Tag: سبط حسن کی تحریریں

  • نظامِ فکر و احساس

    نظامِ فکر و احساس

    انسان کے تمام افعال اور ارادے، اس کا ہاتھ پاؤں ہلانا، اس کا دیکھنا، بولنا، کھانا پینا، غرض اس کا ہر جسمانی اور ذہنی عمل دماغ ہی کے تابع ہوتا ہے اور اگر دماغ اپنا عمل ترک کر دے تو انسان جیتے جی انسانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ زندہ لاش بن جاتا ہے۔

    خیال پرست فلسفیوں نے شاید دماغ کی انہیں خصوصیتوں سے متاثر ہو کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ موجوداتِ عالم ہمارے دماغ کا عکس ہیں۔ دماغ سے باہر ان کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے لیکن یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں کیونکہ جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ یہ کرۂ ارض نہ صرف انسان اور اس کے دماغ سے کروڑوں برس پہلے سے موجود ہے بلکہ خود انسان زمین ہی کے مادّوں کا ترقی یافتہ پیکر ہے، اور اس کا دماغ بھی زمین ہی کے مادّی اجزا سے بنا ہے۔ ایسی صورت میں جو مقدم ہے وہ مؤخر کا عکس کیسے ہو سکتا ہے۔ اب علمُ الاجسام نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ دماغ کی ساخت اور اس کا طریقہ کار کوئی پُراسرار معمہ باقی نہیں رہا، جس کو فلسفیانہ قیاس آرائیوں سے حل کیا جائے۔ اب تو معمولی ڈاکٹر بھی بتا سکتا ہے کہ ہمارا دماغ خارجی دنیا سے کس کس طرح اثر قبول کرتا ہے۔ نیز یہ کہ دماغ کے خلیوں اور شریانوں کا بقیہ جسم سے کیا تعلق ہے۔

    ہمارے اعصابی نظام کا محور دماغ (ریڑھ کی ہڈی) ہے۔ دماغ میں دس ارب سے سو ارب تک اعصابی خلیے ہوتے ہیں اور ہر خلیہ دوسرے خلیوں سے ایک ہزار ریشوں کے ذریعہ جڑا ہوتا ہے۔ جسم کے اندر اور باہر کی تمام اطلاعیں انہیں پیچ در پیچ راہوں سے شعور کی مختلف سطحوں تک پہنچتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے علم، حافظے اور خیال کی لاکھوں کروڑوں شکلیں انہیں اعصابی خلیوں کی مرہون منت ہیں۔ مثلاً آنکھ جس سے ہم دیکھتے ہیں اس کے بالائی پردے (RETINA) میں تیرہ کروڑ خلیے ہوتے ہیں جو خارجی اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ بالائی پردہ دس لاکھ سے زائد اعصابی ریشوں کے ذریعہ دماغ سے جڑا ہوتا ہے۔

    دماغ اپنا فریضہ انہیں اربوں اعصابی خلیوں کے ذریعہ سر انجام دیتا ہے۔ مثلاً فرض کیجئے کہ آپ کو چوٹ لگتی ہے۔ آلۂ ضرب جیوں ہی آپ کی کھال کو چھوئے گا کھال کے خلیوں میں ہیجان اٹھے گا۔ یہ ہیجان آپ کے مرکزی اعصابی نظام (دماغ اور ریڑھ کی ہڈی) میں دوڑ جائے گا اور آپ چوٹ کو آناً فاناً محسوس کر لیں گے۔ اگر آپ کو آلۂ ضرب کی نوعیت کا تجربہ ہے تو آپ کا دماغ یہ بھی بتا دے گا کہ چوٹ کس چیز سے لگی ہے۔ اور یہ ساری اطلاع تار برقی سے بھی کم وقت میں پل جھپکتے موصول ہو جائے گی۔ کسی اطلاع کی دماغ تک رسائی کی نوعیت برقی اور کیمیاوی ہوتی ہے۔

    سب سے پہلے انسان کے حسی اعضا آنکھ، کان، ناک، زبان اور کھال میں برقی ہیجانات پیدا ہوتے ہیں۔ ان ہیجانات کی بے شمار قسمیں ہوتی ہیں اور وہ بے حد پیچیدہ ہوتے ہیں، تب اعصابی خلیوں کو آپس میں ملانے والے ریشوں کے جوڑوں پر جو جھلی چڑھی ہوتی ہے یہ برقی لہر ان پر دوڑنے لگتی ہے۔ اس عمل سے ایک بہت ہی مختصر سا کیمیاوی ٹرانس میٹر خارج ہوتا ہے جو دوسرے خلیوں میں ہیجان پیدا کرتا ہے۔ اس طرح ایک اعصابی خلیے کا عمل دوسرے پر اور دوسرے کا تیسرے پر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اطلاع دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔

    انسان کو سب سے پہلے اپنے حسی ماحول کا شعور ہوا، یعنی اس ماحول کا جو بالکل ہی اس کے گرد و پیش تھا۔ پھر اس کو اس محدود رشتے کا شعور ہوا، جو اس کو دوسرے افراد یا اشیا سے قائم کرنے پڑے۔ اسی کے ساتھ اسے تھوڑا بہت اپنی ذات کا شعور بھی ہوا اور تب اسے موجودات عالم۔۔ ۔ نیچر۔۔ ۔ کا شعور ہوا لیکن اس وقت تک نیچر سے انسان کا رابطہ دراصل حیوانی رابطہ تھا۔ البتہ جب انسان کی ضرورتیں بڑھیں۔ اس نے ان ضرورتوں کی تسکین کے لئے آلات و اوزار بنائے، تقسیم کار نے رواج پایا اور جسمانی اور دماغی محنت کی تقسیم ہوئی تو اس غلط فہمی کی بنیاد پڑی کہ شعور گرد و پیش کے ماحول اور سماجی حالات زندگی سے الگ کوئی آزاد یا وجود بالذات حقیقت ہے۔ حالانکہ شعور ہمیشہ انسانوں کے ذہن سے باہر کی حقیقتوں کا شعور ہوتا ہے۔ خواہ یہ حقیقتیں مادی ہوں یا غیر مادی (انصاف، مساوات، جمہوریت وغیرہ) اور سماجی حالات کا پابند ہوتا ہے۔

    ہر تہذیب کا مخصوص نظام فکر و احساس ہوتا ہے۔ یہ نظام اس رشتے کی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے جو معاشرے کے افراد اور موجودات میں استوار ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کے حالات وجود جس سطح پر ہوں گے اس کے شعور کی سطح بھی وہی ہو گی۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور دوسرے انسانوں سے اس کا رابطہ جس قسم کا ہو گا، اس کے سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز، اور اس کے عقائد و رجحانات بھی اسی کے مطابق ہوں گے۔ جنگلی دور کے انسان میں خدائے واحد کا یا جنت دوزخ کا، یا یوم حشر کا شعور پیدا نہیں ہو سکتا تھا اور نہ قرون وسطیٰ کا انسان ارتقا، اضافیت، اور جوہری توانائی کے نظریے دریافت کر سکتا تھا۔

    یہ تغیرات آلات و اوزار اور سماجی روابط میں تبدیلی کی وجہ سے آتے ہیں۔ دراصل نظام فکر و احساس کی تبدیلی خود اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ معاشرے کی تخلیقی اساس اب وہ نہ رہی جو پہلے تھی۔ مثلاً پتھر کے زمانے کی تہذیب کو لیجئے۔ اس وقت انسان تیر کمان، بلم بھالے سے شکار کر کے یا خود رو درختوں کے پھل پھول کھا کر ہی اپنی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔ وہ مادے کی ہیئت (پتھر کی نکیلی انیاں، کمان وغیرہ) اور کیفیت (لکڑی سے آگ) میں تھوڑی بہت تبدیلی کر لیتا تھا۔ اس نے اپنی روز مرہ کے سماجی تجربوں سے (قوتِ گویائی کی مدد سے) گرد و پیش کی چیزوں کے خواص معلوم کر لئے تھے اور ان کے نام بھی متعین کر لئے تھے لیکن وہ مظاہر قدرت کی حرکت کے اسباب و علل سے بالکل واقف نہ تھا اور نہ اس کو طبعی تبدیلیوں کے قوانین کا شعور تھا۔ مثلاً وہ تمام موجودات، دریا پہاڑ، سورج چاند، زمین آسمان، جانور درخت، آندھی، طوفان، سیلاب زلزلہ، اولے، بارش کو اپنی طرح فعال اور با ارادہ شخصیتیں سمجھتا تھا۔ چونکہ ان چیزوں سے اس کو ہر وقت سابقہ پڑتا تھا بلکہ اس کی زندگی کا انحصار ہی ان کے ’’طرز عمل‘‘ پر تھا۔ لہٰذا جو چیزیں اس کو سکھ دیتی تھیں ان کو وہ پسند کرتا تھا اور جو چیزیں اسے دکھ پہنچاتی تھیں ان سے وہ ڈرتا تھا (بعد میں یہی نیکی اور بدی، خیر و شر کی قوتیں قرار پائیں۔)

    چنانچہ ان کی تسخیر کے لئے وہ جادو منتر سے کام لیتا تھا یا ان کی رضا جوئی کے لئے عبادت اور ریاضت کرتا تھا۔ وہ حیات اور موت میں بھی تمیز نہیں کر سکتا تھا اور نہ اس کے ذہن میں موت کا کوئی تصور تھا۔ اس کا نظام فکر و احساس افزائش نسل اور اور افزائش خوراک کی ضرورتوں کے محور پر گھومتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مادہ جنس کو نَر جنس پر فوقیت دیتا تھا۔ کیونکہ اس کا مشاہدہ یہی کہتا تھا کہ انسان ہو یا جانور مادہ ہی کے پیٹ سے نئی نسل پیدا ہوتی ہے۔ اسپین اور فرانس کے غاروں میں پتھر کے زمانے کی جو دیواری تصویریں اور مجسمے ملے ہیں، ان سے اس دعویٰ کی پوری پوری تصدیق ہوتی ہے۔

    جہاں تک تحفظ ذات کا تعلق ہے، دور حاضر کے انسان نے بیشتر بیماریوں پر قابو پا لیا ہے اور علاج کے امتناعی و شفائی طریقوں نے بھی بہت ترقی کر لی ہے، لیکن ابتدائی انسان نہ تو بیماریوں کے اسباب سے واقف تھا اور نہ اس کو علاج کے طریقے آتے تھے۔ اس کو جڑی بوٹیوں، نمکوں اور دوسری نباتات و معدنیات کی شفا بخش تاثیر کا علم لاکھوں برس کے تجربے کے بعد ہوا ہے۔ اس تجربے کے کارن نہ جانے کتنوں کی جانیں گئی ہوں گی تب کہیں علم طب کی بنیاد پڑی ہو گی۔ اس بات کو ابھی پانچ چھ ہزار برس سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ چنانچہ کانسے کے زمانے میں بھی عام عقیدہ یہی تھا کہ بیماری کا باعث کسی رب النوع، کسی دیوی دیوتا یا جن بھوت کی خفگی ہے۔ اسی لئے لوگ دوا دارو کے بجائے جھاڑ پھونک، دعا تعویذ، نذر نیاز کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ یہاں تک کہ انجیل مقدس کے مطابق حضرت عیسیٰؑ بیماروں کے بدن سے بد روحیں نکال کر اپنی مسیحائی کے معجزے دکھاتے تھے۔

    عقائد کی سخت گیری کا عالم یہ ہے کہ آج بھی جب کہ سائنس نے تجربے سے ثابت کر دیا ہے کہ تمام ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے اسباب مادی ہوتے ہیں اور کوئی مافوق الفطرت طاقت ان خرابیوں کی ذمہ دار نہیں ہے، ہمارے ملک کے لاکھوں کروڑوں باشندوں کا ایمان ہے کہ پیروں فقیروں کے مزار پر منت ماننے یا دعا تعویذ سے بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔ بالخصوص پاگل پن، مرگی اور ہیسٹریا جیسی نفسیاتی اور اعصابی بیماریاں، جن کے باقاعدہ علاج کا ابھی تک ہمارے ملک میں مناسب انتظام نہیں ہے۔ شعور کی یہ پستی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے بیشتر علاقوں کے سماجی حالات اور پیداواری آلات میں کانسے کے زمانے سے اب تک بہت کم تبدیلی ہوئی ہے۔ زندگی پرانے ڈگر پر بدستور چل رہی ہے اور حاکم طبقوں کی برابر یہی کوشش ہے کہ لوگ سائنسی علم کی روشنی سے محروم رہیں اور توہم پرستیوں میں بدستور مبتلا رہیں۔

    کانسی کی تہذیبوں کا انداز فکر و احساس زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ کیونکہ کانسے کے دور میں پیداواری آلات و اوزار بہتر ہو گئے تھے۔ پیداوار اور آبادی بڑھ گئی تھی۔ کاموں کی تقسیم میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پتھر کے زمانے کا معاشرہ سفری اور شکاری معاشرہ تھا۔ کانسے کا معاشرہ حضری اور زرعی معاشرہ تھا۔ مصر، یونان، وادی دجلہ، وادی سندھ، وادی گنگ و جمن اور ایران کی پرانی تہذیبیں کانسے کی تہذیبیں تھیں۔ ان کے عظیم الشان تخلیقی کارناموں کو بیان کرنے کے لئے دفتر درکار ہوں گے۔ کانسے کے زمانے کا انسان ہل بیل کی مدد سے کھیتی باڑی کرتا تھا۔ اسے تجربے سے معلوم ہو گیا تھا کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔

    زمین کو جوتنے والے ہل، کمہار کا چاک، پہیہ دار گاڑیاں، سوت اور اون کاتنے کے چرخے اس دور کے پیداواری آلات و اوزار تھے۔ مٹی کے برتنوں کو آگ میں پکانا، دھاتوں کو پگھلانا، کپڑے بننا، عمارتیں بنانا، شہر بسانا اور مٹی کی لوحوں یا درخت کی چھالوں یا جانور کی کھالوں پر صوتی علامتوں کے نقوش بنانا (فن تحریر کی ایجاد) ان کے ہنر تھے۔ مختصر یہ کہ انسان پہلی بار کانسے کے دور ہی میں قسم قسم کی مادی تخلیقات پر خود قادر ہوا تھا۔ گویا پہلی بار صحیح معنی میں انسان بنا تھا۔

    اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے ورنہ ہم تفصیل سے بتاتے کہ کانسے کے زمانے کی تخلیقی سرگرمیوں کا اس دور کے نظام فکر و احساس سے کیا رشتہ ہے۔ اور اس دور کے عقائد، ذہنی رجحانات، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کس کس طرح اپنے سماجی حالات یعنی طرز معاشرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثلاً جب معاشرے میں طبقات قائم ہوئے اور ذاتی ملکیت نے رواج پایا اور معاشی اور سیاسی اقتدار مطلق العنان بادشاہوں، دربار کے امیروں اور پروہتوں کے ہاتھ میں آیا تو ان طبقوں نے اپنے معاشرتی نظام سے ملتا جلتا اور اس کے متوازی پوری کائنات کے نئے نئے عقیدوں نے رواج پایا۔

    جس طرح زمین پر بادشاہوں کی مطلق العنان حکومت تھی، اسی قسم کی مطلق العنان حکومت آسمان پر بھی قائم کی گئی۔ جس طرح زمین پر عام انسانوں کی زندگی اور موت بادشاہ کے اختیار میں تھی اور اس کی تقدیر کا فیصلہ حاکم وقت کرتا تھا، اسی طرح کا اختیار کائنات کے قادر مطلق خداؤں زیوس، رَع، مردوک، بَعل، اہومزوا، ایشور وغیرہ سے منسوب کیا گیا۔ جزا سزا، دوزخ جنت، ملائکہ اور مقربین، شیاطین اور بھوت پریت، حساب و کتاب، حشر و نشر، میزان اور عدالت، غرض کہ افکار و عقائد کا ایک باقاعدہ نظام مرتب ہو گیا، جو غور سے دیکھا جائے تو اس دور کی مطلق العنان بادشاہوں کا ہوبہو چربہ نظر آئے گا۔ شعور کی کمی کے باعث انسان عالمِ موجودات کی سائنسی توجیہ و تشریح نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا اس نے کائنات کے نظام عمل کو بھی اپنے سماجی نظام کے حوالے سے دیکھا۔ سماجی نظام کے چربے یا عکس کو اصل خیال کیا اور جو اصل حقیقت تھی، اسے نظام کائنات کا چربہ یا عکس سمجھا۔

    اسی طرح کانسی کے دور کی نظموں اور داستانوں میں، گیتوں اور گانوں میں، مجسموں اور رنگین تصویروں میں غرضیکہ تمام ذہنی اور حسی تخلیقات میں لوگوں کی طرز زندگی کا، جذبات و خواہشات کا، ان کے غموں اور خوشیوں کا، پسند اور ناپسند کا، عادات و اطوار کا، عشق و محبت کی قلبی واردات کا، اخلاق اور آداب کا بڑا دلکش اور خیال آفریں نقشہ ملتا ہے۔

    ہر معاشرے کا نظامِ فکر و احساس سماجی شعور کے تابع ہوتا ہے اور یہ سماجی شعور سماجی حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً انسان ہزاروں سال سے یہی یقین کرتا چلا آتا تھا کہ کائنات کا مرکز و محور زمین ہے اور چاند سورج زمین کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ زمین فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے۔ ہماری آنکھیں بھی اس عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ اس عقیدے کی بنیاد ہی ذاتی مشاہدہ پر تھی۔ اگر کوئی دانشور ان عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا تھا کہ سورج چاند کی گردش ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ دراصل زمین گھومتی ہے تو اسی پر کفر و الحاد کے فتوے لگائے جاتے تھے۔ اس کو آگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ البتہ جب دور بین، خورد بین اور اسی نوع کے دوسرے آلات ایجاد ہوئے تو ثابت ہو گیا کہ یہ سارا نظام بطلیموسی جس کی صداقت مقدس کتابوں سے ثابت کی جاتی تھی، واقعی قیاس آرائی اور نظر کا دھوکہ تھا۔

    پھر رفتہ رفتہ اور آلات ایجاد ہوئے اور انسان نے اپنے تجربے سے معلوم کر لیا کہ بارش سیلاب، آندھی طوفان، بجلی زلزلے، خشک سالی سب کے مادی اسباب ہیں اور ان کی بابت وثوق سے پیشن گوئی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی پتہ چل گیا کہ زمین، چاند، سورج اور دوسرے مظاہر قدرت مادے کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان کی حرکت کے مادی قانون ہیں اور یہ کہ مادہ فنا نہیں ہوتا بلکہ جون بدلتا رہتا ہے۔ ان انکشافات و ایجادات سے انسان کے افکار و عقائد میں جو عظیم انقلاب آیا وہ اظہر من الشمس ہے۔

    یہی حال تخلیق کے عقیدے کا ہے کہ ہر مذہب کی اساس اس پر قائم ہے۔ عقیدۂ تخلیق کے اہم نکتے دو ہیں۔ اوّل یہ کہ موجوداتِ عالم مخلوق ہیں یعنی وہ از خود عدم سے وجود میں نہیں آئے بلکہ ان کا کوئی خالق ضرور ہے۔ دوم یہ کہ یوم تخلیق سے آج تک یہ تمام اشیاء- جانور، انسان، نباتات، جمادات، جوں کی توں موجود ہیں۔ ان میں ابد تک کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ یوں تو عہد قدیم کے متعدد یونانی، لاطینی اور ہندوستانی مفکر (ہیراک لاٹی ٹوئس، لوکری شیش، گوتم بدھ، چار واک وغیرہ) ان عقیدوں کو نہیں مانتے تھے لیکن عقلی دلائل کے علاوہ ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت انکار کے حق میں نہ تھا۔ البتہ ۱۹ویں صدی میں جب ڈارون اور دوسرے سائنسدانوں نے ارتقا کا نظریہ پیش کیا اور ٹھوس شواہد اور آثار سے ثابت کیا کہ حیوانوں کو کسی نے خلق نہیں کیا ہے اور نہ وہ ازل سے یکساں موجود ہیں بلکہ ان میں نوعی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں اور جانوروں نے بشمول انسان ارتقاء کے مختلف ادوار سے گزر کر موجودہ شکل اختیار کی ہے تو انسان کے افکار و عقائد میں بھی بڑی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔

    اوپر کی باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے افکار و احساسات آسمان سے نہیں ٹپکتے اور نہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں بلکہ تہذیب کے دوسرے عوامل کی طرح سماجی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہر تہذیب کے نظام فکر و احساس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور ان تبدیلیوں کا باعث سماجی حالات میں تغیرات ہیں لیکن سماجی حالات اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک خود معاشرے کے اندر کوئی ایسی سماجی قوت نہ ابھرے جو ان حالات کی نفی کرتی ہو۔

    اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خیالات ہمارے ذہن کی فقط انفعال یا مجہول کیفیت ہوتے ہیں یا وہ ہمارے طرز عمل یا معاشرے پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ حقیقت یہ ہے کہ خیالات میں بڑی طاقت، بڑی توانائی ہوتی ہے۔ خیالات انسان کی قوت عمل کو حرکت میں لاتے ہیں۔ اس کی سرگرمیوں کا رخ متعین کرتے ہیں۔ اس میں ایمان، یقین اور ولولہ پیدا کرتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کا فلسفہ متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ مگر جوں ہی ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ فلاں فلسفہ دسویں صدی میں کیوں نمودار ہوا، دوسری صدی میں انسانوں کے ذہن میں کیوں نہیں ابھرا، یا فلاں نظریہ انیسویں صدی میں کیوں نمودار ہوا، پانچویں صدی میں کیوں نہ ابھرا تو پھر ہم کو لازمی طور پر اس مخصوص صدی میں انسان کے حالات زندگی کو جانچنا پڑتا ہے۔ ان کی ضروریات زندگی کیا تھیں، وہ ان ضرورتوں کو کس طرح پورا کرتے تھے، ان کے پیداواری عناصر اور آلاتِ پیداوار کیا تھے اور ان کے معاشرے میں انسان انسان کے درمیان کیا روابط تھے اور جب ہم ان سوالوں کے جواب پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنی تاریخ کا مصنف بھی ہے اور تاریخ کے ڈرامے کا اداکار بھی۔

    (اردو کے نامور ترقی پسند دانش ور، صحافی اور ادیب سبطِ حسن کی مشہور تصنیف قومی تہذیب سے اقتباس)

  • قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    غار افسانہ بھی ہیں اور تاریخ بھی۔

    وہم کی آنکھوں سے دیکھو تو ان غاروں میں ہر سمت موت کے مہیب سائے ناچتے نظر آئیں گے۔ آدم خور دیوؤں کی چنگھاڑیں، بیتالوں اور بھوتوں کے خوف ناک قہقہے، چمگادڑوں کے روپ میں ادھر ادھر اڑتی ہوئی بدروحیں اور پچھل پائیاں۔منھ سے آگ اگلنے والے اژدہے اور انہیں کے آس پاس بھٹوں میں چھپے ہوئے شیر، بھالو، بھیڑیے، ڈاکو اور راہ زن۔ غرض روایت نے غاروں کے ان دہشت ناک باشندوں کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں۔

    1940ء: جب چار لڑکوں نے زمین پر ایک حیرت انگیز مقام دریافت کیا

    وہ غار ہی تھا جس میں کانے دیو نے ہومر کے ہیرو اوڈیسیس کو ساتھیوں سمیت قید کیا تھا اور چالاک اوڈیسیس نے دیو کو نشہ پلایا تھا اور جب دیو مدہوش ہوگیا تھا تو اس کی آنکھ میں لوہے کی گرم سلائی پھیر دی تھی اور بھیڑ کے پیٹ سے لپٹ کر غار سے فرار ہوا تھا اور وہ بھی غار تھا جس میں علی بابا کے بھائی کو دولت کی ہوس لے گئی تھی مگر وہ ’’کھل جا سم سم‘‘ کا طلسمی کلمہ بھول گیا تھا اور ڈاکوؤں نے اسے قتل کرنے کے لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔

    مگر تاریخ کی آنکھ سے دیکھو تو یہی غار انسان کی قدیم ترین پناہ گاہ نظر آئیں گے جہاں اس نے اپنی 25، 30 لاکھ سالہ زندگی کی بیش تر مدت بسر کی ہے۔ وہیں اس نے افزائشِ نسل کے راز سیکھے، موسم کی سخت گیریوں سے بچنے کے طریقے وضع کیے، آگ جلانے کے تجربے کیے، اور اس طرح تسخیر قدرت اور کیمیاوی عمل کے ایک ایسے انقلابی راز سے آگاہ ہوا جس نے آگے چل کر اسے اقلیمِ ارض کی فرماں روائی عطا کی۔

    یہ غار اس کے اوّلین مولد و مسکن بھی تھے اور معبد و مقابر بھی۔ یہاں پہنچ کر وہ تمام ارضی و سماوی آفتوں سے محفوظ ہو جاتا تھا۔ یہ غار رحمِ مادر سے بھی کسی قدر مشابہ تھے۔ اپنی ظاہری شکل میں بھی اور باطنی کیفیت میں بھی۔ وہی پُراسرار تاریکی، وہی پیچ وخم اور امن وعافیت کا وہی احساس۔

    مگر انسان کی فراموش طبعی دیکھو کہ لاکھوں سال ان غاروں میں رہنے کے بعد جب اس نے یہ مسکن ترک کیے اور جھونپڑے، گاؤں اور شہر بسائے تو پھر ان غاروں کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں ایسا بھولا گویا ان سے کبھی وابستہ ہی نہ تھا۔ غاروں کے دہانے، چٹانوں، مٹی کے ملبوں اور جنگلی جھاڑیوں سے پٹ گئے۔ ان کی تلخ اور شیریں یادیں ذہنوں سے محو ہو گئیں اور آنے والی نسلیں اس حقیقت سے بھی واقف نہ رہیں کہ ان کے آباء و اجداد کبھی غاروں میں رہتے تھے۔

    وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے۔ رومۃ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہو گیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ و جلال سے لہرائے اور سرنگوں ہوگئے۔ مغربی علوم کی روشنی دور دور تک پھیلی مگر انسانی تہذیب کے اوّلین گہواروں میں اندھیرا ہی رہا۔

    پھر یوں ہوا کہ انیسویں صدی کی ایک روشن سہ پہر میں اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک کتّا ایک لومڑی کا پیچھا کرتے کرتے ایک بھٹ میں گھس گیا۔ کتے کا مالک مارسیلوو اساؤ تولا کتّے کو نکالنے کی غرض سے بھٹ میں اترا تو پتہ چلا کہ اندر اچھا بڑا غار ہے۔ مار سیلوو اساؤ تولا کو آثارِ قدیمہ کا شوق تھا۔ اس نے غار کو کھودنا شروع کیا کہ شاید اس کے اندر پرانے زمانے کی کچھ چیزیں مل جائیں۔ ایک دن وہ غار میں اترا تو اس کی کمسن بچّی ماریا بھی اس کے ہمراہ تھی۔ ساؤتولا غار کھودنے میں مصروف ہوگیا اور ماریا پتھر کے ٹکڑوں سے کھیلنے لگی۔ دفعتاً ساؤتولا نے ماریا کی چیخ سنی۔ ’’تورو، تورو (بیل بیل) ساؤ تولا بچی کی طرف لپکا مگر وہ حیران تھا کہ اس تنگ غار میں بیل کہاں سے آئے۔ وہ ماریا کے پاس پہنچا تو ماریا غار کی چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ ساؤتولا کو جب بیل کہیں نظر نہ آئے تواس نے بچّی سے پوچھا اور تب بڑی مشکل سے اس کی آنکھوں نے وہ نظارہ دیکھا جسے بیس ہزار سال سے کسی انسان نے نہ دیکھا تھا۔ سرخ اور سیاہ رنگ کے بیلوں کی ایک لمبی قطار تھی جو چھت پرایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ التمیرا کا غار تھا جس میں قدیم حجری انسان نے اپنی فن کاری کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کو ساؤتولا نے 1879ء میں اتفاقاً دیکھ لیا۔

    ساؤتولا نے غار کی دیواروں کو غور سے دیکھا تو کہیں رنگین بھنسیے اور بیل بنے ہوئے، کہیں جنگلی سور، کہیں ہرن اور چیتل، کہیں ہاتھ کے چھاپے۔ شمار کیا تو اس نگار خانے میں جانوروں کی 170 تصویریں تھیں۔ ان کے رنگ اس قدر شوق اور روشن تھے گویا یہ تصویریں ابھی کل بنی ہوں۔ ساؤتولا نے اپنے اس حیرت انگیز انکشاف کا اعلان اخباروں میں کیا اور آثارِ قدیمہ کے ماہروں سے درخواست کی کہ وہ آکر غار کا مطالعہ کریں لیکن دانایانِ مغرب نے ساؤتولا کا مذاق اڑایا۔ کسی نے کہا یہ اسکول کے لڑکوں کا کھلواڑ ہے۔ کسی نے کہا مقامی چرواہوں نے اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر مویشیوں کی تصویریں بنائی ہوں گی۔ بعضوں نے کہا کہ غریب ساؤتولا نے میڈرڈ کے کسی مصوّر سے ساز باز کیا ہوگا۔ تجارت اور شہرت کی خاطر۔ غرض کہ نہ حکومت نے ان دیواری تصویروں کی طرف توجہ کی اور نہ ماہرینِ فن نے اس غار کو درخورِ اعتنا سمجھا۔ بے چارہ ساؤتولا خاموش ہو رہا ہو۔

    یہ درست ہے کہ التمیرا کی دریافت سے بہت پہلے آثار قدیمہ کے ماہروں کو عہد قدیم کے پتھر کے اوزار، ہاتھی دانت کے ٹکڑوں پر کھدے ہوئے نقوش اور سیپ اور ہڈی کے زیورات دست یاب ہو چکے تھے۔ مثلاً بروئیلے (Brouillet) نامی ایک فرانسیسی ماہر کو سوینی (ِِSavigny) کے مقام پر ہڈی کا ایک ٹکڑا انیسویں صدی کی ابتدا میں ملا تھا۔ اس ٹکڑے پر دو ہرن کندہ تھے۔ کلونی کے عجائب گھر نے 1851ء میں ہڈی کے اس منقوش ٹکڑے کو حاصل کر لیا تھا مگر کسی کو اس کی قدامت پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔

    اسی طرح 1833ء میں میئر Mayor نامی ایک انگریز محقق کو ہڈی کی ایک چھڑی ملی تھی جس کے ایک رخ پر ایک گھوڑا کندہ تھا اور دوسری طرف ایک پودا بنا تھا۔ 1852ء میں آری ناک (فرانس) کے مقام پر ہڈیوں کا ایک ہار اور ہیڈ اور ہاتھی دانت کے چند زیورات بھی دریافت ہوئے تھے۔ ایڈوارڈ لارتیت کو مسات Massat کے مقام پر بارہ سنگھے کی ہڈی پر ریچھ کا سر کھدا ہوا ملا تھا اور 1863ء میں اسے وزیر ندی کی وادی میں جو پیرس سے ڈھائی سو میل جنوب مغرب میں واقع ہے متعدد چھوٹی چھوٹی چیزیں اور آلات و اوزار دستیاب ہوئے تھے۔ چنانچہ 1864ء میں اس نے ان دریافتوں پر ایک مختصر سا رسالہ فرانسیسی زبان میں شائع بھی کیا تھا۔ اسی سال اس کو مارلین (فرانس) کے مقام پر میمتھ کا ایک دانت ملا تھا جس پر نہایت باریک خطوں میں اس ناپید جانور کی شکل کندہ تھی۔

    یہ تو خیر چھوٹی چھوٹی منقولہ اشیا تھیں جن سے قدیم انسان کی فن کاری کا کوئی واضح تصور قائم کرنا قدرے دشوار تھا، مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ التمیرا سے پیش تر دنیا کے مختلف گوشوں میں چٹانوں پر اور غاروں میں جو تصویریں اور نقوش ملے، ان کی تاریخی اہمیت کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ مثلاً 1837ء میں سر جارج گرے نے آسٹریلیا کی سیاحت کے دوران اقلیدسی انداز کی بڑی پراسرار رنگین تصویریں کمبرلے کی کوہستانی پناہ گاہوں میں دریافت کی تھیں۔ 1848ء میں جھیل اورنیگا (روس) کے مشرقی ساحل پر غاروں میں متعدد نقوش دیواروں پر کھدے ہوئے ملے تھے۔ یہ وہیل مچھلی، بارہ سنگھے اور ایلک کے نقوش تھے۔ انہی دنوں سٹو (Stowr) کو جنوبی افریقہ کی چٹانوں پر اقلیدسی انداز کی مصوّری کے چند نادر نمونے نظر آئے تھے اور اس نے ان کو بڑی محنت سے نقل کر لیا تھا مگر یہ نقش و نگار تہذیب کے اصل مرکز یعنی یورپ سے بہت دور پسماندہ علاقوں میں پائے گئے تھے۔ ان کو نہ تو ایک رشتے میں جوڑا جا سکتا تھا اور نہ تہذیبِ انسانی کی ارتقائی تاریخ مرتب کرنے میں ان سے مدد مل سکتی تھی۔ کم سے کم اس دور کے دانشوروں کا یہی خیال تھا۔

    ساؤتولا کے دس سال بعد موسیو شیرون (cheron) نے شیوت (Chabot) (فرانس) کے غار کی تفصیلات شائع کیں، اس غار کا سراغ انہوں نے کئی سال پیشتر لگایا تھا، لیکن ان کا حشر بھی وہی ہوا جو ساؤتولا کا ہو چکا تھا۔

    انیسویں صدی کے اختتام کو ابھی پانچ سال باقی تھے کہ ایک اور مصوّر غار لاموتھ (فرانس) کے مقام پر دریافت ہوا، وہ بھی اتفاقاً۔ ایک کاشت کار اپنے مویشیوں کے لیے ایک پہاڑی پناہ گاہ صاف کررہا تھا کہ اچانک غار کا دہانہ کھل گیا۔ گاؤں میں یہ خبر پھیلی تو چند نڈر لڑکوں نے غار میں اترنے کی ٹھانی۔ انہوں نے موم بتیاں لیں اور غار میں گھس گئے۔ واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ غار کی دیواروں پر جا بجا گھوڑے، بیل، بارہ سنگھے، گینڈے، بیسن اور بیسن سے بھی بڑے بڑے جانوروں کی تصویریں بنی ہیں۔

    چند سال بعد اسی غار کے نواح میں ایک پورا نگار خانہ ملا جس میں دو سو دیواری تصویریں موجود تھیں۔ یہ فونت دے گام کا مشہور غار تھا جو ستمبر 1901ء میں دریافت ہوا۔ اسی دوران میں مشرقی اسپین کی کھلی چٹانوں پر رنگین تصویروں کے آثار دیکھے گئے۔ ان تصویروں میں غلبہ جانوروں کا تھا، مگر ہیئت میں یہ تصویریں التمیرا اور فونت دے گام سے مختلف تھیں لیکن کتابی علم کا غرور اور پندار کی بےاعتنائی کہیے کہ دانشور ان روشن نشانیوں کو بھی جھٹلانے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ فرانس میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اس میں ان جدید دریافتوں پر بحث کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔

    مگر حقیقت سے بہت دن تک چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیر سویر ماننا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1902ء کو ماہروں کا ایک گروہ ایبے بروئیل کے اصرار پر پہلی بار التمیرا کے غار میں داخل ہوا۔ اس مہم کا ذکر کرتے ہوئے ایبے بروئیل لکھتا ہے کہ روشنی کے لئے ہمارے پاس فقط موم بتیاں تھیں مگر اس نیم تاریک ماحول میں بھی ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ غار میں نمی تھی اس لیے سقفی تصویروں کا چربہ نہیں لیا جاسکا تھا کیوں کہ رنگ گیلا تھا اور کاغذ پر چپک جاتا تھا۔ چربہ لینے کے معنی ان تصویروں کو ضائع کرنے کے ہوتے لہٰذا ایبے بروئیل نے ان کو ہو بہو نقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ’’میں روزانہ آٹھ گھنٹے زمین پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ان تصویروں کو نقل کرتا جو چھت پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘ ایبے بروئیل نے یہ کام تین ہفتے میں مکمل کر لیا مگر کوئی پبلشر التمیرا کے اس رنگین مرقعے کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایبے بروئیل نے پرائیویٹ امداد سے التمیرا پر ایک مصور کتاب 1908ء میں شائع کی۔

    ان حجری فن پاروں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ایبے بروئیل جیسا دھن کا پکا اور لگن کا سچا فن کار مل گیا۔ ایبے بروئیل نے اپنی زندگی حجری فن پاروں کی نقل اور تفتیش و تحقیق کے لیے وقف کر دی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس میں موجود ہے کہ اس سے کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔

    اب چراغ سے چراغ جلنے لگا۔ غاروں کی دریافت نے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ ہر سال ایک نہ ایک مصوّر غار کا سراغ ملتا۔ کبھی اسپین اور فرانس میں، کبھی جرمنی اور اٹلی میں، کبھی روس اور چیکو سلواکیہ میں، کبھی سویڈن اور ناروے میں۔ آخری غار وہ ہے جو Baumed Dullins کے مقام پر مارچ 1951ء میں دریافت ہوا۔ اس سے پیشتر ایک نہایت اہم غار لاسکا میں ستمبر 1940ء میں دو لڑکوں نے دریافت کیا تھا۔

    (اقتباس: زندگی کی نقش گری از سید سبط حسن)

  • بیگانگی سے کیا مراد ہے؟

    بیگانگی سے کیا مراد ہے؟

    معاشرے میں طبقات اور اس کی بنیاد پر دولت، مقام و مرتبہ، مادّی وسائل، سہولیات، مراعات، آسائشوں وغیرہ کی تقسیم میں ناانصافیاں، عدم توازن اور جانب داری کسی بھی قوم یا کم تر طبقے کو افراتفری، انتشار اور غم و غصّے کا شکار کردیتی ہے جس کی نشان دہی مختلف ادوار میں فلاسفہ، ماہرینِ عمرانیات اور دانش ور اپنی تقاریر اور تحاریر میں کرتے رہے ہیں۔

    آج ہمارا معاشرہ بھی اسی امتیاز، تفریق، عدم توازن اور ناانصافی کی لپیٹ میں ہے جس نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ سبطِ حسن معروف ترقّی پسند ادیب، صحافی اور دانش وَر تھے جن کے ریاست اور عوام سے متعلق افکار اور نظریات کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت آج زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ اس موضوع پر ان کی ایک تحریر سے اقتباس پیش خدمت ہے۔

    وہ لکھتے ہیں:

    بیگانگی یا مغائرت نفسیات کی پرانی اصطلاح ہے۔

    اس سے مراد تشخصِ ذات کا زیاں ہے، یعنی حالاتِ زندگی سے پیدا ہونے والی وہ ذہنی کیفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے انسانوں سے اپنے معاشرتی ماحول کو حتّٰی کہ خود اپنی قوّت، محنت اور محنت کی پیداوار کو بیگانہ اور غیر سمجھنے لگتا ہے۔

    شخصیت کی یہ توڑ پھوڑا اور بشریت کا یہ ضیاع معاشرے کے طبقات میں تقسیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ جب تک طبقے وجود میں نہیں آئے تھے بلکہ قبیلوں کی نوعیت ایک بڑے گھرانے کی تھی، معاشرہ ایک سالم وحدت تھا۔ فرد کی شخصیت معاشرے کی اجتماعی شخصیت کا اٹوٹ انگ تھی اور اُس کا تخلیقی عمل معاشرے کے تخلیقی عمل کا ایک جُزو تھا۔ اُس سے پوری طرح ہم آہنگ۔

    موجودہ سرمایہ داری نظام میں طبقاتی تفریق کے باعث بیگانگیٔ ذات کے عمل نے بڑی شدّت اختیار کر لی ہے اور معاشرہ میں بے یقینی، ناآسودگی اور ذہنی انشار وبا کی صورت میں پھیل رہا ہے۔