Tag: سبط حسن

  • جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    لاہور کی شادمان کالونی سنٹرل جیل کو مسمار کر کے بنائی گئی۔ سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں بہت سے سیاسی اور دینی اکابرین شامل تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی بھی ان میں شامل تھے۔ اپنے زمانۂ اسیری میں مولانا کی سبطِ حسن سے جیل میں شناسائی ہوئی اور ان میں استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بن گیا۔

    مولانا مجاہد الحسینی نے نامور ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سید سبطِ حسن سے اپنے اسی تعلق کی یادوں کو قلم بند کیا جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سید سبطِ حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔ وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چارپائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چارپائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی تحریروں مطالعہ کیا تھا، روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے میں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔

    اس پر میں نے کہا:”دنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“…. مصرع سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر میں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران میں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔

    بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟….اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا: یہ کیا؟

    میں نے کہا، میری کمر میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چارپائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور میں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیاتِ قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران میں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا۔

  • دانشور کون؟

    دانشور کون؟

    کسی ملک میں دانشور حضرات کی اہمیت کو زیادہ نہیں بیان کیا جا سکتا۔ دانشور، اپنے کردار کی وجہ سے اکثر اپنے اپنے ممالک کے شناختی نشان بن جاتے ہیں۔ انھیں پورے معاشرے میں سنا جاتا ہے۔ وہ باقی دنیا کے سامنے اپنی قوم کی سچائیوں کے معیار کے علمبردار بن کر ابھرتے ہیں۔ معاشرے اپنے ارتقاء کے دوران، اپنے دانشوروں کے خیالات اور افکار سے بہت زیادہ اخذ کرتے ہیں۔ دانشوروں کے کردار میں تبدیلی کے عمل کو بتدریج متاثر کرنے والی قوتوں کی تفہیم بھی شامل ہے۔

    یہ ذہین طبقہ معاشرے کے اہم حصے کو تشکیل دیتا ہے اور سماجی تبدیلی کے رجحان میں ایک محرک قوت کے طور پر کام کرتا ہے۔ معاشرے بحرانوں کے دور میں رہنمائی کے لیے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ عام طور پر سماجی اور سیاسی اداروں کی ناراضی کا سامنا بھی کرتے ہیں، لیکن جرأت مندی سے فرسودہ نظام پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔

    ایک دانشور کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کچھ خصوصیات رکھتا ہے جیسا کہ حقیقی اور آزاد فکر، کثیر الشعبہ علمی بنیاد، سماج سے متعلقہ خیالات اور تصورات کا علم ہونا، معاشرے سے منسلک ہونا،اور اگر وہ کسی تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں، تو ان کی اسکالر شپ کلاس رومز اور پیشہ ورانہ علمی و تحقیقی تحریروں سے آگے بڑھنی چاہیے، اور، آخر میں، انھیں تمام سماجی اور سیاسی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ثابت قدم رہنا چاہیے۔

    امریکہ کو آج ایک سپر پاور سمجھا جاتا ہے جس کے پاس مالی اور عسکری طور پر چھوٹے ممالک کو متاثر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے لیکن یہ نوم چومسکی کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ آواز کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ وہاں، ایڈورڈ سعید، رابرٹ فِسک، انجیلا ڈیوس اور بہت سے ایسے دیگر افراد رہے ہیں جو پوری تاریخ میں معاشروں کے لیے علامتی نشان بنے ہوئے ہیں۔

    ہندوستان آج ہندوتوا کی طرف اپنی جنگجو وطن پرست تبدیلی کے لیے جانا جاتا ہے جس نے ریاست اور سماج میں گہرا اثر ڈالا ہے، پھر بھی اس میں رومیلا تھاپر، عرفان حبیب، امریتا سین اور ارون دھتی رائے جیسے دانشور موجود ہیں۔ انگلینڈ میں ایرک ہوبسبوم، ای پی تھامسن، اور بائیں بازو کے نئے مفکرین کا ایک پورا گروپ، اسی طرح جرمن امریکی مفکر ہربرٹ مارکوس 1960 کی دہائی کی کیمپس بغاوتوں میں بحر اوقیانوس کے اس پار طلباء کی بغاوتوں کے بڑے رہنماؤں میں سے ایک شمار ہوتے تھے۔

    اس پس منظر کو جاننے کے بعد ہمارے اندر بھی یہ سوال انگڑائی لیتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس بولنے کے قابل کوئی دانشور موجود ہے۔ اگر ہاں، تو یہ کہاں ہے، اور اس کا کردار کیا ہے؟ اگر نہیں تو غائب کیوں ہے؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ہاں بامعنی اور مؤثر فکری گفتگو کی بہت مضبوط روایت کبھی نہیں رہی۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا، لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو کیا یہ تضاد نہیں ہے کہ ان کی تعداد گزشتہ سالوں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے، لیکن ان کی فکری پیداوار انتہائی کم رہی ہے؟

    ہماری تاریخ میں افسانہ نگاروں اور شاعروں کی طرف سے بہت زیادہ مزاحمت سامنے آئی۔ اس طبقے میں ادبی نقاد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ممتاز حسین اور مجتبیٰ حسین جیسے ترقی پسند نقادوں کے علاوہ، وہ لوگ تھے جو روایتی بیانیے کے حامی تھے، جیسے محمد حسن عسکری، ایم ڈی تاثیر، ممتاز شیریں اور سلیم احمد۔ یہ نظریات کی جنگ تھی جو ادب کے میدان میں لڑی گئی۔ ہمارے ہاں شاذ و نادر ہی ایسے مصنفین تھے جن کا تعلق سماجی علوم سے تھا، جو پاکستانی سماجی و تاریخی حقائق کے بارے میں لکھتے تھے اور ملک کو افقی اور عمودی تنازعات سے نکالنے کے طریقے تجویز کرتے تھے۔ سیاسی جدوجہد کے لیے ایسا تجزیہ اور وژن کبھی دستیاب نہیں ہوا جو بڑے پیمانے پر دور اندیشی پر مبنی ہو۔ ایسی فکر اور تجزیہ کی عدم دستیابی کی وجہ ہم ملک کو اعلیٰ جمہوری اہداف کی طرف لے جانے میں ناکام رہے ہیں۔

    سماجی و اقتصادی تجزیہ کی عدم موجودگی نے سیاسی تحریکوں کے حامیوں کو جوش دلانے کے لیے شاعری پر بہت زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کیا، لیکن اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکا جس کو حاصل کرنے کے لیے یہ تحریکیں شدت سے کوشش کر رہی تھیں۔ معروف ماہر عمرانیات حمزہ علوی نے رائے دی کہ تنقیدی سماجی تجزیہ کی عدم موجودگی میں، شاعری افیون کا کام کرتی ہے: عام لوگوں کو عارضی سکون اور ایک عارضی فروغ۔ علوی اور دیگر — جیسے اقبال احمد، فیروز احمد، صغیر احمد وغیرہ، جنہوں نے پاکستان کے سماجی و اقتصادی حقائق کے بارے میں لکھا اور ٹھوس حل پیش کیے، وہ تقریباً سبھی بیرون ملک مقیم تھے: ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ وہ ایسا کرنے کے قابل ہوئے جو انھوں نے کیا۔ ملک کے اندر ایسا کام ہمیں بہت زیادہ نظر نہیں آتا تھا، یا قابل عمل بھی نہیں تھا۔

    سبط حسن ایک قابل ذکر اسکالر تھے، جنہوں نے نہ صرف تاریخ اور پاکستانی خطے اور مشرق وسطیٰ میں تہذیب کے ارتقا کے بارے میں لکھا، بلکہ ساتھ ساتھ کچھ بنیادی سیاسی اور نظریاتی مسائل پر بھی توجہ دی، جیسے ریاست اور مذہب کے درمیان تعلق اور اس کے ساتھ ریاستوں کے تاریخی سلوک، جسے اسلامی ریاست کے طورپر نام دیا جاتا ہے۔ علی عباس جلالپوری نے اپنی متعدد کتابوں میں فلسفیانہ، تاریخی اور سیاسی مسائل کو عقلی انداز میں پیش کیا ہے۔صفدر میر (زینو) نے ملک کی متنوع ثقافتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ثقافتی مسائل پر وسیع پیمانے پر لکھا۔خواجہ مسعود نہ صرف ریاضی کے پروفیسر تھے بلکہ تاریخ، سماجیات اور ثقافتی امور کے بھی ماہر تھے۔ ان کی تحریریں تقریباً ایک چوتھائی صدی تک رہنمائی کا ذریعہ بنی رہیں۔ ابراہیم جویو نے نظریات کی تاریخ اور تاریخ میں ثقافتی تبدیلیوں پر انگریزی اور سندھی دونوں زبانوں میں لکھا۔ اس سے آگے دیکھتے ہیں تو وارث میر نے خاص طور پر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دوران اسٹیبلشمنٹ کو اس کے آمرانہ سرکاری بیانیے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ آئی اے رحمان بھی آئینی، سیاسی اور انسانی حقوق کے مسائل پر مستقل مصنف اور مقرر رہے ہیں۔ مبارک علی نے سرکاری تاریخ نویسی کی خامیوں پر روشنی ڈالی اور اپنے قارئین کو تاریخ نویسی کی نئی اور متنوع جہتوں سے روشناس کرایا، جیسا کہ یہ دوسرے ممالک میں تاریخ دانوں اور محققین کو تازہ نتائج کی طرف لے جا رہے ہیں۔ شاہ محمد مری نے بلوچ تاریخ اور دیگر تاریخی موضوعات پر بہت زیادہ لکھا ہے۔

    یہ فہرست ان مذکورہ چند افراد یا بعض دوسرے ایسے نامور حضرات سے زیادہ آگے نہیں جاتی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں دانشوروں کی کمی ہے کیونکہ ملک میں فکری روایت محدود ہو چکی ہے۔ دانشوروں کا وہ حصہ جو سماجی اسکالر ہونے کی وجہ سے اپنی اہمیت حاصل کرتا ہے وہ اس سے بھی چھوٹا ہے۔ وہ لوگ جو معاشرے سے براہ راست جڑ سکتے ہیں اور سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل پر بات کر سکتے ہیں ان کا اثر زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ ایک زیادہ مشکل کام بھی ہوتا ہے۔ ایسے دانشور حضرات کو لوگوں کے لیے قابل فہم زبان بولنے کی ضرورت ہے اور عوام کے لیے مشکل موضوعات کو واضح کرنے کے لیے مواصلات کی مہارت حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سبط حسن، مبارک علی، قاضی جاوید، حسن ظفر عارف، اشفاق سلیم مرزا اور پرویز ہود بھائی نے یہ کام کیا ہے۔

    ہماری یونیورسٹیوں نے اتنے کم فکری نتائج اور اتنے کم دانشور کیوں پیدا کیے ہیں، اس کی کئی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں نے سخت سرکاری کنٹرول میں کام کیا ہے۔ ان کی خود مختاری صرف کاغذوں پر رہ گئی ہے۔ نظام تعلیم، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم، براہ راست اور مؤثر طریقے سے مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ہے:یہاں تک کہ نصاب بھی سرکاری طور پر وضع کیا جاتا ہے۔اس سے فیکلٹی کی اکثریت کے پاس کوئی آپشن نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کو بروئے کار لانے اور اصل خیالات کے ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے یونیورسٹی کی جانب سے عائد شرائط کی پابندی کرے۔

    مزید یہ تعلیمی نظام ایسا ہے کہ تحقیق کے کلچر کو جڑ پکڑنے اور پنپنے نہیں دیتا۔ برسوں سے رائج اس انتظام کے نتیجے میں سیلف سنسرشپ کا ایک گھٹیا کلچر نکلا اور جو لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ حکام کی طرف سے ان کی ‘نافرمانی’ کے لیے نشان زد ہیں۔ ایک حقیقی محقق کے لیے ایسی تحقیق کرنا بہت مشکل ہے جو سرکاری طور پر منظور شدہ پیرامیٹرز کے اندر نہ ہو، کیونکہ اس کے نتیجے میں گرانٹس اور ریسرچ فنڈز سے انکار ہوتا ہے۔اگر کچھ لوگ اب بھی بیڑیاں توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمت سے لکھتے اور بولتے ہیں تو وہ مشکل آزمائشوں سے گزرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں۔

    ماضی میں اختلاف کرنے والے نامور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کو یا تو یونیورسٹیوں سے نکال دیا گیا یا انھیں معطل کر دیا گیا۔ یہ ضیاء کے فوجی دور میں زیادہ ہوا، جب قائداعظم، پنجاب اور کراچی یونیورسٹیوں سے اساتذہ کو نکال دیا گیا۔ تنقیدی فکر اور تحقیق کے قریب المرگ ہونے کے نتیجے میں، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اسکالر شپ کا خاتمہ بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے، یہاں تک کہ اب روایتی اور سرکاری بیانیے کو بھی اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لیے پیشہ ور اسکالرز نہیں ملتے ہیں۔

    (ماہر تعلیم اور مصنّف ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مضمون سے اقتباسات)

  • لوح و قلم کا معجزہ…

    لوح و قلم کا معجزہ…

    اگر تم میری ہدایتوں پر عمل کرو گے تو صاحبِ ہنر محرّر بن جاؤ گے۔

    وہ اہل قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے، آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس قابل ہوئے کہ اپنی اولاد کے لئے دولت چھوڑ جاتے۔ لیکن ان کی وارث ان کی تحریریں تھیں جن میں دانائی کی باتیں لکھی تھیں۔ وہ اپنی لوحوں اور نرسل کے قلموں کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے اور پتھر کی پشت کو بیوی سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ گو انہوں نے اپنا جادو سب سے چھپایا لیکن یہ راز ان کی تحریروں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ گو وہ اب زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں لوگ اب بھی یاد رکھتے ہیں۔ پس یاد رکھو تمہیں بھی تحریر کا علم حاصل کرنا ہوگا کیونکہ کتاب عالیشان مقبرے سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

    یہ بارہویں صدی قبل مسیح کی ایک مصری تحریر ہے۔

    علمائے آثار کی تحقیق شاہد ہے کہ تحریر کا فن سب سے پہلے دجلہ و فرات کی وادی ہی میں وضع ہوا۔ گو مصریوں اور پھر فونیقیوں نے بھی یہ ہنر جلد ہی سیکھ لیا لیکن اوّلیت کا شرف بہرحال قدیم عراقیوں ہی کو حاصل ہے اور اگر ان لوگوں نے بنی نوع انسان کوعلم اور معرفت کا کوئی اور تحفہ عطا نہ کیا ہو، تب بھی ان کا یہ کارنامہ ایسا ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ یہ انقلابی ایجاد اب سے ساڑھے پانچ ہزار برس پیشتر سمیر کے شہر ایرک کے معبد میں ہوئی۔ ایرک اس وقت عراق کا سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر تھا۔

    اس شہر کی عظمت کی نشانی ورقہ کے وہ کھنڈر ہیں جو چھ میل کے دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کھنڈروں کی کھدائی جرمنوں نے 1924ء میں شروع کی تھی مگر وہ پندرہ سال کی مسلسل محنت کے باوجود کام مکمل نہ کر سکے۔ ماہرین آثار کا تخمینہ ہے کہ اس شہر کی کھدائی کے لئے تقریباً نصف صدی درکار ہوگی۔

    ورقہ کے ٹیلوں کی کھدائی میں جرمنوں نے پچاس فٹ کی گہرائی پر ایک زیگورات دریافت کیا۔ یہ زیگورات 35 فٹ اونچا تھا اور مٹی کے ردوں کو رال سے جوڑ کر بنایا گیا تھا۔دیواروں کی زیبائش کے لئے مٹی کے چھوٹے چھوٹے تکونے ٹکڑے استعمال کئے گئے تھے۔ ان تکونوں کو رنگ کر آگ میں پکایا گیا تھا اور پھر گیلی دیواروں پر چپکا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے دیواریں بڑی خوشنما معلوم ہوتی تھیں۔ زیگورات کے ملبوں میں ماہرین آثار کو کارتوس نما کئی مہریں بھی ملی ہیں جن پر مناظر کندہ ہیں۔ ایک مہر پر قیدیوں کو قتل ہوتا دکھایا گیا ہے۔ ایک مہر پر مویشیوں کے جھنڈ بنے ہیں۔ ایک مہر پر شیر چوپایوں پرحملہ کر رہا ہے۔ ایک مہر پر پروہت کوئی مذہبی ناچ ناچ رہے ہیں، اور بالکل برہنہ ہیں، لیکن ان مہروں سے بھی زیادہ قیمتی مٹی کی وہ تختی ہے جس پر تصویری حروف کندہ ہیں۔ اس تختی پر ایک بیل کا سر، ایک مرتبان کی شکل اورکئی قسم کی بھیڑیں بنی ہوئی تھیں اور دو مثلث بھی کھنیچے گئے تھے۔ یہ انسان کی سب سے پہلی تصویری تحریر تھی جو 3500 ق۔ م کے قریب لکھی گئی۔

    لوح پر کندہ کی ہوئی یہ تصویریں بظاہر سامنے کی چیز معلوم ہوتی ہیں اور ان کا مفہوم کافی واضح ہے، لیکن اصل میں یہ علامتیں ہیں اور ان علامتوں میں حروف کا سا تجریدی عمل بھی موجود ہے۔ مثلاً مرتبان کی شکل فقط مرتبان کی علامت نہیں ہے کہ بلکہ مرتبان میں رکھی ہوئی کسی چیز کا، گھی تیل وغیرہ کا وزن بھی بتاتی ہے۔ ان تصویروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تختی پر مندر کی املاک کا کوئی حساب درج ہے۔ اسی زمانے کی کچھ اور تختیاں جمدۃ النصر اور دوسرے مقامات پر بھی ملی ہیں۔ ان پر بھی اس قسم کے حسابات لکھے ہیں۔

    دراصل تحریر کا فن مندروں کی معاشی ضرورتوں کے باعث وجود میں آیا۔ مندر کی دولت چونکہ دیوتاؤں کی ملکیت ہوتی تھی، اس لئے پروہتوں کو اس کا باقاعدہ حساب رکھنا ہوتا تھا۔ زرعی پیدادار کا حساب، بیج، آلات اور اوزار کا حساب، چڑھاوے اور قربانی کا حساب، کاریگروں کی مزدوری کا حساب، اشیا برآمد و درآمد کا حساب، غرض کہ آمدنی اور خرچ کی درجنوں مدیں تھیں اور ذہین سے ذہین پروہت بھی اس وسیع کاروبار کا حساب اپنے ذہن میں محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حسابات کوئی نجی معاملہ نہ تھے۔ بلکہ سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کی معاش ان سے وابستہ تھی۔ تیسرے یہ کہ خرید و فروخت کا سلسلہ فقط ایک شہر، ایرک تک محدود نہ تھا بلکہ دوسرے شہروں سے بھی تجارتی تعلقات رکھنا پڑتے تھے۔ اس لئے تحریری علامتوں کو پورے ملک کی مروجہ علامتیں بنانا ضروری تھا۔

    لیکن ان تصویری حروف کی خرابی یہ تھی کہ وہ فقط اشیا کی علامت بن سکتے تھے۔ کسی خیال یا جذبے کی نمائندگی نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی ہدایت نہیں دے سکتے تھے اور نہ کوئی سوال پوچھ سکتے تھے۔ تحریر کا فن حقیقی معنی میں تحریر کا فن اس وقت بنا جب اشیا کی تصویریں اشیا کی علامت کے بجائے ان کے نام کی آوازوں کی علامت بن گئیں۔ یہ کٹھن مرحلہ بھی اہل سمیر نے خود ہی طے کر لیا۔ چنانچہ شہر شروپک (فارا) سے بڑی تعداد میں جو لوحیں برآمد ہوئی ہیں، ان کے تصویری حروف اشیا کے ناموں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً یہ علامت داڑھی دار سر کی بھی ہے اور "کاکی” بھی جو سر کا سمیری تلفظ ہے اور بولنا چیخنا کی بھی۔ اسی طرح پیر کی علامت پیر کی نمائندہ بھی تھی۔ دو کی بھی جو پیر کا سمیری تلفظ ہے اور پیر سے متعلق حرکات ،گب (کھڑا ہونا) ،گن (جانا) اور، توم (آنا) کی آوازوں کی بھی۔

    ایرک کے دور میں تصویری حروف کی تعداد دو ہزار سے بھی زیادہ تھی لیکن رفتہ رفتہ ان میں تخفیف ہوتی گئی۔ چنانچہ شروپک کی لوحوں میں جو 3 ہزار ق۔ م کی ہیں حروف کی تعداد گھٹ کر فقط آٹھ سو رہ گئی۔ شروپک کی لوحوں پر بھی مندر کے حسابات ہی کندہ ہیں۔ ان کے علاوہ چند علامتوں کی فہرستیں ہیں جو مندر کے طلباء کو بطور نصاب سکھائی جاتی تھیں۔ یہ فہرستیں موضوع وار ہیں۔ مثلاً مچھلیوں کی مختلف قسمیں ایک جگہ درج ہیں اور ہر علامت کے سامنے اس پروہت یا نویسندہ کا نام کندہ ہے جس نے یہ علامت ایجاد کی تھی۔

    29 ویں صدی قبل مسیح کے لگ بھگ یعنی سو سال کے اندر ہی تصویری حروف میں اور کمی ہوئی چنانچہ ان کی تعداد صرف چھ سو رہ گئی۔ اس کے باوجود لکھنے پڑھنے کا علم مدت تک مندر کے پروہتوں اور شاہی خاندان کے افراد کی اجارہ داری رہا کیونکہ علم کو عام کرنا ارباب اقتدار کے مفاد کے خلاف تھا۔

    (سید سبط حسن کے ایک نہایت علمی اور تحقیقی مضمون سے اقتباسات)

  • انسانوں کے دشمن ’’ننگرسو اور تیامت‘‘

    انسانوں کے دشمن ’’ننگرسو اور تیامت‘‘

    عراق دراصل دجلہ و فرات کا عطیہ ہے۔ وہاں کے باشندوں کی زندگی کا انحصار انہی دریاؤں پر ہے۔ اگر یہ دریا خشک ہو جائیں تو عراق ویران ریگستان ہو جائے۔

    دریائے فرات شمال میں کوہِ ارارات سے نکلتا ہے (یعنی وہی پہاڑ ہے جس پر روایت کے مطابق سیلاب کے بعد حضرت نوح کی کشتی جاکر ٹھہری تھی) اور ملک شام میں سے گزرتا ہوا شمال مشرق کی سمت سے عراق میں داخل ہوتا ہے۔ اور میدان میں کئی سو میل کا سفر طے کر کے بالآخر خلیج فارس میں سمندر سے جا ملتا ہے۔

    دریائے فرات کی لمبائی 1780 میل ہے۔ دریائے دجلہ جس کی لمبائی 1150 میل ہے، جھیل وان کے جنوب سے نکلتا ہے۔ اور راستے میں دریائے زاب کلاں، زاب خورد اور دریائے دیالہ کو اپنی آغوش میں لیتا ہوا بصرے سے ساٹھ میل شمال میں قرنا کے مقام پر دریائے فرات میں شامل ہو جاتا ہے۔

    علمائے ارض کا کہنا ہے کہ اب سے کئی ہزار برس پہلے خلیج فارس کا شمال ساحل قرنا کے قریب تھا اور دجلہ و فرات سمندر میں الگ الگ گرتے تھے۔ اتفاقاً دو اور دریاؤں کے دہانے بھی وہیں واقع تھے۔ ایک دریائے قرون جو مشرق میں ایران سے آتا تھا اور دوسرا وادی الباطن کا نالہ جو جنوب مغرب میں عرب سے آتا تھا۔ یہ دونوں خلیج فارس میں تقریباً آمنے سامنے گرتے تھے۔ ان دریاؤں کی مٹی دہانوں کے پاس جمع ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ خلیج فارس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک رفتہ رفتہ مٹی کی ایک دیوار سی کھڑی ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دجلہ اور فرات کے بہاؤ کے ساتھ آنے والی مٹی کی نکاسی رک گئی اور یہ مٹی سمندر میں بہہ جانے کی بجائے دیوار کے شمال میں جمع ہوتی گئی۔ وہ پانی جو دیوار کے سبب سمندر میں نہ جا سکتا تھا پہلے دلدل بنا پھر آہستہ آہستہ خشک ہوگیا۔ اس طرح وہ ڈیلٹا وجود میں آیا جہاں اب بصرہ آباد ہے۔

    دجلہ اور فرات پہاڑوں سے نکل کر جب میدان میں آتے ہیں تو ان کو ایک پتھریلے پلیٹو سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ اونچی اونچی پہاڑیوں کو کاٹتے ہوئے بہت نشیب میں بہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ چھ ہزار برس میں بھی ان کے دھارے کا رخ اس علاقے میں بہت کم بدلا ہے۔ چنانچہ اس علاقے میں پرانے شہر دریاؤں کے کناروں پر بدستور موجود ہیں مثلاً ماری (حریری) اور جربلوس دریائے فرات پر اور نینوا اور اشور (قلعۃ الشرغاط) دریائے دجلہ پر۔ اس کے برعکس وسطی اور جنوبی خطوں میں جہاں مسطح میدان ہیں دریاؤں کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب کے قدیم شہر سیپر (ابوجبہ) کیش (للاحمر) بابل، ایرک (درکا) ارء (مقیر) العبید اور اریدو (ابوشہرین) جو کسی زمانے میں دریائے فرات کے کنارے آباد تھے، اب دریا سے میلوں دور ہیں۔ ان شہروں کے انحطاط اور زوال کا بڑا سبب دریا کے بہاؤ کا یہی تغیر ہے۔

    دریائے فرات جب ڈیلٹا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا بہاؤ بہت دھیما ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مٹی جسے دریا پلیٹو سے بہا کر لاتا ہے، تہہ میں بالخصوص کناروں پر جمتی جاتی ہے اور دریا کی سطح قرب و جوار کی زمین سے بھی اونچی ہوتی جاتی ہے اور کناروں پر مصنوعی بند سے بن جاتے ہیں۔ مثلاً ناصریہ کے قریب نشیب کا یہ عالم ہے کہ اُر کے کھنڈروں کے پاس سے گزرنے والی ریلوے لائن دریائے فرات کی تہہ سے بھی چھ فٹ نیچی ہے۔ اس سے یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ فرات کا پانی بڑی آسانی سے آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن کنارے کے بندوں کی دیکھ بھال آسان نہیں ہے۔ سیم اور تھور کی تباہ کاریاں اس پر مستزاد ہیں۔

    ان دریاؤں کی ایک خصوصیت ان کا اچانک اور ناوقت سیلاب ہے۔ یہ سیلاب اپریل اور جون کے درمیانی ہفتوں میں آتا ہے جب کہ خریف کی فصلیں ابھی کھیتوں میں کھڑی ہوتی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے دریاؤں کا پانی آناً فاناً کئی گز چڑھ جاتا ہے۔ طغیانی کے زور سے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں ایکڑ زمین، فصلیں، جھونپڑیاں اور مویشی پانی کی چادر میں چھپ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے قدیم باشندے سیلاب کے دیوتاؤں ’’ننگرسو اور تیامت‘‘ کو انسان کا دشمن خیال کرتے تھے۔

    (سبط حسن کے "ماضی کے مزار” سے اقتباسات)

  • فورٹ ولیم کالج کے یومِ تاسیس کا سلطان ٹیپو شہید سے کیا تعلق تھا؟

    فورٹ ولیم کالج کے یومِ تاسیس کا سلطان ٹیپو شہید سے کیا تعلق تھا؟

    رچرڈ کولی ویلزلی برطانوی نوآبادیات کے زمانے میں ہندوستان کا منتظم تھا جس کے دور میں انگریز فوج کا شیرِ میسور ٹیپو سلطان سے مقابلہ ہوا تھا۔

    اردو کے ممتاز ادیب، صحافی اور دانش وَر سیّد سبطِ‌ حسن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، فورٹ ولیم کالج سرزمینِ پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی، گورنر جنرل (1798۔ 1805ء) کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔

    اس شرط کے ساتھ کہ کالج کا یومِ تاسیس 24 مئی 1800ء تصوّر کیا جائے۔ کیوں کہ وہ دن سلطان ٹیپو کے دارُالحکومت سرنگاپٹم کے سقوط کی پہلی سال گرہ کا دن تھا۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، فورٹ ولیم کالج عام طالب علموں کے لیے نہیں کھولا گیا تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین کو، بالخصوص ان ناتجربہ کار سول ملازمین کو جو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہندوستان آتے تھے، باقاعدہ تعلیم دے کر کمپنی کے مقبوضات کا نظم و نسق سنبھالنے کے لائق بنایا جائے۔

    آگے چل کر انھوں نے لکھا، لارڈ ویلزلی مئی 1798ء میں گورنر جنرل ہو کر کلکتہ آیا۔ وہ لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دفتر میں ایک بڑے عہدہ پر فائز رہ چکا تھا اس لیے ہندوستان کے حالات اور کمپنی کے مسائل کے بخوبی واقف تھا۔ اس نے کلکتہ پہنچتے ہی محسوس کر لیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اب فقط ایک تجارتی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہزاروں مربع میل زمین اور لاکھوں باشندوں کی تقدیر اس کے قبضہ میں ہے، لہٰذا کمپنی کے مفاد اور مقبوضات کے نظم و نسق کا تقاضا یہی ہے کہ انگریز ملازمین کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔

    چنانچہ ایک یادداشت میں وہ لکھتا ہے کہ ’سول ملازمین کی تعلیم کے موجودہ نقائص مدّت سے میری توجہ کا مرکز ہیں اور میں نے ان نقائص کو دور کرنے کی غرض سے ایک وسیع منصوبے کا بنیادی خاکہ تیار کر لیا تھا اور کونسل کے روبرو اس کا زبانی بھی ذکر کیا تھا، مگر میسور کی جنگ کے باعث اس منصوبے پر فوری عمل نہیں ہو سکا۔

    ویزلی کا انتقال 26 ستمبر 1842ء کو ہوا۔

  • برصغیر میں معاشی، سیاسی انحطاط اور فیوڈل نظام

    برصغیر میں معاشی، سیاسی انحطاط اور فیوڈل نظام

    سیّد سبطِ حسن پاکستان کے مشہور بائیں بازو کے دانش ور، صحافی اور ادیب تھے جن کی کتاب نویدِ‌ فکر سے یہ پارہ نقل کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کو تاریخ اور مختلف ادوار کے ساتھ جوڑتے ہوئے ہندوستان میں ریاست اور عوام اور نظام پر بات کی ہے۔

    وہ لکھتے ہیں: برصغیر کے معاشی اور سیاسی انحطاط کی بڑی ذمّہ داری اسی فیوڈل نظام پر عائد ہوتی ہے۔

    اسی نظامِ اقتدار کی ہمہ گیری کے باعث ملک میں وہ سماجی حالات پیدا نہ ہو سکے جن میں سرمایہ داری نظام کو فروغ ہوتا۔ نہ صنعت کاروں، مہاجروں اور بیوپاریوں کا طبقہ اتنا مضبوط ہوا کہ وہ سیاسی اقتدار میں شرکت کا مطالبہ کرتا یا طاقت آزمائی کرکے اقتدار پر قابض ہوجاتا اور نہ دست کاری کی صنعتیں خود کار صنعتوں میں تبدیل ہو سکیں جیسا کہ یورپ میں ہوا۔

    یہ محاکمہ اپنی جگہ درست سہی لیکن قرونِ وسطیٰ کے تاریخی حالات میں نظم و نسق کا کیا کوئی دوسرا طریقہ ممکن تھا۔ کیا سلاطینِ دہلی خواہ وہ پٹھان تھے یا مغل تاریخ کے جبر سے آزاد ہو سکتے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ بات یہ ہے کہ شخصی حکومتوں کے دور میں کہ نمائندے ادارے سرے سے مفقود ہوتے ہیں۔ تخت و تاج کی سلامتی ہر فرماں روا اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے۔

    ظاہر ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور بادشاہ بھی خود تنہا اپنا بچاؤ نہیں کرسکتا بلکہ اس کو کسی نہ کسی طبقے یا گروہ کا تعاون حاصل کرنا پڑتا ہے البتہ اس تعاون کی قیمت اختیارات میں شرکت کی شکل میں ادا کرنی ہوتی ہے۔

    سلاطینِ دہلی نے یہ تعاون، یہ وفاداری جاگیر اور منصب عطا کرکے حاصل کی۔

    مثال کے طور پر صوبوں کے نظم و نسق پر ہی غورکریں، لیکن یہ حقیقت ذہن میں رکھیں کہ سترھویں اٹھارویں صدی میں مرکز اور صوبوں کے درمیان رابطے کی وہ سہولتیں موجود نہ تھیں جو اب ہیں۔ اس وقت نہ موٹریں اور ریل گاڑیاں تھی نہ ہوائی جہاز۔ نہ تار نہ ٹیلی فون نہ وائر لیس، ایسی صورت میں بس یہی ممکن تھا کہ معتبر اور وفادار امرائے دربار کو صوبوں کا نگراں بنایا جائے۔ نقد ادائیگی ممکن نہ تھی۔ سکّوں کا رواج بہت کم تھا۔ کیوں کہ جاگیری نظام میں چیزیں بازار میں فروخت ہونے کے لیے بہت کم بنتی تھیں لہٰذا سکّوں کی ضرورت نہ تھی۔ سرکاری عہدیداروں کو تنخواہیں لا محالہ زمین یا جنس کی شکل میں ادا کی جاتی تھیں۔

    کوئی بادشاہ فیوڈل ازم کے دائرے میں رہ کر بدی کے اس چکر سے نکل ہی نہیں سکتا تھا اور اگر کسی نے کوشش کی بھی تو وہ ناکام ہوا۔ علاؤالدین خلجی، محمد بن تغلق اور اسلام شاہ سوری کے تجربے اسی وجہ سے کام یاب نہ ہوسکے۔

    اختیارات میں شرکت کی دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ صوبائی وحدتوں کے حقِ خود اختیاری کو تسلیم کرلیا جاتا اور ان کا نظم و نسق منتخب شدہ نمائندوں کے سپرد کردیا جاتا جیسے امریکا میں ہوتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب خود مرکز میں کوئی منتخب شدہ نمائندہ حکومت موجود ہوتی، مگر قرونِ وسطیٰ میں جہاں اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ ریاست کے باشندے نہیں بلکہ ایک فردِ واحد کی ذات ہوتی تھی اور باشندوں کی حیثیت شہریوں کی نہیں بلکہ رعایا کی ہوتی تھی اس قسم کی طرزِ حکومت کا تصوّر بھی ممکن نہ تھا۔ قرونِ وسطیٰ کا ہندوستان پانچویں صدی قبل مسیح کے یونان سے دو ہزار برس پیچھے تھا۔

    سلطنتِ مغلیہ کی عمارت بھی جاگیری نظام پر قائم تھی۔