Tag: سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس

  • سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس  کی  سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس کی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ والدین کے مؤقف کو سن کر حکومت مثبت اقدامات کرے، والدین چاہتے ہیں نامزد افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس کی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ، حکم نامہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے 20اکتوبر کے حکم کو بھی عدالتی حکم نامےکا حصہ بنایا ہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ ریاست ذمہ داری پوری کرے گی ، وزیراعظم نے کہا متاثرہ والدین کو انصاف دلانے کی ذمہ داری پوری کریں گے۔

    تحریری حکم میں کہا ہے کہ جو اپنی سیکیورٹی ذمہ داری پوری نہ کرسکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی، والدین کا کہنا ہے 20اکتوبر کے حکم میں جو نام ہیں وہ فرائض میں ناکام رہے۔

    سپریم کورٹ نے حکم میں کہا کہ 20اکتوبر کے حکم میں ذمہ داروں کےمعاملےپرریاست والدین کی بات سنےگی اور وزیراعظم کی دستخط شدہ رپورٹ 4 ہفتےمیں جمع کرائی جائے۔

    چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے والدین کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی ہے، بچوں کے والدین کوئی بھی شہادتیں وصول کرنے کو تیار نہیں۔

    حکم نامے کے مطابق وزیراعظم عدالت کے سامنے پیش ہوئے ، وزیراعظم نے کہا انہوں نے 20 اکتوبر کا حکم نامہ پڑھا ہے، متاثرین کی داد رسی کیلئےہر ممکن اقدامات کریں گے اور غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ والدین کے مؤقف کو سن کر حکومت مثبت اقدامات کرے، لواحقین اپنے بچوں کی شہادت پر کوئی عذر قبول کرنے کو تیار نہیں، والدین چاہتے ہیں نامزد افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔

    گذشتہ روز سانحہ اے پی ایس کیس میں طلبی پر وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے اور بیان میں کہا تھا کہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں، عدالت حکم کرے،ایکشن لیں گے، جب سانحہ ہوا تب ہماری حکومت نہیں تھی، اےپی ایس معاملے پر اعلیٰ سطح کا کمیشن بنادیں۔

    جس پر سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس پر ایک اور کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ چار ہفتے میں پیش رفت رپورٹ طلب کی اور بیس اکتوبر کے فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی تھی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے اور مجرموں کو کٹہرےمیں لانے کےلیے کیا کیا، اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کاسراغ کیوں نہ لگایا جاسکا۔

    جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ آپ مجرمان کو مذاکرات کی میز پر لے آئے، کیا ہم ایک بار پھر سرنڈر ڈاکیومنٹ سائن کرنے جارہے ہیں، وزیراعظم شہداءکےاہل خانہ سے ملیں اور مطالبات سنجیدگی سے سنیں۔

  • سانحہ اے پی ایس: سپریم کورٹ نے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی

    سانحہ اے پی ایس: سپریم کورٹ نے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں حکومت کو چار ہفتے میں پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سانحہ آرمی پبلک سکول کیس کی سماعت ہوئی، عدالتی حکم کی تعمیل پر وزیراعظم عمران خان عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

    وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سانحہ اے پی ایس بہت دردناک تھا، عوام شدید صدمےمیں تھی جب سانحہ ہوا تو کے پی میں ہماری حکومت تھی، سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا تھا۔

    جس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ آپ ہمارے وزیراعظم ہیں ،ہمارے لئے قابل احترام ہیں، آپ کیس کے معاملے پر بات کریں تو وزیراعظم نے کہا کہ میں سیاق و سباق کے حوالےسے بتانا چاہتاہوں، جب یہ سانحہ ہوا تو فوراً پشاور پہنچا، سانحہ کےبعد کےپی میں ہماری حکومت نے ہرممکن اقدامات کئے،صوبائی حکومت جو بھی مدد کرسکتی تھی وہ کی۔

    وزیراعظم کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا، ججز نے ریمارکس دئیے کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سےمذاکرات کررہےہیں۔جس پر وزیراعظم نے کہا کہ آپ مجھے بات موقع دیں میں ایک ایک کرکےوضاحت کرتاہوں تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سےکوئی سروکار نہیں، اتنے سال گزرنےکےبعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟

    وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون ہے دشمن کون؟

    کیس کی سماعت کے دوران سماعت چیف جسٹس نے آئین کی کتاب اٹھاکر کہا کہ یہ آئین کی کتاب ہے جو ہر شہری کو سیکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس کی سماعت 4ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کیلئے4ہفتے کی مہلت دیدی۔

    سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وزیراعظم شہدا کے اہلخانہ سے ملیں اور ان کے مطالبات سنجیدگی سے سنیں، پیش رفت رپورٹ وزیراعظم کے دستخط کیساتھ جمع کرائی جائے۔

    سماعت ملتوی ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ سےروانہ ہوگئے

    وزیراعظم عمران خان کی طلبی


    اس سے قبل سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ پیش میں ہوئے اور بیان میں کہا میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ، آپ حکم کریں ہم ایکشن لیں گے۔

    اٹارنی جنرل کا عدالت میں بیان


    وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں طلبی سے قبل اٹارنی جنرل نے بتایا وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے ، ایسے نہیں چلے گا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب سے نازک اورآسان ہدف اسکول کےبچے تھے، ممکن نہیں دہشت گردوں کواندر سے سپورٹ نہ ملی ہو جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو ایسے مرنے نہیں دے سکتے۔

    دوران سماعت ٹی ٹی پی کا تذکرہ


    دوران سماعت عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا، جسٹس قاضی امین نے کہا اطلاعات ہیں ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی، چاصل میں توکارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیےتھی، اوپر والےتنخواہیں اور مراعات لیکر چلتےبنے، جس پر وکیل والدین امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ حکومت ٹی ایل پی سےمذاکرات کر رہی ہے، قصاص کا حق والدین کاہے ریاست کانہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔

    دردناک سانحہ کا پس منظر


    یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی، دہشت گردوں نےعلم کے پروانوں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔

    آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دردناک سانحے اور دہشت گردی کے سفاک حملے میں 147 افراد شہید ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی تھی۔

    خیال رہے پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد پر سات سال سے غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی، لیکن پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پابندی ختم کر دی گئی تھی۔

    جس کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث کچھ مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاچکا ہے۔