Tag: سبق آموز واقعات

  • اگر میں گالیاں قبول نہ کروں تو…؟

    اگر میں گالیاں قبول نہ کروں تو…؟

    خیر اور شر کے درمیان کھینچا تانی اور لڑائی روزِ اوّل سے ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ انسان نے صدیوں‌ سے اس زمین پر رہتے ہوئے فطرت اور اس کے مظاہر میں‌ غور و فکر کیا اور اپنی جبلّت و بشری کم زویوں کو بھی سمجھا اور یہ جانا کہ وہ اپنی کج روی، حسد اور نفرت کے سبب کئی خرابیوں‌ کو جنم دے چکا ہے۔ ہر عہد میں دانا و بینا لوگ اور اہلِ خرد ہم تک سبق آموز واقعات، حکمت کی باتیں پہنچاتے اور ہمیں نصیحت کرتے رہے ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کے بعد آج کتابوں‌ میں محفوظ ہیں۔

    یہاں ہم ایک ایسی ہی نصیحت نقل کر رہے ہیں جو آپ کی توجہ کا باعث بنے گی۔

    کہتے ہیں کہ ایک شخص کسی بزرگ کے پاس گیا۔ وہ نجانے کس بات پر غصہ سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے بزرگ گالیاں دینا شروع کر دیں۔ وہ خاموشی سے اس کے چپ ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ جب وہ شخص اپنی بھڑاس نکال چکا اور گالیاں دینا بند کر دیں تو بزرگ نے بہت شائستگی سے اسے مخاطب کیا:

    ”اے بیٹے! مجھے ایک بات کا جواب دو کہ اگر کوئی شخص تمہیں تحفہ دے اور تم اس سے وہ تحفہ لینے سے انکار کر دو تو تحفہ کس کے پاس رہے گا؟“

    اس شخص نے بڑی رکھائی سے جواب دیا کہ ”یہ بھی کوئی دریافت کرنے والی بات ہے، وہ یقیناً اسی شخص کے پاس رہے گا جو اسے تحفہ دینا چاہتا تھا۔“

    بزرگ مسکرائے اور صرف اتنا کہہ کر منہ پھیر لیا ”بیٹے! میں نے بھی تمہاری گالیاں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

  • فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    کہتے ہیں، ایک بادشاہ کسی باغ کی سیر کو گیا۔ وہاں اپنے مصاحبوں کے درمیان وہ خوش و خرم بیٹھا جو اشعار پڑھ رہا تھا ان کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ دنیا میں مجھ جیسا خوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔

    اتفاق سے ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں ایسا شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں‌ تھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟

    یہ آواز بادشاہ کے کانوں میں پڑی تو اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ واقعی فقیر کا کرتہ نہایت خستہ تھا اور اس کا دامن تار تار تھا۔ اس کی یہ بات سن کر بادشاہ ایک لمحے کو جیسے لرز کر رہ گیا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخش دیا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر اپنا دکھڑا پھر رونے لگا۔

    کسی نے بادشاہ کو اطلاع کی کہ وہی فقیر اب محل کے اطراف گھومتا رہتا ہے اور آپ کو اپنی حالت پر متوجہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ بادشاہ کو فقیر پر غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا۔

    جو شخص دن میں جلاتا ہے شمعِ کا فوری
    نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

    بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہم درد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضورِ والا نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور، اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔ وزیر نے بادشاہ کے سامنے یہ خوب صورت اشعار پڑھے اور فقیر پر رحم کرنے کی درخواست کی۔

    دیکھا نہیں کسی نے پیاسے حجاز کے
    ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
    آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
    پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر

    سبق: شیخ سعدی سے منسوب اس حکایت میں دو امر غور طلب ہیں۔ ایک طرف تو فضول خرچی اور روپے پیسے کے سوچے سمجھے بغیر استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اسے غلط بتایا ہے جب کہ مال و دولت رکھنے والوں کو کہا گیا ہے کہ جذبات میں آکر نادان اور کم عقل لوگوں پر مال نہ لٹائیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر ضرورت کے مطابق ہی غریبوں کی امداد کریں، لیکن انھیں دھتکارنا درست نہیں ہے کہ وہ مال داروں کی طرف نہ دیکھیں‌ تو کہاں‌ جائیں گے؟ یہ حکایت بتاتی ہے کہ جو لوگ کسی کی بخشش اور خیرات کو بلا ضرورت اور ناجائز صرف کرتے ہیں، ایسی ہی تکلیف ان کا مقدر بنتی ہے۔

  • سوکھے میوے کا پکھراج

    سوکھے میوے کا پکھراج

    دلّی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔

    ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہندو گھرانے میں گنڈوڑے( ایک قسم کی میٹھی ٹکیاں) بانٹنے کا چلن تھا۔ یہ چلن آج بھی ہے۔ ان دنوں جب بیٹے کی شادی ہوتی تھی تو گنڈوڑے چاندی کے کٹوروں میں بانٹے جاتے تھے، گنڈوڑوں کے اوپر کچھ لگایا جاتا تھا۔ رئیسوں میں ایک دوسرے سے بازی مار لینے کی ایک دوڑ سی لگی رہتی تھی۔

    لالہ سیتا رام جی اس سوچ میں بیٹھے تھے کہ گنڈوڑوں پر کیا لگایا جائے۔ اپنی ساکھ دیکھ کر وہ طرح طرح کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہے۔ پھر دل میں فیصلہ کر کے وہ اپنی ماں کے پاس گئے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خاندان کے خزانے میں اضافہ کیا تھا۔ ہلکا سا فخر کا احساس بھی ان کے جسم میں سننی پیدا کر رہا تھا۔

    وہ بہت سنبھل کر بولے۔ ’’اماں سوچ رہا ہوں کہ گنڈوڑوں کے سروں پر اشرفی لگا دی جائے۔‘‘ لالہ سیتا رام کے چہرے پر فخر کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ماں یہ سن کر حیران رہ جائے گی کہ اس کے بیٹے کی آج اتنی شان و شوکت ہے کہ وہ گنڈوڑوں پر اشرفیاں چپکا کر برادری میں تقسیم کرائے گا۔

    لالہ سیتا رام پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئے، لیکن بوڑھی ماں اندر چلی گئی۔ لالہ بے قراری کے عالم میں بیٹھے یہی سوچتے رہے۔ ’’ماں اندر کیوں چلی گئی؟ کیا اسے میری بات اچھی نہیں لگی! کہیں وہ یہ تو نہیں سوچ رہی کہ گھر کی نجانے کتنی اشرفیاں گنڈوڑوں کے ساتھ بٹ جائیں گی۔ وہ ایک عجیب سی ادھیڑ بن میں بیٹھے رہے۔ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد ان کی ماں باہر آئی۔ ہاتھ میں سونے کا ایک بڑا تھال تھا۔ جس میں پانچ چھ گنڈوڑے رکھے تھے۔ گنڈوڑے بہت پرانے تھے۔ بالکل پتھر کی طرح سخت!

    ماں نے گنڈوڑے لالہ سیتا رام کے سامنے رکھ دیے اور کہا۔ ’’ہمارے خاندان کے بزرگ اتنی طرح کے گنڈوڑے پہلے ہی تقسیم کرا چکے ہیں۔ اب کوئی نئی بات سوچی جائے تو ہم دونوں بیٹھ کر صلاح کرتے ہیں۔ لالہ سیتا رام نے پرانے گنڈوڑوں کو اٹھا کر دیکھا۔ کسی میں موتی جڑے تھے تو کسی میں دیگر جواہرات۔ چند ایک میں سونے کی پرانی اشرفیاں اور مہریں لگی تھیں۔

    ماں ٹکٹکی لگائے لالہ سیتا رام کی طرف دیکھتی رہی۔ لالہ سیتا رام کی انا کی دیوار ایک جھٹکے سے گر پڑی۔ انہیں پتہ لگا کہ خاندان میں‌ ان سے بھی بڑھ کر امیر و کبیر تھے۔ وہ سٹپٹاتے ہوئے ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کی ماں اچانک مسکرا اٹھی۔ بولی۔ ’’بیٹا! تمہیں تو کوئی ایسی چیز گنڈوڑوں پر لگانی چاہیے کہ دلّی والے ہمیشہ تمہیں یاد رکھیں۔‘‘ لالہ سیتا رام نے سوکھے گلے سے کہا۔ ’’تمہیں بتلاؤ، ماں اب کیا کیا جائے۔‘‘

    بوڑھی ماں نے قریب آکر سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! امیروں کی اس دوڑ میں درمیانے لوگ ناحق پس جاتے ہیں۔ ہمیں جھوٹی عزت اور کھوکھلے اہنکار کا ڈھونگ بھی کھائے جاتا ہے اور اپنی حیثیت سے باہر بھی کام کر جاتے ہیں۔ میری صلاح یہ ہے کہ تم اس بار گنڈوڑوں پر کشمش لگاؤ۔ سوکھے میوے کا پکھراج ہی تو ہے۔ چھوٹے بڑے سب دم سادھے بیٹھے ہیں کہ دیکھو اب کی بار لالہ سیتا رام گنڈوڑوں پر کیا ٹانکتے ہیں اور تمہاری آج کی کرنی ہی کل کے رواج کی لکشمن ریکھا بن جائے گی۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ماں نے کہا۔ ’’اس میں تمہارا بڑا پن ہوگا بیٹا! آج سے یہ دوڑ بھی ختم ہوجائے گی۔ دلّی کے امیر اور غریب سب سکھ کا سانس لیں گے اور تمہاری ہمیشہ واہ واہ ہوگی۔

    لالہ سیتا رام نے گنڈوڑوں پر کشمش ہی لگوائی۔ جب گنڈوڑے بانٹے گئے تو لالہ سیتا رام نے یہ آواز بلند کہا۔ ’’میں نے گنڈوڑوں پر قدرت کا بیش قیمت جواہر لگوایا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قدرت کی گود میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے رواج کا آج بھی دلّی میں چلن ہے۔ امیر غریب سب گنڈوڑوں پر کشمش ہی ٹانک کر بانٹتے ہیں۔

    (سماجی اصلاح کی غرض سے لکھی گئی ایک خوب صورت کہانی)

  • استاد کی شکست (ایک سبق آموز کہانی)

    استاد کی شکست (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی اسکول کے طلباء ایک روز کرکٹ کے میدان میں‌ جمع تھے۔ انھیں اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے استاد کو بھی میدان میں اترنے کی دعوت دیں، کیوں کہ وہ کرکٹ کے کھیل کا بہت شوق رکھتے تھے اور انھیں کئی ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے ریکارڈ اور ان کے بارے میں بہت سی معلومات بھی تھیں۔ طلباء دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے استاد خود کتنے اچھّے کھلاڑی ہیں۔

    چند لڑکے اپنے استاد کے پاس گئے اور انھیں کہا، سَر آج آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں۔ استاد نے فوراً ہامی بھر لی اور ان کے ساتھ میدان میں چلے آئے۔

    کھیل شروع ہوا تو دیگر کلاسوں کے طلباء بھی میدان میں اکٹھے ہوگئے۔ چوں کہ بچّے اپنے اساتذہ سے بہت محبّت کرتے ہیں اور اپنے درمیان ان کی موجودگی اور دوستانہ تعلق انھیں زیادہ پُرجوش اور جذباتی بنا دیتا ہے، اسی لیے آج سب کی توجہ استاد پر تھی۔ پانچ گیندوں پر استاد نے صرف دو رن بنائے اور چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے۔ طلباء نے شور مچا کر بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔

    دوسرے دن کلاس میں استاد نے پوچھا کون کون چاہتا تھا کہ وہ مجھے ضرور آؤٹ کرے؟

    سب بولروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ استاد مسکرائے اور پوچھا، یہ بتاؤ میں کرکٹر کیسا ہوں..؟

    سب نے یک زباں ہوکر کہا ،بہت برے۔

    پوچھا، اچھا میں استاد کیسا ہوں۔

    جواب ملا بہت اچھے۔

    استاد نے ہنستے ہوئے کہا، صرف آپ نہیں آپ سے پہلے بھی میں نے جن بچّوں کو پڑھایا اور آج وہ عملی زندگی کا آغاز کرچکے ہیں، سب مجھے ایک اچھا استاد مانتے ہیں۔ آج میں راز کی ایک بات بتاؤں کہ میں جتنا اچھا استاد ہوں، اتنا اچھا طالبِ علم کبھی نہیں رہا۔ مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور بات سمجھنے میں وقت لگتا تھا لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں اس کے باوجود مجھے اچھا استاد کیوں مانا جاتا ہے..؟

    سَر آپ بتائیں، ہمیں نہیں معلوم، طلباء نے کہا۔

    اس پر استاد نے انھیں ایک واقعہ سنانا شروع کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن میں اپنے ٹیچر کے گھر دعوت کی تیاری میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ فریزر سے برف نکالی، جسے توڑنے کے لیے کمرے میں کوئی چیز نہیں تھی۔ استاد کام کے لیے کمرے سے نکلے تو میں نے مکا مار کر برف توڑ دی اور استاد کے آنے سے پہلے جلدی سے ٹوٹی ہوئی برف دیوار پر بھی دے ماری…

    دوستو، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب میں برف توڑ چکا تھا، تو پھر یہ حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس کا جواب آپ کو ابھی مل جائے گا۔

    استاد کمرے میں آئے تو وہی محسوس کیا جو میں چاہتا تھا، انھوں نے دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے۔ مجھے ڈانٹنے لگے اور کہا کہ تمہیں عقل کب آئے گی، یوں برف توڑی جاتی ہے، میں نے ان کی ڈانٹ خاموشی سے سنی اور وہ دن گزر گیا۔ بعد میں انھوں نے میری اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا۔ لیکن یہ راز آج تک نہیں جان سکے کہ برف تو میں نے اپنی جسمانی طاقت سے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے توڑی تھی ۔

    یہ بات میں نے انھیں اس لیے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں، میں نے جوانی کے جوش میں مکا مار کر برف توڑ دی، لیکن جب ان کی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ کہیں میرے طاقت کے مظاہرے سے انھیں احساسِ کمتری نہ ہو، اس لیے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور کئی سال تک ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔

    جب میں‌ آپ کے درمیان میدان میں موجود تھا اور بیٹنگ کر رہا تھا، تو میں نے غور کیا کہ آپ سب ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سَر کو آؤٹ کرو۔ یاد رکھو جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا، کبھی ہارنے سے بھی زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں۔ آپ طاقت میں اپنے اساتذہ اور والدین سے بے شک آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن زندگی میں کبھی اپنے اساتذہ اور والدین کو ہرانے کی کوشش مت کیجیے گا۔ اللہ پاک آپ کو ہر میدان میں سرخرو کرے گا۔

  • پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    مصنف: عبداللطیف ابوشامل

    ان کے ابُو جنھیں وہ بہت پیار سے پاپا کہتے تھے کسی ہنگامے میں تو نہیں مرے تھے، رات کو اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر گھر آرہے تھے کہ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار انھیں کچلتی ہوئی ہوا ہوگئی اور وہ دم توڑ گئے۔
    جب وہ صبح سویرے اپنی موٹر سائیکل کو ککیں مار کر بے حال ہوکر زمین پر بیٹھ جاتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کب اس کھٹارے کا پیچھا چھوڑیں گے؟ تو وہ مسکرا کر کہتے تھے:
    ”بس اسٹارٹ ہونے میں ضد کرتی ہے ویسے تو فرسٹ کلاس ہے، بڑا سہارا ہے اس کا، ورنہ تو بسوں کے انتظار اور دھکوں سے ہی دم توڑ دیتا۔“
    آخر موٹر سائیکل ایک بھیانک آواز سے دم پکڑتی اور وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ گلے میں ڈالتے اور پھر رخصت ہوجاتے۔
    بہت محتاط تھے وہ۔ بہت عسرت سے جیتے تھے۔ بہت سلیقہ مند بیوی ہے ان کی۔ عید پر رات گئے گھر آتے تو میں پوچھتا:
    ”آج دیر ہوگئی۔“ ”ارے یار وہ چھوٹی والی ہے نا اس کی جیولری لے رہا تھا، وہ دو دن میں خراب ہوجاتی ہے، لیکن چھوٹی ضد کرتی ہے۔“
    بس اسی طرح کی زندگی تھی ان کی۔ اور پھر ایک دن وہ روٹھ گئے۔ مرنے سے ایک دن پہلے ہی تو انھوں نے مجھ سے کہا تھا:
    ”کچھ پیسے جمع ہوگئے ہیں، سوچ رہا ہوں اپنے ”گھوڑے“ کی فرمائش بھی پوری کر دوں، کچھ پیسے مانگ رہی ہے موٹرسائیکل۔“
    بندہ فرمائشیں پوری کرتے کرتے بے حال ہو جاتا ہے، لیکن خوش بھی کتنا ہوتا ہے! اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔
    تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوہ۔ تین دن تو ٹینٹ لگا رہا اور عزیزوں کا جمگھٹا…. اور پھر زندگی کو کون روک سکا ہے! سب آہستہ آہستہ رخصت، گھر خالی، تنہائی، خدشات اور نہ جانے کیا کیا خوف۔ بیٹے نے رب کا نام لیا اور پھر ایک دفتر میں معمولی سی نوکری کرلی۔ اٹھارہ سال کا نوجوان جس نے ابھی فرسٹ ایئر کا امتحان دیا تھا۔ اور کیا کرتا! ماں نے سلائی مشین سنبھالی اور پھر زندگی سے نبرد آزما تھے وہ سب۔ بڑی بیٹی نے جیسے تیسے میٹرک کیا اور ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے لگی۔ چھوٹی والی ٹیوشن پڑھاتی اور تیسری تو بہت چھوٹی تھی، ہنستی، کھیلتی بچی جو ہنسنا کھیلنا بھول گئی تھی۔
    بڑی بیٹی ایک دم بوڑھی ہوگئی تھی۔ ایک دن میں نے بڑی سے پوچھا:
    مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ پھر تو سیلاب تھا. ”کیا کیا بتاؤں، صبح جاتی ہوں تو عجیب عجیب آوازیں، بے ہودہ فقرے، بسوں کے دھکے، اور پھر فیکٹری میں تو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا، واپس آؤ تو کئی کاریں قریب آجاتی ہیں، جن میں بیٹھے لوگ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔“
    ”جینا سیکھو“ بس میں اتنا کہہ سکا تھا۔ چھوٹی والی اسکول میں پڑھاتی تھی جس سے رجسٹر پر درج تنخواہ پر دست خط کرا کر اس سے نصف بھی نہیں دی جاتی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد سب کے سب زندگی سے نبرد آزما۔ کیا کیا مرحلے آئے ان پر! جی جانتا ہوں میں لیکن کیا کریں گے آپ سن کر؟
    میرا بدنصیب شہر نہ جانے کتنے جنازے دیکھ چکا ہے اور کتنے دیکھے گا، اس کی سڑکیں خون سے رنگین ہیں اور اس کے در و دیوار پر سبزہ نہیں خون ہی خون ہے۔ قبرستان بس رہے ہیں، شہر اجڑ رہا ہے۔ اب تو کوئی حساب کتاب بھی نہیں رہا کہ کتنے انسان مارے گئے۔ اور شاید یہ کوئی جاننا بھی نہیں چاہتا۔
    تحقیق و جستجو اچھی بات ہے، ضرور کیجیے۔ چاند ستاروں پر تحقیق کیجیے۔ زمین پر انسانیت کا قتل عام کیجیے اور چاند اور مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیجیے۔
    مجھ میں تو تحقیق کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کوئی لکھا پڑھا آدمی ہوں۔ آپ میں تو ہے، تو کبھی اس پر بھی کوئی تحقیقی ادارہ بنا لیجیے۔ اس پر بھی اپنی محنت صرف کر لیجیے۔ ساری دنیا کو چھوڑیے، پہلے اپنی تو نبیڑ لیجیے۔ صرف اس پر تحقیق کر لیجیے کہ اس شہر ناپرساں و آزردگاں میں کتنے انسان بے گناہ مارے گئے اور اب ان کے اہل و عیال کس حال میں ہیں؟ وہ زندگی کا سامنا کیسے کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی کیفیت کیا ہے، وہ کن مشکلات کا شکار ہیں؟ لیکن یہ کام کرے کون….؟
    اچھا ہے معصوم یتیم بچے کسی ہوٹل یا گیراج میں ”چھوٹے“ کہلائیں گے۔ ہماری جھڑکیاں سنیں گے۔ بیوہ ہمارے گھر کی ماسی بن جائے گی یا گھر گھر جاکر کپڑے لے کر انھیں سیے گی۔ جوان بہنیں دفتر یا فیکٹری کی نذر ہوجائیں گی، بھوکی نگاہیں انھیں چھیدیں گی، اور بدکردار کہلائیں گی۔ ان کے کانوں میں آوازوں کے تیر پیوست ہوتے رہیں گے۔ بوڑھا باپ کسی سگنل پر بھیک مانگے گا اور ماں دوا نہ ملنے پر کھانس کھانس کر مر جائے گی اور، اور، اور….
    اچھا ہی ہے، ہمیں چند ٹکوں میں اپنے کام کرانے کے لیے افرادی قوت میسر آجائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اچھا یہ ہے کہ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ہمیں کھل کھیلنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے اور ہم ٹھاٹ سے جیے جائیں گے۔
    پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔ اے دانش ورو، اے منبر و محراب سجانے والو! تمہارے لیکچر، تمہارے پند و نصائح اور تمہاری ”حق گوئی“ کسی ایک کا پیٹ نہیں بھر سکتی، چاہے کتنی محنت سے اپنے مقالات لکھو، چاہے کتنی قرأت سے وعظ فرمالو۔ پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔
    وہ دیکھ رہا ہے، تو بس پھر کیا ہے، خالق و مالک تو وہی ہے، ہم کیا کہیں گے اس سے کہ جب مظلوم کا خون آلود جسم مٹی چاٹ رہا تھا تب ہم کیا کر رہے تھے!
    نہیں رہے گا کوئی بھی، میں بھی اور آپ بھی، بس نام رہے گا اللہ کا۔
    فقیروں سے خوشامد کی کوئی امید مت رکھنا
    امیرِ شہر تو تم ہو‘ خوشامد تم کو کرنا ہے

  • حکایت: انوکھے کھانے کی حیرت انگیز قیمت!

    حکایت: انوکھے کھانے کی حیرت انگیز قیمت!

    حضرت بہلول اپنی غیر معمولی ذہانت اور دانائی کے لیے مشہور ہیں۔ وہ اپنی فکر و تدبر کی عادت اور بہترین حسِ مزاح کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات اور معاشرت پر گہری نظر رکھتے تھے۔

    بہلول دانا سے کئی حکایات منسوب ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں محفوظ اس حکایت میں‌ بھی ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔

    یہ حکایت کچھ یوں‌ بیان کی جاتی ہے. بغداد کے بڑے بازار میں ایک فقیر نان بائی کی دکان کے سامنے سے گزرا جہاں انواع و اقسام کے کھانے بھی چولھے پر چڑھے ہوئے تھے جن سے بھاپ نکل رہی تھی۔ ان کھانوں کی خوش بُو ان کی لذت اور ذائقے کا پتا دی رہی تھی۔ فقیر کا دل للچایا تو اس نے اپنے تھیلے میں سے ایک سوکھی روٹی نکالی اور ایک دیگ کی بھاپ سے اسے نرم کر کے کھانے لگا۔ نان بائی چپ چاپ یہ تماشا دیکھتا رہا۔ جب فقیر کی روٹی ختم ہو گئی اور وہ جانے لگا۔ تو اس کا راستہ روک لیا اور پیسے مانگے۔

    کون سے پیسے؟ فقیر نے بے بسی اور حیرت سے پوچھا۔ نان بائی نے کہا کہ تُو نے میرے کھانے کی بھاپ کے ساتھ روٹی کھائی ہے اس کی قیمت مانگ رہا ہوں۔ وہاں بہلول دانا بھی موجود تھے اور یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے مداخلت کی اور نان بائی سے کہا کہ کیا اس غریب آدمی نے تمھارا کھانا کھایا ہے جو پیسے ادا کرے۔ نان بائی نے کہا کھانا تو نہیں کھایا مگر میرے کھانے کی بھاپ سے فائدہ تو اٹھایا ہے، اسی کی قیمت مانگ رہا ہوں۔

    اس کی بات سن کر بہلول دانا نے سر ہلایا اور اپنی جیب سے مٹھی بھر سکے نکالے۔ وہ ایک ایک کر کے ان سکوں کو زمین پر گراتے جاتے اور نان بائی کی طرف دیکھ کر کہتے یہ لے پیسوں کی کھنک سمیٹ لے، یہ لے اپنے کھانے کی بھاپ کی قیمت ان سکوں کی کھنک۔ اسے وصول کر لے یہ آواز ہی تیرے کھانے کی خوش بُو کی قیمت ہے۔

    وہاں کئی لوگ جمع ہو چکے تھے جو نان بائی کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ تب حضرت بہلول نے کہا اگر تُو اپنے کھانے کی بھاپ اور خوش بُو بیچے گا تو اس کی یہی قیمت ادا کی جاسکتی ہے، اسے بھی قبول کرنا پڑے گا۔