Tag: سانحہ بلدیہ

  • سانحہ بلدیہ،  نثار مورائی اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا حکم

    سانحہ بلدیہ، نثار مورائی اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا حکم

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے تین بڑے مقدمات کی جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا حکم دے دیا، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، نثار مورائی اور لیاری گینگ وار کےعزیربلوچ کی جوائنٹ انٹروگیشن رپورٹس عوام کےسامنےلائی جائیں گی، درخواست وفاقی وزیرعلی زیدی نے دائر کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ، سانحہ بلدیہ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز کو منظر عام پر لانے سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی۔

    سندھ ہائی کورٹ نے3اہم جے آئی ٹیز پبلک کرنے کی درخواست منظور کرلی اور ہدایت کی سانحہ بلدیہ، نثار مورائی،لیاری گینگ وار عزیر بلوچ کی جے آئی ٹیز عوام کےسامنے لائی جائیں۔

    وکیل علی زیدی نے کہا جے آئی ٹی قتل وغارت گری کی وجوہات پتالگالیاتوحکومت چھپارہی ہے، بلدیہ فیکٹری میں 200سےزائدافرادزندہ جلا کرراکھ کردیاگیا اور لیاری گینگ وارکےعزیربلوچ نےلیاری کووار زون بنایاہواتھا۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ کراچی میں قتل غارت گری میں پولیس،سرکاری افسران ملوث رہے، اب وہ پولیس اہلکار،افسران ترقی کرچکے ،اہم عہدوں پر تعینات ہیں، چیف سیکریٹری سندھ ان افسران کو بچانا چاہتے ہیں، علی زیدی نے جب درخواست دائر کی اس وقت تو وہ بھی نہیں تھے۔

    عمر سومرو ایڈووکیٹ نے کہا معلومات تک رسائی ہرشہری کابنیادی حق ہے، ہم چاہتے ہیں حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں، حقائق پبلک کرنے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔

    مزید پڑھیں : عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس سندھ ہائی کورٹ میں پیش

    یاد رہے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست وفاقی وزیرعلی زیدی نے دائر کی تھی، علی زیدی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ جےآئی ٹیز پبلک کرنے کیلئےچیف سیکریٹری کوخط لکھا مگرمثبت جواب ابھی تک نہیں ملا، عدالت سے استدعا ہے کہ سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس کو پبلک کرنے کی ہدایت جاری کی جائے، متعلقہ حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ تین سال سے جے آئی ٹیز پرکارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

    درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ سیاستدانوں اور پولیس افسران پر بھی سنگین جرائم کے الزامات ہیں، عزیربلوچ، نثارمورائی کے انکشافات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

    بعد ازاں سندھ حکومت نے عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس سندھ ہائیکورٹ میں پیش کیں تھیں اور نثار مورائی کی جے آئی ٹی کے نوٹی فکیشن سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا

    عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ مذکورہ رپورٹس کا جائزہ لے کر جے آئی ٹیز کو پبلک کرنے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔

  • سانحہ بلدیہ فیکٹری: 17 لاشوں کی کبھی شناخت نہیں‌ ہوسکی

    سانحہ بلدیہ فیکٹری: 17 لاشوں کی کبھی شناخت نہیں‌ ہوسکی

    کراچی: انسداد دہشت گردی کورٹ (اے ٹی سی) میں آج سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی، جس میں تفتیشی افسرنے اپنا بیان قلم بند کروایا.

    تفصیلات کے مطابق تفتیشی افسر انسپکٹر جہانزیب نے مقدمے سے متعلق فرانزک رپورٹس عدالت میں پیش کیں.

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ فیکٹری آتشزدگی میں 259 افراد جل کر جاں بحق ہوئے، ان لاشوں میں 75 ابتدا میں ناقابل شناخت تھیں

    انسپکٹرجہانزیب کے بیان کے مطابق ان لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا، جن کی شناخت ہوئیں وہ لاشیں لواحقین کے حوالےکردی گئیں،

    البتہ 75 میں سے 17 لاشیں ایسی تھیں، جو ناقابل شناخت تھیں، 17 لاشوں سے متعلق ڈی این اے میں بھی شناخت نہیں ہو سکی. ان 17 لاشوں کوایدھی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا.

    بیان ریکارڈ ہونے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سماعت یکم اکتوبرتک ملتوی کردیں.

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ نے اے ٹی سی میں بذریعہ اسکائپ بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سنسنی خیز انکشافات کیے تھے.

    ارشد بھائیلہ کا کہنا تھا کہ فیکٹری ملازم منصور نے ایم کیو ایم سے معاملات طے کرائے تھے، 2012 میں حماد صدیقی نے 25 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا، ملزم رحمان بھولا نے دھمکی دی 25 کروڑ دو یا پارٹنر شپ کرو۔

  • عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس سندھ ہائی کورٹ میں پیش

    عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس سندھ ہائی کورٹ میں پیش

    کراچی : سندھ حکومت نے عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردیں، عدالت نے کہا کہ جائزہ لے کر پبلک کرنے کا فیصلہ کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ، سانحہ بلدیہ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز کو منظر عام پر لانے کے مقدمے ۔میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس شمس الدین عباسی نے کیس کی سماعت کی ۔

    اس موقع پر سندھ حکومت نے عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس سندھ ہائیکورٹ میں پیش کردیں، سندھ حکومت نے نثار مورائی کی جے آئی ٹی کے نوٹی فکیشن سے لاعلمی کا اظہار کردیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مذکورہ رپورٹس کا جائزہ لے کر جے آئی ٹیز کو پبلک کرنے سے متعلق فیصلہ کریں گے، عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیئرمین فشرمین کو آپریٹیو سوسائٹی نثارمورائی کی جےآئی ٹی نہیں ہوئی۔

    درخواست گزار علی زیدی کے وکیل عمر سومرو ایڈوکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ نثارمورائی کی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن سندھ حکومت نے جاری کیا تھا، پیش کی گئی جے آئی ٹیز کی متعلقہ محکموں سے تصدیق کرائی جائے۔

    عمر سومرو نے موقف اپنایا عدالت جے آئی ٹیز اپنے پاس محفوظ رکھے، چاہتے ہیں کہ عدالت کے ذریعے جے آئی ٹیز پبلک کی جائیں۔ اعتبار نہیں کہ سندھ حکومت جے آئی ٹیز پبلک کرے گی۔

    بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار کو نوٹیفکیشن اور بیان حلفی جمع کرانے کیلئے نو مارچ تک مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

  • سانحہ بلدیہ: ساڑھے چھ برس بیت گئے، متاثرین امداد سے محروم

    سانحہ بلدیہ: ساڑھے چھ برس بیت گئے، متاثرین امداد سے محروم

    کراچی: ساڑھے چھ برس بیت گئے لیکن سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین کو اب تک امداد نہ مل سکی۔

    تفصیلات کے مطابق بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی کے باعث زندہ جل کر جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے لواحقین اب تک حکومتی امداد سے محروم ہیں۔

    سانحہ بلدیہ کیس میں حکومت نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت معاوضہ دینے سے مکر گئی، چھپن کروڑ معاوضے کا اعلان محض خبر ہے۔

    عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے متاثرین کو مزید معاوضہ ملنے کی امید ختم ہوگئی۔

    واضح رہے 11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتش زدگی سے خواتین سمیت 260 مزدور زندہ جل گئے تھے، بعد میں انکشاف ہوا کہ ایک سیاسی جماعت نے بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو آگ لگائی تھی۔

    سانحہ بلدیہ کو چھ سال بیت گئے، مقدمہ آج بھی عدالت میں زیر سماعت ہے

    بعد ازاں سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جے آئی ٹی نے انکشاف کیا تھا کہ فیکٹری میں آگ حادثہ نہیں ،سوچی سمجھی اسکیم تھی، آگ بھتہ نہ دینے پرلگائی گئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فیکٹری مالکان سے ایم کیوایم کےسیکٹرانچارج رحمان بھولا اورکراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی نے بیس کروڑ بھتہ مانگا تھا، ایف آئی آرمیں بیرونی اوراندرونی دباؤ کی وجہ سے واقعہ کوحادثہ قراردیا گیا اور بھتے کا امکان یکسر نظرانداز کیا گیا۔

    سانحہ بلدیہ فیکٹری کو 6 سال سے زائد گزر چکے ہیں لیکن شہداء کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

  • سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کیس کے سابق تفتیشی افسرکو دھمکیاں ملنے لگیں

    سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کیس کے سابق تفتیشی افسرکو دھمکیاں ملنے لگیں

    کراچی : سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کیس کے سابق تفتیشی افسرکو دھمکیاں ملنے لگیں، سب انسپکٹرجہانزیب نے عدالت کو بتایا دھمکی آمیزکالزمیں کہا جارہا ہے کہ بلدیہ کیس میں تفتیشی ہو تمہیں دیکھ لیں گے، جس کے بعد عدالت نے تفتیشی افسرکوتحفظ فراہم کرنے کاحکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی تحقیقات پرمامورسابق تفتیشی افسر کو دھمکیاں ملنے کا انکشاف ہوا، مقدمے کے سابق آئی او سب انسپکٹرجہانزیب نےعدالت سے رجوع کرلیا۔

    درخواست میں کہا انھیں نامعلوم نمبرز سے دھمکی آمیزکالز موصول ہورہی ہیں، کالزمیں دھمکی دی جارہی ہے بلدیہ کیس میں تفتیشی ہو تمہیں دیکھ لیں گے۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نےسب انسپکٹرجہانزیب کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ایس ایس پی ویسٹ پولیس افسرکو سیکیورٹی فراہم کریں۔

    اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرساجد محبوب نے بیان میں کہا پولیس افسر کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں، دھمکی دینے والے کو ٹریس کرنے میں بھی پولیس کی مددکریں گے۔

    خیال رہے سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے مقدمے کے گواہوں کو انسپکٹرجہانزیب پیش کررہے ہیں۔

    یاد رہے سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جے آئی ٹی نے انکشاف کیا تھا کہ فیکٹری میں آگ حادثہ نہیں ،سوچی سمجھی اسکیم تھی، آگ بھتہ نہ دینے پرلگائی گئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فیکٹری مالکان سے ایم کیوایم کےسیکٹرانچارج رحمان بھولا اورکراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی نے بیس کروڑ بھتہ مانگا تھا، ایف آئی آرمیں بیرونی اوراندرونی دباؤ کی وجہ سے واقعہ کوحادثہ قراردیا گیا اور بھتے کا امکان یکسر نظرانداز کیا گیا۔

    واضح رہے 11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتش زدگی سے خواتین سمیت 260 مزدور زندہ جل گئے تھے، بعد میں انکشاف ہوا کہ ایک سیاسی جماعت نے بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو آگ لگائی تھی۔

  • سانحہ بلدیہ کو چھ سال بیت گئے، مقدمہ آج بھی عدالت میں زیر سماعت ہے

    سانحہ بلدیہ کو چھ سال بیت گئے، مقدمہ آج بھی عدالت میں زیر سماعت ہے

    کراچی : پاکستان کے نائن الیون سانحہ بلدیہ کو چھ سال بیت گئے، جے آئی ٹی بنی، تحقیقات میں پیش رفت کے دعوے کیے گئے تاریخ پر تاریخ کے باوجود متاثرین کوآج تک انصاف نہ مل سکا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ بلدیہ فیکٹری کو6سال گزر گئے لیکن شہداء کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، گیارہ ستمبر2012کو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی سے خواتین سمیت دو سو ساٹھ مزدور زندہ جل گئے تھے، بعد میں انکشاف ہوا کہ ایک سیاسی جماعت نے بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو آگ لگائی تھی۔

    چھ سال بعد آج بھی سانحہ بلدیہ کا کیس عدالت میں زیرسماعت ہے اور ذمہ داروں کو سزا نہ مل سکی، جل کر راکھ ہونے والے259جسموں سے اٹھتا دھواں آج بھی فضا میں انصاف کا طلب گار ہے۔

    آج سے چھ سال قبل آج ہی کی تاریخ میں یہ اندوہناک سانحہ پیش آیا، اپنے پیاروں کے زندہ جلنے کا غم میں ڈوبے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

    گیارہ سمتبر دوہزار بارہ کی صبح کراچی بلدیہ میں واقع فیکٹری کے محنت کش یہ نہیں جانتے تھے کہ آج ان کا لاشہ گھر واپس لایا جائے گا۔ جلنے کی ناقابل برداشت بو پر کوئی پہچان بھی نہ پائے گا۔ بندہ خاکی راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔

    مزید پڑھیں: رحمان بھولا کے سنسنی خیز انکشافات، سانحہ بلدیہ میں‌ قیادت ملوث تھی

    تحقیقات میں ہولناک انکشاف ہوا کہ آگ لگی نہیں لگائی گئی تھی، وجہ بھتہ نہ ملنا تھا۔ تفتیش کا دائرہ آگے بڑھا تو ایک سیاسی جماعتوں سے وابستہ بڑے بڑے نام سامنے آئے گرفتاریاں بھی ہوئیں، جے آئی ٹی بنی لیکن لخت جگر کی جدائی پر آنسو بہاتی ماں کو انصاف ملا اور نہ ہی بڑھاپے کا سہارا چھن جانے پر باپ کا ہاتھ قاتلوں کے گریبان تک پہنچا۔

    بیواؤں اور یتیموں کی چیخیں آج بھی فلک کو چیرتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دو نہیں درجنوں بے گناہوں کے خون کا حساب کس سے لیا جائے گا؟ کیس کی فائلوں پر پڑنے والی گرد کی تہیں موٹی ہوتی جارہی ہیں۔

  • عزیربلوچ، نثارمورائی اور سانحہ بلدیہ کی جےآئی ٹیزمنظرعام پرلانے کا مطالبہ

    عزیربلوچ، نثارمورائی اور سانحہ بلدیہ کی جےآئی ٹیزمنظرعام پرلانے کا مطالبہ

    کراچی : عزیربلوچ، نثارمورائی اور سانحہ بلدیہ کی جےآئی ٹی رپورٹس منظر عام پر لانے کی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ نے ستائیس فروری کی تاریخ مقرر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیربلوچ، سابق چیئرمین فشریزنثارمورائی اورسانحہ بلدیہ کی جےآئی ٹی رپورٹس منظرعام پر لانے کی درخواست کی سماعت جسٹس صلاح الدین کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کی۔

    درخواست گزار علی زیدی نے مؤقف اختیار کیا کہ جےآئی ٹیز پبلک کرنے کیلئےچیف سیکریٹری کوخط لکھا ہے مگرمثبت جواب ابھی تک نہیں ملا۔

    درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس کو پبلک کرنے کی ہدایت جاری کی جائے، متعلقہ حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ تین سال سے جے آئی ٹیز پرکارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

    درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاستدانوں اور پولیس افسران پر بھی سنگین جرائم کے الزامات ہیں، عزیربلوچ، نثارمورائی کے انکشافات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

    درخواست گزار کے مؤقف پر سندھ ہائیکورٹ نےستائیس فروری کی تاریخ مقررکرتےہوئےسماعت ملتوی کردی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔

     

  • سانحہ بلدیہ اور12مئی کا کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے، فیصل واوڈا

    سانحہ بلدیہ اور12مئی کا کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے، فیصل واوڈا

    کراچی : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے حماد صدیقی کے انکشافات کے بعد سانحہ بلدیہ اور12مئی کا کیس فوجی عدالت میں چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا نے کہا کہ حماد صدیقی کےانکشافات کےبعد ہلچل مچ جائےگی کیونکہ حماد صدیقی تو ایم کیوایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی جی سربراہی بھی کرتے رہےہیں۔

    ہم چاہتےہیں سانحہ بلدیہ اور12مئی کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو، حمادصدیقی کوجلد سےجلد پاکستان منتقل کر کے اس کا کیس فوجی عدالت میں چلانا چاہیے۔

    رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ فوجی عدالتوں پرلوگوں کو زیادہ اعتماد ہوتاہے، کیس میں کسی قسم کی تاخیر سے نقصان ہوگا کئی گواہ مارے جائیں گے، لواحقین کو انصاف فوجی عدالت سے جلد ملے گا اور عوام بھی اعتماد کریں گے۔


    مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ، حماد صدیقی کے انکشافات، پی ایس پی کو مشکلات 


    واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے سابق رہنما حماد صدیقی کے سانحہ بلدیہ فیکٹری اور12مئی سےمتعلق سنسنی خیزانکشافات کے بعد مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق حماد صدیقی کےانکشافات سے ایم کیوایم پاکستان، پی ایس پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے

  • سانحہ بلدیہ فیکٹری کو5سال ہوگئے، لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر

    سانحہ بلدیہ فیکٹری کو5سال ہوگئے، لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر

    کراچی : سانحہ بلدیہ فیکٹری کو پانچ سال ہوگئے، جل کر راکھ ہونے والے259جسموں سے اٹھتا دھواں آج بھی فضا میں انصاف کا طلبگار ہے۔

    آج سے پانچ سال قبل آج ہی کی تاریخ میں یہ اندوہناک سانحہ پیش آیا، سانحہ بلدیہ کراچی فیکٹری کوپانچ سال ہوگئے، پیاروں کے زندہ جلنے کا غم میں ڈوبے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

    گیارہ سمتبر دوہزار بارہ کی صبح کراچی بلدیہ میں واقع فیکٹری کے محنت کش یہ نہیں جانتے تھے کہ آج ان کا لاشہ گھر واپس لایا جائے گا۔

    جلنے کی ناقابل برداشت بو پر کوئی پہچان بھی نہ پائے گا۔ بندہ خاکی راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔ تحقیقات میں ہولناک انکشاف ہوا کہ آگ لگی نہیں لگائی گئی تھی، وجہ بھتہ نہ ملنا تھا۔

    تفتیش کا دائرہ آگے بڑھا تو ایک سیاسی جماعتوں سے وابستہ بڑے بڑے نام سامنے آئے گرفتاریاں بھی ہوئیں، جے آئی ٹی بنی لیکن لخت جگر کی جدائی پر آنسو بہاتی ماں کو انصاف ملا اور نہ ہی بڑھاپے کا سہارا چھن جانے پر باپ کا ہاتھ قاتلوں کے گریبان تک پہنچا۔


    مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ: آگ فیکٹری منیجر نے لگوائی، ملزم کا انکشاف


    بیواؤں اور یتیموں کی چیخیں آج بھی فلک کو چیرتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دو نہیں درجنوں بے گناہوں کے خون کا حساب کس سے لیا جائے گا؟ کیس کی فائلوں پر پڑنے والی گرد کی تہیں موٹی ہوتی جارہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ: ہاں آگ میں نے لگائی، رحمان بھولا عدالت میں روپڑا

  • رحمان بھولا سے مزید تحقیقات،ایک اور جے آئی ٹی تشکیل

    رحمان بھولا سے مزید تحقیقات،ایک اور جے آئی ٹی تشکیل

    کراچی: سانحہ بلدیہ کے مرکزی کردار رحمان بھولا سے تحقیقات کے لیے ایک اور جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی جس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کراچی کے نمائندے سلمان لودھی کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ نے بنکاک سے گرفتار کرکے یہاں لائے گئے سانحہ بلدیہ کے مرکزی ملزم رحمان بھولا سے مزید تحقیقات کے لیے ایک اور جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔

    رپورٹر کے مطابق یہ جے آئی ٹی عدالتی حکم پر تشکیل دی گئی ہے جو 7 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرکے عدالت کو پیش کرنے کی پابند ہوگی۔

    اطلاعات کے مطابق محکمہ داخلہ نے اس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے جس کے مطابق ایس ایس پی ذوالفقار مہر ٹیم کے سربراہ ہوں گے جس میں دیگر تحقیقاتی اداروں کے افسران بھی شامل ہیں۔

    رحمن بھولا بنکاک سے گرفتار، پاکستان کے حوالے

     واضح رہے کہ گزشتہ سال 3 دسمبر کو سانحہ بلدیہ میں 259 لوگوں کو زندہ جلانے کے مرکزی ملزم عبدالرحمان عرف بھولا کو بنکاک میں پولیس نے گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا تھا۔

    15دسمبر کو ملزم سے تحقیقات کے لیے ایس ایس پی اختر فاروق کی سربراہی میں ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے ، ٹیم کے دیگر اراکین میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی رینجرز کے میجر رینک جب کہ اسپیشل برانچ ، پولیس اور سی ٹی ڈی کے ایس پی رینک کے افسران شامل تھے۔

    عبدالرحمان عرف بھولا نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور دوران تفتیش حماد صدیقی کو واقعہ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا اور کہا کہ علی انٹر پرائزز میں آگ ایم کیو ایم تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کے کہنے پر لگائی۔

    رحمان بھولا کے انکشافات، سانحہ بلدیہ میں‌ متحدہ قیادت ملوث تھی

    پولیس نے بھی اس ضمن میں تفتیشی رپورٹ جمع کرائی جس کے مطابق حماد صدیقی نے فیکٹری مالکان سے بھتہ مانگا اور منافع میں شراکت داری کا مطالبہ کیا تھا، مالکان کے انکار پر فیکٹری کو آگ میں جھونکا گیا۔

    سانحہ بلدیہ: ہاں آگ میں نے لگائی، رحمان بھولا عدالت میں روپڑا

    عبدالرحمان عرف بھولا نے 22 دسمبر کو بھی عدالت میں اعتراف جرم کیا جس میں وہ رو پڑا اور اس نے کہا تھا کہ آگ حماد صدیقی کے حکم پر لگائی تھی، اپنے کیے پر شرمند ہوں۔

    سانحہ بلدیہ، عبدالرحمان بھولا اپنے بیان سے مکر گیا (دیکھیں ویڈیو)

     12 جنوری کو رحمان بھولا اپنے اعتراف جرم سے مکر گیا، پیشی پر حاضری کے دوران صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ملزم نے دفعہ 164 کے تحت قلم بند کرائے گئے بیان سے یکسر انکار کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سخت دباؤ ہے، اس کا بیان سیکیورٹی ایجنسوں نے زبردستی لیا، گھر والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں تھیں۔

    یہ پڑھیں: سانحہ بلدیہ کے بعد بھولا نائن زیرو میں روپوش رہا، اہلیہ ثمینہ

    بھولا کے پکڑے جانے پر اس کی اہلیہ نے بیان دیا تھا کہ واقعے کے بعد رحمان کئی روز تک نائن زیرو میں روپوش رہا، اسے خرچہ بھی ملتا تھا۔