Tag: سانس کی بیماری

  • کپڑے دھونے کے بعد یہ کام کرنے سے پھیپھڑوں کی بیماری کا خدشہ ہے

    کپڑے دھونے کے بعد یہ کام کرنے سے پھیپھڑوں کی بیماری کا خدشہ ہے

    گھر جس طرح سکڑ کر فلیٹوں میں بدل گئے ہیں، وہاں کئی مسائل کے ساتھ ساتھ گیلے کپڑے لٹکانے کا بھی ایک مسئلہ لوگوں کو پریشان کرتا ہے، اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بند گھروں کے صحنوں یا کمروں کے اندر ہی گیلے کپڑے لٹکا دیے جاتے ہیں۔

    لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کپڑے دھونے کے بعد ایسا کرنے سے پھیپھڑوں کی بیماری کا خدشہ ہے، اگر سانس اور پھیپھڑوں کی بیماری سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو کپڑے دھونے کے بعد گیلے کپڑے خشک کرنے کے لیے کمروں میں نہ لٹکائیں۔

    ایسا کرنے والی خواتین کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ یہ ایک انتہائی خطرناک عمل ہے، اور اس کی وجہ سے سانس کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کپڑوں سے نکلنے والی نمی اور ڈٹرجنٹ کی وجہ سے بخارات ہمارے پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کپڑوں کی وجہ سے گھر میں نمی کا تناسب 30 فی صد سے زائد ہو جاتا ہے اور کپڑوں کی نمی جو کہ سانس کے لیے اچھی نہیں ہوتی، ہمیں سانس کی تکالیف میں مبتلا کر دیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جتنی زیادہ نمی ہوگی اتنا ہی فنگس ہونے کا امکان بڑھ جائے گا، کچھ کپڑوں میں دو لیٹر سے بھی زائد پانی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کمرے میں نمی تیزی سے بڑھتی ہے۔

  • سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    کارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن (cardiopulmonary resuscitation) جسے مختصراً "سی پی آر” بھی کہتے ہیں، کسی انسان کی جان بچانے کے لیے اپنایا جانے والی ہنگامی طبی امداد ہوتی ہے۔

    یہ دراصل کسی وجہ سے اپنا کام انجام نہ دینے والے دل اور پھیپھڑوں کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش ہوتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار حادثے یا بیماری کی نوعیت پر ہوتا ہے۔

    یہ عمل کارڈیو پلمونری اریسٹ کی صورت میں انجام دیا جاتا ہے، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی فرد کا دل بند اور اس کا سانس لینے کا عمل رک گیا ہے۔

    اگر معالج محسوس کرے کہ وہ ہنگامی طبی امداد کے ذریعے کسی فرد کے دل کی دھڑکن اور سانس بحال کرسکتا ہے تو وہ یہ طریقہ اپنا سکتا ہے۔

    سی پی آر کے دوران معالج متاثرہ فرد کے سینے کو زور زور سے نیچے کی طرف دباتا ہے۔

    ایسے فرد کے دل کو بجلی کے جھٹکے دیے جاسکتے ہیں جس سے اس کی دھڑکن بحال ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔

    منہ کے ذریعے متاثرہ فرد کی سانس کی نالی کو ہوا پہنچانا یا پھیپھڑوں تک سانس پہنچانے کی کوشش کرنا۔

    سی پی آر کا طریقہ اس وقت اپنایا جاتا ہے جب کسی کو شدید چوٹ لگی ہو یا دل کا دورہ پڑا ہو اور اس کی دھڑکن بند ہو اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے مریض کو بروقت اسپتال لایا گیا ہو۔ تاہم سی پی آر مریض کی حاالت اور ڈاکٹر کی صوابدید پر منحصر ہے۔ معالج یہ بہتر بتا سکتا ہے کہ اس طریقے سے دل اور سانس کی بحالی کے کتنے امکان ہیں۔

    طبی محققین کے مطابق دل اور سانس کو بحال کرنے کی اس کوشش کے کبھی ضمنی اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں جن میں سینے پر نیل پڑجانا، پسلیوں کا ٹوٹ جانا یا پھیپھڑوں میں سوراخ ہو جانا شامل ہیں۔ اسی طرح بعض مریض طبی امداد میں کام یابی کے بعد کوما میں جاسکتے ہیں یا ان کی ذہنی حالت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح بعض دوسری طبی پیچیدگیاں بھی سر اٹھا سکتی جو کسی کو چند گھنٹوں یا چند دنوں بعد موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہیں۔

    ماہرین کہتے ہیں کہ سی پی آر کا سہارا لینے کے باوجود دل کی دھڑکن یا سانس بحال کرنے میں اکثر کام یابی نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی کا دل اور سانس لینے کا عمل کیوں بند ہوا تھا اور متاثرہ فرد کی عام صحت کیسی ہے۔