Tag: سانحہ 12 مئی

  • سانحہ 12 مئی کے مقدمات میں گواہان کی پیشی کے لیے اشتہار جاری

    سانحہ 12 مئی کے مقدمات میں گواہان کی پیشی کے لیے اشتہار جاری

    کراچی: شہر قائد میں 15 برس قبل 12 مئی کو رونما ہونے والے خوں ریز سانحے کے مقدمات میں گواہان کی پیشی کے لیے اشتہار جاری کر دیا گیا۔

    استغاثہ کی غفلت، عدم تحفظ یا پراسیکیوشن کی جانب سے آگاہی میں کوتاہی، وجہ کوئی بھی ہو لیکن اہم مقدمات التوا کا شکار ہوگئے ہیں، جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر گواہان کو طلب کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہار جاری کر دیے گئے ہیں۔

    12 مئی 2007 ہو یا لیاری گینگ وار کے مقدمات، پولیس پر عوام کا عدم اعتماد اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ان مقدمات کے عینی شاہدین اور کئی مقدمات کے مدعی مقدمہ بھی عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ہیں۔

    سانحہ بارہ مئی میں ایم کیو یم لندن کے ٹارگٹ کلرز رئیس مما، رضوان چپاتی اور عمیر صدیقی عرف جیلر کے خلاف گواہان کی عدم پیشی پر بھی اشتہار جاری کیے گئے ہیں، ان کے خلاف مقدمہ فیروز آباد تھانے میں درج ہے۔ 2 مقدمات میں 13 سے زائد گواہان کو بارہا عدالتی سمن جاری کیے گئے تھے تاہم وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

    ان مقدمات میں تفتیشی افسر بھی استغاثہ کے گواہان کو تلاش کرنے میں ناکام رہا تھا جس پر عدالت نے ایس آئی او فیروز آباد کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔

    سانحہ 12 مئی میں کون کون ملوث تھا؟ فاروق ستار کے چشم کشا انکشافات

    2007 کے سانحے کے حوالے سے عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی پیشیوں سے استغاثہ کے گواہان کیس میں پیش نہیں ہو رہے ہیں، اور عدالتی سمن کے باوجود گواہان تاحال روپوش ہیں۔

    قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقدمات میں گواہان کی عدم پیشی پر پولیس پر عدم اعتماد کا مظہر ہے، پولیس کو چاہیے کہ وہ گواہان کی سیکیورٹی سے متعلق طے کردہ ایس او پی پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

    خیال رہے کہ سانحہ 12 مئی کے 19 مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔

  • میئر شپ ختم ہوتے ہی سانحہ 12 مئی کیسز میں وسیم اختر کی حاضری سے استثنیٰ بھی ختم

    میئر شپ ختم ہوتے ہی سانحہ 12 مئی کیسز میں وسیم اختر کی حاضری سے استثنیٰ بھی ختم

    کراچی: میئر شپ ختم ہوتے ہی سانحہ 12 مئی کیسز میں وسیم اختر کی حاضری سے استثنیٰ بھی ختم ہو گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج سانحہ 12 مئی کے مقدمات سے متعلق انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت ہوئی، سابق میئر وسیم اختر کی عدم پیشی پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

    عدالت نے مقدمات میں وسیم اختر کو حاضری سے استثنیٰ ختم کر دیا ہے، سانحہ بارہ مئی کے کیسز میں آج ملزم رئیس عرف ماما، رضوان چپاتی اور عمیر صدیقی عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے کہا وسیم اختر اب میئر نہیں رہے تو عدالت میں کیوں پیش نہیں ہوئے۔

    عدالت نے تنبیہہ جاری کی کہ اگر وسیم اختر آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوئے تو سخت کارروائی کریں گے۔

    دریں اثنا، عدالت نے وسیم اختر کا حاضری سے استثنیٰ کا حکم نامہ منسوخ کر دیا، یاد رہے کہ وسیم اختر کو 11 مئی 2019 کو میئر ہونے کے باعث استثنیٰ ملا تھا۔

    واضح رہے کہ یکم اگست کو سماعت پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایم کیو ایم کے تین کارکنان پر سانحہ 12 مئی سمیت تین مقدمات میں فردِ جرم عائد کی تھی، جن میں رئیس مما، عمیر عرف جیلر، مرزا نصیب عرف رضوان چپاتی شامل تھے، تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا تھا۔

    سانحہ 12 مئی کے 4 مقدمات میں سابق میئر کراچی سمیت دیگر پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے جب کہ وسیم اختر سمیت دیگر 21 ملزمان نے ضمانت حاصل کی ہوئی ہے، ملزمان کے خلاف ایئر پورٹ سمیت دیگر تھانوں میں مقدمات درج ہیں، یاد رہے کہ سانحہ 12 مئی کو 12 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔

  • سانحہ 12 مئی: پیپلز پارٹی کے کارکنان کے بغیر آزاد عدلیہ کی جنگ ممکن نہ تھی: بلاول بھٹو

    سانحہ 12 مئی: پیپلز پارٹی کے کارکنان کے بغیر آزاد عدلیہ کی جنگ ممکن نہ تھی: بلاول بھٹو

    کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان کے بغیر آزاد عدلیہ کی جنگ ممکن نہ تھی۔

    تفصیلات کے مطابق پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے سانحہ 12 مئی کی برسی پر پیغام دیتے ہوئے کہا میں 12 مئی سانحے کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ سانحہ 12 مئی کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی جسے بھلانا ممکن نہیں ہے، جیالوں نے عدلیہ آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

    چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ پی پی پی کارکنان کے بغیر آزاد عدلیہ کی جنگ ممکن نہ تھی، سانحہ 12 مئی میں ملوث کردار عمران خان کی حکومت کا حصہ ہیں، سانحے میں ملوث کرداروں کی وفاقی حکومت پشت پناہی کر رہی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  12 مئی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن، قاتلوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی: اسفندیار ولی

    یاد رہے 12 مئی 2007 کو سابق معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر کراچی میں مختلف مقامات پر فائرنگ کے واقعات میں درجنوں افراد مار دیے گئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سانحہ 12 مئی: مزید ملزمان گرفتار، ڈیڑھ ماہ میں جے آئی ٹی رپورٹ فائنل کرنے کی تیاری

    26 اکتوبر 2017 کو ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی کامران فاروقی نے سانحہ 12 مئی سمیت دیگر قتل کی وارداتوں کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا، جس میں انھوں نے کہا کہ قیادت نے حکم دیا کہ افتخار چوہدری کا راستہ روکنے کے لیے قتل و غارت گری یا ہنگامہ آرائی کر کے ہر صورت شہر بند کیا جائے۔

  • 12 مئی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی: اسفندیار ولی

    12 مئی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی: اسفندیار ولی

    اسلام آباد: عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ 12 مئی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، شہید کارکنوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سربراہ اے این پی اسفندیار ولی نے بارہ مئی کو سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہید کارکنوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

    اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ اے این پی نے کبھی غیر جمہوری قوت کا ساتھ نہیں دیا، عوام کی لاشیں گرانے والے چہرے بے نقاب ہو چکے تھے، بد قسمتی سے بے نقاب چہروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

    اے این پی کے سربراہ نے کہا کہ سیاسی ایجنڈے میں مصروف وطن دشمنوں کا سیاست سے تعلق نہیں، پاکستان میں جمہوری نظام کے بغیر کوئی نظام نہیں چل سکتا، قاتلوں کا ساتھ دینے والے عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سانحہ 12 مئی: مزید ملزمان گرفتار، ڈیڑھ ماہ میں جے آئی ٹی رپورٹ فائنل کرنے کی تیاری

    یاد رہے 12 مئی 2007 کو سابق معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر کراچی میں مختلف مقامات پر فائرنگ کے واقعات میں درجنوں افراد مار دیے گئے تھے۔

    26 اکتوبر 2017 کو ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی کامران فاروقی نے سانحہ 12 مئی سمیت دیگر قتل کی وارداتوں کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا، جس میں انھوں نے کہا کہ قیادت نے حکم دیا کہ افتخار چوہدری کا راستہ روکنے کے لیے قتل و غارت گری یا ہنگامہ آرائی کر کے ہر صورت شہر بند کیا جائے۔

  • سانحہ 12 مئی کو 12 سال بیت گئے، ڈیڑھ ماہ میں جے آئی ٹی رپورٹ فائنل کرنے کی تیاری

    سانحہ 12 مئی کو 12 سال بیت گئے، ڈیڑھ ماہ میں جے آئی ٹی رپورٹ فائنل کرنے کی تیاری

    کراچی: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟ سانحہ 12 مئی کو 12 سال بیت گئے، متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

    دوسری طرف پولیس نے سانحہ 12 مئی کے سلسلے میں جے آئی ٹی کی 6 ماہ کی کارکردگی رپورٹ تیار کر لی، پولیس کا کہنا ہے کہ سانحے میں ملوث مزید ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں اور 9 کیس چالان کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی پولیس نے سانحہ 12 مئی میں ملوث مزید ملزمان گرفتار کر لیے ہیں، ایڈیشنل آئی جی امیرشیخ کی قیادت میں سانحے پر بنائی گئی جے آئی ٹی نے چھ ماہ کارکردگی کی رپورٹ تیار کر لی۔

    امیر شیخ کا کہنا تھا کہ میڈیا اور دیگر اداروں کو ثبوتوں اور فوٹیج کے لیے خط لکھے گئے ہیں، کوشش کریں گے ڈیڑھ ماہ میں جے آئی ٹی رپورٹ فائنل کر دیں۔

    ڈاکٹر امیر شیخ نے میڈیا کو بتایا کہ ایسٹ زون پولیس کی جانب سے 9 مقدمات کا چالان کیا گیا ہے، 3 ماہ میں ایسے ملزمان پکڑے جن کا تعلق 12 مئی سے تھا، گرفتار ہونے والے زیادہ تر ملزمان کا تعلق ضلع شرقی سے ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کراچی میں موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں اضافہ، روک تھام کے لیے حکمت عملی تیار

    کراچی پولیس چیف نے کہا کہ مجموعی طور پر 45 مقدمات کا چالان کر دیا گیا ہے، 7 مزید نئے مقدمات کے ساتھ 31 مقدمات زیر سماعت ہیں، اب تک درج مقدمات کی تعداد 65 ہو گئی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ 12 مئی کیس میں 3 ملزمان کو سزا دی جا چکی ہے، اب تک 19 ایسے مقدمات ہیں جو حل نہیں ہو سکے، جے آئی ٹی اب تک اپنے 2 سیشن مکمل کر چکی ہے، تیسرا سیشن 15 رمضان، چوتھا عید کے بعد شروع کیا جائے گا۔

  • سانحہ بارہ مئی کے ایک اور کیس میں میئر کراچی پر فردِ جرم عائد

    سانحہ بارہ مئی کے ایک اور کیس میں میئر کراچی پر فردِ جرم عائد

    کراچی: سانحہ 12 مئی کے ایک اور کیس میں میئر کراچی وسیم اختر پر فرد جرم عائد کر دی گئی، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی کارروائی سے بارہ مئی کیس میں اہم پیش رفت ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں میئر کراچی وسیم اختر سمیت 21 ملزمان پر سانحہ بارہ مئی کیس میں فردِ جرم عائد کی گئی۔

    [bs-quote quote=”ملزمان کے صحتِ جرم سے انکار پر عدالت نے کیس کے گواہان کو 27 اکتوبر کو طلب کر لیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وسیم اختر سمیت اکیس ملزمان اے ٹی سی میں پیش ہوئے، ملزمان نے دورانِ سماعت صحتِ جرم سے انکار کر دیا، عدالت نے کیس کے گواہان کو 27 اکتوبر کو طلب کر لیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سانحہ بارہ مئی کی از سرِ نو تحقیقات کے لیے سندھ ہائی کورٹ نے جے آئی ٹی اور انکوائری ٹربیونل تشکیل دینے کا حکم دیا تھا، تحقیقات کی مانیٹرنگ کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے سینئر جج مقرر کرنے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔

    سندھ حکومت کی جانب سے کمیشن بنانے کی مخالفت کی گئی اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ تمام متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی بھی کی جا چکی ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  سانحہ بارہ مئی: ازسرِنو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم


    یاد رہے کہ شہرِ قائد میں رونما ہونے والے اپنی نوعیت کے، انتہائی سنگ دلی پر مبنی سانحہ 12 مئی کو 11 سال گزر چکے ہیں، تا حال اس سانحے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔

    12 مئی 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کراچی پہنچتے ہی شہر میں قتل و غارت گری کا طوفان آ گیا اور شہر لہو لہان کر دیا گیا، خوں ریز واقعات میں 50 سے زائد افراد کو زندگیوں سے محروم کیا گیا۔

  • سانحہ بارہ مئی: ازسرِنو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم

    سانحہ بارہ مئی: ازسرِنو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی اور انکوائری ٹربیونل تشکیل دینے کا حکم دے دیا، تحقیقات کی مانیٹرنگ کےلیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے سینئر جج مقرر کرنے کی سفارش بھی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں عدالت نے سانحہ کی از سر نو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی اور انکوائری ٹربیونل ٹربیونل تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مانیٹرنگ کے لیے سینئرجج مقرر کرنےکی سفارش کردی جبکہ صوبائی حکومت کو حکم دیا گیا کہ انکوائری کے حوالے سے  سندھ ہائی کورٹ کو انکوائری کو خط لکھا جائے۔

    عدالت نے ٹربیونل کے دائرہ کار کا بھی تعین کردیا اور کہا کہ تحقیقاتی ٹریبونل امن و امان خراب کرنے اور ذمہ داران کا تعین کرے اور یہ بھی تعین کرے  کہ کس کے حکم پر راستے بند اور شہر کا امن خراب کیا گیا۔

    عدالت نے اب تک ہونے والی تحقیقات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ  کیا اس وقت کے چیف جسٹس کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کا گٹھ جوڑ تھا؟ ملیر، سٹی کورٹ اور ہائیکورٹ کو مشتعل ہجوم نے کس کے حکم یرغمال بنایا؟ پولیس شرپسندوں پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہوئی؟

    سندھ ہائی کورٹ نے 12مئی اور اس سے قبل اداروں میں رابطوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور کہا 12 مئی کو ممکنہ صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے حکام نے کیا احکامات دیے؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا بھی تعین کیا جائے اور بتایا جائے پولیس نے بند راستے کھولنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے؟

    عدالت نے کہا کہ  بتایا جائے  کہ چیف جسٹس کی کراچی آمد کے لیے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے؟ استقبال کرنے والوں کو کسی خاص جماعت نےنشانہ بنایا؟ کسی خاص جماعت کے کارکنان نے نشانہ بنایا تو جماعت و ذمہ دران کا تعین کیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والےادارےشہریوں کی جان ومال کےتحفظ میں کیوں ناکام ہوئے؟ سندھ حکومت نے 12 مئی 2007 کو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز کی مدد لی تھی؟ کیاسندھ حکومت امن وامان کی ممکنہ صورتحال سےآگاہ تھی؟ اور اے این پی، پی پی، ایم کیو ایم و دیگر کو 12مئی کو ریلی کی اجازت کیوں دی گئی؟

    خیال رہے درخواست گزاراقبال کاظمی نے کیس دوبارہ سننے اور سانحے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی جبکہ عدالتی معاونین نے کمیشن بنانے کے حق میں دلائل دیے کہ دو رکنی بینچ ازسر نو تحقیقات کے لئے کمیشن بناسکتی ہے۔

    درخواست میں سابق صدر پرویز مشرف ، بانی ایم کیو ایم، سابق مشیر داخلہ اور میئر کراچی وسیم اختر کو بھی فریق بنایا گیا ہے اور کہا کہا گیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل عام کیا، 2008 میں سندھ ہائی کورٹ کےلارجر بینچ نے درخواستوں کو ناقابل قرار دے دیا تھا۔

    سندھ حکومت کی جانب سے کمیشن بنانے کی مخالفت کی گئی اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ تمام متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی بھی کی جاچکی ہے۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 12 مئی 2018 کو ہائی کورٹ کو تین ماہ میں مقدمہ نمٹانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے فریقین کے وکلاء سمیت عدالتی معاونین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

    واضح رہے 12 مئی 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی آمد پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور چیف جسٹس کو کراچی ائیر پورٹ پر روک دیا گیا تھا، اس دوران مختلف مقامات پر فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے واقعات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

  • خوں ریز 12 مئی کو 10 برس مکمل

    خوں ریز 12 مئی کو 10 برس مکمل

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور روشنیوں کے شہر کراچی پر 12 مئی 2007 کا لہولہان اور قیامت خیز دن گزرے 10 برس بیت گئے۔ سیاہ دن کو اپنی جانوں کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔

    دس سال قبل 12 مئی کا عام دن اس وقت خون ریز ہوگیا جب معطل شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائیکورٹ بار سے خطاب کرنے کے لیے کراچی پہنچے۔

    چیف جسٹس کو اس وقت کی حکومت نے ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے بھی سابق چیف جسٹس کو کراچی کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

    دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے چیف جسٹس کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔

    چیف جسٹس کے کراچی پہنچتے ہی شہر میں قتل و غارت گری کا طوفان آگیا اور شہر لہو لہو ہوگیا۔

    بارہ مئی کے اس بھیانک دن نے 40 شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ درجنوں شہری زخمی ہوئے۔

    سانحہ 12 مئی کی تفتیش کی گاڑی کچھ ملزمان کی گرفتاری سے آگے نہ بڑھ سکی۔ وکلا کا کہنا ہے کہ سانحہ کا ذمہ دار کوئی بھی ہو، انصاف ہونا چاہیئے۔

    سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کے خون ناحق کا انصاف کیے جانے کے منتظر ہیں۔

    سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد

    سانحہ بارہ مئی 2007 کے 10 برس بعد سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔

    قرارداد کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا کہ صرف قراردادیں نہ لائی جائیں، سانحے پر کمیشن بنایا جائے تاکہ ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سانحہ 12 مئی، 21 ٹارگٹ کلرز کی فہرست تیار

    سانحہ 12 مئی، 21 ٹارگٹ کلرز کی فہرست تیار

    کراچی : قانون نافذ کرنے والے اداروں نے  12 مئی کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کراچی میں دہشت گردی کرنے والے ٹارگٹ کلرز کی فہرست تیار کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق 12 مئی کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی قانون نافذکرنے والے ادارے نے گرفتار ملزمان کے بیانات کی روشنی میں سانحہ میں ملوث ٹارگٹ کلرز کی فہرست تیار کر لی ہے۔


    یہ پڑھیں: اسی سے متعلق : ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کامران فاروقی گرفتار


    قانون نافذ کرنے والے ادارے کے مطابق ٹارگٹ کلنگ ٹیم کی سربراہی ایک رکن سندھ اسمبلی نے کی، ٹیم میں 21 ٹارگٹ کلر شامل تھے جن میں عرفان ٹوپی،فراز بلو،عدنان لمبا،علاء الدین،شاکر ماموں، واجد وجی،نوید ٹھیکے دار، ندیم بہرا،دانش کیکڑا اور کاشف بہاری شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ 12 مئی کے روز سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ڈرگ روڈ سے ایئر پورٹ تک کے علاقے میں ہوئے جہاں مبینہ طور پر واجد وجی،نوید ٹھیکے دار، ندیم بہرا،دانش کیکڑا اور کاشف بہاری نے اندھا دھند فائرنگ کر کے 35 افراد کو قتل کیا۔


    یہ پڑھیئے : ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے


    ٹارگٹ کلرز کی نشاندہی کے بعد 12 مئی کے واقعے میں ملوث مزید ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔

    واضح رہے کہ سندھ رینجرز نے ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد کامران فاروقی کو عدالت میں پیش کیا، جہاں رینجرز کے پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ ایم پی اے نے سانحہ 12 مئی سمیت ٹارگٹ کلرز کی ٹیم چلانے کا اعتراف کرلیا ہے اس لیے ملزم کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے جس پر عدالت نے ان کا دو روزہ ریمانڈ دے دیا۔

  • سانحہ 12 مئی کیس: عدالت کی وسیم اختر کو جیل سے کام کرنے کی ہدایت

    سانحہ 12 مئی کیس: عدالت کی وسیم اختر کو جیل سے کام کرنے کی ہدایت

    کراچی: سانحہ 12 مئی کیس میں میئر کراچی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ نہ کیا جا سکا۔ وسیم اختر نے عدالت سے کہا کہ وہ کراچی کے میئر ہیں، انہیں کام کرنا ہے ضمانت دی جائے۔ جواب میں عدالت کا کہنا تھا آپ جیل میں بیٹھ کر کام کریں۔

    سانحہ 12 مئی کیس کی سماعت کے دوران میئر وسیم اختر نے جذباتی دہائی دی کہ میرا کیا قصور ہے، 3 ماہ سے جیل میں ہوں، کراچی کا میئر ہوں کام کرنا ہے، مجھے ضمانت دی جائے۔

    عدالت نے جواب میں کہا کہ آپ کے بتانے سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں پتہ ہے آپ میئر ہیں۔ آپ جیل میں بیٹھ کر کام کریں۔

    تفتیشی افسر نے انسداد دہشت گردی عدالت کو بتایا کہ اسے چالان کے لیے 10 دن چاہیئں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ وسیم اختر نے کہا کہ آپ ان کو 20 دن دے دیں لیکن مجھے ضمانت دیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کے ٹی وی شو کا ریکارڈ آگیا ہے۔ پہلے چالان کا جائزہ لیا جائے گا۔

    عدالت نے مفرور ملزمان ایم پی اے کامران و دیگر کے ایک بار پھر وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کردی۔