Tag: سانگھڑ

  • صحافی خاور حسین کی گاڑی سے گولی لگی لاش برآمد

    صحافی خاور حسین کی گاڑی سے گولی لگی لاش برآمد

    سانگھڑ: کراچی کے نوجوان صحافی خاور حسین کی گاڑی سے گولی لگی لاش برآمد ہوئی ہے، ان کی لاش سانگھڑ سے ملی۔

    معروف نجی چینل سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی خاور حسین کی سانگھڑ میں کار سے گولی لگی لاش ملی ہے، پولیس موقع پرپہنچ گئی ہے اور ان کی موت سے متعلق تحقیقات کی جارہی ہیں۔

    ریسکیو حکام نے لاش سے متعلق ابتدائی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ صحافی خاورحسین کے ہاتھ میں پستول بھی موجود ہے۔

    وزیر داخلہ سندھ کی جانب سے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے، انھوں نے بتایا کہ آئی جی سندھ کی جانب سے احکامات دیے گئے ہیں کہ ایس پی سانگھڑ اس واقعے کی انکوائری کریں۔

    وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ سینئرصحافی کی لاش ملنےکی جامع انکوائری رپورٹ ارسال کریں، خاورحسین کی شعبہ صحافت میں خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

    وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرلی وزیراعلٰی نے آئی جی پولیس کو پولیس کے بہترین افسر کو تفتیش سونپنے کی ہدایت کی ہے۔

    مراد علی شاہ نے کہا کہ تحقیقات کرکے موت کی اصل وجہ کا پتہ لگایا جائے، وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے لواحقین کیلئے صبرجمیل کی دعا کی گئی اور انتظامیہ کو تعاون کی ہدایت کی گئی ہے۔

  • سانگھڑ میں 3 افراد کے قتل کا مقدمہ درج،  اہم شخصیت کا نام شامل نہیں

    سانگھڑ میں 3 افراد کے قتل کا مقدمہ درج، اہم شخصیت کا نام شامل نہیں

    سانگھڑ : گوٹھ جانی جونیجو میں تین افراد کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا، جس میں اہم شخصیت کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانگھڑ کے نواحی علاقے گوٹھ جانی جونیجو میں تین افراد کےقتل کے خلاف چار روز سے جاری احتجاج ختم ہوگیا۔

    مقتول کے لواحقین اور پولیس کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں، قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ، مقدمے میں دس نامزد اور انتیس نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے تاہم ایف آئی آر میں اہم شخصیت کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

    مقدمہ درج ہونے کے بعدغیر جانبدارانہ تحقیقات پر اتفاق ہوا، ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مظاہرین نے چار روز سے جاری دھرنا ختم کر دیا۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مقدمہ فدا حسین جونیجو کی مدعیت میں درج کیا گیا اور واقعے میں ملوث نو ملزمان کو گرفتارکرلیا ہے۔

    پولیس کے مطابق دھرنے میں رکھی تینوں لاشیں تدفین کے لیے گاؤں جانی جونیجو روانہ کر دی گئیں، جہاں مقتولین کی نماز جنازہ ادا کرکے تدفین کر دی گئی ہے۔

    دوسری جانب علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری متاثرہ علاقے میں تعینات کردی گئی ہے۔

  • ’سانگھڑ کے تیل و گیس رائلٹی کے اربوں روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں کچھ پتا نہیں‘

    ’سانگھڑ کے تیل و گیس رائلٹی کے اربوں روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں کچھ پتا نہیں‘

    سانگھڑ: جی ڈی اے رہنما سائرہ بانو نے کہا ہے کہ ضلع سانگھڑ کے تیل و گیس کی رائلٹی کے اربوں روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں کچھ پتا نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بانو نے نیشنل پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیل و گیس کی نعمت سے مالا مال ضلع سانگھڑ مسائل کا گڑھ بن گیا ہے، سانگھڑ میں 460 اسکول بند ہیں، تعلیم تباہ ہوچکی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سانگھڑ کے اسپتالوں میں علاج کی سہولیات موجود نہیں ہیں، امن و امان کی صورتحال خراب ہے، شام کے بعد لوگ گھروں سے نہیں نکلتے۔

    گٹکا، آئس اور دیگر منشیات عام ہوگئی ہے، نوجوان تباہ ہورہے ہیں، پولیس منشیات چلوانے کے ماہانہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کرتی ہے۔

    سائرہ بانو نے مزید کہا کہ پینے کا صاف پانی نہ ملنے سے جگر کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے، شہداد پور میں ایک ارب کی لاگت سے بننے والا صاف پانی کا منصوبہ ناکام ہوچکا ہے۔

  • سانگھڑ میں اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے والے ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا

    سانگھڑ میں اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے والے ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا

    سانگھڑمیں اونٹنی کی ٹانگ کاٹے جانے کا دلخراش واقعہ پیش آیا تھا، ملزمان نے پولیس کے سامنے اعتراف جرم کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عدالت نے گرفتار 6 ملزمان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم عابد شر اور شکور شر نے اعتراف جرم کیا ہے، گرفتارملزمان میں زمیندار کرار شر کا بیٹا دریا خان شر بھی شامل۔

    سانگھڑ سے متاثرہ اونٹنی کو کراچی منتقل کر دیا گیا ہے جہاں متاثرہ اونٹنی کی اینیمل سینچری میں علاج کی سہولت اور اس کی بحالی کا عمل جاری ہے، کوشش کی جا رہی ہے کہ اونٹ کو مصنوعی ٹانگ لگے۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان اور سانگھڑ سے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے اپنے بیان میں بتایا کہ اونٹنی کو مصنوعی ٹانگ لگانے کے لیے ہم مختلف کمپنیوں سے رابطے میں ہیں۔

    دریں اثنا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جانوروں سے ناروا سلوک کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ بے زبانوں سے ظلم و زیادتی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

    وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ جانور بھی اللہ کی مخلوق ہیں ان سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے، سانگھڑ میں زخمی کی گئی اونٹنی کا علاج کروایا جائے اور اس کی مصنوعی ٹانگ لگانے کا بندوبست کیا جائے۔

  • سانگھڑ : کھیت میں گھسنے پر وڈیرے نے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی ، ویڈیو وائرل

    سانگھڑ : کھیت میں گھسنے پر وڈیرے نے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی ، ویڈیو وائرل

    سانگھڑ : سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک وڈیرے نے کھیت میں داخل ہونے پر اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی، ویڈیو وائرل ہونے تین افراد کو حراست میں لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک وڈیرے نے کھیت میں داخل ہونے پر اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی، جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ جمعہ کو ضلع گاؤں منڈ جمراؤ میں پیش آیا، اونٹ کے مالک سومر خان نے کہا ’’میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میرے اونٹ کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا۔‘‘

    اونٹ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کیا اور واقعے کی تفصیلات مانگیں۔

    ڈاکٹرز کی ٹیم نے گاؤں پہنچ کر زخمی اونٹ کی مرہم پٹی کی اور پولیس نے سرکار کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کرلیا۔

    ایس ایس پی اعجاز احمد شیخ نے کہا کہ اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کے کیس میں 3 افراد کوحراست میں لے لیا ہے اور زیرِ حراست ملزمان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔

  • سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے، نصف سے زائد ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے، ایک ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ لاکھوں گھر پانی میں بہہ گئے ہیں اور دوسری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگوں کی جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں‌ لاکھوں خاندان کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ نہ تو کوئی قلم اسے پوری طرح ضبطِ تحریر میں لاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی کیمرہ اس کی مکمل عکس بندی کرسکتا ہے۔

    وزارت ماحولیات تبدیلی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے ملکی معیشت کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 10 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک کا 70 فیصد حصہ زیر آب ہے اور پاکستان کے جنوبی حصوں میں کئی مقامات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اموات کی تعداد 1500 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جب کہ 3 ہزار سے زائد زخمی رپورٹ ہوئے ہیں۔ دریاؤں میں اب تک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ 10 لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہے۔ متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ 243 پل تباہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوا ہے، سندھ کا 90 فیصد اور ملک کی کل فصلوں کا 45 فیصد حصہ زیر آب ہے۔

    یہ تو سرکاری رپورٹ ہے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق سیلاب سے جانی نقصان مذکورہ اعداد وشمار سے کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے اور اس کا اصل اندازہ سیلاب اترنے کے بعد ہی ہوسکے گا کیونکہ اب تک 100 فیصد سیلاب متاثرہ علاقہ رپورٹ نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے عالمی، ملکی اور عوامی سطح پر امدادی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس دوران بعض صاحب اقتدار لوگوں کی جانب سے اسے عذاب الہٰی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ ہر چند سال بعد یہ عذاب الہٰی صرف غریب عوام پر ہی کیوں ٹوٹتا ہے؟

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ملک کو سیلابی پانی نے گھیرا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار سیلاب آئے اور تباہی کی ایک داستان رقم کرکے چلے گئے۔ اس وقت بھی مسندِ اقتدار پر براجمان افراد نے پھرتیاں دکھائیں، امدادی سرگرمیاں ہوئیں، بین الاقوامی امداد آئی، پھر وقت گزرا اور سب لوگ حسب روایت بھول بھال کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہوگئے لیکن یہاں جن کی ذمے داری تھی یعنی صاحبان اقتدار، انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کیلیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی۔

    مون سون کے آغاز سے کئی ماہ قبل ہی محکمہ موسمیات نے فروری، مارچ میں حکومت سمیت ریلیف کے تمام اداروں کو آگاہ کردیا تھا کہ اس بار ملک میں مون سون نہ صرف طویل ہوگا، بلکہ معمول سے کئی گنا زائد اور شدید طوفانی بارشیں ہوسکتی ہیں، جس سے شہری و دیہی علاقے سیلاب کی زد میں آسکتے ہیں اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پیشگوئی کے بعد حکومت اور اس سے جڑے ادارے حرکت میں آجاتے اور پیشگی اقدامات شروع کردیتے تو شاید تباہی آج اپنی انتہا پر نہ ہوتی اور آسمان سے برستا جل اس ملک کے غریبوں کے لیے شاید فرشتہ اجل ثابت نہ ہوتا، لیکن اس وقت تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کرسی، سیاست، اکھاڑ پچھاڑ تھی تو اس جانب کیا توجہ دی جاتی۔

    جون میں برساتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو جولائی تک ملک کے بیشتر حصوں میں پھیل گیا طوفان اور سیلاب نے سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کو اپنا ہدف بنایا جہاں ہر چیز خس وخاک کی طرح اس سیلابی ریلے میں بہہ گئی، لیکن یہ ہماری روایتی بے حسی کہہ لیں جب بلوچستان ڈوب رہا تھا، لاشیں کیچڑ میں لت پت مل رہی تھیں، ماؤں کے سامنے ان کے بچے سیلابی ریلوں میں بہہ کر جارہے تھے اور وہ اپنے جگر گوشوں کو بچانے کیلیے کچھ بھی نہیں کر پارہے تھے، اس وقت بھی ہمارا معاشرہ روایتی بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہا تھا جب کہ میڈیا بھی سیاسی رنگینیوں کی داستانیں سناتے ہوئے تھک نہیں رہا تھا، سیلاب کی تباہی پر حکومت وقت کی نظر اس وقت پہنچی جب پانی اپنی راہ بدل کر سندھ اور جنوبی پنجاب میں داخل ہورہا تھا اس کے بعد جب پانی خیبر پختونخوا میں بپھرا تو انسانی جانوں کے ساتھ وادی سوات کا سارا حسن بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

    یہ تباہی اتنی بڑی تھی کہ صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرنی پڑی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اقوام عالم سے پاکستان کی امداد کی اپیل کرچکے۔ چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، ایران، امریکا، کینیڈا، قطر سمیت دیگر ممالک نے انسانی بنیادوں پر مدد شروع کر بھی دی اس کے ساتھ حکومت سمیت پاک فوج، رینجرز، دیگر اداروں نجی سطح پر بھی امداد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی تھون کرکے دنیا بھر سے ساڑھے پانچ ارب سے زائد رقم جمع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دعوت اسلامی، جے ڈی آئی، الخدمت فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، تحریک لبیک پاکستان سمیت دیگر سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور لوگ انفرادی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ آج ملک میں جو تباہی پھیلی ہے یہ یقیناً قدرتی آفت تو ہے لیکن کیا حکومت جس کی بنیادی ذمے داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے، کیا وہ اس آفت سے نمٹنے کیلیے پیشگی اقدامات نہیں کرسکتی تھی؟ کہ اگر اس سے مکمل بچا نہ جاسکتا تھا تو نقصان کا حجم کم تو کیا جاسکتا تھا یا کم از کم ایسے اقدامات کیے جاسکتے تھے کہ جس سے انسانی جانوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

    یوں تو چاروں صوبے ہی کسی نہ کسی طرح سیلاب سے متاثر ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان میں جو المیے جنم لے رہے ہیں اس سے ہر حساس دل تڑپ رہا ہے، یہ دور سوشل میڈیا کا ہے جہاں کوئی بات چھپ نہیں پاتی ہے، ملکی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایسے ایسے المناک مناظر سامنے آرہے ہیں جسے دیکھنے والی ہر انسانی آنکھ نم ہورہی ہے۔ الہٰی یہ کیسی تباہی ہے کہ جنازے تو ہیں لیکن انہیں دفنانے کیلیے خشک زمین میسر نہیں، لیکن ان حالات میں جب کروڑوں لوگ بے کس و بے بس بنے ہوئے ہیں اس ملک میں ضمیر فروشوں کی بھی کمی نہیں ہے، اول تو اشیائے ضرورت دستیاب نہیں ہیں اگر ہیں تو ان کی قیمتیں اتنی بلند کردی ہیں کہ آسمان بھی اس کے آگے نیچا دکھائی دینے لگا ہے، صرف اسی پر بس نہیں ضمیر فروش ملنے والی امداد پر بھی قابض ہورہے ہیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں وائرل ہوکر اس ملک کا مذاق بنوا رہی ہیں۔

    اس وقت سیلاب متاثرہ لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھوک اور پیاس، کپڑے، سر چھپانے کیلیے عارضی پناہ گاہیں ہیں کئی رپورٹس کے مطابق بعض جگہوں پر تو سیلاب متاثرین بے لباس بیٹھے ہیں، اس سے زیادہ حیوانیت کہاں ملے گی کہ جب ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر تھا وہاں انسانیت کے دعویدار حیوان نما انسان بنت حوا کی روٹی کے بدلے عزت اتار رہے ہیں سانگھڑ میں ایک خاتون کو راشن دینے کے نام پر دو دن تک اس کی عصمت دری کی گئی میڈیا میں خبر آنے پر ملزمان پکڑے گئے لیکن کیا اس قیامت خیز منظر نامے میں ایسا انسانیت سوز واقعہ ہونا چاہیے تھا؟ وزرا، سیاستدانوں اور وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کیلیے عارضی بند بناکر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی جانب موڑ دیا جس نے تباہی میں مزید اضافہ کیا۔

    حکومت اور سیاستدانوں کی بے حسی کے کیا کہنے کہ جب سیلاب بلوچستان میں پوری طرح تباہی پھیلا رہا تھا اور وہاں موت رقصاں تھی تو یہاں ہمارے عوام کے ہمدرد حکمراں جشن آزادی کے نام پر ناچ گانا دیکھنے میں مصروف تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں کیا، جیسے جیسے سیلاب کا دائرہ کار اور تباہی بڑھتی گئی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی بھی بڑھتی گئی۔ لوگ ڈوب اور ایک ایک روٹی کو ترس رہے تھے، ایسے وقت میں ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف 25 رکنی وفد کے ساتھ 65 ویں کامن ویلتھ کانفرنس میں شرکت کیلیے کینیڈا گئے، لیکن میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس میں سے نصف اراکین نے تو یہ کانفرنس اٹینڈ ہی نہیں کی بلکہ فیملی کے ساتھ سیر سپاٹے اور لگژری زندگی کے مزے لیتے رہے۔ خود راجا پرویز اشرف کے وفد کے ہمراہ اور نیاگرا فال کے نظارے دیکھنے اور پرتعیش ہوٹلوں میں لذیذ کھانے کھانے کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی رہیں۔ اسی دوران وزیراعظم دورہ قطر پر تشریف لے گئے 40 رکنی وفد کے ہمراہ یہ دورہ تین روزہ تھا جس پر عوام کا ہی پیسہ خرچ ہوا اگر ایسے وقت میں یہ دورہ ضروری بھی تھا تو مختصر وفد کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ عوام پر موت کے سائے بڑھتے جا رہے تھے اور مولانا فضل الرحمٰن لاؤ لشکر کے ہمراہ ترکیہ کے نجی دورے پر تھے جس کا مقصد تو صوفی بزرگ شیخ محمود آفندی کے انتقال پر تعزیت کرنا تھا لیکن ان کی وہاں ایک فیری میں تفریح کی تصویریں میڈیا پر چلیں تو پتہ چلا کہ وہ وہاں تفریح کرکے سیلاب متاثرین کا غموں کا مداوا کر رہے ہیں۔

    صرف یہ نہیں بلکہ جو سیاسی رہنما سیلاب زدہ علاقوں میں گئے بھی تو وہاں اپنے طرز عمل سے ان کی اشک شوئی کے بجائے زخموں پر نمک ہی چھڑکا، پی پی کے ایک صوبائی وزیر منظور وسان جو خواب دیکھنے کے ماہر ہیں انہوں نے جاگتی آنکھوں سیلاب زدہ علاقے کو اٹلی کے شہر وینس سے تعبیر کر ڈالا، ایک ایم این اے امیر علی شاہ شاہانہ انداز میں پلنگ پر بیٹھے اور منرل واٹر سے جوتے دھوتے نظر آئے، آصف زرداری کے بہنوئی اور فریال تالپور کے شوہر نے تو سیلاب متاثرین میں 50 پچاس روپے تقسیم کرکے اس کی ویڈیو بھی بنوائی۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ حکمراں طبقے نے بجائے اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے اسے عذاب الہٰی سے تعبیر کیا اور سندھ کے کئی وزرا کی جانب سے اسے عوام کے گناہوں کا ثمر قرار دیا گیا۔

    شاید حکمرانوں اور سیاستدانوں کے یہی حاکمانہ ذہنیت کے طرز عمل تھے کہ گزشتہ 5 دہائیوں کے مسلسل جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گزشتہ 14 سال سے سندھ کے اقتدار پر مسلسل براجمان پی پی پی کے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں نے ان کی آنکھیں کھول دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے سیلاب زردگان نے متاثرہ علاقوں میں آنے والے حکمرانوں کا گھیراؤ شروع کردیا پھر چاہے وزیراعظم شہباز شریف ہوں، یا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہوں یا قائم مقام گورنر سراج درانی یا پھر سندھ کے دیگر وزرا، غریبوں نے انہیں آئینہ دکھانا شروع کیا تو لاڑکانہ، دادو، سکھر، خیرپور، ٹھٹھہ، نوشہروفیروز سمیت تمام سیلاب متاثرہ علاقوں میں ان ہی حکمرانوں کو زمین پر اترنا دشوار ہوگیا لیکن ستم یہ ہوا کہ وڈیرانہ سوچ کے حامل حکمرانوں نے بجائے ان نازک حالات میں ان کی داد رسی کرنے کے اپنی بے کسی کا اظہار کرنے پر ان کے خلاف ہی مقدمات درج کرا دیے اور سکھر میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے بعد 100 سے زائد نامعلوم سیلاب متاثرین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

    سیلاب متاثرین کے مصائب اور ان کی مشکلات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی امداد کے اعلانات ہی کافی نہیں‌حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے رویے اور طرز عمل سے بھی خود کو مصیبت کی اس گھڑی میں عوام کا حقیقی ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کرنا ہو گا۔

    bostancı escort bayan
    ümraniye escort bayan
    ümraniye escort
    anadolu yakası escort bayan
    göztepe escort bayan
    şerifali escort
    maltepe escort
    maltepe escort bayan
    tuzla escort
    kurtköy escort
    kurtköy escort bayan

  • راشن کے بہانے سیلاب متاثرہ لڑکی سے زیادتی کرنے والے دونوں ملزمان گرفتار

    راشن کے بہانے سیلاب متاثرہ لڑکی سے زیادتی کرنے والے دونوں ملزمان گرفتار

    سانگھڑ : راشن دینے کا جھانسہ دیکر سیلاب متاثرہ لڑکی سے مبینہ زیادتی کرنے والے دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانگھڑ کی تحصیل شہدادپور میں پولیس نے سیلاب سے متاثرہ لڑکی سے مبینہ زیادتی کرنے والے دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

    ایس ایس پی فرخ علی نے بتایا کہ دونوں ملزمان لڑکی کے محلے کے ہیں ، دونوں ملزمان کااور لڑکی کا میڈیکل ٹیسٹ کروایا جائے گا، رپورٹ آنے پر مزید تفتیش آگے بڑھائی جائے گا۔

    یاد رہے سانگھڑ کی تحصیل شہدادپور میں بارش سے متاثرہ لڑکی کو راشن دینے کا جھانسہ دیکر رکشہ ڈرائیور اور اس کے ساتھی نے نشہ آور چیز کھلاکر مبینہ طور پر دو دن تک زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    مبینہ زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، زیادتی کا وقعہ 28 اگست کو پیش آیا۔

    متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ راشن دلانے کا جھانسہ دیکر رکشے میں لیجایا گیا اور کسی خالی جگہ میں جاکر نشہ آور گولیاں کھلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    ویڈیو میں متاثرہ لڑکی نے موقف میں کہا کہ اسے دوروز تک زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے روڈ پر چھوڑدیا گیا، لوگوں نے بیہوشی کی حالت میں شہدادپور ہسپتال پہچایا، جہاں ہوش میں آنے پر لڑکی نے پولیس کو بیان دیا۔

    گزشتہ رات متاثرہ لڑکی شریمیتی دیا بھارتی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا ، جس میں دو ملزمان خالد سولنگی اور دلشیر سولنگی کو نامزد کیا گیا تھا۔

  • سانگھڑ : نامعلوم افراد  کی  فائرنگ ،  مقامی صحافی  جاں بحق

    سانگھڑ : نامعلوم افراد کی فائرنگ ، مقامی صحافی جاں بحق

    سانگھڑ : ضلع سانگھڑ میں نا معلوم افراد نے فائرنگ کرکے مقامی صحافی کو قتل کردیا، پولیس نے صحافی میر مرتضیٰ شرکو قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ کے شہر جھول میں فائرنگ کا واقعہ پش آیا ، جہاں نا معلوم افراد کی فائرنگ سے مقامی صحافی جاں بحق ہوگیا۔

    ریسکیوذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ سےمقامی صحافی کا بھانجاشدید زخمی ہوا، جسے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جبکہ پولیس نے بتایا فائرنگ کا واقعہ پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے، تفتیش کی جارہی ہے۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جھول میں صحافی میرمرتضیٰ شرکوقتل کرنے والےملزم گرفتار کرلیا ہے ، ملزم علی نوازشر کو اسلحے سمیت گرفتار کیا گیا۔

    وفاقی وزیراطلاعات فوادچوہدری نے سانگھڑ میں صحافی کے قتل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اندرون سندھ صحافیوں کی سلامتی چیلنج بن گئی ہے، مرادعلی شاہ کوصحافیوں کے معاملات پر وفاق کی تشویش سے آگاہ کیاجائے گا۔

    اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے صحافی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا بیچ شہرمیں صحافی کاقتل پولیس کیلئےشرمندگی کا مقام ہے، سندھ میں صحافیوں کاقتل معمول بن چکا ہے۔

    حلیم عادل شیخ نے مقتول صحافی کے اہلخانہ سے تعزیت وافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا صحافی عزیزمیمن،اجےلالوانی کے قاتل پی پی میں اہم عہدوں پرموجود ہیں۔

  • چائے لانے میں تاخیر پر ہوٹل کے بیرے کو گولی مار دی گئی

    چائے لانے میں تاخیر پر ہوٹل کے بیرے کو گولی مار دی گئی

    سانگھڑ: سندھ کے شہر سانگھڑ کے ایک ہوٹل کے بیرے کو چائے لانے میں تاخیر پر الیکشن کمیشن آفس کے چوکیدار نے گولی مار دی۔

    تفصیلات کے مطابق سانگھڑ میں ہوٹل کے بیرے کو اس وقت عجیب صورت حال سے واسطہ پڑا جب وہ سانگھڑ کے الیکشن کمیشن آفس میں چائے لے کر گیا۔

    ریسکیو ذرایع نے کہا ہے کہ بیرے کو اس وقت گولی ماری گئی جب بیرا چائے لے کر الیکشن کمیشن آفس پہنچا، چوکیدار تاخیر پر غصے میں آیا، اس نے گن سیدھی کی اور بیرے پر فائر کر دیا۔

    سانگھڑ پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ کرنے والا الیکشن کمیشن ضلعی آفس کا چوکیدار ہے، زخمی کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ اس کے بیٹے کو الیکشن آفس کے چوکیدار نے یہ کہہ کر گولی ماری کہ وہ چائے تاخیر سے کیوں لایا۔

    یہ بھی پڑھیں:  تھرپارکر اور سانگھڑ میں آسمانی بجلی نے تباہی مچا دی، 11 افراد جاں بحق

    پولیس کے مطابق فائرنگ کا یہ واقعہ الیکشن کمیشن کے دفتر میں پیش آیا، بیرے کو گولی لگنے کے بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اسے سول اسپتال پہنچایا جہاں ابتدائی طبی امداد دے کر زخمی کو نوابشاہ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

    پولیس نے ملزم کو، جو الیکشن کمیشن آفس کا چوکیدار ہے، حراست میں لے لیا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ضلع سانگھڑ کے مختلف علاقوں میں بارش کے دوران آسمانی بجلی کی صورت میں آسمانی آفت نازل ہوئی تھی جس میں متعدد افراد جاں بحق ہو گئے تھے، سانگھڑ کی تحصیل کھپرو کے علاقے اچھڑو تھر میں بھی آسمانی بجلی سے 3 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

  • سندھ میں آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد جاں بحق

    سندھ میں آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد جاں بحق

    تھرپارکر: صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر اور سانگھڑ میں بجلی گرنے کے واقعات میں خواتین اور بچوں سمیت 26 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق تھرپارکر اور سانگھڑ کے مختلف علاقوں میں آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد جاں بحق ہوگئے، متاثرہ علاقوں میں بجلی گرنے سے درجنوں مویشی بھی ہلاک ہوگئے۔

    سانگھڑ کی تحصیل کھپرو کے علاقے اچھڑو تھر میں بھی آسمانی بجلی گرنے کے دو مختلف واقعات میں 3 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہو گئے۔ گاؤں جھواڑ میں آسمانی بجلی گرنے سے تیس سالہ سلیمت اور ان کا دس سالہ بیٹا جاں بحق ہوئے۔

    گورنر سندھ کا تھرمیں آسمانی بجلی گرنے سے اموات پر اظہارافسوس

    گورنر سندھ عمران اسماعیل نے تھرمیں آسمانی بجلی گرنے سے اموات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفت سے ہوئے جانی نقصان پر غمزدہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی ڈی سی کی نگرانی میں ریسکیو کاعمل تیز کیا جائے، وفاق مشکل گھڑی میں ہرممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے متاثرہ علاقوں میں بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کو متحرک ہونے کی ہدایت کردی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز تھر کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش ہوئی جبکہ بعض علاقوں میں ژالہ باری بھی ہوئی جس کے باعث موسم کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔