Tag: سانس کی بیماریاں

  • سانس کی بیماریاں! کراچی والوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی

    سانس کی بیماریاں! کراچی والوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی

    کراچی : شہر قائد میں سانس کی بیماریاں خطرناک حد تک پھیلنے لگیں، کیسز کی تعداد پچاس سے ساٹھ فیصد کے درمیان ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے اسپتالوں میں انفلونزا وائرس کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے، اعداد و شمار کے مطابق ان کیسز کی تعداد پچاس سے ساٹھ فیصد کے درمیان ہیں۔

    ماہرین صحت نے کہا ہے کہ کراچی میں سانس کی بیماریاں خطرناک حد تک پھیلنے لگیں اور بدلتے موسم کے ساتھ انفلونزا وائرس کے کیسز کے رپورٹ ہونے کی تعداد زیادہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن پر عدم توجہ اس وائرس کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ بن جاتی ہے اور بدلتے ہوئے موسم کے پیش نظر ہر عمر کے افراد سانس کی بیماریوں کی شکایات کے ساتھ نجی و سرکاری اسپتالوں اور محلے میں موجود کلینک میں بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کورونا کیسز بھی کم تعداد میں رپورٹ ہوئے ہیں تاہم کینسر اور شوگر کے مریضوں کے علاوہ وعمر رسیدہ افراد انفلونزا وائرس کی شکایت کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

    ماہرین صحت نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس صورتحال میں احتیاط پر عمل کریں شدید نزلہ زکام اورکھانسی میں ماسک کے استعمال کو ترجیح دیں۔

  • سردیوں میں سانس کی بیماریاں، بڑی وجہ سامنے آگئی

    سردیوں میں سانس کی بیماریاں، بڑی وجہ سامنے آگئی

    کراچی : سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گزشتہ چند روز کے دوران کراچی میں سانس کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کی بڑی اور اہم وجہ آلودگی اور گرد و غبار ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پلمونو لوجسٹ ڈاکٹر اقنال پیرزادہ نے سانس کی بیماریوں کی علامات احتیاط اور علاج سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آج کل لوگ سردی سے بچنے کیلیے گرم کپڑے تو باقاعدگی سے پہن رہے ہیں لیکن گرد و غبار سے بچنے کیلیے منہ پر ماسک نہیں لگا رہے جو بیماری کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سانس کی بیماریوں کا بڑا سبب ہوا کا خراب معیار ہے، انہوں نے خاص طور پر سڑکوں پر اڑتی ہوئی دھول مٹی اور گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی آلودگی کو وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت شہر کی تقریباً تمام سڑکیں اس سے شدید متاثر ہیں۔

    پلمونولوجسٹ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے بتایا کہ اگرچہ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ سانس کی بیماریوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سال ان کی تعداد تقریباً دوگنا ہو گئی ہے، اس سال مریضوں کی تعداد پچھلے سال سے بہت زیادہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آلودگی کی کوئی بھی شکل ہو وہ مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے اور یہ تعلق سائنسی طور پر متعدد مطالعات کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔

    آلودہ ماحول میں رہنے والے افراد میں نمونیا، سانس کی اوپری نالی کے انفیکشن اور الرجی کے ساتھ ساتھ تپ دق کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار جب جلن پیدا ہوتی ہے جس میں باریک مادہ ذرات 2.5 بھی شامل ہوتے ہیں تو وہ نظام تنفس کے مدافعتی نظام کو تباہ کر دیتے ہیں جو مختلف جراثیموں کے خلاف ڈھال کا کام کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب مدافعتی نظام تباہ ہوجائے تو پھر جسم کینسر سمیت ہر قسم کے انفیکشن اور بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

  • کیا چین میں سانس کی بیماریوں میں اضافے سے عالمی خطرہ ہے؟ ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    کیا چین میں سانس کی بیماریوں میں اضافے سے عالمی خطرہ ہے؟ ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    گزشتہ برس دسمبر میں کرونا سے متعلق تمام تر پابندیاں اٹھانے کے بعد چین میں یہ پہلی سردیاں ہیں اور اس دوران بچوں میں سانس لینے کی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    سوشل میڈیا پر متاثرہ بچوں کی تصاویر پوسٹ کی گئیں جنھیں اسپتال میں ڈرپ لگائی جا رہی ہیں، شمال مغربی شہر شیان سے بھی ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں اسپتالوں میں رش لگا ہوا ہے، چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے بھی 13 نومبر کو نیوز کانفرنس میں سانس کی بیماریوں کے کیسز میں اضافے کی تصدیق کی تھی۔

    جب اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین سے سانس کی بیماریوں اور نمونیا کے کیسز میں اضافے سے متعلق مزید معلومات کی درخواست کی گئی تو اس معاملے نے عالمی توجہ حاصل کر لی۔ تائیوان نے عمر رسیدہ افراد، نوجوانوں اور کمزور قوت مدافعت رکھنے والوں کو چین کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔

    تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اب کہا ہے کہ کسی قسم کے غیر معمولی پیتھوجنز کی شناخت نہیں ہوئی ہے، لہٰذا عالمی سطح پر کسی قسم کے ممکنہ خطرے کے شواہد نہیں ملے، ماہرین نے کہا کہ اس سلسلے میں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

    چین کے محکمہ صحت کے حکام نے ڈبلیو ایچ او کو بتایا کہ سانس کی بیماریوں کے کیسز کی تعداد کرونا کی عالمگیر وبا سے قبل کی تعداد سے زیاد نہیں ہے، ڈیٹا کے مطابق کیسز میں اضافے کی وجہ کرونا پابندیوں کا اٹھایا جانا اور ’مائیکو پلازمہ نمونیا‘ نامی پیتھوجن کا پھیلاؤ ہے جو ایک عام بیکٹیریل انفیکشن ہے اور مئی سے بچوں کو متاثر کر رہا ہے، جب کہ زکام کی قسم کا ریسپائریٹری سنسیٹیئل وائرس اکتوبر سے پھیلا ہوا ہے۔