Tag: سانس لینے میں دشواری

  • دھڑکن تیز اور سانس لینے میں دشواری کیوں ہوتی ہے؟

    دھڑکن تیز اور سانس لینے میں دشواری کیوں ہوتی ہے؟

    دل کی دھڑکن میں تیزی، سینے میں درد کے ساتھ یا اس کے بغیر سانس لینے میں دشواری یا چکر آنا بہت سی بنیادی بیماریوں کی علامت ہے جس میں ہائپر تھائیرائیڈزم، خون کی کمی، تناؤ اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔

    اس حوالے سے ڈپلومیٹ امریکن بورڈ انٹرنل میڈیسن اینڈ نیفرولوجی ڈاکٹر شفیق چیمہ نے ایک انٹرویو میں تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ سی کے ڈی کے مریضوں کو الیکٹرو لائٹ کے مسائل جیسے ہائپر کلیمیا ہوسکتا ہے جو دھڑکن، دل کی بے قاعدگی اور سینے میں تکلیف وغیرہ کا باعث بن سکتا ہے۔

    ڈاکٹر شفیق چیمہ نے بتایا کہ سانس لینے میں دشواری صحت مند لوگوں سمیت کسی کو بھی متاثر کر سکتی ہے، یہ ایک تکلیف دہ احساس ہے، اس لیے اس کی نوعیت ایک فرد سے دوسرے فرد میں مختلف ہوتی ہے۔ ان علامات کے سامنے آنے کے بعد اس کی وجوہات علاج اور ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں دل کی دھڑکنوں کے تیز یا کم ہونے کا احساس ہونے لگے تو وہ بھی تکلیف دہ عمل ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

    ان وجوہات میں نیند کی کمی، اضطراب یا تناؤ کی کیفیت، ٹینشن ڈپریشن ببی ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ جو لوگ کیفین یا الکحل استعمال کرتے ہیں وہ بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    دل کی دھڑکن تیز ہونے کی وجہ خون کی کمی، تھائی رائیڈ یا لو پریشر اور دل کے امراض بھی اس کی اہم وجوہات ہیں۔

    ڈاکٹر شفیق چیمہ کا کہنا تھا کہ اس تکلیف سے نجات کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اپنا طرز زندگی تبدیل کریں غذاؤں کے استعمال میں احتیاط کریں ورزش کریں اور خاص طور پر جب معاملات بڑھنے لگیں تو فوری طور ٹیسٹ کروا کر اپنے معالج سے ضرور رجوع کریں۔

     

  • ڈاکٹر ہیملچ جنھوں‌ نے سانس بحال کرنے کی تکنیک متعارف کروائی

    ڈاکٹر ہیملچ جنھوں‌ نے سانس بحال کرنے کی تکنیک متعارف کروائی

    کسی انسان کے گلے میں نوالہ یا کسی چیز کے اٹک جانے کی وجہ سے سانس بند ہو جائے تو ماہر ڈاکٹر جس معروف تکنیک کو استعمال کرکے سانس بحال کرتے ہیں، اس کے موجد ڈاکٹر ہنری ہیملچ ہیں۔

    سانس بحال کرنے کی اس تکنیک سے پہلے 1962 میں ہینری ہیملچ نے چھاتی سے مواد نکالنے کے لیے جھلی بھی تیار کی تھی، جس کی مدد سے ویتنام کی جنگ کے متاثرہ کئی فوجیوں کی زندگیاں بچائی گئی تھیں۔ یوں یہ ان کا پہلا کارنامہ نہیں‌ تھا اور وہ طب کی دنیا میں ایک موجد اور ماہر معالج کے طور پر خود کو منوا چکے تھے۔

    ڈاکٹر ہیملچ کا تعلق امریکا سے تھا، جہاں انھوں نے ولمنگٹن شہر میں‌ 1920 میں آنکھ کھولی۔ ہیملچ نے مختلف طبی مراکز میں‌ اور امریکی بحریہ سے وابستگی کے دوران جنگی میدان میں بھی خدمات انجام دیں‌۔ ہیملچ نے نیو یارک سے اپنے میڈیکل کریئر کا آغاز کیا تھا اور بنیادی طور پر ان کا شعبہ سرجری تھا۔

    2016 میں انھیں دل کا دورہ پڑا جس کے نتیجے میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    سانس بحال کرنے اور سانس کی نالی میں‌ رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے 1974 میں انھوں نے جو تکنیک متعارف کروائی تھی اس میں متاثرہ فرد کے پیٹ کو زور سے دبایا جاتا ہے۔

    ان کی یہ تکنیک زیادہ تر کیسز میں نہایت کارگر ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر ہنری ہیملچ کو خود بھی اپنی تکنیک کو اس 87 سالہ عورت پر آزمانے کا موقع ملا تھا جس کے گلے میں ہڈی پھنس گئی تھی اور انھوں‌ نے اپنی اس تکینک کی مدد سے اس کی زندگی بچائی تھی۔

    ہنری ہیملچ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران خدمات انجام دیتے ہوئے ہر قسم کے زخمیوں‌ کو قریب سے دیکھا اور خاص طور پر ان کا علاج کیا جنھیں‌ سرجری کی ضرورت تھی۔ ان میں‌ بارود سے زخمی ایسے فوجی بھی شامل تھے جنھیں‌ سانس لینے میں شدید دشواری محسوس ہورہی تھی اور انہی تجربات اور مشاہدوں کے سبب وہ اس تکنیک تک پہنچے تھے۔

  • وینٹی لیٹر مشینیں کرونا سے کیسے لڑیں گی؟

    وینٹی لیٹر مشینیں کرونا سے کیسے لڑیں گی؟

    انسانی صحت اور علاج معالجے سے متعلق طبی آلات اور مختلف مشینوں میں وینٹی لیٹر کو گویا زندگی کی آخری امید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

    کسی بیماری یا حادثے کے بعد اگر کوئی فرد وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا جائے تو اسے بہت سنجیدہ لیا جاتا ہے اور اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ مریض اب اس دنیا میں چند دن کا مہمان ہے۔ تاہم یہ خیال درست نہیں۔

    اس ضمن میں آپ کو مستند اور درست معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ایسی صورت میں ماہر معالج کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ اس مشین پر منتقل ہونے والا ہر مریض دراصل زندگی اور موت کی جنگ نہیں لڑ رہا ہوتا بلکہ یہ نظامِ تنفس کو بحال کرکے علاج میں مدد دیتی ہے۔

    کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں افراتفری اور خوف کی فضا ہے، وہیں ہم وینٹی لیٹر کا شور بھی سن رہے ہیں۔

    ہم آپ کو بتاتے ہیں یہ مشین کیا ہے اور کب کسی مریض کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جاتا ہے۔

    ہم اسے مصنوعی تنفس فراہم کرنا کہتے ہیں۔ یعنی جب کوئی مریض اس قابل نہیں رہتا کہ قدرتی طریقے اور جسمانی نظام کی مدد سے سانس لے سکے تو اسے وینٹی لیٹر کی مدد سے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔

    یہ مشین ہے کیا؟
    یہ مشین تین بنیادی حصوں پر مشتمل ہے۔ ان میں آکسیجن سلنڈر، کمپریسر اور کمپیوٹر شامل ہیں۔

    یہ مریض کے لیے کیسے مددگار ثابت ہوتی ہے؟
    وینٹی لیٹر پر منتقل کیے جانے والے کسی بھی مریض کی ناک یا اس کے منہ سے ایک نلکی گزار کر اس کے پھیپھڑوں تک پہنچائی جاتی ہے، جو کمپریسر کے ذریعے آکسیجن سلنڈر سے براہِ راست آکسیجن مریض کے پھیپھڑوں تک لے جاتی ہے۔

    دوسری طرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی ایک نلکی کی مدد لی جاتی ہے جو پھیپھڑوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر باہر لے آتی ہے۔

    وینٹی لیٹر مشین سے ہوا کی مدد سے حسبِ ضرورت آکسیجن مریض کے پھیپھڑوں تک براہِ راست بھیجی جاتی ہے۔

    عام طور پر مریض خود سانس خارج کرتا ہے، لیکن اگر تنفس کا عمل معطل ہو چکا ہو تو یہی مشین سانس خارج کرتے ہوئے پھیپھڑوں کے طرز پر کام کرتی ہے۔

    انسانی پھیپھڑوں کے اندر مخصوص دباؤ کو برقرار رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ اہم ترین عضو پچک سکتے ہیں اور وینٹی لیٹر مشین اس دباؤ کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

    اس میں موجود ایک ٹیوب پھیپھڑوں میں جمع ہونے والا پانی باہر نکالنے میں مدد دیتی ہے۔

    کمپیوٹر کی مدد سے اس عمل کی نگرانی کی جاتی ہے اور آکسیجن کی فراہمی میں ضرورت کے مطابق کمی بیشی کی جاتی ہے۔

    یہ منہگی مشین ہے اور اس کے لیے جو پرزے اور مشینیں درکار ہوتی ہیں اس کی زیادہ تر سپلائی چین جیسے ملک سے ہوتی ہے جو کرونا وائرس سے سب سے پہلے متاثر ہوا تھا۔

    کرونا وائرس کے شکار افراد کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے جس کے لیے بڑی تعداد میں وینٹی لیٹر مشین کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

    وینٹی لیٹر، مصنوعی تنفس ہے جو صحت بحال کرنے میں مددگار ہے۔