ڈسکہ : سانحہ سوات میں جاں بحق سترہ سال کے عبداللہ کو نماز جنازہ کے بعد ڈسکہ میں سپردخاک کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق سانحہ سوات میں جاں بحق نوجوان عبداللہ کی میت گھر پہنچائی گئی ، نوجوان نماز جنازہ دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ کلاں میں ادا کی گئی۔
نماز جنازہ میں رشتے داروں،علاقہ مکینوں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، نماز جنازہ کے بعد فاروقیہ قبرستان سپردخاک کردیا گیا۔
سوات واقعے میں عبداللہ کی لاش سانحہ کے بیس دن بعددریائے سوات سےملی تھی، سانحے میں عبداللہ کی والدہ ، دو بہنیں، چھ کزن جاں بحق ہو گئے تھے، جن کی لاشیں نکال لی گئی تھیں۔
یاد رہے پچھلے ماہ جون میں سوات میں پیش آنے والے افسوسناک اور کربناک سانحے میں ایک ہی فیملی کے کئی افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
سانحے میں جاں بحق ہونے والوں میں سے 8 افراد کی میتیں ان کے شہر ڈسکہ پہنچائی گئی تھیں، میتیں پہنچنے پر ان کے گھروں میں کہرام مچ گیا تھا اور پورے شہر میں سوگ کا سماں تھا۔
متوفیان کے اہل خانہ شدت غم سے نڈھال اور بچ جانے والوں سے مل کر دھاڑیں مار کر رو پڑے تھے، 3میتیں ڈسکہ کلاں، 3محلہ لاریاں اور 2 محمد پورہ پہنچائی گئی تھیں، یاد رہے کہ سانحے میں 11 افراد بچے تھے۔
سوات: فضاگٹ بائی پاس سیلاب میں ڈوبنے والے لڑکے کی لاش مل گئی، سیلاب میں بہنے والے عبداللہ کی لاش20 دن کے بعد ملی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق ریسکیوحکام نے بتایا کہ عبداللہ کی لاش دریائے سوات غالیگے کے مقام سے ملی، سیلابی ریلے میں بہنے والے عبداللہ کی لاش 20 دن بعد ملی، فضاگٹ سیلابی ریلے میں جاں بحق افراد کی تعداد 13 ہوگئی۔
پچھلے ماہ جون میں سوات میں پیش آنے والے افسوسناک اور کربناک سانحے میں ایک ہی فیملی کے کئی افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
سانحہ سوات میں جاں بحق ہونے والوں میں سے 8 افراد کی میتیں ان کے شہر ڈسکہ پہنچائی گئی تھیں، میتیں پہنچنے پر ان کے گھروں میں کہرام مچ گیا تھا اور پورے شہر میں سوگ کا سماں تھا۔
متوفیان کے اہل خانہ شدت غم سے نڈھال اور بچ جانے والوں سے مل کر دھاڑیں مار کر رو پڑے تھے، 3میتیں ڈسکہ کلاں، 3محلہ لاریاں اور 2 محمد پورہ پہنچائی گئی تھیں، یاد رہے کہ سانحہ سوات میں 11 افراد بچے تھے۔
پشاور : خیبرپختونخوا حکومت نے سانحہ سوات پر ریسکیو 1122 کے سربراہ کو برطرف کرتے ہوئے نیا پیشہ ور افسر تعینات کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سانحہ سوات کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کے اہم اقدامات کا آغاز کردیا، انسپکشن ٹیم نے تمام محکموں میں انکوائری و تادیبی کارروائیاں شروع کر دیں۔
کے پی حکومت نے ریسکیو 1122 کے سربراہ کو برطرف کرتے ہوئے نیا پیشہ ور افسر تعینات کردیا ہے۔
ایئر ایمبولینس سروس کے منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے ، خیبرپختونخوا کے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کو مکمل ایئر ایمبولینس میں بدلنے کا عمل جاری ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ سیلاب سے بچاؤ کا سامان ہنگامی بنیادوں پر خطرناک علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے اور اینٹی کرپشن نے متعلقہ حکام کو غیر قانونی این او سیز کیخلاف انکوائری کا اختیار دے دیا ہے۔
صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ مون سون کانٹیجنسی پلان اپ ڈیٹ کردیا ہے اور دریا کے قریب بچاؤ کا سامان فراہم کردیا ہے جبکہ خطرناک علاقوں میں گاڑیوں ، کشتیوں کے ذریعے گشت بھی شروع کردیا ہے۔
یاد رہے سانحہ سوات میں سیلابی ریلے میں 17 افراد کے بہہ جانے والے المناک حادثے سے متعلق انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ کے پی کو پیش کی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں فرائض سے غلفت کے مرتکب سرکاری اہلکاروں اور افسران کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی سفارش کی گئی ہے جب کہ وزیراعلیٰ کے پی نے کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی منظوری دیتے ہوئے متعلق محکموں کو غفلت کے مرتکب اہلکاروں اور افسران کے خلاف تادیبی کارروائیاں کرنے کی ہدایت کی۔
ان متعلقہ محکموں میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بلدیات اور ریسکیو 1122 شامل تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 26 جون کو دریائے سوات میں تفریح کے لیے آئی ہوئی ڈسکہ اور مردان سے تعلق رکھنے والی دو فیملیز کے 17 افراد اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔
ان میں سے چار افراد کو بچا لیا گیا۔ 12 لاشیں نکال لی گئیں جب کہ بچے عبداللہ کی لاش نہ مل سکی
وزیراعلیٰ مریم نواز کی جانب سے کے پی کے تفریحی مقام سوات کے سانحہ میں جاں بحق افراد کے ورثا میں امدادی چیک تقسیم کیے گئے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق گزشتہ ماہ 26 جون کو دریائے سوات میں تفریح کے لیے آئی ہوئی فیملیز کے 17 افراد اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔ 12 لاشیں نکالی گئیں، چار کو زندہ ریسکیو کیا گیا جب کہ ایک بچے عبداللہ کی لاش نہیں مل سکی۔
دریائے سوات میں آنے والے تندوتیز سیلابی ریلے میں جان گنوانے والے 10 بدنصیبوں کا تعلق ڈسکہ سے تھا۔ جنہیں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے امدادی چیکس تقسیم کیے گئے۔
اس سلسلے میں وزیر بلدیاتی ذیشان رفیق اور ایم این اے سیدہ نوشین افتخار ڈسکہ پہنچے اور مذکورہ سانحے میں جاں بحق 10 افراد کے تین ورثا میں 40 اور 80، 80 لاکھ مالیت کے امدادی چیکس تقسیم کیے۔
اس موقع پر وزیر بلدیاتی ذیشان رفیق کا کہنا تھا کہ مریم نواز ہر مشکل میں عوام کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں اور آج ہم ان کی ہی خصوصی ہدایت پر آئے ہیں۔ یہ مالی امداد مرحوین کا ازالہ تو نہیں مگر ورثا کی کچھ مشکلات کم ہو سکیں گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوات سانحے پر آج بھی دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہنستے بستے خاندان انتظامی کوتاہی اور بد انتظامی کی وجہ سے اُجڑ گئے۔ دو گھنٹے تک تو لہروں کی نذر ہونے والے مدد کے لیے پکارتے رہے، لیکن کوئی بچانے نہیں آیا۔ بچے عبداللہ کا اب تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت اس سلسلے میں ہم کے پی حکومت سے رابطے میں ہیں۔
واضح رہے کہ آج سانحہ سوات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پراونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کو پیش کر دی گئی۔
وزیراعلیٰ نے اس رپورٹ میں فرائض سے غلفت کے مرتکب سرکاری اہلکاروں اور افسران کی نشاندہی والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی منظوری دے دی۔
سانحہ سوات میں سیلابی ریلے میں 17 افراد کے بہہ جانے والے المناک حادثے سے متعلق انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ کے پی کو پیش کر دی گئی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سانحہ سوات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پراونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ مکمل کر کے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کو پیش کر دی گئی۔ 63 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے خامیوں کی نشاندہی اور کوتاہیاں دور کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں فرائض سے غلفت کے مرتکب سرکاری اہلکاروں اور افسران کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی سفارش کی گئی ہے جب کہ وزیراعلیٰ کے پی نے کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی منظوری دیتے ہوئے متعلق محکموں کو غفلت کے مرتکب اہلکاروں اور افسران کے خلاف تادیبی کارروائیاں کرنے کی ہدایت کی۔
ان متعلقہ محکموں میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بلدیات اور ریسکیو 1122 شامل ہے۔ یہ ادارے 60 روز میں قانونی تقاضے پورے کر کے تادیبی کارروائیاں کریں گے اور 30 روز میں رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات، ریور سیفٹی اور بلڈنگ ریگولیشن کے لیے جامع ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے چیف سیکریٹری کی سربراہی میں اوورسائٹ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق پیشرفت پر ماہانہ رپورٹ وزیر اعلی سیکرٹریٹ بھیجےگی۔
اس کے علاوہ یہ کمیٹی ریور سیفٹی ماڈیولز کو اگلے مون سون کنٹینجنسی پلان کا حصہ بنانے کے ساتھ ریسکیو 1122 کی استعداد بڑھانے کے لیے منصوبے پر تیز رفتار عملدرآمد یقینی بنائے گی جب کہ محکمہ اطلاعات، ریلیف اور سیاحت کی جانب سے اس حوالے سے صوبہ بھر میں آگہی مہم چلائی جائے گی۔
دریں اثنا وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں ریور ریسکیو پلان منظور کرتے ہوئے مستقبل کے لیے 66 ملین روپے سے 36 پری فیب ریسکیو اسٹیشنز، 739 ملین روپے سے ریسکیو آلات کی خریداری، 608 ملین روپے سے 70 کمپیکٹ ریسکیو اسٹیشنز اور 200 ملین روپے سے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔
سانحہ سوات انکوائری رپورٹ کے خدوخال:
سانحہ سوات پر پراونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ میں پی ڈی ایم اے اور ضلع انتظامیہ کی ایڈوائزری پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے کے ساتھ محکمہ پولیس، ریونیو، آبپاشی، ریسکیو، سیاحت اور دیگر متعلقہ محکموں میں رابطوں کے فقدان کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں سیاحوں کو خطرات سے آگاہ کرنے میں ہوٹل مالکان کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ کرنے کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ حادثہ کے بعد ریسکیو 1122 کے ریساپنس میں تاخیر کا انکشاف کیا اور بتایا کہ اس کے پاس تربیت یافتہ عملہ اور آلات میسر نہیں۔
اس رپورٹ میں سیاحتی مقامات پر دریا کے کنارے خطرات کی کوئی نشاندہی اور درجہ بندی کی عدم موجودگی، مون سون میں عوام کے تحفظ کے لیے جامع ایس او پیز نہ ہونے، آبی گزرگاہوں پر تعمیرات میں قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں، دفعہ 144 کے نفاذ پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کے فقدان کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دریائی سرگرمیوں کی موثر نگرانی کے لیے صوبائی قانون کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
سانحہ کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے اقدامات کو بھی انکوائری رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 26 جون کو دریائے سوات میں تفریح کے لیے آئی ہوئی ڈسکہ اور مردان سے تعلق رکھنے والی دو فیملیز کے 17 افراد اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔
ان میں سے چار افراد کو بچا لیا گیا۔ 12 لاشیں نکال لی گئیں جب کہ بچے عبداللہ کی لاش نہ مل سکی۔
اس سانحہ کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے دریاؤں کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا اور اب تک 127 غیر قانونی عمارتیں سیل، تجاوزات کے زمرے میں آنے والے ہوٹلز مسمار کر دی گئی ہیں۔
دوسری جانب مذکورہ سانحہ پر گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کی جانب سے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
سوات: سانحۂ سوات کو 11 دن گزر چکے ہیں مگر فضاگٹ بائی پاس سے لاپتہ ہونے والے نوجوان عبداللہ کی لاش اب تک نہیں مل سکی۔
تفصیلات کے مطابق سانحہ سوات کو 10 روز گزر گئے ہیں ، دریائے سوات میں 10 ویں روز بھی ریسکیو آپریشن جاری ہے، ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو کی غوطہ خورٹیمیں جدید آلات کے ہمراہ دریائے سوات میں لاپتہ نوجوان عبداللہ کی تلاش میں مصروف ہیں۔
کمشنرمالاکنڈ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ متاثرہ سیاح نو بجکر اکتیس منٹ پردریا میں گئے، چودہ منٹ بعد نو بج کر پینتالیس منٹ پرپانی کی سطح بڑھی اور ریسکیو اہلکار بیس منٹ بعد دس بج کر بجکرمنٹ پرپرپہنچے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے انکوائری کمیٹی کو بتایا 23 جون کو بارشوں سے متعلق ضلعی انتظامیہ کوالرٹ جاری کیا، جس میں سوات، دیر، کوہستان اور شانگلہ کے ندی نالوں میں فلیش فلڈ سے خبردار کیا اور چھوٹی بڑی مشینری کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
چھیالیس کروڑ روپے کےفنڈز جاری کیے، امدادی سامان بھی فراہم کیا تھا تاہم چھبیس جون کو دریائے سوات میں سیلابی ریلے میں طغیانی کے باعث سترہ افراد بہہ گئے تھے جن میں سے چارکو چالیا گیا تھا جبکہ بارہ کی لاشیں مل چکی ہیں.
یاد رہے دریائے سوات میں جمعہ کو انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا، جہاں دیکھتے ہی دیکھتے ڈسکہ اور مردان کی دو فیملیز ڈوب گئیں، جن میں سے ابھی تک ایک شخص لاپتا ہیں جبکہ چار کو بچالیا گیا تھا۔
بدقسمت تمام افراد ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت ریسکیو کا انتظار کرتے رہے، ہاتھ پیر چلاتے رہے، لوگوں کو مدد کیلئے پکارتے رہے لیکن کسی نے مدد نہیں کی۔
سانحے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی نااہلی چھپاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر سوات سمیت چھے افسروں کو معطل کردیا، جن میں میتیں کچرے کی گاڑی میں منتقل کرنے والا ٹی ایم او خوازہ خیلہ زاہد اللہ بھی شامل ہے ۔
پشاور : پشاور ہائیکورٹ نے دریائے سوات میں سیاحوں کو بچانے میں ناکامی پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ سیاحوں کو بروقت کیوں ریسکیو نہیں کیا گیا اور ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس کیوں فراہم نہیں کی گئیں۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں دریائے سوات میں سیاحوں کے جاں بحق ہونے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
پشاور ہائیکورٹ نے کمشنرز ملاکنڈ، ہزارہ، کوہاٹ اور ڈی آئی خان سمیت متعلقہ اضلاع کے ریجنل پولیس آفیسرز کو کل طلب کرلیا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دریائے سوات میں طغیانی کے باعث 17 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، ہوٹل مالکان نے دریا کنارے تجاوزات بنائے ہوئے جس سے حادثات ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے ریمارکس دیے غفلت کےباعث 17افراد کی جانیں چلی گئیں، سیاحوں کو بروقت کیوں ریسکیو نہیں کیا گیا، سیاحوں کی حفاظت کے لئے اقدامات کیو ں نہیں کئے گئے، سیاحوں کوڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس کیوں فراہم نہیں کی گئیں۔
ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل نے کہا سوات میں تجاوزات کیخلاف آپریشن شروع کیا ہے، ایئر ایمبولینس بھی موجود ہے، وقت کم ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کی جاسکی۔
چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا دیاؤں کی دیکھ بال کس کی ذمہ داری ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ حکومت نے حفاظتی اقدامات کیلئے وارننگ جاری کی تھی۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سوال کیا کیا متعلقہ حکام نے اس پرعمل درآمد یقینی بنایا تو ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، متعدد ذمہ داران کو معطل کیا، سپریم کورٹ میں بھی اس طرح کا کیس زیر التوا ہے، کیس میں حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے سوات واقعے سے متعلق آئندہ سماعت پ رپورٹ دینے کی ہدایت کردی اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔
اے این پی کی جانب سے سانحہ سوات کے بعد مطالبہ سامنے آیا ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
تفصیلات کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان احسان اللہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ کےپی علی امین گنڈاپور کیخلاف مقدمات میں اے این پی مدعی بنے گی، اس کے علاوہ ڈی جی ریسکیو کیخلاف بھی مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
اے این پی ترجمان نے کہا کہ ڈسٹرکٹ میں بااختیار حکومتیں ہوتیں تو شاید سانحہ سوات نہ ہوتا، دریائے سوات پر پی ٹی آئی دور میں کریش پلانٹ لگائے گئے۔
احسان اللہ کا مزید کہنا تھا کہ فضل حکیم کے بھائی نے پیسے لےکر ریسکیو میں بھرتیاں کیں، 2010 کے سیلاب میں امیر حیدرہوتی نے اپنا ہیلی کاپٹر بھیجا تھا۔
خیال رہے کہ سوات میں تجاوزات کیخلاف آپریشن میں سیاسی اثرو رسوخ آڑے آرہا ہے، بااثر سیاسی شخصیات کی تعمیرات تک پہنچنے پر آپریشن روک دیا گیا۔
تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن بااثر سیاسی شخصیات کی وجہ سے روک دیا گیا، 4 گھنٹے انتظار کے بعد کارروائی روکنے کا کہا گیا اور تجاوزات کےخلاف آپریشن کرنے والی ٹیموں کو واپس جانے کی ہدایت کی گئی۔
کمشنر ملاکنڈ کی زیرصدارت 3 گھنٹے جاری اجلاس بھی بےنتیجہ ختم ہوا، سیاسی شخصیت کی تعمیرات پر اجلاس کے شرکا کی مختلف رائے تھی۔
افسران کا کہنا تھا کہ سیاسی شخصیت کے پاس این او سی موجود ہے جبکہ شرکا کہنا تھا کہ دیگر لوگوں کے پاس این اوسی کےساتھ اسٹے آرڈر بھی موجود تھے۔
سوات : دریائے سوات میں بہنے والا سیالکوٹ کا ایک شخص تاحال لاپتہ ہے تاہم 14 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق دریائے سوات میں چوتھے روز بھی ریسکیو آپریشن جاری ہے ، اب تک چودہ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں تاہم سیالکوٹ کا ایک شخص تاحال لاپتہ ہے۔
ریسکیو ٹیمیں اور مقامی خوطہ خور 10 مقامات پر سرچ آپریشن میں مصروف ہے لیکن کوششیں ناکام نظر آرہی ہے۔
گذشتہ روز دریائے سوات میں لاپتا ایک اور نوجوان کی لاش ملی تھی ، دانیال کا تعلق مردان سے ہے۔
سانحہ سوات کے چار دن بعد بھی علاقے میں سوگ کا عالم ہے، خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی نااہلی چھپاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر سوات سمیت چھے افسروں کو معطل کردیا، جن میں میتیں کچرے کی گاڑی میں منتقل کرنے والا ٹی ایم او خوازہ خیلہ زاہد اللہ بھی شامل ہے ۔
یاد رہے دریائے سوات میں جمعہ کو انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا، جہاں دیکھتے ہی دیکھتے ڈسکہ اور مردان کی دو فیملیز ڈوب گئیں، جن میں سے ابھی تک ایک شخص لاپتا ہیں جبکہ چار کو بچالیا گیا تھا۔
بدقسمت تمام افراد ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت ریسکیو کا انتظار کرتے رہے، ہاتھ پیر چلاتے رہے، لوگوں کو مدد کیلئے پکارتے رہے لیکن کسی نے مدد نہیں کی۔
پشاور : ترجمان وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ فراز مغل نے سانحہ سوات میں وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ریسکیو میں استعمال نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہیلی کاپٹر موقع پر لے جاتے تو ہوا کے دباؤ سے لوگوں کو مزید نقصان پہنچتا۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ فراز مغل نے اے آروائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرے میں گفتگو کہا کہ دریائے سوات میں 150کےقریب لوگ پھنسے تھے، 17 لوگ جہاں پھنسے وہاں ریسکیو ٹیم 8 سے 10منٹ میں پہنچی، 17 میں سے 3 لوگوں کو ریسکیو عملے نے ہی بچایا تھا۔
کاہیلی کاپٹر استعمال نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے ترجمان وزیراعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ دریامیں پھنسے لوگوں کی مدد کیلئے کسی کے نہ پہنچنے والی بات درست نہیں ، خیبر پختونخوا حکومت کاہیلی کاپٹر سائز میں بڑا ہے، دریا میں نہیں لے جاسکتے تھے، ہیلی کاپٹر موقع پر لے جاتے تو ہوا کے دباؤ سے لوگوں کو مزید نقصان پہنچتا۔
انھوں نے کہا کہ دریائے سوات میں بہت بڑے علاقے میں ریسکیو آپریشن ہو رہا تھا اور ن لیگ والے سانحے پر سیاست کر رہے ہیں، اسلام آباد قریب ہے، وفاقی ادارے بھی ریسکیو کا کام کر سکتے تھی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ریسکیو ٹیم کو جیسے ہی کال کی گئی وہ موقع پر پہنچی، ابتدا میں صحیح اطلاعات نہیں ملی تھیں، عملے نے موقع پرپہنچ کر صورتحال دیکھی، عملے نے موقع پرپہنچ کر پھر ریسکیو آپریشن میں درکار مزید سامان منگوایا۔
فرازاحمدمغل نے بتایا کہ جس جگہ سانحہ ہواوہ سیاحت کاپوائنٹ نہیں تھا،بائی پاس پرواقع ہے، ٹورسٹ پوائنٹس پرکےپی پولیس اوردیگرعملہ تعینات ہوتا ہے، جس ہوٹل والوں نے سیاحوں کو دریا میں جانے دیا ان کیخلاف ایف آئی آرکرائی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ وزیراعلیٰ کے پی متاثرہ افراد کے گھر جائیں گے،2 دن کے بعدکا پلان ہے، 17 لوگ جس مقام پر پھنسے تھے، وہاں ریسکیو کیلئے بہت کم وقت ملا، جن لوگوں کی اس سانحے میں نااہلی ثابت ہوئی انہیں معاف نہیں کریں گے۔
وزیراعلیٰ کے پی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 150کلو تک وزن اٹھانے والے ڈرون خرید لیے ہیں، سوات اور دیگر علاقوں کیلئے اب ریسکیو ڈرون بھیجے جائیں گے۔