سسی پنو جیسی مشہور فلموں میں اداکاری کے جوہر آزمائے۔

    سن 1941ءمیں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم خزانچی میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ءمیں ہی بمبئی میں بننے والی فلم خاندان ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔

    قیام پاکستان سے پہلے ان کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم چن وے سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انہی نے دی تھی۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔ ایک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم گبھرو پنجاب دا تھی جو 2000ءمیں ریلیز ہوئی تھی۔

    میڈم نے مجموعی طور پردس ہزار سے زیادہ غزلیں گائیں،میڈم نورجہاں الفاظ کی ادائیگی اور سر کے اتار چڑھاؤ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں،یہی وجہ تھی کہ بھارت کی مشہور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کو خوب سراہا، گلیمر کی دنیا سے لے کر جنگ کے محاذ تک ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی آواز کے سحر سے سب کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑے رکھا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے آڈیشن میں میڈم کا گایا ہوا گیت گایا، محمد رفیع صاحب کے ساتھ میڈم نور جہاں نے صرف ایک گیت گایا تھا۔لوگ آج بھی جب نور جہاں کے مدھر اور سریلے گیتوں کو سنتے ہیں تو مسحور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

    انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران قومی نغمے بھی گائے جو ہماری قومی تاریخ کا اہم حصہ ہیں، حکومتِ پاکستان نے انکی خدمات کو سراہتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی اور نشان امتیاز سے نوازا۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23دسمبر 2000ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں، وہ کراچی کے ڈیفنس سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • آج محسنِ پاکستان عبدالقدیرخان اپنی 83ویں سالگرہ منارہے ہیں

    آج محسنِ پاکستان عبدالقدیرخان اپنی 83ویں سالگرہ منارہے ہیں

    آج پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی 83ویں سال گرہ منائی جارہی ہے۔

    ملک بھر میں آج محسن پاکستان عبدالقدیر خان کے مداح خصوصی تقاریب منعقد کریں گے، سالگرہ کے کیک کاٹے جائیں گے اور ان کی صحت و تندرستی اور درازی عمر کیلئے خصوصی دعائیں مانگی جائیں گی۔

    ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936 ءکو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ 1952ءمیں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئے جہاں انہوں نے ڈی جے کالج کراچی سے بی ایس سی کیا۔ 1961ءمیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وہ یورپ چلے گئے جہاں انہوں نے جرمنی اور ہالینڈ کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کیا۔

    1974ءمیں انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ قائم کیا اور انہیں بتایا کہ وہ یورینیم کی افزودگی جیسے پیچیدہ اور مشکل ترین کام میں مہارت رکھتے ہیں اور ملک کی خدمت کے لیے وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر قدیر خان کو فوراً وطن واپس آنے کی ہدایت کی اوران پراعتماد کرتے ہوئے انہیں اپنا پروجیکٹ شروع کرنے کی تمام سہولیات فراہم کردیں جس کے نتیجے میں 31 جولائی 1976ءکو راولپنڈی میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا قیام عمل میں آگیا جو اب ڈاکٹر عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹری کہلاتا ہے۔

    دو سال کی ریاضت کے بعدڈاکٹر عبدالقدیر خان اس لیبارٹری میں یورینیم کو افزودہ کرنے کے تجربے میں کامیاب ہوگئے۔ تقریباً اسی زمانے میں کہوٹہ کے مقام پرایٹمی پلانٹ کی تنصیب مکمل ہوگئی جہاں پاکستان نے اپناسب سے بڑا ہتھیار ایٹم بم تیارکیا۔

    28مئی 1998ءکو پاکستان نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا اور یوں ایٹمی طاقت رکھنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا۔

  • آصفہ بھٹو کی 26 ویں سالگرہ، 26 پاؤنڈ کا کیک کاٹا گیا

    آصفہ بھٹو کی 26 ویں سالگرہ، 26 پاؤنڈ کا کیک کاٹا گیا

    کراچی: شہید بے نظیر بھٹو کی چھوٹی صاحب زادی آصفہ بھٹو 26 سال کی ہوگئیں، بلاول ہاؤس میں ان کی سال گرہ منائی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق آج پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور شہید بے نظیر بھٹو کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کی چھبیس ویں سال گرہ منائی گئی۔

    آصفہ بھٹو کی سال گرہ کی تقریب بلاول ہاؤس میں منائی گئی، جس میں ان کی عمر کے حساب سے 26 پاؤنڈ کا کیک کاٹا گیا۔

    سال گرہ کی تقریب میں بختاور بھٹو، فریال تالپور، عذرا پیچوہو اور سادیہ جاوید بھی موجود تھیں، تقریب کے بعد آصفہ بھٹو نے خواتین اراکین اسمبلی اور رہنماؤں سے ملاقات کی۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر آصفہ بھٹو نے سال گرہ پر نیک تمناؤں کا اظہار کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔

    آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ سال گرہ پر مجھے لوگوں کی بہت زیادہ محبت اور تعاون ملا، میں پیپلز یوتھ آرگنائزیشن، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جیالوں کا خصوصی شکریہ ادا کرتی ہوں۔

    خیال رہے کہ پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کراچی نے بلاول ہاؤس میں آصفہ بھٹو کی سال گرہ تقریب کا انتظام کیا۔

    بختاور بھٹو نے بھی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر آصفہ کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا ’میری پیاری بہن کو سال گرہ مبارک ہو۔‘

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔