Tag: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس

  • سانحہ بلدیہ  فیکٹری کیس میں  زبیرچریا اوررحمان بھولا کے انکشافات کےبعد سندھ حکومت متحرک

    سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں زبیرچریا اوررحمان بھولا کے انکشافات کےبعد سندھ حکومت متحرک

    کراچی : محکمہ صنعت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں زبیرچریا اوررحمان بھولا کے انکشافات کے بعد چیف سیکرٹری سندھ کو رپورٹ پیش کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں زبیرچریا اوررحمان بھولا کے انکشافات کےبعد سندھ حکومت متحرک ہوگئی ، محکمہ صنعت نے چیف سیکرٹری سندھ کو رپورٹ پیش کردی ہے۔

    جس میں کہا ہے کہ کراچی میں 9 ہزار 992 فیکٹریوں میں سے 3 ہزار 652 کے پاس آگ بجھانے کے آلات ہی نہیں، کورنگی ایسوسی ایشن کے پاس 5 ہزار فیکٹریاں ہیں، جس میں سے 800 غیر رجسٹرڈ ہیں، سائٹ ایسوسی ایشن کےپاس ساڑھے 4ہزار فیکٹریاں ہیں جن میں 2500 غیررجسٹرڈہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیو کراچی انڈسٹریل ایسوسی ایشن کے پاس 97 فیکٹریاں ہیں اور غیر رجسٹرڈ 22 فیکٹریوں کے مالکان نے معائنہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ایکسپورٹ پروسیسنگ زون لانڈھی کے پاس 350 فیکٹریاں ہیں جن میں سے 100 غیررجسٹرڈ ہیں اور لانڈھی ایسوسی ایشن کےپاس 15 فیکٹریاں اور شاہ فیصل ٹاؤن میں 50 فیکٹریاں اور ناظم آباد میں 30 فیکٹریاں ہیں جن کے پاس آگ بجھانے کے آلات نہیں ہیں۔

    چیف سیکرٹری محکمہ صنعت کی رپورٹ آئندہ سماعت میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش کریں گے۔

  • سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں بڑی مچھلیوں کو کیسے بچالیا گیا؟ عدالت برہم

    سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں بڑی مچھلیوں کو کیسے بچالیا گیا؟ عدالت برہم

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں اصل ملزمان کو تحفظ دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا رؤف صدیقی اوردیگر کی بریت کے خلاف ریاست نے اپیل دائر کیوں نہ کی؟

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس سے متعلق سماعت ہوئی ، دوران سماعت ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے پرعدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

    جسٹس کےکےآغا نے ریمارکس دیئے کہ اتنے بڑے کیس میں بڑی مچھلیوں کو کیسے بچالیا گیا؟ رؤف صدیقی اوردیگر کی بریت کے خلاف ریاست نے اپیل دائر کیوں نہ کی؟ لگتاہے کیس میں ملوث بڑی مچھلیوں کوجان بوجھ کر بچایا گیا اور اصل ملزمان کو بچانے کے لیے تحفظ دیا گیا ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ جوملزمان ٹرائل کورٹ سے بری ہوئے ان کی بریت کوچیلنج کیوں نہیں کیا گیا؟ ملزمان کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائےگی۔

    جسٹس کےکے آغا کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ جاؤ اور بڑوں سے ہدایت لے کر آؤ ، بڑے لوگوں کو چھوڑدیا غریبوں کو اندر ڈال دیا گیا ہے۔

    بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس سے متعلق سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس:  مجرموں کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے منظور

    سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: مجرموں کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے منظور

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے مجرموں کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے منظورکرلی جبکہ اے ٹی سی کے فیصلے کی کاپی اور کیس ریکارڈ طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں ملزمان عبدالرحمان عرف بھولا، زبیر چریا سمیت 5 سزا یافتہ ملزمان کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

    سندھ ہائی کورٹ نے 5 ملزمان کی اپیلیں سماعت کےلیےمنظور کرلیں اور پراسیکیوٹرجنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے اے ٹی سی کے فیصلے کی کاپی اورکیس کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

    مجرمان کا اپیل میں موقف تھا کہ آگ لگی تو فیکٹری کے دروازے بندے تھے، دروازے مالکان کے حکم پرلاک کیے گئے، مزدوروں کے اخراج کیلئے کوئی ہنگامی راستہ موجود نہیں تھا، ہنگامی اخراج نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین جاں بحق ہوئے۔

    اپیل میں موقف اختیارکیا کہ فیکٹری مالکان اور متعلقہ محکموں کی غفلت سے معصوم لوگ جاں بحق ہوئے، پولیس نے ابتدائی رپورٹ میں فیکٹری مالکان کو ہی نامزد کیا تھا، فیکٹری مالکان نے کبھی کسی کو نامزد نہیں کیا اور ٹرائل کورٹ میں واقعہ سے متعلق کوئی سی سی ٹی وی بھی پیش نہیں کی گئی۔

    ملزمان نے کہا کہ اپیل ہم پر بھتہ مانگنے کا الزام عائد کیاگیاکوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا، عدالت سے استدعا کی گئی کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قراردیا جائے۔

    یاد رہے 22 ستمبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رحمان بھولا اور زبیر چریا کو 264مرتبہ سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ دیگر مجرموں علی محمد،فضل محمد، شارخ اور ارشد محمد کو سہولت کاری کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

    واضح رہے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون میں 11 ستمبر 2012 کو خوفناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا، جس میں 260 کے قریب ملازمین جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔

  • سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس :  مجرم عبد الرحمان بھولا اور زبیر چریا نے سزائے موت کو چیلنج کردیا

    سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس : مجرم عبد الرحمان بھولا اور زبیر چریا نے سزائے موت کو چیلنج کردیا

    کراچی : سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے مجرم عبد الرحمان بھولا اور زبیر چریا نے سزائے موت کو چیلنج کردیا، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سزا کالعدم قرار دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بلدیہ کیس کے مجرموں کی جانب سے سزا کیخلاف اپیل دائر کردی گئی، سزا کیخلاف اپیل دائر کرنے والے مجرمان میں زبیر چریا، رحمان بھولا،علی محمد،فضل محمد، شارخ اور ارشد محمد شامل ہیں۔

    مجرم زبیر چریا اور رحمان بھولا کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے اور فیصلے میں قانونی سقم ہیں ، انسداد دہشت گردی کی سزا معطل کی جائے۔

    فیکٹری ملازمین کی جانب سے دائر اپیلوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انھیں سزا سناتے ہوئے حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ ، رحمان بھولا اور زبیرچریا کو سزائے موت سنادی گئی

    یاد رہے 22 ستمبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رحمان بھولا اور زبیر چریا کو 264مرتبہ سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ دیگر مجرموں علی محمد،فضل محمد، شارخ اور ارشد محمد کو سہولت کاری کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

    واضح رہے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون میں 11 ستمبر 2012 کو خوفناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا، جس میں 260 کے قریب ملازمین جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔

    بعد ازاں سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فیکڑی میں آتشزدگی کا واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر بلدیہ فیکٹری کو آگ لگائی گئی۔

    عبدالرحمان بھولا نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے حماد صدیقی کے کہنے پر ہی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی تھی۔

  • کراچی میں خوف اور دہشت کی علامت رئیس مما کون ہے ؟

    کراچی میں خوف اور دہشت کی علامت رئیس مما کون ہے ؟

    ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے اور نظم و ضبط کی عملداری میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا عہدہ سیکٹر انچارج کا ہوتا ہے، ایک سیکٹر دس سے پندرہ یونٹس پر مشتمل ہوتا ہے اور عمومی طور پر ایک یونٹ بلدیاتی نظام کے ایک یونین کونسل یا وارڈ کے برابر ہوتا ہے جب کہ سیکٹر ایک ٹاؤن کے برابر ہوتے تاہم کچھ ٹاؤنز میں دو سیکٹرز بھی آتے ہیں.

    سیکٹر انچارج دس سے بارہ رکنی سیکٹر کمیٹی کی سرپرستی کرتا ہے وہ نہ صرف تنظبیمی معاملات بلکہ اراکین اسمبلی کے چناؤ میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور اراکین اسمبلی اپنے ترقیاتی بجٹ کے استعمال اور روازنہ سیکٹر آفس میں حاضری کے لیے سیکٹر انچارج کا پابند ہوتا ہے اور علاقے میں بھی ایک سیکٹر انچارج کی خوب دھاک بیٹھی ہوتی ہے.

    یوں تو کراچی میں ایم کیو ایم کے کم وبیش چوبیس سیکٹرز ہیں تاہم ان سیکٹرز انچارجز میں رئیس مما کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ دیگر انچارجز کی نسبت طویل عرصے سے اس عہدے پر فائز رہا ہے جو شاید کسی اور سیکٹر انچارج کے حصے میں نہیں آئی وہ مرکزی رہنماؤں کے قریب بھی سمجھا جاتا تھا جب کہ 1992 کے آپریشن کے بعد جب یہاں ایم کیو ایم حقیقی  نے اپنا زور پیدا کیا تھا اسے توڑنے میں بھی رئیس مما نے اہم کردار ادا کیا.

    رئیس مما کا نام ایم کیو ایم حقیقی کے ساتھ ہونے والے تصادم کے بعد منظرعام پر آنے لگا تھا اور کورنگی و لانڈھی تھانے میں کئی ایف آرز بھی درج ہوئیں 1999 کے بعد رئیس مما مخالف سیاسی جماعت کو کورنگی سے بھگانے میں کامیاب ہوا اور بہ طور سیکٹر انچارج ایم کیو ایم کو دوبارہ سے مضبوط و منظم کیا اور کئ نئے  یونٹس آفسز کھولنے میں کامیاب ہوا.

    رئیس مما کو میڈیا پر اس وقت شہرت ملی جب 2010 میں چکرا گوٹھ کے علاقے میں  پولیس بس پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد پولیس اور ملزمان کے درمیان مورچہ بند فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں دو ملزمان کامران عرف مادھوری اور سہیل عرف کمانڈر کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا تھا جنہوں نے دوران تفتیش رئیس مما کا نام لیا تھا.

    رئیس مما کا نام عام انتخابات 2002، 2008، 2013 اور بلدیاتی الیکشن 2005 اور 2015 میں کورنگی اور لانڈھی میں ایم کیو ایم حقیقی اور جماعت اسلامی کے زیر اثر علاقے سے ایم کیو ایم کے نمائندوں کی کامیابی کے لیے متحرک اور سرگرم کردار کے طور ہر سامنے آیا جب کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کی تحقیقات میں بھی رئیس مما کا نام گردش کرتا رہا ہے.

    رئیس مما نے اپنے عہدے کے دوران زیادہ تر کام حماد صدیقی کی سربراہی میں کیا جس کے باعث کہا جاتا ہے کہ وہ حماد صدیقی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا اور اسی کے کہنے پر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور سیاسی مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا شاید یہی وجہ ہے کہ 2013 کے بعد حماد صدیقی کے منظر عام سے غائب ہونے کے بعد دبئی میں رئیس مما بھی روپوشی اور گمنامی کی زندگی بسر کررہا تھا.

    بانی ایم کیو ایم کی 2013 میں رابطہ کمیٹی سے ناراضی اور رابطہ کمیٹی و کراچی تنظیمی کمیٹی کو معزول کرنے کے بعد نئی رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ایم کیو ایم حقیقی سے واپس آئے عامر خان کو ڈپٹی کنونیر بنایا گیا جنہوں نے رئیس مما کو ماضی کی تلخیوں کے باعث سیکٹر کے عہدے پر بحال نہیں کیا اور انہیں مرکز کے الیکشن میں رپورٹ کرنے کو کہا گیا.

    رئیس مما نے عامر خان کے فیصلے کو سنی ان سنی کرتے ہوئے مقررہ وقت تک مرکزی الیکشن سیل میں رپورٹ نہیں کیا جس پر نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے تحت رئیس مما کی تنظیمی رکنیت معطل کر کے کسی بھی قسم کی تنظیمی سرگرمیوں سے دور کردیا گیا تھا تاہم مارچ 2015 میں ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے کے بعد سے رئیس مما روپوش تھا جسے آج ملائیشیا سے حراست میں لے لیا گیا.

    دوسری جانب سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزم حماد صدیقی کو پہلے ہی دبئی میں حراست سے لے لیا گیا ہے جب کہ اس قبل بلدیہ ٹاؤن کے سابق سیکٹر انچارج رحمان بھولا کو ملائیشیا سے حراست میں لے کر پاکستان لایا جا چکا ہے اور آج رئیس مما کی ملائیشیا سے گرفتاری سے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مظلوموں کو انصاف ملنے کی توقع پوری ہوتی نظر آرہی ہے.