Tag: سانحہ مری

  • گلیات فیسٹول: سانحہ مری کے خوف میں مبتلا فیملیز کا اعتماد بحال ہو گیا

    گلیات فیسٹول: سانحہ مری کے خوف میں مبتلا فیملیز کا اعتماد بحال ہو گیا

    خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقام گلیات میں 3 روزہ فیسٹول تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ختم ہوگیا، تاہم گلیات فیسٹول نے سانحہ مری کے خوف میں مبتلا فیملیز کا اعتماد بحال کر دیا ہے۔

    محکمہ سیاحت و ثقافت خیبر پختون خوا اور گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اسنو فیسٹول کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں ملک بھر سے سیاح شریک ہوئے، سیاح قدرت کے حسین نظاروں کے ساتھ برف سے ڈھکے میدان میں رسہ کشی، تیر اندازی، اسکی اور دیگر گیمز سے بھرپور طور سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

    فوٹو کریڈٹ: شہریار انجم

    ملک بھر سے آئے سیاحوں نے فیسٹول کو خوب سراہا، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سیاح انوشہ آصف نے بتایا کہ وہ اس سے پہلے بھی گلیات کئی بار آ چکی ہیں، لیکن اس بار یہاں برف باری معمول سے کچھ زیادہ ہے۔

    فوٹو کریڈٹ: شہریار انجم

    انوشہ نے انکشاف کیا کہ سانحہ مری میں ان کی فیملی بھی پھنس گئی تھی، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ بہ حفاظت گھر پہنچے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سیر و تفریح کو خیر باد کہہ دیں، سیر و تفریح صحت مند زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

    گلیات کے برفیلے پہاڑوں میں فیسٹول سے لطف اندوز ہونے کے لیے انوشہ کی پوری فیملی آئی ہوئی تھی، انھوں نے کہا ہم نے خوب انجوائے کیا، معمول سے زیادہ برف باری کی وجہ سے مری میں تشویش ناک صورت حال پیدا ہوگئی تھی، حکومت کو چاہیے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کرے۔

    اسلام آباد سے آئے ایک اور خاتون سیاح سحر آصف نے بتایا کہ گلیات بہت خوب صورت مقام ہے، سانحہ مری کے بعد برف والے علاقوں کی سیر پر جانے سے ہمارا دل گھبرا رہا تھا، لیکن یہاں آ کر اب بہت اچھا لگ رہا ہے، راستے کھلے ہیں اور برف پر کھیل کے مقابلے بھی خوب انجوائے کیے۔

    فوٹو کریڈٹ: شہریار انجم

    گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید نے بتایا کہ سانحہ مری کے بعد یہ پہلا فیسٹول ہے، یہ ہر سال منعقد کیا جاتا ہے لیکن اس بار اس کے انعقاد کا مقصد سیاحوں کا اعتماد بحال کرنا تھا۔

    سیکریٹری ٹورزم عامر ترین نے بتایا کہ سانحہ مری افسوس ناک تھا، شدید برف باری کی وجہ سے راستے بند ہوگئے تھے، گلیات میں مری سے زیادہ برف باری ہوئی تھی لیکن انتظامیہ نے بر وقت ریسکیو آپریشن شروع کیا، جس کی وجہ سے گلیات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    تین روزہ گلیات سنو فیسٹول شروع (شاندار تصاویر دیکھیں)

    عامر ترین نے بتایا کہ سنو فیسٹول سے سیاحوں کو اعتماد بحال ہوگا، مستقبل میں ناخوش گوار واقعات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، گلیات میں برف ہٹانے کے لیے استعمال ہونے والی مشینری میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ خیبر پختون خوا کے صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی بھی اسنو فیسٹول میں شریک تھے، صوبائی وزیر نے سیاحوں کے ساتھ گیمز میں بھی حصہ لیا، اور نشانہ بازی میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا، انھوں نے کہا کہ ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن میں سیاحت کے بہت امکانات موجود ہیں، اللہ تعالی نے ان علاقوں کو بہت خوب صورت بنایا ہے، اور دنیا بھر کے لوگ پاکستان کے سیاحتی مقامات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

  • سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش، تمام متعلقہ محکموں کی غفلت ثابت

    سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش، تمام متعلقہ محکموں کی غفلت ثابت

    لاہور: سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو پیش کر دی گئی، رپورٹ کے مطابق تمام متعلقہ محکموں کی غفلت ثابت ہو گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ 4 والیمز اور 27 صفحات پر مشتمل سانحہ مری کی انکوائری رپورٹ میں تمام افسران اور مقامی لوگوں کے بیانات لیے گئے ہیں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں تمام متعلقہ محکمو ں کی غفلت ثابت ہو گئی ہے، تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ سانحے کے دوران افسران واٹس ایپ پر چلتے رہے اور منیجمنٹ ساری واٹس ایپ پر ہوتی رہی، وہ صورت حال کو سمجھ ہی نہ سکے، افسران نے صورت حال کو سنجیدہ لیا نہ کسی پلان پر عمل کیا، کئی افسران نے واٹس ایپ میسج بھی تاخیر سے دیکھے۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اور اسسٹنٹ کمشنر سمیت سبھی کو غفلت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، سی پی او، سی ٹی او بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔

    سانحہ مری: متاثرہ افراد کی ریسکیو سے رابطے کی ریکارڈنگز مل گئیں

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ جنگلات، اور ریسکیو 1122 کا مقامی آفس بھی سانحے کے وقت کارکردگی نہ دکھا سکے، ہائی وے محکمہ بھی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا۔

    سانحہ مری سے متعلق تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ برفانی طوفان میں 14 درخت گرے تھے، تاہم اداروں میں رابطے کے فقدان کی وجہ سے روڈ کلیئرنس میں بہت تاخیر ہوئی۔

    یہ حقیقت سامنے آئی کہ محکمہ جنگلات کے پاس درخت ہٹانے کی اپنی مشینری موجود نہیں، اس کے لیے وہ مکینکل ڈیپارٹمنٹ کی مدد لیتا ہے۔ پنجاب ایمرجنسی سروسز ریسکیو کو شدید برف باری میں پھنسے 100 سے زائد افراد نے کالیں کر کے مدد مانگی تھی، جن کی ریکارڈنگز بھی حاصل کی گئیں۔

    یاد رہے کہ 8 جنوری کو مری اور اطراف میں سردی کی شدت سے گاڑیوں میں دم گھٹ کر 22 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

  • سانحہ مری سے متعلق تحقیقات میں  ایک اور بڑا انکشاف

    سانحہ مری سے متعلق تحقیقات میں ایک اور بڑا انکشاف

    لاہور : سانحہ مری سے متعلق تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ برفانی طوفان میں 14 درخت گرے اور اداروں میں رابطے کے فقدان سے روڈ کلیئرنس میں تاخیر ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ مری سے متعلق تحقیقات میں مزید انکشافات سامنے آئے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ برفانی طوفان میں 14 درخت گرے، ٹریفک روانی متاثرہوئی جبکہ محکمہ جنگلات کے پاس درخت ہٹانے کی اپنی مشینری نہیں، محکمہ جنگلات درخت ہٹانے یا آپریشن کے لیے مکینکل ڈیپارٹمنٹ کی مدد لیتا ہے۔

    ،ذرائع نے بتایا اداروں میں رابطے کے فقدان سے روڈ کلیئرنس میں تاخیر ہوئی، محکمہ جنگلات سڑکوں کےاطراف یا عوامی مقامات پر کمزور درخت خود ہٹا دیتا ہے لیکن مری میں گرنے والےدرخت کمزور نہ تھےمگر برفانی طوفان کا سامنا نہ کر سکے۔

    اس سے قبل سانحہ مری کے سلسلے میں پنجاب ایمرجنسی سروسز ریسکیو کا غیر ذمہ دارانہ کردار سامنے آیا تھا اور متاثرہ افراد کی ریسکیو سے رابطے کی ریکارڈنگز حاصل کر لی گئی تھیں ، جس کے مطابق شدید برف باری میں پھنسے 100 سے زائد افراد نے ریسکیو سے مدد مانگی تھی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ریسکیو کنٹرول روم نے فون پر مدد مانگنے والوں کو شٹل کاک بنائے رکھا، ریسکیو اہل کار مشکل میں پھنسے افراد کو دیگر اداروں کے نمبر فراہم کرتے رہے، جب کہ برفانی طوفان میں پھنسے افراد فون پر ریسکیو اہل کاروں کی منتیں کرتے رہے۔

    واضح رہے کہ 8 جنوری کو مری اور اطراف میں سردی کی شدت سے گاڑیوں میں دم گھٹ کر 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

    بعد ازاں 10 جنوری کو وزیراعظم عمران خان نے انکوائری کمیٹی کو جلد حقائق سامنے لانے کا حکم دیا تھا۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ دور میں بڑھتی سیاحت کیلئے کئی دہائیاں پرانا انفرااسٹرکچر بڑا مسئلہ ہے۔

    واضح رہے کہ 8 جنوری کو مری اور اطراف میں سردی کی شدت سے گاڑیوں میں دم گھٹ کر 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • سانحہ مری: متاثرہ افراد کی ریسکیو سے رابطے کی ریکارڈنگز مل گئیں

    سانحہ مری: متاثرہ افراد کی ریسکیو سے رابطے کی ریکارڈنگز مل گئیں

    لاہور: سانحہ مری کے سلسلے میں پنجاب ایمرجنسی سروسز ریسکیو کا غیر ذمہ دارانہ کردار سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز نے سانحہ مری کے متاثرہ افراد کی ریسکیو سے رابطے کی ریکارڈنگز حاصل کر لی ہیں، شدید برف باری میں پھنسے 100 سے زائد افراد نے ریسکیو سے مدد مانگی تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ریسکیو کنٹرول روم نے فون پر مدد مانگنے والوں کو شٹل کاک بنائے رکھا، ریسکیو اہل کار مشکل میں پھنسے افراد کو دیگر اداروں کے نمبر فراہم کرتے رہے، جب کہ برفانی طوفان میں پھنسے افراد فون پر ریسکیو اہل کاروں کی منتیں کرتے رہے۔

    کال ریکارڈز کے مطابق کنٹرول روم میں موجود اہل کار نفری کمی کو جواز بنا کر وقت گزارتے رہے، ریسکیو اہل کار مری کی ایمبولینس بھی ٹریفک میں پھنسنے کی اطلاع دیتے رہے۔

    متاثرہ شہری محمد اعجاز خان کے مطابق 7 جنوری کو برفانی طوفان میں ریسکیو اہل کار کسی کی مدد کے لیے نہیں آئے، کلڈانہ میں فیملی کے ساتھ 20 گھنٹے تک ہم برفباری میں پھنسے رہے، اور ریسکیو 1122 کے ہنگامی نمبر پر 80 سے زائد مرتبہ مدد کے لیے رابطہ کیا۔

    اعجاز خان نے بتایا کہ کنٹرول روم کا نمائندہ دیگر سرکاری اداروں کا رابطہ نمبر فراہم کرتا رہا۔ واضح رہے کہ مری میں ہنگامی حالات کے لیے ریسکیو 1122 کے تین ایمرجنسی اسٹیشنز موجود ہیں۔

  • سانحہ مری: شہریوں نے چندہ کر کے برف صاف کرنے والی مشینوں میں ڈیزل ڈلوایا

    سانحہ مری: شہریوں نے چندہ کر کے برف صاف کرنے والی مشینوں میں ڈیزل ڈلوایا

    اسلام آباد: سانحہ مری کے حوالے سے ایک اور فون کال منظر عام پر آگئی جس سے علم ہوتا ہے کہ برف ہٹانے والی مشینوں میں شہریوں نے خود چندہ کر کے ڈیزل ڈلوایا تاکہ برف صاف ہوسکے۔

    7 اور 8 جنوری کی رات مری میں ہونے والے اندوہناک سانحے کے حوالے سے تاحال انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔

    ایک اور آڈیو کال منظر عام پر آئی ہے جس میں ڈیزل ڈیپو کے عملے کا ایک شخص بتا رہا ہے کہ برف صاف کرنے والی مشینوں میں ڈیزل نہیں ہے اور شہریوں نے چندہ کر کے ڈیزل ڈلوایا ہے۔

    یاد رہے کہ 7 اور 8 جنوری کی درمیانی رات کو برفانی طوفان کے باعث ہزاروں افراد مری کی سڑکوں پر گاڑیوں میں پھنس گئے تھے اور اس دوران 22 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    مری میں حادثے کی رات مختلف ہوٹلوں نے ایک کمرے کے لیے اضافی ہزاروں روپے وصول کیے اور اس کے باوجود ہیٹر اور گرم پانی کی سہولیات نہیں دیں، اب تک ایسے 17 ہوٹلوں کو سیل کیا جاچکا ہے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی طوفان کی رات جب پورا مری ٹریفک کے باعث بلاک تھا اور بچے، بوڑھے اور خواتین گاڑیوں میں پھنسے ہوئے تھے، مقامی افراد نے 15 سو کے قریب افراد کو ریسکیو کیا۔

    اس کے اگلے روز تک بھی انتظامیہ غائب تھی، شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر مقامی افراد برف میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو نہ کرتے تو ہلاکتیں 1 ہزار سے اوپر ہوسکتی تھیں۔

  • سانحہ مری: مشینری بھجوانے کے لیے وائرلیس سے متعدد پیغامات بھیجے جانے کا انکشاف

    سانحہ مری: مشینری بھجوانے کے لیے وائرلیس سے متعدد پیغامات بھیجے جانے کا انکشاف

    لاہور: پنجاب حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ میں سانحہ مری سے قبل محکمہ ہائی وے کنٹرول کو مشینری بھجوانے کے لیے وائرلیس سے متعدد پیغامات بھیجے جانے سمیت متعدد انکشافات سامنے آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ مری سے متعلق کمیٹی کی ابتدائی تحقیقات کی رپورٹ سامنے آ گئی ہے، ذرائع کا کہنا ہےکہ میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ نے طوفان سے متعلق کوئی الرٹ جاری نہیں کیا تھا، برف ہٹانے اور سڑکیں صاف کرنے کی مشینری پوائنٹس پر موجود نہیں تھی۔

    ذرائع نے بتایا کہ محکمہ ہائی وے کنٹرول کو مشینری بھجوانے کے لیے وائرلیس سے متعدد پیغامات بھیجے گئے تھے لیکن متعدد پیغامات کے باوجود مشینری بروقت نہ بھیجی گئی، محکمہ موسمیات کی وارننگ کو بھی مسلسل نظر انداز کیا گیا۔

    تحقیقات رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ سانحہ مری انتظامیہ کی غفلت سے پیش آیا، تحقیقات کے سلسلے میں انتظامی محکموں کے 30 سے زائد افسران کے بیانات قلم بند کیے گئے۔

    ذرائع کے مطابق باڑیاں روڈ پر صفائی کرنے والی گاڑی رک گئی تھی، آپریٹر نے کہا برف ہٹانے والی گاڑی خراب ہے، برف ہٹانے والی گاڑی موقع پر پہنچی تو پتا چلا کہ ڈیزل ختم تھا، لوئر ٹوپہ، ٹھنڈا جنگل، کلڈانہ، چٹہ موڑ پر درخت اور بجلی کی تاریں ٹوٹ کر گر یں، محکمہ جنگلات کے ملازمین نے اطلاع ملنے کے بعد متعلقہ نمبرز بند کر لیے، بجلی کی تاریں گرنے سے مری کے انسپکٹر کی گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی تھی۔

    این ایچ اے اور موٹر وے پولیس کی جانب سے بھی عدم تعاون کیا گیا، ریسکیو ٹیموں نے دن کے وقت امدادی سرگرمیاں شروع کیں، متوقع برف باری سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ نے نومبر، دسمبر میں 4 اجلاس کیے، اس سلسلے میں 2 واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دیے گئے تھے جو مری اسنو فال اور مری اسپیشل کے نام سے تھے۔

    انتظامات سے متعلق ڈی سی نے نومبر، دسمبر، جنوری میں 3 بار مری کے دورے کیے، سٹی پولیس آفیسر نے دسمبر اور جنوری میں مری کے 2 دورے کیے۔

    مری میں پھنسے افراد کو 9000 راشن کے پیکٹس اور 500 کمبل فراہم کیے گئے، تحقیقاتی کمیٹی کل وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

  • وزیر اعلیٰ پنجاب کو عشائیے میں ایم این ایز کے سخت سوالات کا سامنا

    وزیر اعلیٰ پنجاب کو عشائیے میں ایم این ایز کے سخت سوالات کا سامنا

    لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے دو دن قبل کے عشائیے میں ایم این ایز کی جانب سے مری واقعے پر سخت سوالات کیے گئے۔

    ذرائع کے مطابق گزشتہ روز عشائیے میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے ارکان قومی اسمبلی نے سانحہ مری پر سخت سوالات کیے، ارکان کا مؤقف تھا کہ سانحہ مری کے ذمہ داروں پر فوری ایکشن ہونا چاہیے تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ 12 جنوری کو اسلام آباد میں پنجاب حکومت نے حکومتی ایم این ایز کے اعزاز میں عشائیہ رکھا تھا، جس میں چند ارکان نے وزیر اعلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ مری میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں لیکن ایکشن فوری نہیں ہوا، کم از کم 2 کو ہی ہتھکڑیاں لگ جاتیں تو سمجھتے کہ کچھ ہوا ہے۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جب بتایا کہ اس سلسلے میں کمیٹی کے ذریعے انکوائری کرا رہے ہیں، اور کارروائی بھی ہوگی، تو رکن اسمبلی نے کہا کہ کمیٹیاں تو معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔

    رکن اسمبلی کا کہنا تھا ذمہ داروں کے خلاف ایکشن پہلے دن ہوتا اور کم از کم 2 کو ہتھکڑیاں لگائی جاتیں، اس پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ذمہ داروں کو ہتھکڑیاں لگوائیں گے۔

    واضح رہے کہ سانحہ مری تحقیقاتی کمیٹی نے مری میں آپریشنل عملے کے بیانات قلم بند کر لیے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی نے ریسکیو 1122 کے اہل کاروں کے بیانات بھی قلم بند کیے، اور انکشاف ہوا کہ برفانی طوفان کے وقت برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر کھڑی تھیں۔

    ذرائع کے مطابق برف ہٹانے والی 29 گاڑیوں میں سے 20 ایک ہی پوائنٹ سنی بنک میں کھڑی تھیں، گاڑیوں کو چلانے کے لیے متعین ڈرائیورز، اور عملہ بھی ڈیوٹی پر موجود نہ تھا، جب کہ شدید برف باری کی وارننگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جاری کی گئی تھی۔

    انکوائری کے دوران محکمہ جنگلات کے اہل کار کمیٹی کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے، کمیٹی نے عملے کی تفصیلات اور ان کی ذمہ داریوں کی فہرست طلب کرلی ہے۔

  • سانحہ مری  ، چیف جسٹس سپریم کورٹ سے  ازخود نوٹس لینے کی  درخواست

    سانحہ مری ، چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کی درخواست

    اسلام آباد : چیف جسٹس سپریم کورٹ سے سانحہ مری پر ازخود نوٹس لینے کی درخواست دائر کردی گئی ، جس میں کہا گیا ہے کہ غفلت کے مرتکب افراد کی نشاندہی اور حقائق سامنے لائے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ مری پر چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کی درخواست دائر کردی گئی، درخواست شہری کی جانب سے دائر کی گئی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مری کی برفباری میں اموات کے ذمہ داران کاتعین کیا جائے اور غفلت کے مرتکب افراد کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ حقائق سامنے لائے جائیں۔

    درخواست میں کہا گیا کہ مری کے داخلی اور خارجی راستوں کو بہتر بنایا جائے۔

    درخواست گزار نے ہوٹلوں کے ریٹس کو منظم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا سیاحوں کو لوٹنے والے مافیاز کو کٹہرے میں لایا جائے۔

    یاد رہے آج صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں سانحہ مری کی تحقیقات اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے این ڈی ایم اے حکام کی غفلت پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے ان سے استفسار کیا کہ سانحے میں 22اموات ہوئیں، اس کا ذمہ دارکون ہے؟ اس موقع پر این ڈی ایم اے کی کارکردگی سب کو نظر آنی چاہیےتھی۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیس میں انکوائری کی کوئی ضرورت نہیں، این ڈی ایم اے اور پوری ریاست مری واقعے کی ذمہ دار ہے اور سانحہ مری کے ذمہ دار پھانسی کے حق دار ہیں۔

  • سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے: مری کا شہری عدالت پہنچ گیا

    سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے: مری کا شہری عدالت پہنچ گیا

    اسلام آباد: مری میں ہونے والے سانحے کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے عدالت میں درخواست دائر کردی گئی، درخواست مری کے رہائشی نے دائر کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

    مری کے رہائشی حماد عباسی نے دانش اشراق عباسی ایڈوکیٹ کے ذریعے درخواست دائر کی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سانحہ مری کے تمام ذمہ داروں کے خلاف مجرمانہ غفلت کی کارروائی کی جائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والے اے ایس آئی نوید کے اہل خانہ نے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا تاہم حکام نے اطلاع کے باوجود کوئی ایکشن نہ لیا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ 25 ہزار سیاحوں کی گنجائش والے مری میں 1 لاکھ سے زائد سیاحوں کی اجازت کیوں دی گئی؟ اعلیٰ حکام کا ایکشن نہ لینا مجرمانہ غفلت ظاہر کرتا ہے۔

    یاد رہے کہ مری میں چند دن قبل معمول سے زیادہ برفباری میں بے شمار گاڑیاں پھنس گئیں تھیں جس کے باعث 22 سیاح اپنی گاڑیوں میں جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • مری میں پرانا نظام چلا آرہا ہے،  انتظامی نوعیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، فواد چوہدری

    مری میں پرانا نظام چلا آرہا ہے، انتظامی نوعیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، فواد چوہدری

    اسلام آباد :وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ مری میں پرانا نظام چلا آرہا ہے، انتظامی نوعیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے سانحہ مری کے حوالے سے کہا کہ مری میں 5گاڑیوں کیساتھ واقعات ہوئے ، سانحہ مری ایک ہی سڑک پر پیش آیا،22افراد جاں بحق ہوئے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ برف کے طوفان سے درخت سڑک پر گرے جس سے سڑک بلاک ہوئی، زیادہ تر لوگ گاڑیاں چھوڑ کر پیدل نکل گئے کیونکہ برف کے طوفان کی وجہ سے مشینری ، ہیلی کاپٹر کا جانا مشکل تھا۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ طوفان سے بچنے کیلئے لوگ گاڑیوں میں ہیٹر لگا کر سوگئے ، اموات کاربن مونوآکسائیڈ کی زیادتی کی وجہ سے ہوئیں ، وزیراعظم نے سانحہ مری پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سیاحت کے معاملے پر مقامی انتظامیہ اور اتھارٹیز کو تیاررہنے کی ضرورت ہے، سیاحت کیلئے لاکھوں لوگ وہاں پر پہنچے تھے ، ہمارے نظام میں برٹش ایرا سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہےْ۔

    فواد چوہدری نے مزید کہا کہ صرف4دنوں میں ایک لاکھ64ہزارگاڑیاں مری گئیں، مری میں انتظام جوہےوہ پراناچلاآرہاہے، 75سالوں میں ایک بھی نئےسیاحتی مقام کی ڈیولپمنٹ نہیں ہوئی۔

    وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں تیرا مقامات کی ڈیولپمنٹ کی گئی، پاکستان کی معاشی بنیاد کوکھڑا کرنے کیلئے سیاحت کا اہم کردارہے، مری کی انتظامی نوعیت کو تبدیل کیا جارہا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ مری سانحہ کیلئےپنجاب حکومت نےانکوائری کمیٹی بنادی ہے، ریسکیو کے حوالےسے سویلین ایجنسیز،افواج پاکستان نےکرداراداکیا، 24 گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں کووہاں سےنکالاگیا۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کےپی اور پنجاب حکومت سیاحت کے مقامات کو سنجیدگی سے مانیٹرکررہی ہیں، ناران اور کاغان میں بھی ایسی ہی کچھ صورتحال تھی ، سیاحتی مقامات پر اتھارٹیز کو ایک اسپیسفک وارننگ دینے کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا۔